Muhammad Aamir Younus
اللہ تبارک و تعالی کی صفات ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی ان میں نہ کبھی انقطاع ہوا اور ان کبھی کوئی شریک ہوا اور نہ کوئي کبھی شریک ہوسکتا ہے
اسیطرح اللہ تبارک و تعالی کی صفت علم الغیب ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اس میں نہ کبھی انقطاع ہوا اور نہ کبھی کوئی شریک ہوا اور نہ کوئي کبھی شریک ہوسکتا ہے
مجھے یقین آپ حضرات کا بھی یہی عقیدہ ہے ۔
اب یہ حدیث پڑھیئے
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً ، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا ، فَقَالَتْ : إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ ، قَالَ : فَتَعَرَّضَتْ لَهُ ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا ، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ ، فَلَمَّا وَلَدَتْ ، قَالَتْ : هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ ، فَقَالَ : أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ ، فَقَالَ : دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ، قَالَ : فُلَانٌ الرَّاعِي ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ ، وَقَالُوا : نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ ، قَالَ : لَا ، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ ، فَفَعَلُوا ، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا "
.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج ! تو وہ ( دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں )؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ بولا کہ اے اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ( یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور
اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟
وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ ( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا،
وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔
1- جریچ کو کیسے معلوم ہوا کہ مہد میں بچہ خرق عادت کلام کرے گا اور اور سچ بھی بتائے گا ، اس نے بچہ سے سوال کیوں کیا ، کیا وہ بھی اللہ کے علم میں شریک ہو گيا (معاذ اللہ ) کیوں اللہ تو اس وقت بھی اپنے علم الغیب کی صفت میں یکتا تھا ۔
جس طرح جریج اپنی اس کرامت کی وجہ سے عالم الغیب نہیں ہوا تو فضائل اعمال میں ذکر کردہ کرامت سے مذکورہ نوجوان کیسے عالم الغیب ہو گيا
2- اس بچے کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ فلاں چراوہ ہے ۔
اللہ کی علم الغیب کی صفت میں تو اس وقت بھی کوئي شریک نہ تھا یا معاذ اللہ اس حدیث کی بنیاد اس بچے کو آپ حضرات عالم الغیب مانتے ہیں ۔ اگر اس بچے کو عالم الغیب نہیں مانتے تو فضائل اعمال میں مذکورہ کرامت کی وجہ کیوں شرکیہ بتا رہے ہیں ۔
3- دوسرے بچے کو کیسے معلوم ہوا مزکورہ عورت زانی نہیں تھی ۔ کیا وہ عالم الغیب تھا ۔
اگر وہ غیبی خبر بتا کر بھی عالم الغیب نہیں بنتا تو فضائل اعمال میں کرامت والے قصے میں مزکورہ نوجوان کیسے عالم الغیب بن گيا ۔
اللہ تو ہمیشہ سے عالم الغیب ہے اور ہمیشہ عالم الغیب رہے گا نہ کبھی کوئي اس کی اس صفت میں پہلے کوئی شریک تھا اور نہ کبھی کوئی آئندہ شریک ہو گا ۔
تو کیا آپ حضرات بتانا پسند فرمائيں گے کہ جریچ کو کس نے علم عطا کیا کہ بچہ کلام کرے گا اور سچ بولے گا
اس بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ چرہاوہ ہے
دوسرے بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ فلاں عورت زانیہ نہیں
اگر یہ قصہ فضائل اعمال میں ہوتا تو آپ حضرات تو یہاں بھی شرک و کفر کا فتوی لگا چکے ہوتے
اگر قرآن و حدیث میں کرامت کی کوئي اہمیت نہیں تو قرآن و حدیث کرامت کا ذکر کیوں ہے ۔ کیا آپ کرامت کے منکر ہیں ؟؟؟؟؟
احناف کی ضد میں اتنے اندھے مت ہوجائيں کے ان امور کا انکار شروع کردیں جو جو امور قرآن وحدیث سے ثابت ہیں