• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' میرے تبلیغی جماعت کے بھا ئیوں تم خود کوشش کیوں نہیں ؟

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ نے مندرجہ ذیل واقعہ جو فضائل اعمال میں درج ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ علم الغیب جو اللہ تبارک و تعالی کی صفت ہے اسے لوگوں میں تقسیم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے آپ نے تبلیغی جماعت کو تکفیری جماعت کہا ہے
شیخ ابو یزید قرطبی فرماتے ہیں میں نے یہ سنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ لا اله الا الله پڑھے اس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے۔ میں نے یہ خبر سنکر ایک نصاب یعنی ستر ہزار کی تعداد اپنی بیوی کے لئے بھی پڑھا اور کئی نصاب خود اپنے لئے پڑھ کر ذخیرہ آخرت بنایا۔ ہمارے پاس ایک نوجوان رہتا تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ یہ صاحب کشف ہے، جنت دوزخ کا بھی اس کو کشف ہوتا ہے۔ مجھے اس کی صحت میں کچھ تردد تھا۔ ایک مرتبہ وہ نوجوان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک تھا کہ دفعۃ اس نے ایک چیخ ماری اور سانس پھولنے لگا اور کہا کہ میری ماں دوزخ میں جل رہی ہے اس کی حالت مجھے نظر آئی۔ قرطبی کہتے ہیں کہ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ ایک نصاب اس کی ماں کو بخش دوں جس سے اس کی سچائی کا بھی مجھے تجربہ ہو جائے گا۔ چنانچہ میں نے ایک نصاب ستر ہزار کا ان نصابوں میں سے جو اپنے لئے پڑھے تھے اس کی ماں کو بخش دیا۔ میں نے اپنے دل میں چپکے ہی سے بخشا تھا اور میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔ قرطبی کہتے ہیں کہ مجھے اس قصہ سے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو اس برکت کا جو ستر ہزار کی مقدار پر میں نے سنی تھی اس کا تجربہ ہوا دوسرا اس نوجوان کی سچائی کا یقین ہوگیا۔
میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا اللہ تبارک و تعالی ازل سے واحد عالم الغیب ہے یا معاذ اللہ کبھی علم الغیب صرف اللہ تبارک و تعالی کا خاصہ نہیں تھا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ یہ صفت صرف اللہ تبارک و تعالی کی ہوگئی ۔
غیر مقلدین کی پرانی روش کو دیکھتے ہوئے میں اپنا عقیدہ بیان کردوں ، کیوں غیر مقلدین جواب دینے سے کتراتے ہیں اور مخالف پر سوال کی بوچھاڑ کردیتے ہیں
میرا عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کے عالم الغیب ہونے میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں اور اللہ تبارک و تعالی کی یہ صفت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ، اس صفت میں کوئی اور نہ کبھی شامل ہوا اور نہ کبھی شامل ہو سکتا ہے ۔
آپ کا کیا عقیدہ اس بارے میں ، جواب دیں پھر آپ کے اعتراض پر بات شروع کرتے ہیں
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
عامر صاحب آپ بہت پڑھےلکھےہیں ،آپ بہت بڑا کام کر رہے،جو مکاشفات کو علم الغیب کہہ کر پوری امت صحابہ ، تبعین ،سے لیکر بشمول علمائے اہلحدیث سب کو کافر بنا دیا ہے۔یہ آپکا بہت بڑا کارنامہ ہے۔اور یہ کارنامہ آپ یا آپ جیسے عالم وفاضل سر انجام دے رہے ہیں۔بس انشاء اللہ آپکو اسکا پورا پورا اجر بھی ملے گا۔
دوسرا آپ نے پوچھا کہ ایک سانس میں دو سو مرتبہ اللہ کا ذکر ،تو موجودہ تبلیغی جماعت اس بات کا جواب نہیں دے سکتی۔ہاں آپ صوفیاء اہلحدیث اس بات کا جواب دے سکتے ہیں۔انشاء اللہ جسم کا ہر ایک سیل ذکر کرے گا۔ثُم تلین جلودھم وقلوبھم الٰی ذکر اللہ
شیخ شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ ''غایۃ المقصود'' کے مقدمے میں حضرت عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
کان مستغرقا فی ذکر اللہ فی جمیع أحیانہ
وہ آٹھوں پہر ، چونسٹھ گھڑی خدا کے ذکر میں ڈوبے رہتے تھے۔
شیخ لکھتے ہیں:
وکان لحمہ وعظامہ وأعصابہ وأشعارہ متوجہا إلی اللہ فانیا فی ذکر اللہ۔
ان کا گوشت، ان کی ہڈیاں، ان کے پٹھے، ان کا ہر ہر بُن ِ مُو خدا کی طرف متوجہ رہتا تھا اور خدا کے ذکر میں فنا ہوگیا تھا۔
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
کوئی مکاشفہ کہتا ہے تو کوئی کرامت
کیا قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لیے ان چیزوں کو ماننا ضروری ہے ؟ اگر ہاں تو ثبوت درکار ہے اگر نہیں تو ،،،،،اللہ سے ڈر جائیں
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
ایک چیز کی سمجھ نہی آئی، ھر مکتبہ فکر دوسرے کو تکفیری کہتا ھے ، کوئی بھائی صحیح بتا سکتا ھے کہ اصل میں تکفیری کون ھے؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
Muhammad Aamir Younus
اللہ تبارک و تعالی کی صفات ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی ان میں نہ کبھی انقطاع ہوا اور ان کبھی کوئی شریک ہوا اور نہ کوئي کبھی شریک ہوسکتا ہے
اسیطرح اللہ تبارک و تعالی کی صفت علم الغیب ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اس میں نہ کبھی انقطاع ہوا اور نہ کبھی کوئی شریک ہوا اور نہ کوئي کبھی شریک ہوسکتا ہے
مجھے یقین آپ حضرات کا بھی یہی عقیدہ ہے ۔
اب یہ حدیث پڑھیئے
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً ، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا ، فَقَالَتْ : إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ ، قَالَ : فَتَعَرَّضَتْ لَهُ ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا ، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ ، فَلَمَّا وَلَدَتْ ، قَالَتْ : هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ ، فَقَالَ : أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ ، فَقَالَ : دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ، قَالَ : فُلَانٌ الرَّاعِي ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ ، وَقَالُوا : نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ ، قَالَ : لَا ، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ ، فَفَعَلُوا ، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا "
.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج ! تو وہ ( دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں )؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ بولا کہ اے اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ( یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ ( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔

1- جریچ کو کیسے معلوم ہوا کہ مہد میں بچہ خرق عادت کلام کرے گا اور اور سچ بھی بتائے گا ، اس نے بچہ سے سوال کیوں کیا ، کیا وہ بھی اللہ کے علم میں شریک ہو گيا (معاذ اللہ ) کیوں اللہ تو اس وقت بھی اپنے علم الغیب کی صفت میں یکتا تھا ۔
جس طرح جریج اپنی اس کرامت کی وجہ سے عالم الغیب نہیں ہوا تو فضائل اعمال میں ذکر کردہ کرامت سے مذکورہ نوجوان کیسے عالم الغیب ہو گيا
2- اس بچے کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ فلاں چراوہ ہے ۔
اللہ کی علم الغیب کی صفت میں تو اس وقت بھی کوئي شریک نہ تھا یا معاذ اللہ اس حدیث کی بنیاد اس بچے کو آپ حضرات عالم الغیب مانتے ہیں ۔ اگر اس بچے کو عالم الغیب نہیں مانتے تو فضائل اعمال میں مذکورہ کرامت کی وجہ کیوں شرکیہ بتا رہے ہیں ۔
3- دوسرے بچے کو کیسے معلوم ہوا مزکورہ عورت زانی نہیں تھی ۔ کیا وہ عالم الغیب تھا ۔
اگر وہ غیبی خبر بتا کر بھی عالم الغیب نہیں بنتا تو فضائل اعمال میں کرامت والے قصے میں مزکورہ نوجوان کیسے عالم الغیب بن گيا ۔
اللہ تو ہمیشہ سے عالم الغیب ہے اور ہمیشہ عالم الغیب رہے گا نہ کبھی کوئي اس کی اس صفت میں پہلے کوئی شریک تھا اور نہ کبھی کوئی آئندہ شریک ہو گا ۔
تو کیا آپ حضرات بتانا پسند فرمائيں گے کہ جریچ کو کس نے علم عطا کیا کہ بچہ کلام کرے گا اور سچ بولے گا
اس بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ چرہاوہ ہے
دوسرے بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ فلاں عورت زانیہ نہیں
اگر یہ قصہ فضائل اعمال میں ہوتا تو آپ حضرات تو یہاں بھی شرک و کفر کا فتوی لگا چکے ہوتے
کوئی مکاشفہ کہتا ہے تو کوئی کرامت
کیا قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لیے ان چیزوں کو ماننا ضروری ہے ؟ اگر ہاں تو ثبوت درکار ہے اگر نہیں تو ،،،،،اللہ سے ڈر جائیں
اگر قرآن و حدیث میں کرامت کی کوئي اہمیت نہیں تو قرآن و حدیث کرامت کا ذکر کیوں ہے ۔ کیا آپ کرامت کے منکر ہیں ؟؟؟؟؟
احناف کی ضد میں اتنے اندھے مت ہوجائيں کے ان امور کا انکار شروع کردیں جو جو امور قرآن وحدیث سے ثابت ہیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,798
پوائنٹ
1,069
Muhammad Aamir Younus
اللہ تبارک و تعالی کی صفات ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی ان میں نہ کبھی انقطاع ہوا اور ان کبھی کوئی شریک ہوا اور نہ کوئي کبھی شریک ہوسکتا ہے
اسیطرح اللہ تبارک و تعالی کی صفت علم الغیب ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اس میں نہ کبھی انقطاع ہوا اور نہ کبھی کوئی شریک ہوا اور نہ کوئي کبھی شریک ہوسکتا ہے
مجھے یقین آپ حضرات کا بھی یہی عقیدہ ہے ۔
اب یہ حدیث پڑھیئے
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً ، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا ، فَقَالَتْ : إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ ، قَالَ : فَتَعَرَّضَتْ لَهُ ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا ، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ ، فَلَمَّا وَلَدَتْ ، قَالَتْ : هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ ، فَقَالَ : أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ ، فَقَالَ : دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ، قَالَ : فُلَانٌ الرَّاعِي ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ ، وَقَالُوا : نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ ، قَالَ : لَا ، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ ، فَفَعَلُوا ، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا "
.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج ! تو وہ ( دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں )؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ بولا کہ اے اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ( یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ ( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔

1- جریچ کو کیسے معلوم ہوا کہ مہد میں بچہ خرق عادت کلام کرے گا اور اور سچ بھی بتائے گا ، اس نے بچہ سے سوال کیوں کیا ، کیا وہ بھی اللہ کے علم میں شریک ہو گيا (معاذ اللہ ) کیوں اللہ تو اس وقت بھی اپنے علم الغیب کی صفت میں یکتا تھا ۔
جس طرح جریج اپنی اس کرامت کی وجہ سے عالم الغیب نہیں ہوا تو فضائل اعمال میں ذکر کردہ کرامت سے مذکورہ نوجوان کیسے عالم الغیب ہو گيا
2- اس بچے کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ فلاں چراوہ ہے ۔
اللہ کی علم الغیب کی صفت میں تو اس وقت بھی کوئي شریک نہ تھا یا معاذ اللہ اس حدیث کی بنیاد اس بچے کو آپ حضرات عالم الغیب مانتے ہیں ۔ اگر اس بچے کو عالم الغیب نہیں مانتے تو فضائل اعمال میں مذکورہ کرامت کی وجہ کیوں شرکیہ بتا رہے ہیں ۔
3- دوسرے بچے کو کیسے معلوم ہوا مزکورہ عورت زانی نہیں تھی ۔ کیا وہ عالم الغیب تھا ۔
اگر وہ غیبی خبر بتا کر بھی عالم الغیب نہیں بنتا تو فضائل اعمال میں کرامت والے قصے میں مزکورہ نوجوان کیسے عالم الغیب بن گيا ۔
اللہ تو ہمیشہ سے عالم الغیب ہے اور ہمیشہ عالم الغیب رہے گا نہ کبھی کوئي اس کی اس صفت میں پہلے کوئی شریک تھا اور نہ کبھی کوئی آئندہ شریک ہو گا ۔
تو کیا آپ حضرات بتانا پسند فرمائيں گے کہ جریچ کو کس نے علم عطا کیا کہ بچہ کلام کرے گا اور سچ بولے گا
اس بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ چرہاوہ ہے
دوسرے بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ فلاں عورت زانیہ نہیں
اگر یہ قصہ فضائل اعمال میں ہوتا تو آپ حضرات تو یہاں بھی شرک و کفر کا فتوی لگا چکے ہوتے

اگر قرآن و حدیث میں کرامت کی کوئي اہمیت نہیں تو قرآن و حدیث کرامت کا ذکر کیوں ہے ۔ کیا آپ کرامت کے منکر ہیں ؟؟؟؟؟
احناف کی ضد میں اتنے اندھے مت ہوجائيں کے ان امور کا انکار شروع کردیں جو جو امور قرآن وحدیث سے ثابت ہیں


کرامت ۔ کشف ۔ کی حقیقت کیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
قران پاک کو سوچ سمجھ کر تلاوت کا شرف حاصل کرنے والوں پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ ۔
انسان کو اللہ تعالٰیٰ نے بے حساب صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اس کی بلندی کے امکانات کو لامحدود بنا دیا ہے ۔ اسے زمین پر اپنا خلیفہ اور اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ اور اس کے درجات کو یہاں تک بلند فرما دیا ہے کہ وہ اللہ کے اوصاف کا آئینہ بن سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالٰیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی پیروی اس طریقہ سے کرے کہ خدا کے انعامات کا سزاوار بن سکے۔ مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ عمل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس سیرت مبارکہ کا مکمل طور پر پیروکار بنالے تو اللہ کے رنگ میں رنگا جائے گا اور اللہ کا پسندیدہ بندہ قرار پائے گا۔ اسلام کا حقیقی مقصود ایسے ہی انسان پیدا کرنا ہے۔
مومن کی نشانی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کوکوئی نقصان نہیں پہنچتا، بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ کو وہ اپنی تمام تر کوششوں کو اللہ کی مرضی کے تابع رکھے احکام شریعت کی پابندی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں۔۔۔
جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے (سورة آل عمران 134)
اور اللہ کی یہ محبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی کے لیئے پلک جھپکتے تخت حاضر کر دینا ممکن کر دیتی ہے ۔
جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے لیئے دوران خطبہ فرمایا گیا اک جملہ ہزاروں میل دور موجود سپہ سالار لشکر کے لیئے صدائے نصیحت بن پہنچ جاتا ہے ۔۔
کشف و کرامت کی بس صرف اک شرط کہ انسان خود کو اپنے افعال و اعمال و کردار سے اس منزل پر پہنچا دے جو کہ " اللہ کے بنائے خلیفہ " کی ہے ۔۔۔ ۔۔ اور پھر اس حدیث قدسی کا مکمل معنویت سے حقدار ٹھہرتا ہے ۔۔۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( جس نے میرے ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں )
فتح الباری حدیث نمبر (6502) اس حدیث کو امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اور بیہقی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,798
پوائنٹ
1,069
فضائلِ اعمال ۔۔۔ میں سے ایک واقعہ ۔۔ غور فرمائیے گا ۔۔
فضائل اعمال ۔۔ صفحہ نمبر 484 پر ابو قرطوبی فرماتے ہیں ۔۔ "کہ ہم نے سُنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے ۔ وہاں ایک نوجوان رہتا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے کشف ہو جاتا ہے اور اس کو جنت اور جہنم کے معاملات کے بارے میں خبر ہوجاتی ہے ایک دن ہمارے پاس کھانا کھاتے ہوئے اس نے رونا شروع کر دیا میں نے ان سے پوچھا کہ کہ کیوں رو رہے ہو تو اس نے کہا کہ میری ماں کو جہنم میں ڈال دیا گیا ہے ابو یزید کہتے ہیں میں نے جو ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ رکھا تھا اور دل میں محفوظ کر رکھا تھا میں نے اس کی والدہ کے نام کردیا میں نے یہ سب کچھ دل ہی دل میں کیا .اس نوجوان نے مُسکرانا شروع کردیا اور فرمایا پیر صاحب میری والدہ کو جنت میں داخل کیا جا رہا ہے"
اعتراض:
"جنت اور جہنم میں کیا ہو رہا ہے ۔۔ یہ جاننے کے لیے اس نوجوان کے پاس جو سورس آف انفارمیشن تھا وہ کیا تھا ۔۔۔ ۔ اسے کس نے بتایا کہ اس کی والدہ کو جہنم میں پھر جہنم سے جنت میں ڈالا جا رہا ہے"

صاحب واقعہ نے یہ بات کہاں سے سنی تھی??
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
کرامت ۔ کشف ۔ کی حقیقت کیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
قران پاک کو سوچ سمجھ کر تلاوت کا شرف حاصل کرنے والوں پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ ۔
انسان کو اللہ تعالٰیٰ نے بے حساب صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اس کی بلندی کے امکانات کو لامحدود بنا دیا ہے ۔ اسے زمین پر اپنا خلیفہ اور اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ اور اس کے درجات کو یہاں تک بلند فرما دیا ہے کہ وہ اللہ کے اوصاف کا آئینہ بن سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالٰیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی پیروی اس طریقہ سے کرے کہ خدا کے انعامات کا سزاوار بن سکے۔ مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ عمل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس سیرت مبارکہ کا مکمل طور پر پیروکار بنالے تو اللہ کے رنگ میں رنگا جائے گا اور اللہ کا پسندیدہ بندہ قرار پائے گا۔ اسلام کا حقیقی مقصود ایسے ہی انسان پیدا کرنا ہے۔
مومن کی نشانی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کوکوئی نقصان نہیں پہنچتا، بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ کو وہ اپنی تمام تر کوششوں کو اللہ کی مرضی کے تابع رکھے احکام شریعت کی پابندی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں۔۔۔
جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے (سورة آل عمران 134)
اور اللہ کی یہ محبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی کے لیئے پلک جھپکتے تخت حاضر کر دینا ممکن کر دیتی ہے ۔
جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے لیئے دوران خطبہ فرمایا گیا اک جملہ ہزاروں میل دور موجود سپہ سالار لشکر کے لیئے صدائے نصیحت بن پہنچ جاتا ہے ۔۔
کشف و کرامت کی بس صرف اک شرط کہ انسان خود کو اپنے افعال و اعمال و کردار سے اس منزل پر پہنچا دے جو کہ " اللہ کے بنائے خلیفہ " کی ہے ۔۔۔ ۔۔ اور پھر اس حدیث قدسی کا مکمل معنویت سے حقدار ٹھہرتا ہے ۔۔۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( جس نے میرے ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں )
فتح الباری حدیث نمبر (6502) اس حدیث کو امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اور بیہقی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے
کاپی پیسٹ سے کام نہ چلائیں ، آپ نے یہ عبارت یہاں سے لی ہے
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/لیکن-ہم-کرامت-کو-نہیں-مانتے۔۔۔-۔-مزمل-شیخ-بسملؔ.65990/
آپ بتائيں وہ کیا وجواہات ہیں جن کی بنا پر جریج والی حدیث میں تو کسی کو بھی کرامت کی بنیاد پر عالم الغیب نہیں کہا جارہا لیکن فضائل اعمال میں ایک کرامت کی بنیاد پر کتاب اور جماعت کو تکفیری کہا جا رہا ہے
ٹودی پوائنٹ جواب تحریر کریں ، کاپی پیسٹ سے گریز کریں
آپ کی تحریر میں مجھے اپنے سوال کا جواب کہیں نہیں ملا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,798
پوائنٹ
1,069
فضائل اعمال نامی اس کتاب میں بہت سی "غلط بیانیاں" موجود ہیں جیسے امام شافعی کا نماز میں ساٹھ قرآن پاک کا پڑھنا ، ایک سید صاحب کا بارہ دن تک ایک ہی وضوع سے نماز پڑھنا ، زین العابدین کا دن میں ہزار رکعات نماز پڈھنا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں شراب پینے کا حکم اور غیر محرم کے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
 
Top