• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک نظر مصطلح اہل السنہ والجماعہ پر

شمولیت
مئی 14، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
46
ایک نظر مصطلح اہل السنہ والجماعہ پر
......................................
✍ عبيد الله الباقي أسلم
......................................
اہل السنہ والجماعہ: یہ مسمی اپنے اندر اپنے پیروکاروں کے لیے دو وصفوں کو سمو رکھا ہے : 1- السنة، 2- والجماعة.
أولاً:سنت کی تعریف:
ألف: سنت کا معنی
سنت کے لغوی معنی کا بیان (دوسری قسط میں) گزر چکا ہے.
ب: سنت کا اصطلاحی معنی
فقہاء کے نزدیک سنت: احکام تکلیفیہ میں سے جو واجب کے مقابل میں ہو؛ یعنی جس کا حکم حتمی نہ ہو (السنة قبل التدوين:1/18).
محدثین کے نزدیک سنت: ہر وہ قول و عمل، یا تقریر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے(الوسيط في علوم و مصطلح الحديث،ص:16).
علماء عقیدہ کے نزدیک سنت: جو بدعت کا مقابل میں ہو، یعنی ہر وہ اقوال و افعال جو کتاب، اور نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت، اور ان کے منہج و طریقہ، اور اجماعِ سلفِ امت کے موافق ہوں(كتاب أهل السنة والجماعة، النشأة، المنهج، الخصائص، للدكتور صالح الدخيل،ص:40).
• سنت کا اطلاق بدعت کے مقابلے میں کیا جاتا ہے، جیسا کہ لوگ کہتے ہیں: یہ سنی طلاق ہے، یہ بدعی طلاق ہے۔
اور جب کسی کا قول و فعل کتاب وسنت کے موافق ہو تو کہا جاتا ہے کہ : فلاں سنت پر ہے، اور کسی کا قول وفعل کتاب وسنت کے مخالف ہو تو کہا جاتا ہے کہ: فلاں بدعت پر ہے (مفهوم أهل السنة والجماعة عند أهل السنة والجماعة للدكتور ناصر العقل ص:29).
• اور یاد رہے یہ دونوں کلمہ "سنت اور بدعت" متضاد مستعمل ہیں، کیونکہ سنت وہ طریقہ ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام - رضی اللہ عنہم- گامزن تھے، جبکہ اس طریقہ نبویہ کو چھوڑنے اور اس سے منہ موڑنے کا نام بدعت ہے۔
• اور احادیث میں بھی بدعت کے مقابلے میں سنت کا ذکر آیا ہے، اسی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:"ما أحدث قوم بدعة، إلا رفع مثلها من السنة "( مسند أحمد:4/105، اور فتح الباری میں ابن حجر- رحمہ اللہ- اسے " حسن " کہا ہے: 13/253)۔ جب کبھی لوگ بدعت ایجاد کریں گے، اس کی جگہ کوئی سنت اٹھا لی جائے گی ۔ اور ابن عباس- رضی اللہ عنہما- یہ قول:" ما يأتي على الناس من عام إلا أحدثوا فيه بدعة ، وأماتو فيه سنة، حتى تحي البدع، وتموت السنن "( ابن الوضاح القرطبی نے کتاب " البدع والنھی عنہا " میں اس کی تخریج کی ہے: ص: 45)۔ جوں جوں لوگوں پر زمانہ دراز ہوتا جائے گا بدعتیں ایجاد کرتے جائیں گے، سنتیں مٹتی جائیں گی، یہاں تک کہ بدعتوں کا عروج ہوگا، اور سنتوں کا جنازہ نکلتا جائے گا ۔
• لہذا سنت اس معنی میں ان تمام اعتقادات، اعمال اور اقوال کو شامل ہے ،جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاء راشدین، اور صحابہ کرام-رضی اللہ عنہم- قائم تھے۔

ثانياً: جماعت کی تعریف
أ- جماعت کا لغوی معنی
• "الجماعة" یہ " الجمع " مأخوذ ہے ، جس کا معنی ہے کسی چیز کے بعض حصے کو بعض سے ملا دیا جائے۔
ابن فارس فرما تے ہیں "الجميم ، والميم ، والعين أصل واحد يدل على تضام الشيء"(معجم مقاييس اللغة لابن فارس: 1/479). جميم، ميم ، اور عین ایک ایسی اصل ہے جو کسی چیز کے آپس میں ملنے پر دلالت کرتی ہے۔
اور جماعت: لوگوں کی بڑی تعداد کو کہا جاتا ہے، یا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی معاملے میں متفق ہوں، یا پھر اس گروہ کو کہا جاتا ہے جنہیں کوئی غرض اکٹھا کردے( لسان العرب لابن منظور: 8/53-60).
ب- جماعت کا شرعی معنی
جماعت کا اطلاق کئے معانی پر ہوتا ہے:
1- اہل اسلام میں سے ایک بڑی جماعت
اس کے قائل ہیں: عبد اللہ بن مسعود، ابو مسعود انصاری
2- علماء مجتہدین کی جماعت
اس کے قائل ہیں: عبد اللہ بن مبارک، اسحاق بن راہویہ، امام ترمذی، امام کرمانی، امام شاطبی، اور علامہ صدیق حسن خان وغیرہم.
3- صحابہ کرام - رضی اللہ عنہم
اس کے قائل ہیں:عمر بن عبدالعزیز، امام بربہاری
4- جماعت اہل اسلام
اس کے قائل ہیں:امام شافعی
5- مسلمانون کی وہ جماعت جو کسی امیر پر متفق ہو
اس کے قائل ہیں:امام طبری، اور عبد الرحمن بن حسن آل شیخ
• صحیح بات یہ ہے کہ یہ سارے معانی متقارب ہیں، یہ کوئی اختلاف تضاد نہیں بلکہ اختلاف تنوع ہے.
لہذا جماعت سے مراد: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ان کے صحابہ کرام - رضی اللہ عنہم- تابعین، اور تبع تابعین- رحمہم اللہ- ہیں(مفهوم أهل السنة والجماعة، دكتور ناصر العقل ص: 54).

ثالثاً: اہل السنہ والجماعہ کی تعریف
• " أهل الشىء " سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی چیز کے سب سے زیادہ حقدار ہوتے ہیں ۔
ماہرین زبان کہتے ہیں:" أهل الرجل: أخص الناس به، وأهل البيت: سكانه ، وأهل الإسلام: من يدين به"(معجم مقاييس اللغة لابن فارس: 1/150).
"أهل الرجل" يعنی: لوگوں میں جو سب سے زیادہ قریب و خاص ہو، اور"أهل البيت " سے مراد اس کے باشندے ہوتے ہیں، اور "أهل الإسلام" سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین اسلام کی پیروی کرتے ہیں.
• "أهل" " سنت" اور "جماعت "کے معانی جاننے کے بعد ہم "أهل السنة والجماعة " كی تعریف میں یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اصول و فروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور ان کے صحابہ کرام کے منہج کی پیروی کرتے ہیں(الاعتصام للشاطبي: 1/28).
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ گروہ ہے جو اعتقاد، اور قول و فعل کے اعتبار سے اس راستے کے پیروکار ہیں جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم، اور ان کے صحابہ کرام - رضی اللہ عنہم- قائم تھے(رسائل في العقيدة للشيخ ابن عثيمين، ص:53).
اس لئے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے "فرقہ ناجیہ" کے بارےمیں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں ایک بار فرمایا اس سے مراد وہ گروہ ہے جس کا طریقہ وہی ہوگا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام - رضی اللہ عنہم- کا طریقہ ہے، اور دوسری دفعہ فرمایا کہ اس سے مراد "جماعت " ہے۔
" أهل السنة والجماعة " کی تعریف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے قول وعمل اور اعتقاد میں ظاہری و باطنی طور پر اتباع سنت اور اس کے تقاضے پر عمل کرنے میں اتفاق رکھتے ہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ- رحمہ اللہ - فرماتے ہیں: اس باب میں اور اس کے علاوہ دوسرے ابواب میں اہل السنہ و الجماعہ کا وہی مذہب ہے جس پر کتاب وسنت دلالت کرے، اور جس مذہب پر مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین، اور صحیح طریقے پر ان کے پیروکار قائم تھے.."(مجموع الفتاوى:8/449).
امام ابن کثیر -رحمہ اللہ- فرماتے ہیں کہ:" اہل سنت والجماعہ؛ اللہ کی کتاب و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے والے ہیں، اور اس منہج پر قائم ہیں؛ جس پر صدر اول یعنی صحابہ و تابعین، اور پرانے ونئے زمانے کے آئمہ مسلمین گامزن ہیں...(تفسير ابن كثير:6/317).
شیخ رشید رضا -رحمہ اللہ- فرماتے ہیں کہ:" اہل سنت و الجماعہ کا مذہب وہی ہے جس پر سواد اعظم یعنی صحابہ کرام، علماء تابعین،اور ائمہ حدیث وفقہ، جنہوں نے کتاب وسنت کے نصوص کو لازم پکڑنے میں اتباع کی ہے....(تفسير المنار:7/460).

تنبیہ:
جماعت سے مراد نہ تو عوام الناس ہے اور نہ ہی ان کی اغلبیت، جب تک کہ حق پر ان کا اتفاق نہ ہو جائے ۔ اسی لئے جماعت کا شرعی مفہوم یہ ہے کہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لیا جائے، گرچہ اس میں کوئی اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ عبداللہ بن مسعود- رضی اللہ عنہ- فرما تے ہیں:" إنما الجماعة ما وافق الحق ، وإن كنت وحدك " جماعت وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں موافق ہو، اور اگرچہ تم اکیلا ہی کیوں نہ ہو ۔ اور عبدالرحمن بن إسماعيل- جو ابن شامہ سے مشہور ہیں- (ت 665ھ) - رحمہ اللہ- فرما تے ہیں "وحيث جاء الأمر بلزوم الجماعة فالمراد به لزوم الحق وأتباعه ، وإن كان المتمسك به قليلا، والمخالف كثيرا ، لإن الحق الذي كانت والجماعة الأولى من النبي -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه - رضي الله عنهم -، ولا تنظر إلى كثرة أهل الباطل بعدهم ". اور جیسا کہ جماعت کو لازم پکڑ نے کا حکم آیا ہے تو اس سے مراد حق اور اہل حق کے راستے کو لازم پکڑنا ہے، اور اگرچہ متمسکین کم ہوں، اور مخالفین زیادہ ہوں، اس لیے کہ حق وہی ہے جس پر نبی کریم - صلی اللہ علیہ وسلم - اور صحابہ کرام کی پہلی جماعت قائم تھی، اور ان کے بعد اہل باطل کی کثرت تعداد کا کوئی اعتبار نہیں۔( الباعث على إنكار البدع والحوادث لأبي شامة ص: 34).

رابعا: مصطلح أهل السنة والجماعة کا استعمال
• جب بدعتیں وجود میں آئیں تو آئمہ سلف نے بدعتیوں سے تمییز کے لئے خود کو اہل اسنت والجماعہ کہا جب کہ بدعتیوں کو اہل بدعت والضلالہ کہا.
مصطلح "اہل السنہ" کا استعمال سب سے پہلے محمد بن سیرین (ت110ھ) - رحمہ اللہ - نے کیا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:" لوگ اسناد کے بارے میں سوال نہیں کیا کرتے تھے، مگر جب فتنہ واقعہ ہوا؛ تو(اسناد کے حوالے سے) کہنے لگے اپنے رجالِ(سند) بیان کرو، پھر یہ دیکھا جانے لگا کہ روایت کرنے والے اہل السنہ میں سے ہیں تو ان کی حدیث لی جاتی، اور اہل البدعہ میں سے ہیں تو ان کی حدیث نہیں لی جاتی... "(دیکھیں:مقدمہ صحیح مسلم [1/11] ).
نوٹ: یہاں فتنہ سے مراد: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے (المفهم لما أشكل من تلخيص صحيح مسلم[1/40]).
ابو ایوب سختیانی (ت131ھ) - رحمہ اللہ - فرماتے ہیں:" مجھے کسی اہل السنہ کی موت کی خبر دی جاتی ہے، تو ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنے جسم کا کوئی حصہ گم پا رہا ہوں"(شرح اعتقاد أهل السنة والجماعة[1/60]).
عمرو بن قیس فرماتے ہیں:" جب کسی نوجوان کو دیکھو کہ اس کی ابتدائی نشو و نما اہل سنت و الجماعہ کے ساتھ ہوئی ہے تو اس سے امیدیں رکھو، اور جب اسے اہل بدعت کے ساتھ دیکھو تو اس سے امیدیں وابستہ نہ رکھو، کیونکہ کسی نوجوان پر اعتبار اس کی ابتدائی نشو و نما کی بنا پر ہوتا ہے"(الإبانة الكبرى لابن قطة:1/205).
تنبیہ:
یہ بات مشہور ہے کہ سب سے پہلے عبد اللہ بن عباس - رضی اللہ عنہما- نے اس آیت کریمہ{يوم تبيض وجوه وتسود وجوه} کی تفسیر میں کہا کہ:{یوم تبیض وجوہ} سے مراد : اہل سنت و الجماعہ ہیں، جبکہ{ یوم تسود وجوہ } سے مراد: ہل بدعت والضلالہ ہیں(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي:1/79).
مگر یہ اثر ضعیف ہے.
اس کے بعد بہت سے علماء سلف نے مصطلح اہل السنہ او الجماعہ کا استعمال کیا ہے، جن میں سے چند اقوال یہ ہیں:
1- امام طبری -رحمہ اللہ - فرماتے ہیں:" وهو ديننا الذي ندين الله به، وأدركنا عليه أهل السنة والجماعة" اور یہی وہ دن ہے جس کے ذریعہ ہم اللہ کی اطاعت کرتے ہیں، اور اسی(منہج) پر ہم نے اہل السنہ والجماعہ کو پایا ہے(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:1/207).
2- امام ترمذی-رحمہ اللہ- فرماتے ہیں:" هكذا قول أهل العلم من أهل السنة والجماعة.." اسی طرح اہل السنہ والجماعہ میں سے اہل علم کا (یہ) قول ہے(سنن الترمذي:3/42).
3- امام طحاوی-رحمہ اللہ- فرماتے ہیں:" هذا ذكر بيان عقيدة أهل السنة والجماعة ....." یہ عقیدہ اہل السنہ والجماعہ کے بیان کا ذکر ہے(متن العقيدة الطحاوية،ص:31).
4- امام ابوبکر اسماعیلی- رحمہ اللہ- فرماتے ہیں :"أن مذهب أهل الحديث أهل السنة والجماعة الإقرار بالله وملائكته وكتبه ورسله ...." بے شک اہل حدیث اہل السنہ والجماعہ کا مذہب یہ ہے کہ اللہ(کی ذات، افعال، اسماء وصفات، اور عبادات)، اور اس کے فرشتوں، اور اس کی(طرف سے نازل کردہ) کتابوں، اور اس کے (بھیجے ہوئے) رسولوں کا اقرار(دل، زبان اور اعضاء وجوارح سے) کیا جائے(اعتقاد أئمة الحديث،ص:49).
5- امام بیھقی- رحمہ اللہ - فرماتے ہیں:" هذا الذي أودعنا الكتاب اعتقاد أهل السنة والجماعة وأقوالهم.." یہی وہ (عقیدہ) ہے جو کتاب نے عطاء کیا ہے؛ (وہ) اہل السنہ والجماعہ کا اعتقاد اور ان کے اقوال ہیں(الاعتقاد للبيهقي،ص:377).

خامساً: اہل سنت و الجماعہ کے چند خصائص
1- کتاب و سنت کی اتباع کرنا
2- تمام نصوص میں طریقہ جمع کو اختیار کرنا
3- اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جن اسماء و صفات کو ثابت کیا ہے انہیں بغیر تحریف و تعطیل، اور بغیر تکییف و تمثیل کے ثابت کرنا
4- منہج سلف - صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم، تابعین اور تبع تابعین رحمة الله عليهم- کا التزام کرنا
5- رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی معصوم نہیں
6- نقل کو عقل پر مقدم کرنا
7- بدعت اور اہل بدعت سے دوری اختیار کرنا
8- امراء وحکماء کے لئے سمع و طاعت بجا لانا
9- دین میں کسی بھی ایسے مسائل یا قواعد کو شامل نہ کرنا جو نصوص شرعیہ سے معارض ہوں
10-اجتماعیت، اتحاد و اتفاق کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا، فتنے، اور اختلاف و انتشار سے اجتناب کرنا.
[نوٹ: اس مضمون کا بیشتر حصہ میرے استاذ محترم دکتور عبد القادر بن محمد عطا صوفی /حفظہ اللہ کی کتاب المفيد في مهمات التوحيد سے مستفاد ہے].
 
Top