حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,101
- ری ایکشن اسکور
- 1,462
- پوائنٹ
- 344
احناف کا دعوی ہے کہ تین طلاقوں کے واقع ہونے پر امت کا اجماع ہے،و ہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب نے تین طلاقوں کو نافذ کیا تو کسی
صحابی اور تابعی اس معاملے میں ان کی مخالفت نہیں کی،گویا احناف کے نزدیک اس مسئلے میں صحابہ کرام اور امت مسلمہ کا اجماع ہے،حالاں کہ متچعدد حنفی علما نے اس اجماع کو تسلیم نہیں کیا ،اس دعوی کی تردید میں اپنی آرا کا اظہار کیا ہے،چناں چہ شارح بخاری جناب علامہ بدر الدین عینی حنفی رقم طراز ہیں:
[ARB
[
صحابی اور تابعی اس معاملے میں ان کی مخالفت نہیں کی،گویا احناف کے نزدیک اس مسئلے میں صحابہ کرام اور امت مسلمہ کا اجماع ہے،حالاں کہ متچعدد حنفی علما نے اس اجماع کو تسلیم نہیں کیا ،اس دعوی کی تردید میں اپنی آرا کا اظہار کیا ہے،چناں چہ شارح بخاری جناب علامہ بدر الدین عینی حنفی رقم طراز ہیں:
[ARB
امام طحاوی حنفی احناف کے جلیل قدر عالم بیک وقت طلاق ثلاثہ کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:]وضع البخاري هذه الترجمة إشارة إلى أن من السلف من لم يجوز وقوع الطلاق الثلاث وفيه خلاف فذهب طاووس ومحمد بن إسحاق والحجاج بن أرطأة والنخعي وابن مقاتل والظاهرية إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا فقد وقعت عليها واحدة [/ARB](عمدۃ القاری:کتاب الطلاق،14ج،ص۲۳۶)
اس مسئلے میں علما کے مابین اختلاف ہے،امام طاوس محمد بن اسحاق،حجاج بن ارطاۃابراہیم نخعی(امام ابوحنیفہ کے استاد)ابن مقاتل اور ظاہریہ اس طرف گئے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دےتو وہ ایک شمار ہوگی
احناف کے سر خیل جناب مولانا عبد الحی لکھنوی نے اس مسئلے میں اجماع کے دعوی کو توڑا ہے،چناں چہ وہ لکھتے ہیں:فذهب قوم إلى أن الرجل إذا طلق امرأته ثلاثا معا فقد وقعت عليها واحدة إذا كانت في وقت سنة وذلك أن تكون طاهرا في غير جماع واحتجوا في ذلك بهذا الحديث
طلاق ثلاثہ کے بارے ایک جماعت کا موقف یہ ہےکہ مرد جب اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی جب کہ وقت سنت میں،یعنی اس وقت دی گئی ہو جب وہ عورت پاک ہواور اس سے ہم بستری نہ کی گئی ہواور دلیل ان کی یہی حدیث ہے(حدیث ابن عباس)
(شرح معانی الآثار: باب لارجل یطلق امراتہ ثلاثا معا،ج۳ص۵۵)
قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی مشہور و معروف مفسر گزرے ہیں ،چناچہ وہ اس ایک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس مسئلے میں اختلاف ہے اور دوسر ا قول یہ ہے کہ جب آدمی ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو وہ ایک رجعی طلاق شمار ہوگیاور یہی موقف بعض صحابہ کرام سے منقول ہےاور اسی کے قائل داود ظاہری اور ان کے متبعین ہیں اور ایک قول کے مطابق یہی مذہب امام مالک اور امام احمد کے بعض اصحاب کا ہے(عمدۃ الرعایۃ:ج۲ص۷۱)
[
اس طرح جناب عبد الحلیم قاسمی صاحب(مرکزی صدر جمعیت علمائے احناف پاکستان) اپنے ایک خط میں رقم طراز ہیں:ARB]فكان القياس ان لا يكون الطلقتين المجتمعتين معتبرة شرعا- وإذا لم يكن الطلقتين معتبرة لم يكن الثلاث مجتمعة معتبرة بالطريق الاولى[/ARB]
پس قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ دو مجموعی طلاقیں شرعامعتبر نہ ہوں اور جب دو مجموعی( اکٹھی) طلاقیں معتبر نہ ہوں گی تو بیک وقت تین طلاقیں بطریق اولی معتبر نہ ہوں گی، (التفسير المظھري:سورۃ البقرہ ،۲۲۹)
علامہ طحطاوی حنفی تین طلاقوں کے بارے وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:حضور اکرم کے دور میں ایک اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تو آپ نے فرمایا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار کی جائیں گی اور آپ نے رجوع کا حکم دیا۔
لہذا جو لوگ ایک تین طلاق کو ایک شمار کرتے ہیں تو حضور پاک کے فیصلے کے مطابق فتوی دیتے ہیں،یہ فتوی صحیح و درست ہے،حضور کے فیصلے کے بعد کسی دوسرے فیصلے کی اول تو ضرورت ہی نہیں ہےاگر ہے تو اس کے مطابق عمل کیا جائےنہ کہ مخالفت میں الحمد للہ میری تحقیق اور فتوی یہ ہے کہ مطلقہ ثلاثہ فی مجلس واحد میں خاوند رجوع کر سکتا ہےکوئی حرج نہیں اہل حدیث حضرات کا فتوی صحیح ہے اور رجوع درست ہے،یہی پاکستان، مصر سوڈان اور لیبیا کا قانون ہے(ایک مجلس میں تین طلاق اور ان کا شرعی حل:۱۸۲)
ان چند حوالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہےکہ احناف کا یہ دعوی کرنا کہ اس مسئلہ میں امت کا اجماع ہےسراسر بے بنیاد اور حقیقت کے منافی بات ہے،بلکہ اس بارے میں توعلمائے احناف بذات خوداختلاف کا شکار ہیں،جس کا ثبوت مندرجہ بالا حوالاجات ہیںوانه كان في الصدر الاول اذا ارسل ثلاثة جملة لم يحكم الا بوقوع واحدۃ الی زمن عمر ثم حکم بوقوع الثلاثۃ سیاستا لکثرتہ(حاشیۃ در مختار:ج2،ص105)
پہلے زمانے میں تا خلافت عمر جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو ایک ہی قرار دی جاتی ،پھر جب لوگ بکثرت ایسا کرنے لگے تو آپ نے سیاستا تین طلاقوں کے تین ہی واقع ہونے کا حکم نافذ کر دیا۔
Last edited: