• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجویز ایک نصیحت : محدث فورم کے تمام ممبران کو !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ :

میرے بھائیوں اس پر فتن دور میں جب کہ فتنے عام ہیں خاص طور پر میڈیا کا فتنہ کیوں کہ اکثر میڈیا پر اہل باطل کا کنٹرول ہے وہ جس طرح چاھے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں لہذا ہم کوئی بھی ایسی پوسٹ بنا تحقیق کے نہ کریں جو ھمارے لئے دنیا اور آخرت میں بربادی کا باعث بنیں :

اور ہاں پر فتن دور میں اہل حق علماء سے رجوع کیا جائے تاکہ وہ ھماری صحیح رہنمائی کر سکیں اور آخر میں اس تحریر کو مکمل پڑھیں تا کہ آپ کی صحیح رہنمائی ہو جائے ایک لنک بھی شیئر کر رہا ہو جو میں نے آج ہی پوسٹ کیا ہے آج کے دور کے مطالق

اس کا لنک یہ ہے



پرفتن دور میں مسلمانوں کا منہج !!!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ إمام الأنبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ وأصحابہ أجمعین ‏ومن تبعھم إلی یوم الدین
امابعد

دنیا اپنے خاتمے کی جانب تیزی سے رواں دواں ہے اور اس کا ہر آنے والا زمانہ، گزرے ہوئے زمانے کی نسبت زیادہ مصیبتوں ، مشکلات اور آزمائشوں کا ہوگا۔ اسلام ایک کامل دین ہے اور اپنے ماننے والوں کو ہر دور میں مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اور جو جو قیامت قریب آتی جائے گی، آزمائشیں ، مشکلات خرابیاں بڑی تیزی کے ساتھ پھیلیں گی۔ اور اس بارے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو پہلے سے ہی خبردار کردیا ہے۔

قرب قیامت آنے والے فتنے اتنے شدید اور خوشنماء ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا کہ "جو بھی ان فتنوں میں جھانکے گا یہ اس کو اپنے اندر کھینچ لیں گے"۔
صحیح مسلم

یعنی ایک طرف کسی فتنے میں ارادے سے شامل ہونے والے لوگ تو دوسری جانب ایسے بھی ہوں گے جو محض فتنوں کی خوشنمائی کی وجہ سے اور شور و غوغا سن کر محض تجس سے اسکی طرف متوجہ ہوں گے، وہ بھی اس میں گر جائے گے۔
لا الہ الا اللہ۔


اور جو بھی شخص فتنوں کی تاب نہ لاسکا اور اسکا شکار ہوگیا تو یقینا وہ ان فتنوں کے ہاتھوں اپنی دنیا و آخرت کی تباہی کا سامان کر چکا۔ فتنے اتنے شدید ہوں یا شدید سے شدید تر ہوتے جائے گے کہ ان میں غیر جانبدار رہنا یا بچ جانے کا کوئی راستہ انسان کو نہیں سمجھ آئے گا۔

ایک طرف جان کا فتنہ حرج ، باہمی قتل و غارت اور بغاوتوں کی شکل میں تو دوسری جانب مال کا فتنہ غصب، حوس چھینا جھپٹی کی صورت میں ۔ ایک جانب بے حیائی کے فتنے کی تبا کاریاں تو جانب سود کے دھوئیں سے متاثرہ معاشرے وغیرہ وغیرہ۔۔ فتنے تو اتنے زیادہ ہیں کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ ہزاروں نئے سے نئے جنم لے رہے ہیں کہ جن احاطہ ممکن نہیں۔

مگر کیا اسلام ہمیں فتنوں کے دور میں ان خطرناک فتنوں سے بچنے ، اجتناب کرنے اور اپنی دنیا و آخرت کو محفوظ بنانے کے بارے آگاہی دیتا ہے، رہنمائی کرتا ہے؟

جی ہاں اسلام کا یہ وصف ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کی مکمل زندگی میں ایک رہنماء کی حیثیت رکھتا ہے۔آیئے اب ہم یہاں صرف چند ایسے کاموں اور امور کا جائزہ لیتے ہیں کہ جن کا فتنوں کے دور میں اسلام ایک مسلمان سے تقاضہ کرتا ہے۔ اور جن پر عمل پیرا ہو کر ہی مسلمان فتنوں سے اور دنیاو آخرت کی تباہی سے بچ سکتا ہے

پُر فتن دور میں کرنے کے کام

آئیے پُر فتن دور میں کرنے کے چند کاموں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کی پابندی ایک عام مسلمان کے لئے ازحد ضروری ہے تا کہ وہ قُرب قیامت فتنوں سے محفوظ رہ سکے۔


دانائی سے کام لیں:

جب فتنے ظاہر ہونے لگیں یا حالات بدلنے لگیں تو ایسے نازک حالات میں نرمی و بردباری اور دانائی سے کام لیں اور جلد بازی نہ کریں۔ نرمی اس بنیاد پر کہ نرمی ایسی چیز ہے جس میں پائی جائے اس کو عمدہ بناڈالتی ہے اور جس چیز سے نکال لی جاتی ہے اس کو عیب دار بنادیتی ہے۔ سارے کاموں میں نرمی کا خیال رکھیں، رحم دلی سے پیش آئیں، غصہ والے نہ بنیں۔

دانائی اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ عبدالقیس کے اشجع نامی آدمی سے کہا تھا:

’’تمہارے اندر دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں، بردباری اور دانشمندی‘‘ دانشمندی و دانائی عمدہ خصلت ہے ۔

فتنے کے لمحات اور بدلتے حالات کے وقت بردباری قابل ستائش ہے کیونکہ بردباری کے ذریعے ہر چیز کی اصلیت و حقیقت تک پہنچا جاسکتا ہے۔


غوروفکر کے بعد ہی حکم لگائیں:

فتنہ کے ظہور اور حالات کے بدلتے وقت بغیر سوچے سمجھے آپ کسی چیز کے بارے میں حکم نہ لگائیں اس قاعدہ پر عمل کرتے ہوئے کہ ’’کسی چیز پر حکم لگانا اس پر غوروفکر کرنے کے بعد ہوا کرتا ہے‘‘


اللہ تعالی کا فرمان ہے :

( ولاتقف مالیس لک بہ علم﴾ (سورہ اسراء: 63)

’’جس بات کی تجھے خبر ہی نہیں اس کے پیچھے مت پڑ‘‘


یعنی ایسا معاملہ جس کو آپ نہیں جانتے ، اس کا پاس وخیال نہ ہو اور نہ ہی آپ کے پاس اس بارے میں کوئی ثبوت ہو تو اس سلسلے میں بات کرنے سے بچیں، چاہے آپ اس میں لیڈر بنیں ۔


عدل وانصاف کوملحوظ رکھیں:

تمام کاموں میں عدل وانصاف کو لازم پکڑیں۔


اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿واذ قلتم فاعد لو اولوکان ذاقربیٰ﴾ (الانعام)

’’اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو،گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو۔‘‘

اور فرمان الہی ہے:

﴿ولا یجر منکم شنأن قوم علی ان لا تعد لوا اعدلو اھو اقراب للتقوی ﴾

’’کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کردے،عدل کیا کروجو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (المائدۃ)


اس کا معنی یہ ہے کہ آپ جس سے محبت کرتے ہیں اور جس سے محبت نہیں کرتے دونوں کو ایک میزان وکسوٹی پر رکھ کر پرکھیں اور اس کے بعد حکم لگائیں۔


جماعت کولازم پکڑیں:

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

(وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ﴾ (آل عمران : 103)

’’اوراللہ تعالی کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو ۔‘‘


اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[ علیکم بالجماعہ وایاکم والفرقۃ ]

’’جماعت کو لازم پکڑو اوراختلاف سے بچو۔‘‘

( ابو داؤد ، الترمذی ، کتاب الفتن ، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ)
حضرت عثمان رضى الله عنه منیٰ میں اتمام کرتے تھے جبکہ سنت یہ ہے کہ نمازی منیٰ میں ہر چار رکعت والی نماز کو دو دو رکعت پڑھے، حضرت عثمان رضى الله عنہ شرعی تاویل کی بناءپر چار رکعت ہی پڑھتے رہے ،اس کے باوجود حضرت

عبداللہ بن مسعود رضى الله عنه کہا کرتے تھے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے کہ ہرچار رکعت والی نماز دورکعت ہی پڑھی جائے۔
ان سے پوچھا گیا :
آپ یہ کہتے ہیں اور حضرت عثمان رضى الله عنه کے ساتھ چار رکعت پڑھتے ہیں آخرکیوں؟
تو انہوں نے فرمایا:”اختلاف بری بات ہے۔
(سنن ابوداود)

اور ایسا ان کے شرعی قاعدہ کو سمجھنے کی وجہ سے ہوا کیونکہ جو اس کےبرخلاف کرے گا اسکے اور دوسروں کے فتنہ میں پڑنے سے مامون نہیں رہا جاسکتا۔


شرعی میزان پر پرکھیں:

وہ جھنڈے جو فتنہ میں اٹھائے جاتے ہیں خواہ وہ دعاةکے ہوں یاملکوں کے، ضروری ہے کہ مسلمان ان کو صحیح کسوٹی پر وزن کریں۔

آپ دیکھیں کہ اس میں خالص اللہ تعالی کی عبادت وبندگی ہے یا نہیں ؟ رسالت محمدی کی گواہی پوری کی جاتی ہے یانہیں؟اوراس گواہی کا تقاضا ہے کہ شریعت مصطفوی کے مطابق فیصلہ کیا جائے ۔ کسوٹی پر پرکھنے کے بعد آپ پر لازم ہے کہ آپ کی محبت اس میزان کے لیے ہو جو صحیح طور پر اسلام کو بلندو بالا کرتا ہے ، پھرآپ ایسے لوگوں کو مخلصانہ نصیحت کریں۔

جب یہ میزان مشتبہ ہوجائے تو اس سلسلے میں مرجع علماء ہوں گے کیونکہ وہی لوگ صحیح شرعی حکم جانتے ہیں۔

فضیل بن عیاض رحمه الله اپنے وقت میں حکمران کے لیے بہت دعا کرتے تھے، ان سے کہا گیا کہ آپ ان کے لیے اپنے سے زیادہ دعا کرتے ہیں؟ فرمایا :ہاں کیونکہ اگر میں درست رہا تو میری درستگی اپنے لیے اور اپنے اردگرد رہنے والوں کے لیے ہوگی ، رہی سلطان کی درستگی تو وہ عام لوگوں کے لیے ہوگی۔


قول وعمل میں چوکس رہیں:

فتنے کے وقت گفتاروکردارکے کچھ الگ ہی ضابطے ہوتے ہیں چنانچہ ہروہ بات جو آپ کو اچھی لگے، اسے کہہ ڈالنا یا ہر
وہ کام جو اچھا لگے، اسے کر گزرنا مناسب نہیں، کیونکہ فتنے کی گھڑیوں میں ایسا کرنے سے متعدد مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه فرماتے ہیں :

’’میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے دو بھرے برتن کے مانند حدیثیں یاد کیں (یعنی دوقسم کا علم سیکھا) جن میں سے ایک کو میں نے عام کردیا اور اگر دوسرے کوعام کرتا تو میری گردن کاٹ دی جاتی۔‘‘ (صحیح بخاری)

علماءکا کہنا ہے کہ اس سے مراد ایسی حدیثیں ہیں جو فتنے اور بنو امیہ وغیرہ سے تعلق رکھتی تھیں،شرعی احکام سے متعلق نہ تھیں ۔اورحضرت ابوہریرہ رضى الله عنه نے یہ بات حضرت معاویہ رضى الله عنه کے زمانے میں کہی جبکہ لوگ گھمسان کی لڑائی اورجنگ وجدال کے بعد ان کے سایہ تلے اکٹھے ہوچکے تھے، انہوں نے انہیں اس لیے چھپا لیا تاکہ لوگ جدائی کے بعد حضرت معاویہ رضى الله عنه پر جو یکجا ہوچکے تھے پھر لڑنے بھڑنے نہ لگیں۔

اسی لیے حضرت ابن مسعود رضى الله عنه فرماتے ہیں:

’’آپ لوگوں سے کوئی ایسی بات نہ کریں جو ان کی سمجھ سے باہر ہو کیونکہ وہ ان کے لیے فتنہ کا سبب ہو گی‘‘

فتنےکی گھڑیوں میں لوگ بات کواچھی طرح سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں،لہذا ہر وہ بات جو معلوم ہے‘ نہیں کہنی چاہیے ، زبان پر لگام لگانا ضروری ہے، کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کی بات پر کیسے اثرات مرتب ہونگے؟آپ کی رائے کیا رنگ لائے گی؟ سلف صالحین رحمہم اللہ اپنے دین کی سلامتی کے پیش نظر ،فتنوں کے وقت بہت سارے مسائل میں خاموش رہے تاکہ اللہ سے امن وسلامتی کے ساتھ ملیں۔

صحیح بخاری کی روایت ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:

’’اگر تمہاری قوم کے لوگ کفر سے قریب نہ ہوتے(یعنی نئے نئے مسلمان) تو کعبہ کو ڈھاکراس کو قواعد ِابراہیمی پربناڈالتا اور اس میں دو دروازے لگا دیتا۔‘‘

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کفارِقریش جو نئے نئے اسلام لائے ہیں کعبہ کو توڑکر اسکو قواعدِابراہیمی پر بنانے اور اس میں دو دروازے لگانے (ایک سے داخل ہواجائے اور دوسرے سے نکلا جائے)سے ایسا نہ ہو کہ لوگ غلط سمجھ لیں یا یہ سمجھ لیں کہ آپ فخر کرنا چاہتے ہیں یا آپ دینِ ابراہیمی کی بے حرمتی کرنا چاہتے ہیں یا کچھ اور خیال کربیٹھیں اس لیے آپ نے اسکو چھوڑدیا۔

نیک اعمال کا التزام و اہتمام :

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔

’’بادروا بالاعمال فتنا کقطع الیل المظلم ۔۔۔۔الخ‘‘
(رواہ مسلم)

’’لوگو! سخت سیا ہ رات کی طرح گھنے فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو ( کیونکہ وہ فتنے اتنے خطر ناک ہوں گے کہ ) صبح کے وقت بندہ مؤمن ہو گا تو شام تک کافر ہو جائے گا اگر شام کو مؤمن ہو گا تو صبح تک کافر ہو جائے گاآدمی دنیا کے معمولی مفاد کے عوض اپنا دین بیچ دے گا ۔ ‘‘


کثرت سے اللہ کی عبادت کا اہتمام :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’العبادۃ فی الھرج کا لھجرۃ الی۔۔۔۔‘‘

’’قتل و غار ت کے دور میں عبادت کرنا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کرنے کے مترادف ہے ۔ ‘‘
( صحیح مسلم رقم 2948) ( الشریعہ لآجری ص49 رقم 82)


فتنوں کے ایام میں مسلمان کے خلاف زبان اور ہاتھ کو روک لینا :

سیدنا علی اور امیر معاویہ کے درمیان ہونے والی جنگوں کے موقع پر سیدناعلی ایک صحابی (احبان بن صیفی الغفاری)کے پاس آئے اور کہا کہ میرے ساتھ میدان جنگ میں چلو۔
اس صحابی نے کہا:
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فتنوں کے دور میں تم لکڑی کی تلوار بنا لینا ( اور اب جبکہ دو مسلمان گروہ باہم برسرپیکار ہیں ) اور میرے پاس لکڑی کی تلوار ہی ہے، اگراسی طرح پسند کرتے ہیں تو چل پڑتا ہو ں۔
سیدنا علی اس کو چھوڑ کر چلے گئے ۔
(الجامع الصحیح سنن ترمذی ، باب ماجاء فی اتخاذ سیف من خشب فی الفتنۃ عن عدیشۃ بنت اھبان بن صیفی الغفاری)


کسی مسلمان شخص یا جماعت یا ادارہ کی تکفیر سے اجتناب کرنا:

اگر آپ کو کسی شخص کے بارے میں کسی بات یا عمل کا علم ہوتا ہے تو آپ اس شخص یا ادارہ یا جماعت پر کفر کا حکم لگانے کی بجائے اس کے کفر یہ قول یا فعل پر حکم رکھیں ۔کہ اس کا فلاں کام یا بات کفر یہ یاشرکیہ ہے یعنی حکم عمل پر رکھیں، افراد پر نہیں! یہ سب سے محتاط انداز ہے اور اس معیّن شخص وغیرہ کی تکفیر سے اجتناب کریں ۔کیونکہ یہ آپکے ذمے نہیں !


فتنہ پرور لوگوں کی محافل سے کلی اجتناب:

کم علم تکفیری اورگمراہ کن نظریا ت کے حامل لوگوں کی مجالس اور ان کے ساتھ بحث سے اجتناب کرنا جیسا کہ سابقہ تحریر میں امام ابن سیرین رحمہ اللہ کے حوالہ سے گزر چکا ہے ۔

آخر میں ہم دعا گوہیں کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس تباہ کن فتنوں سے محفوظ فرمائے اور اگر کسی مسئلہ کی سمجھ میں دشواری ہو تو اسے علماء سے رجوع کرتے ہوئے سلف صالحین کے فہم پر موقوف کریں تا کہ معاملے کی اصلیت کو پہچان سکیں اور سیدھی راہ پر چلتے رہیں ۔


اللہ ہمیں زندہ اسلام پر رکھے اور کفار کے خلاف لڑتے ہوئے شہادت کی موت نصیب فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اور ہاں پر فتن دور میں اہل حق علماء سے رجوع کیا جائے تاکہ وہ ھماری صحیح رہنمائی کر سکیں
اس فورم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ نیٹ پر موجود عوام الناس علمائے حق سے رجوع کر سکیں۔ اس فورم میں ما شاء اللہ کثیر تعداد میں علمائے حق موجود ہیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس عوام الناس کی الجھنوں کا جواب دینے کے لئے وقت نہیں ہے۔ یا وہ اسے ترجیح نہیں دیتے، کیونکہ ایک طرف تو وہ سوشیل میڈیا پر بہت فعال نظر آتے ہیں تو دوسری طرف اسی فورم میں ان سے پوچھے گئے استفسارات مہینوں تلک جوابات سے محروم رہتے ہیں۔ بالخصوص احادیث کی تصدیق سے متعلق سوالات۔

کچھ علاج اس کا بھی کوئی چارہ گراں ہے کہ نہیں
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! تاخیر پر معذرت خواہ ہیں لیکن حسن ظن یہ رکھیں کہ جان بوجھ کر تاخیر نہیں کی جاتی حالات اور مصروفیات تاخیر کا سبب بن جاتی ہیں اس لیے اس کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور امید ہے کہ ایسی تکلیف آپ کو دوبارہ نہیں اٹھانی پڑے گی۔ان شاء اللہ
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
ملتقی اھل الحدیث کا طریقہ مجھے زیادہ پسند ہے کہ ہر ایک کو علمی تحقیق پیش کرنے کی اجازت ہوتی ہے
تو جو بھائی سوال کرتے ہیں مثلا ایک سوال دیکھا آل محمد سے کیا مراد ہے یا ایسا ہی تھا کچھ اس کا جواب نہیں دیا گیا کیونکہ وہاں جوابات محدث کی لجنہ ہی دے سکتی ہے
جس بھائی کو جواب نہیں ملتا اسے چاھیئے کہ وہ عام تھریڈ بنائے جہاں لجنہ کے علاوہ اور لوگ بھی جواب دے سکتے ہیں اسے جواب مل جائےگا
ھم خود تھریڈ اس لیئے نہیں بناتے کہ جب محدث کی لجنہ سے ہی پوچھا گیا ہے تو مناسب نہیں لگتا کہ اس کا جواب دے دیں
 
Top