- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
ایک نیا دوراور مختلف علوم سے دل چسپی
وجوہات واسباب:
چوتھی صدی ہجری کا آغاز ہوتے ہی علم حدیث، ضعف کا شکار ہوتا گیا۔اس کی ایک و جہ منطق وفلسفے کی سرکای سر پرستی تھے۔ دوسری اہم وجہ باب ِاجتہاد بند ہونے کی صدا اور تقلید ِشخصی کی گرفت تھی۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس انحطاط کی ابتداء رواۃ کے نویں طبقہ کے زمانے کو قرار دیا ہے۔یاد رہے نویں طبقے کا آخری راوی ابومحمد الفضل بن محمد بن المسیب الشعرانی (م: ۳۸۲ھ) ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ۲؍۶۲۷)۔عہد مامون میں یونانی فلسفہ مسلمانوں میں در آیا۔جس میں الہیات کا ذخیرہ جو دراصل ان کا علم الأصنام تھا اور مفروضات اور تخیلات کا طلسم بھی۔ جسے انہوں نے فلسفیانہ زبان اور علمی اصطلاحات میں منتقل کردیا تھا اس کے تراجم نے مسلمانوں کوبقول امام الجوینی(م: ۴۷۸ھ) ہفوہ (lapse) زلل (Oversight)اور خطل (Prattle)کے سوا کچھ نہیں دیا۔وہ فرماتے ہیں:
وَلَوْ قُلْتُ: إِنَّہُ مُطَالَبٌ بِمَغِبَّاتِ الْبِدَعِ وَالضَّلاَلاَتِ، فِی الْمَوْقِفِ الأَہْوَلِ فِی الْعَرَصَاتِ، لَمْ أَکُنْ مُجَازِفاً۔
اگر میں یہ کہوں کہ اس ترجمہ سے بہت سے انتہائی اہم ایشوز پر ضلالت اور بدعات کے نتائج مرتب ہوئے ہیں تو میں غلط نہیں ہوں گا۔ (الغیاثی از ابن الجوینی:۱۹۳)
٭… اسلاف جس طرح فطرت سلیمہ پر قائم تھے اس صدی میں فقہاء ومحدثین کے مابین وہ خوبی بھی نہ رہی۔امام خطابی ؒ اپنے دور کے اہل علم کو دو گروہوں میں تقسیم پاتے ہیں۔معالم السنن( ۱؍۵۔۱۰) میں وہ لکھتے ہیں:
اصحابِ حدیث واثر اور اہلِ فقہ ونظر۔دونوں اخوان متہاجر ہیں۔پہلا طبقہ روایات کو ہدف بنا کے تمام طرق جمع کرتا ہے اور غریب وشاذ حدیث کی طلب میں رہتا ہے خواہ ان میں اکثرموضوع ومقلوب ہی کیوں نہ ہوں۔ انہیں نہ متونِ حدیث کا خیال ہے نہ معانیٔ حدیث کا۔رہا دوسرا طبقہ تو ا ن کی اکثریت شاذ ہی کی دلدادہ ہے ۔صحیح وسقیم میں تمیز کرنا تو بڑے دور کی بات ہے۔اصول فقہ کے معانی کو ادھر ادھر سے اکٹھا کرکے اسے علل کہتے ہیں ۔ دوران اختلاف انہی علل کا استعمال ان کاسب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مزید برآں شیطان نے بھی انہیں علم عقلی کا پہاڑ اور حقیقی علم سے مالا مال ہونے کا دھوکا دے رکھا ہے۔
بہرحال بقول امام خطابیؒ۔۔علوم سنت میں انحطاط کا سبب، علماء کا علم کلام کی طرف مائل ہونا ہے۔اس لئے اعتزالی شبہات کو سمجھا جاسکا اور نہ اعتزالی اثرات کو سنت سے پرے رکھا جاسکا۔اس اثر نے رفتہ رفتہ طلاب علم کو اپنی طرف کھینچا جنہیں فلسفۂ یونان ایسا مرغوب ہوا کہ سبھی اس کی مصطلحات کے گرویدہ ہوگئے۔جوبتدریج علوم سنت ، اصول حدیث اور اصول فقہ،میں بھی مستعمل ہونے لگیں۔جب کہ ماضی میں یہ دونوں علوم اس سے اپنا دامن بچاتے رہے۔ اس موضوع پر مزید روشنی ہم متواتر کے باب میں ڈال چکے ہیں۔چوتھی صدی ہجری کے نقاد حدیث امام دارقطنی رحمہ اللہ(م: ۳۸۵ھ) ہیں۔جو کہا کرتے:
مَا فِی الدُّنْیَا شَئٌ أَبْغَضُ إِلَیَّ مِنْ عِلْمِ الْکَلَامِ۔
دنیا میں علم الکلام سے بڑھ کر مجھے کوئی علم مبغوض نہیں ملتا۔
امام دار قطنیؒکے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَمْ یَدْخُلِ الرَّجُلُ أَبَداً فِی عِلْمِ الْکَلَامِ، وَلاَ الْجِدَالِ، وَلاَ خَاضَ فِی ذَلِکَ، بَلْ کَانَ سَلَفِیاً۔
وہ کبھی علم الکلام کے موضوع میں حصہ لیتے اور نہ ہی جھگڑتے اور نہ ہی کبھی اس میں دل چسبی ظاہر کی بلکہ وہ تو سلفی تھے۔