• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک صالحہ خاتون کی دینی فکر اور ان کوشیخ مقبول احمد سلفی کی چند نصیحتیں

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
ایک صالحہ خاتون کی دینی فکر اور ان کوشیخ مقبول احمد سلفی کی چند نصیحتیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ آپ بخیروعافیت ہوں گے ۔
شیخ صاحب مجھے آپ سے ایک اپنا ایک ذاتی سوال پوچھنا ہے جو تھوڑا سا لمبا بھی ہے آپ جب بھی مصروف نہ ہوں تو مجھے تسلی بخش جواب دیجیے گا خواہ آڈیو میں یا ٹیکسٹ میں جیسے آپکو آسان لگے۔
شیخ صاحب!! انسان کیسے ہمیشہ ایمان کی ایک ہی حالت
پر رہ سکتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ایمان کی حالت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے؟
شیخ صاحب میں جو کچھ بتانے جارہی ہوں اس لئے نہیں کہ میں دکھاوا کرنا چاہ رہی ہوں اللہ تعالی ہم سب کو ریاکاری سے بچائے (آمین) یہ بات اس لئے کہہ رہی ہو کیونکہ شیطان انسان کے دل میں وسوسہ پیدا کرتا ہی رہتا ہے۔
میں پہلے فرائض کے ساتھ نفلی عبادت کا بھی اہتمام کیا کرتی تھی اور قیام اللیل میں بھی انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھی ، ہر وقت باوضو رہنا اور ایک ماہ میں ایک قرآن ختم کرنا ،سنت موکدہ اور غیر مؤکدہ کا بھی اہتمام کیا کرتی تھی لیکن اب مجھے یہ سب بہت مشکل لگنے لگا ہے ۔یہ سب اللہ کی رحمت سے ہی ممکن ہوا تھا اور بہت دیر تک میری یہی عادت رہی لیکن اب پتہ نہیں کیوں میں یہ سب نہیں کر پارہی ہوں، فرائض کے علاوہ کوئی نفلی عبادت نہیں کر پاتی اور کبھی کبھی تو فرائض یعنی فرض نماز بھی میرا دل چاہتا ہے کہ جلدی سے ختم کر لوں سر چکراتا ہے تو بیٹھ کر ادا کرنے لگ جاتی ہوں یا قیام کو چھوٹا کر دیتی ہوں اور شیخ صاحب میں قرآن کی حافظہ بھی ہوں (الحمدللہ) لیکن قرآن پر بھی مکمل توجہ نہیں دے پارہی ،مجھے یہ خوف لاحق ہے کہ اگر میری یہی کیفیت رہی تو مجھے قرآن بھولنا شروع ہوجائے گا۔
اور سب سے اہم بات یہ کی میری اس تبدیلی پر میرا دل بالکل مطمئن نہیں ہے میرا ضمیر ملامت کرتا رہتا ہے مجھے کہ میں یہ ٹھیک نہیں کر رہی
‫‫،میرا دل کسی نہ کسی خوف کا شکار رہتا ہے ۔جب میں رات کو سونے لگتی ہوں، آنکھیں بند کرتی ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے جیسے ایک فلم چل رہی ہو جس میں چھوٹے چھوٹے نقصان ہوتے نظر آتے ہیں کبھی یوں لگتا ہے جیسے میں کسی بلندی سے نیچے گر رہی ہوں ۔ان سب خیالات کیوجہ سے میں رات کو جلدی سو نہیں پاتی اور جب نیند آجاتی تو تہجد رہ جاتی ہے جس کا مجھے بے حد افسوس ہوتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر موت کا خوف بہت زیادہ رہنے لگا ہے مجھے لگتا ہے کہ کسی دم موت آجائے گی تو میں اللہ کو کیا جواب دوں گی ۔ میں جانتی ہوں کہ موت کی تیاری تو کرنی چاہیے لیکن شیخ صاحب کیا اتنا موت سے ڈرنا کہ انسان ہر وقت پریشان رہنا شروع ہوجائے کہ ابھی کہ ابھی کچھ ہوجائے گا۔
شیخ صاحب میرا گھریلو ماحول مذہبی ہے شادی شدہ نہیں ہوں، میرے والدین اور میرے بہن بھائی بھی دینی سوچ رکھتے ہیں اور توحید پرست ہیں اور جن لوگوں سے میرا ملنا جلنا ہے وہ بھی دین دار ہیں الحمدللہ،،
اور میری گھریلو
مصروفیت فی الحال کھانا پکانا اور صفائی ستھرائی کے علاوہ اور کچھ نہیں اور گھر میں قرآن کی دہرائی کرتی رہتی ہوں اور اس کے علاوہ ہفتہ میں دو دن قرآن کی تفسیر پڑھنے جاتی ہوں اور واٹس ایپ پر کچھ اسلامک گروپس کی نگراں ہوں۔
شیخ صاحب آپ مجھے کیا نصیحت کریں گے کہ میں اس پر عمل کر کے اس کیفیت سے باہر نکل آؤں اور مستقل مزاجی کے ساتھ تمام فرائض اور نوافل ادا کر سکوں۔معذرت چاہتی ہوں کہ میرا سوال زیادہ لمبا ہی ہوگیا میں آپ کے جواب کی منتظر رہوں گی۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فرح یحی : تاریخ : 26/ 9/ 2918

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ابھی ابھی آفس سے اپنی رہائش پہ آیا ، عشاء کی نماز پڑھنے کے بعدسب سے پہلے آپ کے میسیج کا دوبارہ مطالعہ کیا، حالات کے متعلق غور وفکر کیا ۔ آپ کا دینی وعلمی پس منظر مجھے بیحد پیارا لگا۔ آپ حافظہ قرآن ہیں ، بڑی سعادت کی بات ہے ۔ ایک عورت کے لئے حافظہ قرآن ہونا ااتنی بڑی زینت ہے کہ وہ زینت سونے چاندی کے زیورات سے بھی میسر نہیں ہوگی ۔ الحمدللہ علی ہذہ النعمۃ العظیمۃ
بلاشبہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے ، ایک جگہ کبھی بھی منجمد نہیں رہتا ، علماء نے آیات قرآنیہ اور احادیث طیبہ سے معنی اخذکیا ہے کہ طاعات سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اورعصیاں سے کمی واقع ہوتی ہے ۔ الحمد للہ آپ کی اپنی زندگی بیحد اچھی رہی ہے ، تلاوت قرآن، نمازوں کی پابندی، قیام اللیل ،دینی مشاغل ، گھر کا دینی ماحول ،، یہ سب چیزیں انسان کے ایمان کوبہت حد تک گھٹنے سے بچاتی ہیں بلکہ اس کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ زیادتی ایمان کے اسباب ہیں ۔
اصل میں کبھی کبھی ہوتا یہ ہے کہ داخلی ماحول ہمارا بہتر ہے مگر زمانہ تو فتنے کا ہے ، خارجی ماحول بہتر نہیں ہے ۔ تو خارجی ماحول کا کبھی کبھی انسان پر برا اثر پڑ جاتا ہے اسی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اپنے لئے اور اپنی اولاد کےلئے بتوں کی عبادت سے پناہ مانگنے کی دعا کی تھی ۔کس قدر سوچنے کا مقام ہے کہ اللہ کے جلیل القدر بلکہ اولوالعزم پیغمبر بتوں کی عبادت سے اللہ کی پناہ طلب کررہے ہیں ،وجہ یہی تھی کہ ماحول ومعاشرہ بتوں کی عبادت والا تھا۔
اس وجہ سے انسان کو ہمیشہ اللہ تعالی سے صراط مستقیم پر گامزن رہنے، عمل صالح انجام دینے ، فتنہ وفساد سے بچنےاور ایمان ویقین پر ثابت قدم رہنے کی توفیق ودعا کرتے رہناچاہئے ۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے ۔ نبی ﷺنے بڑے بڑے نازک موڑ پہ رب سے دعائیں کی ہیں مثلا جنگ بدر کے موقع پر مسلمان کی تعداد کم تھی اگرمسلمان ہار جاتے تو اسلام کو بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس قدر اسلام اور مسلمانوں کے لئے سخت خطرہ تھا آپﷺ نے رب العالمین سے دعائیں کیں اور اللہ تعالی دعا کو شرف قبولیت سے نوازکرمسلمانوں کوفتح نصیب فرمائی ۔
دعا کے علاوہ اپنے ماحول کو بہتر سے بہتر بنائیں ، اپنے داخلی ماحول کو خارجی ماحول سے متاثر نہ ہونے دیں ، اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ گندے ماحول میں جایا ہی نہ کریں ، گندے لوگوں سے ملنا یا انہیں گھر بلانا چھوڑ دیں ۔ ویسے یہ آج کے وقت میں بہت مشکل کام ہے مگر ایمان وعمل کی حفاظت کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم بڑے آزمائش کے دور میں جی رہے ہیں ، آزمائش میں کامیابی قربانی کا مطالبہ کرتی ہے ۔
ایک طریقہ دعا کا اختیار کیا جائے جس میں اپنی پریشانیوں سے نجات مانگی ہے اور ساتھ ہی عملی طور پر ماحول کے برے اثرات پیدا کرنے والے امور سے بچا جائے ۔اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اپنی صحبت اچھی بنائیں ۔ جیسے ماحول کا اثر ہوتا ہے ویسے ہی صحبت کا بھی اثر ہوتا ہے ۔ صحابہ کرام مجلس بناکر بیٹھا کرتے اور اللہ کے ذکر سے ایمان میں زیادتی پیدا کرتے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ صحابہ سے فرماتے ہیں :
"اجلسوا بنا نؤمنُ ساعةً ، يعني نذكرَ اللهَ تعالى"
ترجمہ: ہمارے پاس بیٹھوتاکہ ہم کچھ ساعت ایمان تازہ کریں یعنی اللہ تعالی کا ذکر کریں۔
اسے شیخ البانی نے شیخین کی شرط پر کہا ہے ۔(الایمان لابن ابی شیبہ : 105)
اس سے دو بات معلوم ہوئیں ، ایک تو یہ کہ نیکوکاروں کی صحبت اختیار کرنی چاہئے ، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو وعظ ونصیحت ہوجاتی ہے ، ایک کی نیکی دوسرے کو متاثر کرتی ہے اور ایک کی برائی پہ دوسرے کو ٹوکنے کا موقع ملتا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں کثرت سے ذکر الہی کرنا چاہئے ، اللہ کا ذکر زبان کی حفاظت، دل کی پاکیزگی ، ایمان میں زیادتی اور قلبی سکون کا باعث ہے۔
آپ نے ایک مسئلہ یہ بھی بیان کیا کہ عبادت تو کرتی ہیں مگر اب پہلے جیسے دل نہیں لگتا ہے ، یہ ایک اہم معاملہ ہے ۔اس پر توجہ اور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔میری نظر میں عبادت میں دل نہ لگنے میں تین اہم اسباب ہوسکتے ہیں ۔
ایک سبب تو ماحول ہوسکتا ہے خواہ داخلی ہو یا خارجی ، چونکہ داخلی ماحول اچھا ہے تو خارجی ماحول کا کہیں نہ کہیں سے اثر پیدا ہورہا ہوگا ،اسے محسوس کرکے ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اوپر بھی یہ بات ذکر کی گئی ہے ۔
دوسرا سبب شیطان ہوسکتا ہے کیونکہ یہ انسان کے ساتھ ہمہ وقت لگا رہتا ہے ، وہ بھلا کب چاہے گا کہ کوئی اللہ کی عبادت کرے ، اس لئے دلوں میں وسوسہ ڈالنا، برائی کا خیال پیدا کرنا، عبادت سے بھٹکانا رات ودن اس کا کام ہے ۔ ایک صحابی نے نبی ﷺ سے نماز میں وسوسہ پیدا ہونے کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے نماز سے قبل خنزب شیطان(نماز میں وسوسہ ڈالنے والا) سے اللہ کی پناہ مانگنے کی نصیحت کی ۔
اس لئے شیطان کے شر سے پناہ مانگی جائے ،ذکر الہی اور فرائض ونوافل کے ذریعہ اسے مایوس کیا جائے اور اپنے اوپر غالب ہونے سے روکا جائے ۔
تیسرا سبب دنیا وی کوئی شدید فکر یا حاجت درپیش ہوسکتی ہے جس کا خیال ذہن ودل پر اثراندازکرگیا ہو، ہر وقت وہ خیال آتا ہو، نماز میں ، سونے میں ، بیٹھے بیٹھے یا جلوت وخلوت میں ہمیشہ ۔اس پریشانی سے جب تک چھٹکارا نہ مل جائے عبادت میں خشوع وخضوع محال ہوجاتی ہے بلکہ کسی کام میں دل نہیں لگتا ہے۔اس وجہ سے اپنی اس حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کریں جس کی فکر کھائے جارہی ہےمثلا شادی کی رکاوٹ، گھریلو پریشانی،قرض،یا دنیاوی کوئی مقصد ہو جو جائز ہو تو اسے پورا کرلیں پھر سوچ وفکر دور ہوجائے گی ، کام میں من لگے گا اور پھر سے عبادت میں لذت محسوس ہوگی۔
اللہ تعالی نے آپ کو حافظہ قرآن بنایا ہے ، اس کی برکت نہ صرف آپ تک محدود ہوگی بلکہ پورے گھروالوں کے لئے ہوگی اور اس برکت سے گھر کے باہر کی عورتوں کو بھی فیض پہنچاسکتی ہیں ۔ جس کے پاس قرآن ہے اس کے پاس مکمل کامیابی ہے ۔ آپ اپنے حفظ کو پکا رکھنے کے لئے صبح وشام تلاوت کیا کریں اور اپنا ایک روٹین بنائیں اس کے حساب سے قرآن کو ترجمہ وتفسیر کے ساتھ پڑھا کریں ۔ جو پڑھیں اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دینے کی نیت سے پڑھیں ۔ آپ کے واسطے ماشاء اللہ تلاوت کے لئے تو کوئی دقت نہیں ہوگی ، کھانا بناتے وقت، کام کرتے وقت اور سوتے وقت جب چاہیں آپ علی الترتیب زبانی قرآن پڑھا کریں ۔ اس سے بہتر کار خیر اور کیا ہوگا؟ گھر میں ممکن ہوتو قرآن کی چند آیات کی تلاوت مع ترجمہ وتفسیر گھر والوں کوبھی سنائیں خواہ ہفتہ یا دوہفتہ میں ہو ، یا اپنی ہمجولیوں کے درمیان ایک قرآنی پروگرام رکھا کریں ۔ اس سے آپ کے اندر دین کا شوق مزید بڑھے گا، عبادت کی بے رغبتی ختم ہوگی ، خیالات و وساوس ختم یا کم ضرور ہوں گے اور عمل کی طرف پیش قدمی کا بہتر جذبہ پیدا ہوگا۔ اس نیکی کی برکت سے دل کی بے چینی ، بے خوابی، برے خواب اور گھبراہٹ سب رفتہ رفتہ دور ہوتے چلے جائیں گے ۔
صبح وشام کے اذکار اور فرض نمازوں کے بعد کے اذکار تو بالکل نہ چھوڑیں ، اس کے بے شمار فوائد اپنی آنکھوں سے نظر آئیں گے اور اگر آپ سوشل میڈیا پہ زیادہ وقت صرف کرتی ہیں تو اس عادت کو چھوڑ دیں ، یہ عادت واجبات وفرائض میں مخل اور وقت کے ضیاع کے ساتھ بہت سارے کاموں پر غفلت کا اثر چھوڑتی ہے۔ محض ایک آدھ گھنٹے ہی استعمال کیا کریں وہ بھی صرف اور صرف دینی نقطہ نظر سے ۔ اس کا وقت بھی متعین کرلیں کہ مجھے صرف فلاں وقت میں ہی چند منٹوں کے لئے سوشل میڈیا کااستعمال کرنا ہے ۔ اگر زیادہ وقت دیں گی تو ہمیشہ اسی طرف دھیان رہے گااور کام کاج میں حتی کہ عبادت میں مخل ثابت ہوگا۔
آخر میں نبی کریم ﷺ کی بہت ہی قیمتی نصیحت بیان کرتا ہوں ، اگر اس پہ ہم چلنے لگیں تو زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں رہیں گی، غم سے نجات ملے گی ، بیماریوں کا مداوا ہوگا ، قربت الہی نصیب ہوگی ، اللہ تعالی کے یہاں بھی عزت ملے گی اور لوگوں میں بھی ہماری تکریم ہوگی ۔ فرمان نبوی ہے :
اتَّقِ اللَّهِ حيثُ ما كنتَ ، وأتبعِ السَّيِّئةَ الحسنةَ تمحُها ، وخالقِ النَّاسَ بخلقٍ حسنٍ(صحيح الترمذي:1987)
ترجمہ: تو جہاں کہیں بھی رہو اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ، برائی کے بعد نیکی کرلیا کرو ، نیکی برائی کو مٹادے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ ۔
اس حدیث پاک میں نبی ﷺ نے لوگوں کو تین باتوں کی نصیحت فرمائی ہے ۔
پہلی بات اللہ سے ڈرنے کی نصیحت فرمائی ، یہ خوف الہی کل کائنات ہے ۔ جس کو جلوت وخلوت میں اللہ کا ڈر نصیب ہوگیا اس کی دنیا اور آخرت سنور گئی ۔ خوف الہی ہی تقوی ہے جو انسان کو رب کی بندگی اور عمل صالح پر ابھارتا ہے ، برائی سے بھی روکتا ہے ۔ اپنے اعمال کاجائزہ لیں ، حقوق وفرائض میں جہاں کوتاہی ہوئی اس کی تلافی توبہ سے کریں اگر اللہ سے متعلق ہیں اور تصفیہ سے کریں اگر بندوں سے متعلق ہیں ۔
دوسری بات برائی کرنے کے بعد نیکی کرنے کی ترغیب دی۔ بنی آدم خطا کا پتلا ہے ، جب جب ہم سے غلطی ہوجائے ، اس پہ شرمندہ ہوں ، رب کی طرف التفات کریں ، اس سے معافی طلب کریں اور برائی کے بدلے ایک اچھائی کرلیں ، وہ اچھائی ہماری برائی کو ختم کرڈالے گی ۔
تیسری بات انسانوں سے اچھے برتاؤں کی تعلیم دی ۔ ہم جس سماج میں رہتے ہیں سب ایک دوسرے کا احترام کریں ، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں ، کسی کا دل دکھاکر آپ بھی کبھی خوش نہیں رہ سکتے ۔ مظلوم کی آہ ظالم کی خوشیاں تباہ کردیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سب کے ساتھ اخلاق ومحبت سے پیش آنے کی نصیحت فرمائی ۔
یہ تینوں باتیں اپنے لئے عملی زیور بنالیں ، اس زیور سے اپنے روحانی حسن وجمال کو نکھاریں ، جب آپ کا باطن پاکیزہ ہوگا تو ظاہر پر بھی اس کی پاکیزگی کا اثر پڑے گا۔
اللہ تعالی سے آپ کے لئے دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو جلوت وخلوت میں تقوی اختیار کرنے کی توفیق دے ، ایمان کو کمزور کرنے والے اعمال سے بچائے، عبادت میں خشوع وخضوع پیدا کردے،تسلسل کے ساتھ عمل صالح کی توفیق دے، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق دے ، بندوں کے ساتھ حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی سعادت بخشے۔ دلوں کو طہارت، نظرکو پاکیزگی اور جسم و روح کوقوت ایمانی اور حرارت اسلامی سے نواز دے ۔ آپ کو پہلے سے بہتر اپنی بندگی اور اپنا ذکرکرنا نصیب کرے ، جب تک باحیات رکھے ایمان وعمل پر رکھے اور خاتمہ الخیر نصیب فرمائے ۔ آمین
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
بے شک یہ نصیحتیں قیمتی اور قابل عمل ہیں. میں اپنی بہن کو پیغام دے رہی ہوں، شیخ محترم ان تک پہنچا دیجیے.

میری عزیز بہن، واللہ، آپکی کیفیت پڑھ کر دل اداس اور آنکھیں نم ہو گئیں، بے شک یہ وقت آزمائش کا ہے اور آزمائش میں صبر زادّ راہ اور توکل علی اللہ، مضبوط قلعہ ہے.
مجھے شرمندگی ہے کہ میں اپنی ذمہ داری بھی آپکے کندھوں پر ڈال کر غائب ہو گئی. لیکن اللہ اور صرف اللہ جانتا ہے کہ کیسی لہر تھی. لیکن اللہ بہت محبت کرنے والا ہے، وہ اپنے مومن بندوں اور بندیوں کو تھام لیتا ہے. اس خیر الوارثین نے جو توحید اب سکھائی، زندگی بھر نہ سیکھی تھی.

شیخ محترم نے جن عوامل کا ذکر کیا، عموماً یہی وجوہات ہوتی ہیں کہ جن سے انسان پر غفلت و تھکاوٹ طاری ہونے لگتی ہے. آپکی کیفیت زیادہ تر نفسیاتی ہے، جس کی وجہ سے شیطان آپ پر حملہ کرنے کی کوشش کر رھا ہے.

اِنَّمَا النَّجۡوٰی مِنَ الشَّیۡطٰنِ لِیَحۡزُنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیۡسَ بِضَآرِّہِمۡ شَیۡئًا اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿المجادلة ۱۰﴾
"(بری) سرگوشیاں، پس شیطانی کام ہے جس سے ایمان داروں کو رنج پہنچے۔ گو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر وه انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور ایمان والوں کو چاہئے کہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں."


Jam e Tirmazi Hadees # 3522
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِي كَعْبٍ صَاحِبِ الْحَرِيرِ، حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأُمِّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏مَا كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ عِنْدَكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ أَكْثَرُ دُعَائِهِ:‏‏‏‏ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا لأَكْثَرِ دُعَاءَكَ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يَا أُمَّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَيْسَ آدَمِيٌّ إِلَّا وَقَلْبُهُ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّهِ فَمَنْ شَاءَ أَقَامَ وَمَنْ شَاءَ أَزَاغَ ، ‏‏‏‏‏‏فَتَلَا مُعَاذٌ:‏‏‏‏ رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا سورة آل عمران آية 8، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَنُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

میں نے ام سلمہ رضی الله عنہا سے پوچھا: ام المؤمنین! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام آپ کے یہاں ہوتا تو آپ کی زیادہ تر دعا کیا ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: آپ زیادہ تر: «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك» ”اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے“، پڑھتے تھے، خود میں نے بھی آپ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ اکثر یہ دعا: «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك» کیوں پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اے ام سلمہ! کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جس کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے اس کی دو انگلیوں کے درمیان نہ ہو، تو اللہ جسے چاہتا ہے ( دین حق پر ) قائم و ثابت قدم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا دل ٹیڑھا کر دیتا ہے پھر ( راوی حدیث ) معاذ نے آیت: «ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا» ”اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہدایت دے دینے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی ( گمراہی ) نہ پیدا کر“ ( آل عمران: ۸ ) ، پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، نواس بن سمعان، انس، جابر، عبداللہ بن عمرو اور نعیم بن عمار رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


میری بہن، یہ کیفیت وقتی ہے ان شاء اللہ. آپ کے پاس تو ایسا خزانہ ہے کہ جس سے آج کل اکثریت محروم ہے، آپ اپنے علاوہ بھی امت مسلمہ اور خصوصاً مسلمان مرد و خواتین کی دینی حالت پر فکر کرنے والی ہیں، نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنے والی ہیں، جب آپ بدعتوں سے دوسروں کو منع کرتی تھیں، مجھے بے حد فخر و محبت محسوس ہوتی تھی، اور میرا اپنا حوصلہ بڑھتا تھا، یہی وہ کام ہے جس کی جرات بہت ہی گنے چنے لوگوں میں ہے، مجھے اللہ ذوالعرش المجید پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہ آپکو تنہا نہیں چھوڑے گا، وہ اپنے مومن بندوں اور بندیوں کی بہت قدر کرتا ہے. وہ آپکو اس کیفیت سے ضرور نجات دے گا.
اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ ﴿ۙۙالمؤمن ۵۱﴾
یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانیٴ دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے.

اللہ عزوجل نے اپنے ہر ہر رسول کو استغفار کا حکم دیا ہے، ہمارے پیارے نبی کریم صل الله عليه وسلم نے ایسی کیفیت کے لیے استغفار کرنا ہی تو سکھلایا ہے.

Sahih Muslim Hadees # 6858
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَأَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ جَمِيعًا عَنْ حَمَّادٍ قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ الْأَغَرِّ الْمُزَنِيِّ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّهُ لَيُغَانُ عَلَى قَلْبِي وَإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ
ثابت نے ابو بُردہ سے اور انہوں نے حضرت اغرمزنی رضی اللہ عنہ سے ، جنہیں شرفِ صحبت حاصل تھا ، روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے دل پر غبار سا چھا جاتا ہے تو میں ( اس کیفیت کے ازالے کے لیے ) ایک دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں ۔ "

صبر و استقامت کے ساتھ اس کیفیت سے بہادر مومنہ بن کر، ڈٹ کر لڑنا ہے. زندگی کے اہم فیصلے معلق ہوں تو انسان ایسی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے.

Sahih Bukhari Hadees # 1469
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، إِنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ، حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ , فَقَالَ : مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ .
انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال و دولت ہو تو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا۔ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بےنیاز بنا دیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بےپایاں خیر نہیں ملی۔ ( صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے ) ۔

شیطان اور انسانی شیطانوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتی رہو. لوہے جیسے ایمان کو وہ پتھر سے نہیں توڑتا، لیکن سرگوشیوں اور وسوسوں سے آہستہ آہستہ جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتا ہے. آپکے پاس اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمتیں ہیں جن سے کئی اہل ایمان محروم ہیں، دینی ماحول و تربیت، صالح صحبتیں،،، تو شیطان نیکی و راست بازی کا جھوٹا بہروپ دھار کر اہل ایمان پر حملہ آور ہوتا ہے.لیکن یاد رکھو کہ شیطان کی سرگوشیاں اور چالیں، توکل علی اللہ اور ایمان کامل کے آگے بالکل بودی ہوتی ہیں اور اہل اللہ پر اسکا کوئی زور نہیں.

علم الفتن سیکھنے کی کوشش کرو، آڈیو دروس سنو، اچھی بہترین کتابوں کا مطالعہ کرو، اپنے روشن مستقبل کے لئے، صالح شریک حیات کے لیے، اللہ تعالیٰ سے بہت بہت دعائیں کرو، اہل الجھاد کے لیے دعائیں کرو، اسیران اسلام کو تصور کرو کہ انکے پاس تعلق باللہ کے سوا کچھ نہ ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ قلب کو استقامت و انابت عطاء فرمائے، عبادت و دعا کی لذت بڑھا دے. کسی تعمیری دینی کام کے لیے کچھ منصوبہ بندی کرو. اللہ عزوجل سے اسباب و آسانی طلب کرو.

میری عزیز بہن، ایک چیز جسکی یہاں خصوصی نصیحت کرتی ہوں کہ کچھ عرصہ سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کر لو، ہم اسکا استعمال جتنا بھی دینی مقصد کے لیے کر لیں، بہرحال یہ خاموش فتنہ ہے. بلا شک و شبہ، دین سیکھنا آسان ہو گیا ہے، لیکن یہ موبائل انٹرنیٹ، ہماری عملی آمادگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، اور اسکے استعمال سے تشویشی عارضے بالکل عام ہو چکے ہیں. رات کو سونے سے قبل موبائل الماری میں رکھ دو.
میری انٹرنیٹ ورکنگ سے آپ لاعلم نہیں ہیں، پہلے 4.7 انچ کی آزمائش تھی، اب 9 انچ کی آزمائش ہاتھ میں لیے ہوئے، لیکن اب کم وقت ہی اس پر لگاتی ہوں. گو کہ بہت سے اہم کام ادھورے رہ گئے. الحمد للہ، اب ان چیزوں سے دوری نے زندگی کو معمول پر رواں دواں کر دیا ہے، عمل میں بہتری، غیر ضروری امنگوں اور فکروں سے آزادی ہے، الحمد للہ علی ذلك، آپ کی خاطر یہ لکھنے بیٹھ گئی، امید ہے دوسری بہنیں بھی مستفید ہوں گی.

اپنے ذہن کو بالکل نارمل رکھو، جو عبادت چھوٹ جائے، اس پر استغفار کرو، اللہ تعالیٰ تو بہت مہربان ہے، قیام اللیل کی نیت پر بھی ثواب عطا کرتا ہے.

آخر میں ایک کتاب کا لنک دے رہی ہوں، اس کا مطالعہ، بہت مفید ثابت ہو گا. ان شاء اللہ العظيم.
https://www.emaanlibrary.com/book/urdu-talluq-billah-asbab-zraie-aur-samrat-abu-hamza-abdul-khaliq-siddiqui/


دعاء کی طالبہ، فرح یحی کی آپی،
منتہائے ثریا.
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
بے شک یہ نصیحتیں قیمتی اور قابل عمل ہیں. میں اپنی بہن کو پیغام دے رہی ہوں، شیخ محترم ان تک پہنچا دیجیے.

میری عزیز بہن، واللہ، آپکی کیفیت پڑھ کر دل اداس اور آنکھیں نم ہو گئیں، بے شک یہ وقت آزمائش کا ہے اور آزمائش میں صبر زادّ راہ اور توکل علی اللہ، مضبوط قلعہ ہے.
مجھے شرمندگی ہے کہ میں اپنی ذمہ داری بھی آپکے کندھوں پر ڈال کر غائب ہو گئی. لیکن اللہ اور صرف اللہ جانتا ہے کہ کیسی لہر تھی. لیکن اللہ بہت محبت کرنے والا ہے، وہ اپنے مومن بندوں اور بندیوں کو تھام لیتا ہے. اس خیر الوارثین نے جو توحید اب سکھائی، زندگی بھر نہ سیکھی تھی.

شیخ محترم نے جن عوامل کا ذکر کیا، عموماً یہی وجوہات ہوتی ہیں کہ جن سے انسان پر غفلت و تھکاوٹ طاری ہونے لگتی ہے. آپکی کیفیت زیادہ تر نفسیاتی ہے، جس کی وجہ سے شیطان آپ پر حملہ کرنے کی کوشش کر رھا ہے.

اِنَّمَا النَّجۡوٰی مِنَ الشَّیۡطٰنِ لِیَحۡزُنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیۡسَ بِضَآرِّہِمۡ شَیۡئًا اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿المجادلة ۱۰﴾
"(بری) سرگوشیاں، پس شیطانی کام ہے جس سے ایمان داروں کو رنج پہنچے۔ گو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر وه انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور ایمان والوں کو چاہئے کہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں."


Jam e Tirmazi Hadees # 3522
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِي كَعْبٍ صَاحِبِ الْحَرِيرِ، حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأُمِّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏مَا كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ عِنْدَكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ أَكْثَرُ دُعَائِهِ:‏‏‏‏ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا لأَكْثَرِ دُعَاءَكَ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يَا أُمَّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَيْسَ آدَمِيٌّ إِلَّا وَقَلْبُهُ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّهِ فَمَنْ شَاءَ أَقَامَ وَمَنْ شَاءَ أَزَاغَ ، ‏‏‏‏‏‏فَتَلَا مُعَاذٌ:‏‏‏‏ رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا سورة آل عمران آية 8، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَنُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

میں نے ام سلمہ رضی الله عنہا سے پوچھا: ام المؤمنین! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام آپ کے یہاں ہوتا تو آپ کی زیادہ تر دعا کیا ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: آپ زیادہ تر: «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك» ”اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے“، پڑھتے تھے، خود میں نے بھی آپ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ اکثر یہ دعا: «يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك» کیوں پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اے ام سلمہ! کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جس کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے اس کی دو انگلیوں کے درمیان نہ ہو، تو اللہ جسے چاہتا ہے ( دین حق پر ) قائم و ثابت قدم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا دل ٹیڑھا کر دیتا ہے پھر ( راوی حدیث ) معاذ نے آیت: «ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا» ”اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہدایت دے دینے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی ( گمراہی ) نہ پیدا کر“ ( آل عمران: ۸ ) ، پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، نواس بن سمعان، انس، جابر، عبداللہ بن عمرو اور نعیم بن عمار رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


میری بہن، یہ کیفیت وقتی ہے ان شاء اللہ. آپ کے پاس تو ایسا خزانہ ہے کہ جس سے آج کل اکثریت محروم ہے، آپ اپنے علاوہ بھی امت مسلمہ اور خصوصاً مسلمان مرد و خواتین کی دینی حالت پر فکر کرنے والی ہیں، نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنے والی ہیں، جب آپ بدعتوں سے دوسروں کو منع کرتی تھیں، مجھے بے حد فخر و محبت محسوس ہوتی تھی، اور میرا اپنا حوصلہ بڑھتا تھا، یہی وہ کام ہے جس کی جرات بہت ہی گنے چنے لوگوں میں ہے، مجھے اللہ ذوالعرش المجید پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہ آپکو تنہا نہیں چھوڑے گا، وہ اپنے مومن بندوں اور بندیوں کی بہت قدر کرتا ہے. وہ آپکو اس کیفیت سے ضرور نجات دے گا.
اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ ﴿ۙۙالمؤمن ۵۱﴾
یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانیٴ دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے.

اللہ عزوجل نے اپنے ہر ہر رسول کو استغفار کا حکم دیا ہے، ہمارے پیارے نبی کریم صل الله عليه وسلم نے ایسی کیفیت کے لیے استغفار کرنا ہی تو سکھلایا ہے.

Sahih Muslim Hadees # 6858
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَأَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ جَمِيعًا عَنْ حَمَّادٍ قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ الْأَغَرِّ الْمُزَنِيِّ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّهُ لَيُغَانُ عَلَى قَلْبِي وَإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ
ثابت نے ابو بُردہ سے اور انہوں نے حضرت اغرمزنی رضی اللہ عنہ سے ، جنہیں شرفِ صحبت حاصل تھا ، روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے دل پر غبار سا چھا جاتا ہے تو میں ( اس کیفیت کے ازالے کے لیے ) ایک دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں ۔ "

صبر و استقامت کے ساتھ اس کیفیت سے بہادر مومنہ بن کر، ڈٹ کر لڑنا ہے. زندگی کے اہم فیصلے معلق ہوں تو انسان ایسی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے.

Sahih Bukhari Hadees # 1469
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، إِنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ، حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ , فَقَالَ : مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ .
انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال و دولت ہو تو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا۔ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بےنیاز بنا دیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بےپایاں خیر نہیں ملی۔ ( صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے ) ۔

شیطان اور انسانی شیطانوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتی رہو. لوہے جیسے ایمان کو وہ پتھر سے نہیں توڑتا، لیکن سرگوشیوں اور وسوسوں سے آہستہ آہستہ جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتا ہے. آپکے پاس اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمتیں ہیں جن سے کئی اہل ایمان محروم ہیں، دینی ماحول و تربیت، صالح صحبتیں،،، تو شیطان نیکی و راست بازی کا جھوٹا بہروپ دھار کر اہل ایمان پر حملہ آور ہوتا ہے.لیکن یاد رکھو کہ شیطان کی سرگوشیاں اور چالیں، توکل علی اللہ اور ایمان کامل کے آگے بالکل بودی ہوتی ہیں اور اہل اللہ پر اسکا کوئی زور نہیں.

علم الفتن سیکھنے کی کوشش کرو، آڈیو دروس سنو، اچھی بہترین کتابوں کا مطالعہ کرو، اپنے روشن مستقبل کے لئے، صالح شریک حیات کے لیے، اللہ تعالیٰ سے بہت بہت دعائیں کرو، اہل الجھاد کے لیے دعائیں کرو، اسیران اسلام کو تصور کرو کہ انکے پاس تعلق باللہ کے سوا کچھ نہ ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ قلب کو استقامت و انابت عطاء فرمائے، عبادت و دعا کی لذت بڑھا دے. کسی تعمیری دینی کام کے لیے کچھ منصوبہ بندی کرو. اللہ عزوجل سے اسباب و آسانی طلب کرو.

میری عزیز بہن، ایک چیز جسکی یہاں خصوصی نصیحت کرتی ہوں کہ کچھ عرصہ سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کر لو، ہم اسکا استعمال جتنا بھی دینی مقصد کے لیے کر لیں، بہرحال یہ خاموش فتنہ ہے. بلا شک و شبہ، دین سیکھنا آسان ہو گیا ہے، لیکن یہ موبائل انٹرنیٹ، ہماری عملی آمادگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، اور اسکے استعمال سے تشویشی عارضے بالکل عام ہو چکے ہیں. رات کو سونے سے قبل موبائل الماری میں رکھ دو.
میری انٹرنیٹ ورکنگ سے آپ لاعلم نہیں ہیں، پہلے 4.7 انچ کی آزمائش تھی، اب 9 انچ کی آزمائش ہاتھ میں لیے ہوئے، لیکن اب کم وقت ہی اس پر لگاتی ہوں. گو کہ بہت سے اہم کام ادھورے رہ گئے. الحمد للہ، اب ان چیزوں سے دوری نے زندگی کو معمول پر رواں دواں کر دیا ہے، عمل میں بہتری، غیر ضروری امنگوں اور فکروں سے آزادی ہے، الحمد للہ علی ذلك، آپ کی خاطر یہ لکھنے بیٹھ گئی، امید ہے دوسری بہنیں بھی مستفید ہوں گی.

اپنے ذہن کو بالکل نارمل رکھو، جو عبادت چھوٹ جائے، اس پر استغفار کرو، اللہ تعالیٰ تو بہت مہربان ہے، قیام اللیل کی نیت پر بھی ثواب عطا کرتا ہے.

آخر میں ایک کتاب کا لنک دے رہی ہوں، اس کا مطالعہ، بہت مفید ثابت ہو گا. ان شاء اللہ العظيم.
https://www.emaanlibrary.com/book/urdu-talluq-billah-asbab-zraie-aur-samrat-abu-hamza-abdul-khaliq-siddiqui/


دعاء کی طالبہ، فرح یحی کی آپی،
منتہائے ثریا.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ماشاء اللہ بڑی قیمتی نصائح کا اضافہ ہے، مجھے اللہ کی ذات سے امید کہ ان تمام نصیحتوں سے زندگی میں بہتر تبدیلی آئے گی ۔
میں نے آپ کا قیمتی پیغام پہنچا دیاہے، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ اس کے ذریعہ دین ودنیا دونوں بہتر بنادے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اچھا تھریڈ ہے۔
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ سے دور رہنا بھی ایک اچھی نصیحت ہے۔
اگر کسی نیک مرد یا عورت کو انجانی بے چینی اور پریشانی لاحق ہو تو سوشل میڈیا کا استعمال ترک کرکے دیکھنا چاہیے، اور بالخصوص مرد ہو تو عورتوں سے گفتگو کم اور عورت ہے تو مردوں سے گفتگو کم سے کم۔
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ماشاء اللہ بڑی قیمتی نصائح کا اضافہ ہے، مجھے اللہ کی ذات سے امید کہ ان تمام نصیحتوں سے زندگی میں بہتر تبدیلی آئے گی ۔
میں نے آپ کا قیمتی پیغام پہنچا دیاہے، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ اس کے ذریعہ دین ودنیا دونوں بہتر بنادے ۔

اللہ تعالیٰ آپ کو عظیم جزائے خیر عطا فرمائے آمین
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
اچھا تھریڈ ہے۔
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ سے دور رہنا بھی ایک اچھی نصیحت ہے۔
اگر کسی نیک مرد یا عورت کو انجانی بے چینی اور پریشانی لاحق ہو تو سوشل میڈیا کا استعمال ترک کرکے دیکھنا چاہیے، اور بالخصوص مرد ہو تو عورتوں سے گفتگو کم اور عورت ہے تو مردوں سے گفتگو کم سے کم۔

شیخ محترم، مرد و خواتین کے درمیان گفتگو نہ بھی ہو تو اس موبائل یا انٹرنیٹ کے اثرات، 1 ڈیڑھ سال کے بچے کی باڈی لینگویج پر مشاہدہ کیجئے.

اللہ تعالیٰ سبکو محفوظ رکھے آمین
 
Top