• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:12۔ سلطان کے قاتل محارب ہیں، ان پر حد جاری کی جائے گی

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

سلطان کو قتل کرنے والے محارب ہوں گے جن پر حد جاری کی جائے گی یا ان کا معاملہ مقتول کے ورثاء کے اختیار میں ہو گا؟ جب سلطان {حاکمِ وقت} یا اُس کا نائب حد جاری کرنے کے لیے قاتل کو طلب کرے اور اس کے قبیلہ اور خاندان کے لوگ اس کی حمایت کریں اور لڑنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ عام مسلمانوں کافرض ہوگا کہ ان سے قتال و جنگ کریں یہاں تک کہ مسلمان اس پر قابو پالیں ۔

یہ تمام باتیں اس وقت ہیں جبکہ ان پر قدرت و قابو پاسکیں۔ جب سلطان یانائب سلطان اور حاکم بغیر کسی قسم کی زیادتی کے قاتلینِ سلطان پر حد جاری کرنا چاہیں اور اُنہیں حاضر ہونے کا حکم دیں اور دوسرے لوگ ان کی حمایت و طرفداری کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو عام مسلمانوں پر واجب و فرض ہے کہ ان کے مقابلہ میں جہاد و قتال اور جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یہاں تکہ کہ مسلمان ان سب پر قابو پالیں {اور} تمام علماء امت کااس پر اتفاق ہے۔

اور اگر قتل کے بغیر وہ اطاعت قبول نہیں کرتے اور اس کی نوبت ہی آجائے تو یہ بھی کر گذریں اور پورا پورا مقابلہ کریں، ان کوقتل کریں {اور اُن} سب کو قتل کیا جائے اور جیسے بھی ممکن ہو اُن کی گردنیں اُڑا دیں اور جو بھی اُن کی حمایت اور اعانت و امداد کریں اُنہیں {بھی} قتل کر ناشروع کردیں۔ یہ قتال و جنگ ہے اور وہ حد جاری کرنے کا مسئلہ ہے۔ شرائع اسلام کا مقابلہ کرنے والوں کا مسئلہ زیادہ اہم اور زیادہ مؤکد {ضروری} ہے۔ یہ لوگ گروہ بندی اورجتھہ سازی میں اس لیے مشغول ہوگئے ہیں کہ لوگوں کو خراب کریں، لوگوں کا مال لوٹیں، زراعت اور نسل انسانی کو ہلاک کریں۔ ان کا مقصود یہ نہیں کہ دین کو قائم کریں اور ملک و ملت کی خدمت کریں۔ ان لوگوں کاوہی حکم ہے جو محاربین کا ہے، جو کسی قلعے یا کسی غار یا کسی پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی وادی وغیرہ میں پناہ لے کر گذرنے والوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، راہزنی کرتے ہیں۔ جب انہیں ولی الامر اور حاکم کی فوج کہتی ہے کہ اطاعت کرلو اور توبہ کرو، معافی مانگو اور مسلمانوں کی جماعت میں داخل ہوجاؤ، حد قائم و جاری کرنے میں سلطان، ولی الامر اور حاکم کی اطاعت کرو، تویہ لوگ قتل و جنگ شروع کردیتے ہیں اور مدافعت پر اُتر آتے ہیں۔ ان لوگوں کا حال ایسا ہی ہے جو حاجیوں وغیرہ کو راستوں میں لوٹتے ہیں اور ان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، راہزنی کرتے ہیں۔ یا اُن لوگوں کاسا ہے جو پہاڑوں وغیرہ میں چھپے رہتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں یا غاروں میں راہزنی ڈکیتی کی غرض سے چھپ کر بیٹھتے ہیں۔ جیسے وہ گروہ جو قطع طریق اور راہزنی کی غرض سے شام و عراق کے درمیان چھپے بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی ان لوگوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال ایسا نہیں ہے جیسا کفار کے مقابلہ میں جنگ و قتال ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ کفار نہیں ہیں، ان کا مال نہ لوٹا جائے جب تک کہ وہ ناحق نہ لوٹیں۔ اگر وہ لوگ لوٹیں تو ان پر ضمان لازم آئے گا اور اسی قدر ان کا مال لیاجائے گا جس قدر انہوں نے لوٹا ہے، اگرچہ معین طور پر لوٹنے والے ہاتھ نہ آئیں۔ اگر لوٹنے والے متعین طور پر معلوم ہوجائیں کہ فلاں شخص نے لوٹا ہے تو اصل لوٹنے والا اور اُس کی مدد کرنے والے، اُس کے حامی سب برابر ہیں جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں۔ لیکن جب متعین طور پر ثابت ہوجائے کہ فلاں شخص ہی نے مال لوٹا ہے تو اس پر ضمان لازم ہوگا اور جو کچھ لوٹا گیا ہے اُن کے مالداروں پر لادا جائے گا۔ اگر مال وغیرہ اُن سے حاصل کرنا مشکل و دشوار ہے تو مصالح مسلمین کے لیے جو گروہ قتل و جنگ میں مصروف ہے ان کا رزق اور روزینہ مقرر کر دیاجائے کیونکہ یہ مقابلہ اور جنگ اقامتِ حدود، حد جاری کرنے اور زمین میں فساد روکنے کی غرض سے ہے۔ اگر ان لوگوں میں سے کوئی سخت مجروح {زخمی} ہوجائے تو اُس کا علاج کیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے۔ اگر وہ لوگ بھاگ جائیں اور عوام الناس اُن کے شر سے محفوظ ہو جائیں تو ان کا تعاقب اور پیچھا نہ کیا جائے۔ ہاں اگر کسی پر حد جاری کرنا واجب ہے یا یہ کہ اُس کے بھاگنے سے خطرہ ہے تو تعاقب اور پیچھا کرنا لازمی و ضروری ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور جو لوگ ان میں سے اسیر و قید ہوئے ہیں اُن پر حد جاری کی جائے، جیسی دوسروں پر جاری کی گئی ہے۔ بعض فقہاء نے اس سے زیادہ سختی کی ہے کہ مال غنیمت اُن سے لیا جائے اور اُس کا خمس الگ نکالا جائے۔ لیکن اکثر فقہاء اس کے خلاف ہیں۔ لیکن اگر ان لوگوں نے کسی دوسری مملکت کی پناہ لی جو شریعت اسلامیہ سے خارج ہے اور مسلمانوں کے مقابلہ میں اس کی اعانت و امداد کی ہے تو بوجہ اس کے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال کیا ہے، ان کو قتل کیا جائے گا۔

لیکن اگر ایسے لوگ ہیں کہ ڈکیتی، راہزنی نہیں کرتے، بلکہ قافلوں کی پاسبانی اور نگہبانی کے معاوضہ میں بطور خراج و ٹیکس کے مقررہ رقم وصول کرتے ہیں جو مسافروں، جانوروں اور اونٹوں وغیرہ پر لیتے ہیں تو اُن لوگوں کا معاملہ چنگی وصول کرنے والوں جیسا ہو گا۔ اور چنگی وصول کرنے والوں جیسی عقوبت و سزا ہو گی۔ فقہاء نے ایسے لوگوں کو قتل کرنے کے جواز میں اختلاف کیا ہے کیونکہ وہ قطاع الطریق، ڈاکو اور راہزن نہیں ہیں۔ لیکن ان کے بغیر بھی راستہ جاری اور چالو رہتا ہے۔ باوجود اس کے ایسے لوگ ''اَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ'' ہوں گے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک غامدیہ عورت کے بارے میں فرمایا ہے:

لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَھَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَلَہٗ
اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر چنگی ٹیکس وصول کرنے والا ایسی توبہ کر لے تو اُس کی بھی مغفرت ہو جائے گی۔

اور ایسے لوگ جن کا مال برآمد کرتا ہے، اور مسلمانوں کی اجتماعی طاقت ان کی پشت پر ہے، اور محارب لوگوں سے لڑتی ہے، ان کے لیے مال قطعاً خرچ نہ کیا جائے جبکہ جنگ و قتل ان سے ممکن ہو۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ دَمِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ دِیْنِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ حُرْمَتِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ
جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں قتل ہوا وہ شہید ہے، جو شخص اپنی جان بچانے میں قتل ہوا وہ شہید ہے، جو شخص اپنا دین بچانے میں قتل ہوا وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے اہل و عیال کی حرمت بچانے میں قتل ہوا وہ بھی شہید ہے۔

فقہاء نے اس جگہ ''الصائل'' کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بلا تاویل، بلاولایت و حکومت کے ظلم کرتا ہے۔

جب اس کا دفعیہ بغیر جنگ و قتال کے نہیں ہو سکتا تو ان سے جنگ و قتال کیا جائے، اگر جنگ و قتال نہ کیا جائے، اور کچھ مال وغیرہ دے کر انہیں راضی کر لیا جائے تاامکان مال دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔

لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی کی حرمت پر حملہ کیا جائے، کسی کی محارم سے زنا کیا جائے، یا کسی عورت یا مملوک {غلام} لڑکے سے فجور و بدکاری کی جائے تو جان و مال سے تاامکان اس کی مدافعت کی جائے، اگر قتال و جنگ کرنا پڑے تو یہ بھی کرے، لیکن کسی طرح ایسے کام کی اجازت نہ دے۔ بخلاف مال دینے کے کہ یہ جائز ہے، کیونکہ مال کا خرچ کرنا جائز ہے اور اپنے ساتھ یا محارم عورتوں کے ساتھ فجور و بدکاری قطعاً جائز نہیں ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جب اس کا مقصود یہ ہو کہ کسی کو قتل کرے تو اس کے لیے اپنی جان کا بچانا لازم ہے اور یہ مدافعت اس پر واجب ہے، اس میں علماء کے اور امام احمد کے اور دوسروں کے مذہب میں دو قول ہیں۔ یہ اس وقت جبکہ لوگوں کا سلطان موجود ہو لیکن اگر العیاذ باﷲ عظیم فتنہ ہو، مثلاً دو مسلم سلطان باہم جنگ کرتے ہیں اور ملک کے لیے جنگ کر رہے ہیں جبکہ ان میں سے ایک دوسرے کے ملک میں داخل ہو گیا ہے اور تلواریں باہم چل رہی ہیں، ایسے فتنہ کے وقت اپنی جان بچانا ضروری ہے۔ تو ایسی صورت میں مسلمان کے لیے جائز ہے اپنی جان اُن کے حوالہ کر دے اور دونوں میں سے کسی کا ساتھ نہ دے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں اور دوسروں کے مذہب میں اس بارے میں دو قول ہیں۔

جب مسلمان حاکم وقت! محارب {لڑائی کرنے والے} حرامیوں، چوروں اور راہزنوں پر کامیاب ہو اور وہ مال وغیرہ لوٹ چکے ہیں تو سلطان کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں سے مال نکلوائے اور جن کا ہو اُن کو دیدے۔ اور ان محاربین پر حد جاری کرے، یہی حال اور یہی حکم چوروں کا ہے، اگر یہ لوگ مال حاضر کرنے میں تامل کریں اور مال کا ثبوت سلطان کو مل چکا ہے تو سلطان اُن کو اسیر و قید اور حبس کرے اور مار مارے اور مناسب عقوبت (جیل و قید و بند) اور سزا دے یہاں تک کہ جو کچھ اُن لوگوں نے لیا ہے وہ حاضر کر دیں، یا کسی کو اپنا وکیل بنا دیں کہ وہ لا کر مال حاضر کر دیں، یا جہاں مال چھپایا ہے اُس کی خبر دے دیں۔ جیسے حق واجب اور قابل ادا کو نہ دینے والے کو عقوبت و سزا دی جاتی ہے اور جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں عورت (بیوی) کو مارنے کا حکم دیا، جب وہ مرد کا (خاوند کا) حق ادا نہ کرے، اور عورت (بیوی) مرد سے سرکشی کرے۔ اور عقوبت و سزا صاحب مال کا حق ہے۔ تو یہ لوگ بدرجہء اولیٰ عقوبت و سزا کے حقدار ہیں اور زیادہ سزاوار عقوبت و سزا ہیں۔ اور پھر بھی اگر صاحب ِ مال ان کو بخش دے یا مصالحت کر کے عقوبت و سزا کو معاف کر دے تو یہ اُسے اختیار ہے۔ بخلاف حد قائم اور جاری کرنے کے کہ حد قائم اور جاری کرنا فرض ہے اور اُسے حد معاف کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کسی حال میں حق نہیں کہ وہ حد قائم کرنے سے روکے۔ اور امام، حاکم کے لیے یہ جائز نہیں کہ صاحب ِ مال کی بات کو پکڑے رہے کہ اس نے اپنا حق چھوڑ دیا، یا معاف کر دیا۔ اور اگر مال وہ خردبرد کر چکا ہے، یا کسی اور طریقہ سے تلف اور ضائع ہو گیا تو اس مال کی ضمانت لی جائے گی جس طرح کہ غاصب لوگوں سے ضمانت لی جاتی ہے۔ اور یہ قول امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کا ہے۔ اور جب تک اُسے عسرت و تنگی ہے آسانی اور سہولت ملنے تک مہلت دی جائے۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے عزم اور قطع ید (ہاتھ کاٹنا) دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ اور یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں یہ ضمانت صرف آسانی تک ہو گی۔ اور یہ قول امام مالک رحمہ اللہ کا ہے، اور سلطان کے لیے جائز نہیں کہ مال کے مالکوں سے ان محاربین {لڑائی کرنے والوں} کے مقابلہ کے لیے عوض کچھ لے، سلطان کو اپنے لیے بھی لینا جائز نہیں، نہ لشکر اور فوج کے لیے کچھ لینا جائز ہے۔ بلکہ اُن کا مقابلہ کرنا جہاد ہے۔ اور جہاد و غزوات کے لیے جہاں سے اُن کا خرچ دیا جاتا ہے وہاں سے اُن کا خرچ بھی دے۔ اگر ان مجاہدین کو زمینیں دی گئی ہیں، یا حکومت کی جانب سے انہیں اتنا مل رہا ہے کہ اُن کے لیے کافی ہے تو بس کرنا {یہی کافی } ہے۔ اور اگر کافی نہیں ہے تو مصالحت ِ قوم کے لیے جو صدقات وغیرہ جمع ہیں اُس میں سے بقدر کفایت ان کو کچھ دے دے کیونکہ یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اگر مسافر پکڑے گئے ہیں اور ان پر زکوٰۃ باقی ہے، مثلاً وہ تاجر ہیں اور چوروں کے نرغے میں پھنس گئے ہیں تو امام اور حاکم ان سے مال کی زکوٰۃ ضرور وصول کرے۔ اور اس زکوٰۃ کے مال کو اس جہاد فی سبیل اﷲ میں خرچ کرے جس طرح کہ محارب لوگوں کے مقابلہ میں لڑنے والوں کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔

اور اگر یہ گروہ باشوکت و عظمت اور قوی ہے جن کی تالیف قلبی ضروری ہے تو امام {یعنی گورنر} و حاکمِ {وقت} مال فئے اور جو مصالح معین کے لیے جمع ہے اس میں سے اور زکوٰۃ میں سے بعض رؤساء اور سرداروں کو دیدے تاکہ وہ باقی دوسروں {سرکشوں} کو حاضر کریں۔ یا یہ کہ وہ خود شرارت اور سرکشی چھوڑ دیں اور باقی میں ان لوگوں کا زور کم ہو جائے تو یہ اور اس جیسا کام کرنا امام {یعنی گورنر} و حاکمِ {وقت} کے لیے جائز ہے۔ اور یہ لوگ مؤلفۃ القلوب میں شمار کئے جائیں گے۔ اور امام احمد اور بہت سے ائمہ نے بھی یہی کہا ہے اور ظاہر کتاب و سنت اور اصول شریعت بھی یہی ہے۔

اور امام {یعنی گورنر} و حاکمِ {وقت} کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو اُن چوروں، راہزنوں اور ڈاکوؤں کے مقابلہ میں نہ بھیجے جو ضعیف اور کمزور ہوں۔ اور نہ ایسے لوگوں کو بھیجے جو مسافر ہیں اور پکڑے گئے ہیں یا تاجر و سوداگر اور مال دار ہیں ان سے تو مال وغیرہ وصول کر لیا جائے۔ بلکہ قوی و مضبوط اور امین لوگوں کو بھیجے مگر ہاں جبکہ قوی اور مضبوط اور امین آدمیوں کا ملنا دشوار ہو تو اس صورت میں کوشش کرے اور امثل فالا مثل کو بھیجے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بعض نائبین سلطان {وزیر اعظم، گورنر اور وزراء وغیرہ}، روسأ {بڑے بڑے جاگیردار، چوہدری اورخان} و {اعلیٰ سول و پولیس} حکام اور سردار و سالار {یعنی فوجی حکام} ظاہر و باطن میں حرامی {اسمگلروں} چوروں، ڈاکوؤں اور راہزنوں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں او ریہ ظاہر یاباطن میں ان کو شہہ دیتے ہیں۔ جو مال حرامی {اسمگلر} چور، ڈاکو اور راہزن لوٹتے ہیں اس میں ان کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ ماخوذین {جن کا مال لوٹا گیا ہے اُن} کو کچھ مال دے کر راضی کر لیتے ہیں اور بوجہ مجبوری وہ اُسے منظور بھی کر لیتے ہیں {لیکن} یہ ایک ایسا عظیم ترین جرم ہے کہ حرامیوں چوروں، ڈاکوؤں راہزنوں کے مقدم {یعنی پیشوا} اور سردار سے بڑھ کر ہے کیونکہ اُن کی مدافعت ممکن ہے اور اس {حاکم و بیورو کریٹ} کی مدافعت نہیں ہوسکتی۔ اور ایسے لوگوں کے متعلق ہی کہا جائے گا کہ جو اُن کی مددو معاونت کرتا ہے وہ عقوبت و سزا کا مستحق ہے۔ اگر یہ لوگ قتل کریں تو اُن کو قتل کیا جائے۔ یہی قول سیدنا امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور اکثر اہل علم کا ہے۔ اگر یہ لوگ مال {لے} لیں تو سیدھا ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹا جائے۔ اگر یہ لوگ قتل کریں اور مال لوٹیں تو اُنہیں قتل کیاجائے اور سولی پر لٹکا دیا جائے۔ اہل علم کے ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں اور قتل کر دیا جائے اور سولی پر لٹکا دیا جائے اور بعض کا قول ہے قتل اور سولی پر لٹکانے میں اُسے اختیار ہے کیونکہ اگرچہ اس {بیورو کریٹ} نے اس غارت گری اور لوٹ مار میں حصہ نہیں لیا اور نہ اسکی اجازت دی لیکن جب اُن {دہشت گردوں اور ڈاکوؤں} کو پکڑاگیا اور ان پر قدرت پالی گئی تو اُس وقت وہ {بیورو کریٹ} تقسیم مال میں شریک تھا اور بعض حقوق اور حدود کو اس نے بیکار کر دیا۔ جو شخص {یعنی حاکم، جاگیردار، بیورو کریٹ، اعلیٰ سول، پولیس یا فوجی حکام یا کوئی قاضی و جج} محارب {لڑائی کرنے والے، دہشتگرد}، چور یا قاتل وغیرہ کو جس پر حد جاری کرنا واجب ہے اللہ اور بندے کا حق ادا کرنا فرض ہے اور بلا عدوان زیادتی کے پوراپورا حق دیا جاسکتا ہے لیکن یہ {صاحب} ان کو پناہ دیتا ہے اس لیے کہ وہ مجرم ہے اور اُس کا شریک ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَعْنَ اللہُ مَنْ اَحْدَثَ حَدَثًا اَوْ اٰوٰی مُحْدِثًا(رواہ مسلم )
اللہ نے اس {شخص} پر لعنت بھیجی ہے جو جرم و گناہ کرے یا مجرم گنہگار کو پناہ دے۔

جب یہ ظاہر اور ثابت ہوجائے کہ فلاں آدمی نے محدث ـ{یعنی مجرم} کو پناہ دی ہے تو اُس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ مجرم کو حاضر کرے یا اُس کی خبر دے کہ فلاں جگہ فلاں جگہ و مقام پر ہے۔ اگر وہ حاضر کر دے یا خبر اور اطلاع دیدے تو ٹھیک وگرنہ اُسے حبس کی سزا دی جائے، اُسے مارا پیٹا جائے، بار بار پیٹا جائے یہاں تک کہ اصل مجرم پر قدرت و قابو حاصل ہوجائے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ادائِ مالِ واجب سے روکنے والے اور نہ دینے والے کو عتاب و سزا دی جائے۔ پس جن لوگوں کا حاضر کرنا ضروری اور واجب ہے اور جنہوں نے مال لوٹا ہے اور اس کا واپس کرنا اور دینا ضروری ہے اور اس سے وہ {حاکم، بیورو کریٹ، جج یا جاگیردار} منع کرتا ہے یا روکتا ہے تو ایسے شخص کو عقوبت و سزا دی جائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اگر کوئی شخص مال حق و مطلوب یا آدمی حق مطلوب کو جانتا ہے لیکن اسے روکتا اور چھپاتا نہیں ہے تو اس پر واجب ہے کہ مال مطلوب اور شخص مطلوب کا پتہ بتلا دے کیونکہ اس کے لیے اس کا چھپانا قطعاً جائز نہیں ہے کیونکہ یہ نیکی اور تقویٰ کا تعاون ہے اور نیکی و تقویٰ کا تعاون واجب ہے بخلاف اس کے کہ کوئی جان و مال باطل طریقہ پر مطلوب ہوتو اس کابتلانا اور اس کی خبر دینا قطعاً جائز نہیں کیونکہ یہ اثم و عدوان {گناہ اور فسق و فجور} کا تعاون ہے بلکہ اس کام کی مدافعت {یعنی اس سے روکنا اور رُکنا} واجب ہے کیونکہ مظلوم کی نصرت و اعانت واجب ہے جیسا کہ صحیحین {یعنی بخاری و مسلم} میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اُنْصُرْ اَخَاکَ ظَالِماً اَوْ مَظَلُوْمًا قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللہِ اَنْصُرُ مَظْلُوْمًا فَکَیْفَ اَنْصُرُ ظَالِمًا قَالَ تَمْنَعُہٗ مِنَ الظُّلْمِ فَذَالِکَ نَصْرُکَ اِیَّاہٗ
تم اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ میں نہ کہا یارسول اللہ! مظلوم کی امداد تو ٹھیک ہے ظالم کی امداد ہم کیسے کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اُسے ظلم سے روکو یہ تمہارے بھائی ظالم کی مدد ہے۔ (بخاری و مسلم)

صحیحین یعنی (بخاری و مسلم) میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو سات چیزوں کا حکم فرمایا اور سات چیزوں سے ہم کو منع فرمایا۔ ہم کو حکم دیا کہ ہم مریض کی عیادت کریں، جنازے میں شرکت کریں، چھینک کا جواب دیں، قسم کھانی ہو تو اُسے پورا کریں، کوئی دعوت دے تو اسے قبول کریں اور مظلوم کی نصرت و امداد کریں۔ اور ہمیں منع کیا ہے سونے کی انگوٹھی پہننے سے، چاندی کے برتن میں پینے، میاثرہ، ریشم، قسی، دیباج اور استبراق کے پہننے سے۔

پس اگر یہ جاننے والا جسے ٹھکانہ اور پتہ معلوم ہو اور وہ اُس کا ٹھکانہ اور پتہ بتلانے سے انکار کرتا ہے تو اُسے عقوبت و سزادینا جائز ہے خواہ سزا حبس ہو یا کوئی دوسری سزا یہاں تک کہ وہ اُس کا پتہ بتلا دے کیونکہ حق واجب سے وہ انکار کرتا ہے جس میں کسی کی نیابت نہیں چل سکتی تو اُسے عقوبت و سزا دی جائے جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔

اور اُسے عقوبت و سزا دینا اُس وقت تک جائز نہیں جب تک یہ معلوم اور ثابت نہ ہو جائے کہ یہ جانتا ہے اور ٹھکانے کی وہ خبر رکھتا ہے۔ اور یہ حکم تمام حکام کے لیے ضروری ہے، والی {یعنی گورنر} ہو، یا قاضی، یا دوسرا کوئی {سول، پولیس، فوجی افسر وغیرہ} ہو، سب پر لازم ہے کہ واجب کو چھپانے، قول و فعل سے روکنے والے کی تحقیق کریں۔ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ تم پر حق اور واجب تھا اور اس پر نہیں تھا۔ نہ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ایک کی سزا دوسرے کو دی جائے جیسا کہ اس آیت کے اندر وارد ہے:

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْریٰ (النجم :38)
کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا بار اپنی گردن پر نہیں لے گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے:

اَلاَ لاَ یَجْنٰی جَانَّ اِلَّا عَلیٰ نَفْسِہٖ
آگاہ رہو کہ کوئی بھی مجرم گناہ نہیں کرتا مگر اپنی جان پر۔

جیسے کہ غیر واجب الادا مال کا کسی سے مطالبہ کیاجائے کہ وہ اُس کا وکیل ہے نہ ضامن اور نہ ہی مال اُس کے پاس ہے۔ یا یہ کہ کسی کو قرابت داری یا پڑوسی کے جرم میں عقوبت و سزا دی جائے {جس طرح آجکل پاکستانی حکام و پولیس کر رہی ہے}۔ حالانکہ وہ خود کسی واجب کے ترک کرنے کا مجرم نہیں نہ اُس نے کوئی حرام کام کیا ہے۔ عقوبت و سزا اُس کو دی جائے جو اُس کا مستحق ہے جبکہ اُسے ظالم کا ٹھکانہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں چھپا ہے؟ اس کا اُسے علم نہیں تو عقوبت و سزا قطعاً جائز نہیں۔ ہاں اگر اُس کا پتہ اُسے معلوم ہے تو اُس پر حق ہے کہ وہ بتا دے اور ولی {قاضی و جج یا افسرِ اعلی} اور حاکم کا فرض ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اُسے منوائے یا جہاں مال رکھا ہے، جس سے مستحقین کے حقوق وابستہ ہیں اُس مقام کو وہ جانتا ہے اُس پر واجب ہے کہ وہ بتا دے۔

یہ اعانت و نصرت کتاب و سنت کی رو سے اُس پر واجب ہے اور اجماع اُمت سے اس پر واجب ہے۔

اگر یہ اس لیے بچتا اور رکتا یا انکار کرتا ہے کہ اُس سے ڈرتا ہے یا ظالم کی اعانت کی غرض سے کہ اُس کی حمایت مقصود ہے اس لیے بتلانے سے انکار کرتا ہے جیسا کہ اہل عصبیت ایک دوسرے کے لیے کرتے رہتے ہیں یا مظلوم سے عداوت و دشمنی ہے ا س لیے بتانے سے انکار کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَلَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنٰاَنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ للِتَّقْویٰ
اور لوگوں کی عداوت تمہارے اس جرم کا باعث نہ ہو کہ تم انصا ف نہ کرو انصاف کرو کہ شیوئہ انصاف پرہیز گاری سے قریب تر ہے۔ (مائدۃ:8)

یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے سے اعراض کرتا ہے یا عدل وانصاف سے اعراض کرتا ہے یا جبن {کم ہمتی} و بزدلی اور انتشار کی وجہ سے یا توہین دین کی غرض سے اجتناب کرتا ہے جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس کے دین اور اس کی کتاب کے تارک کیاکرتے ہیں۔ جب ایسے لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اٹھو چلو اللہ کی راہ میں جہاد کرو تو وہ زمین پر چپک کر رہ جاتے ہیں۔ بہر تقدیر ایسے لوگ عقوبت و سزا کے مستحق ہیں اور تمام علماء اس پر متفق ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جو لوگ اس راہ پر گامزن ہیں وہ حدودِ الٰہی کو معطل و بیکار کررہے ہیں اور اللہ کے بندوں کے حقوق ضائع کر رہے ہیں، اور {انہوں نے} اپنی قوت و طاقت کو ضعیف کر رکھا ہے، یہ اُس شخص کے مشابہہ ہیں جس کے پاس کسی ظالم و باطل کا مال ہے اور وہ عادل حکمران کو دینے سے انکار کرتا ہے۔ عادل حکمران اپنا دینی فرض ادا کرنا چاہتا ہے، اُس پر واجب نان و نفقہ ہے اُسے ادا کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً اہل و عیال، اقرباء اور غلاموں، چوپایوں، قریب کے رشتہ داروں پر جن کا نان و نفقہ اُس پر واجب ہے۔ اور مثلاً قاتل کے رشتہ داروں پر دیت واجب ہے، اُسے وصول کرنا۔ یہ اور اس قسم کے بہت سے حقوق پر عادل حکمران خرچ کرنا چاہتا ہے اور یہ {شخص} اُس سے منع کرتا ہے، روکتا ہے۔ پس اس قسم کی تعزیر و عقوبت اُس شخص کو دی جائے جس کے متعلق معلوم ہو کہ اس کے پاس ایسا مال یا جان موجود ہے جس کا دینا اور عادل حکمران کے سپرد کرنا ضروری ہے لیکن وہ نہیں دیتا اور حاضر نہیں کرتا جیسے کہ قطاع الطریق {یعنی} راہزن، ڈاکو اور چور آپس میں ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں کے لیے یہ عقوبت و سزا ہے اور عقوبت و سزا اُن لوگوں کے لیے ہے جن کے متعلق معلوم اور ثابت ہو کہ وہ اس قسم کے مال کو یا جان کو وہ جانتے ہیں کہ کہاں رکھا ہوا ہے اور کہاں چھپا ہوا ہے؟

لیکن اگر وہ اس لیے خبر نہیں دیتا یا حاضر نہیں کرتا کہ خود طالب اس پر تعدی اور ظلم کرے گا تو ایسا شخص محسن ہوگا اور وہ نیک کام کر رہا ہے لیکن اس کا امتیاز مشکل اور دشوار ہے کہ ناجائز حمایت کون سی ہے اور جو ظلم و تعدی سے بچنے کے لیے حمایت کی جاتی ہے وہ کونسی ہے؟ اس میں شبہ اور شہوت دونوں جمع ہوتے ہیں اور دونوں کا امکان موجود ہے۔ اس وقت حاکم کافرض ہے کہ حق و باطل میں امتیاز حاصل کرے۔ اکثر ایسا رؤسا {سرداروں}، دیہات اور شہر کے امراء میں ہوتا ہے۔ جب کوئی پناہ گیر ان کے پاس پہنچتا ہے اور پناہ مانگتا ہے یا کوئی قرابت دار پناہ مانگتا ہے یا کوئی دوست و احباب میں سے پناہ چاہتا ہے تو اُن کی رگِ حمیت بھڑک اٹھتی ہے اور حمیت جاہلیہ اور اُوباش لوگوں میں عزت و رسوخ اس گناہ پر انہیں برانگیختہ اور آمادہ کر دیتا ہے اور وہ ان کی حمایت و نصرت کے لیے آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔ اگرچہ وہ ظالم اور مظلوم دونوں کے حقوق پامال کررہے ہیں خصوصاً جبکہ مظلوم کوئی رئیس و امیر ہو۔ جو اُن کے ہم پلہ ہو تو مستجیرو پناہ گیر کو سپرد کرنا اپنے لیے عار اور موجب غیرت سمجھتے ہیں اور اپنی ذلت و توہین تصور کرتے ہیں او ریہ سمجھنا اور ایسا تصور کرنا علی الاطلاق محض جاہلیت ہے اور ایسے لوگ ہی دین و دنیا کے فساد اور تباہی و بربادی کا بڑے سے بڑا سبب ہیں۔ اور کہاگیا ہے کہ جاہلیت کی اکثر لڑائیاں اسی سبب سے ہوئی ہیں مثلاً ''حرب البسوس'' جو بنی بکر اور بنی تغلب میں ہوئی، اسی قسم کے تعصب اور اسی قسم کی عصبیت کی وجہ سے ہوئی ہے اور اسی قسم کی ''عصبیت'' جاہلیت تھی جس کی وجہ سے ترک اور تاتاری دارالسلام میں داخل ہوئے اور ماوراء النہر اور خراسان وغیرہ کے سلاطین اور بادشاہوں پر غلبہ و اقتدار پایا۔ اور یہی عصبیت جاہلیۃ تھی جس کی وجہ سے ان لوگوں نے مسلمانوں کے ملک پر غلبہ و اقتدار حاصل کیا اور ان پر بے پناہ مظالم ڈھائے اور اس قسم کے طبقہ کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ جو شخص اللہ کے لیے اپنی جان کو ذلیل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے عزت دیتا ہے جو شخص حق و انصاف کرتا ہے اور اپنی جان کو ہیچ سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے عزت و اکرام سے نوازتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اکرم الخلق وہ ہے جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے۔ اور جوشخص ظلم و جور کے ذریعہ عزت حاصل کرنا چاہتا ہے اور حق کو پامال کرتا ہے وہ گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے ذلیل کرتا ہے وہ خود اپنے آپ کو ذلیل و خوار کرتا ہے، اپنی جان کورسوا کرتا ہے اور اپنی توہین خود کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃُ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃَ جَمِیْعًا (فاطر:10)
جو شخص عزت کا خواہاں ہے تو عزت ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔

یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ وَ لِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (منافقون:8)
یہ منافق کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینے لوٹ کر گئے تو عزت والا ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ اصل عزت اللہ کی اور اس کے رسول کی اور مسلمانوں کی ہے مگر منافق اس بات سے واقف نہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَمِنَ النَّاسَ مَنْ یُّعْجِبْکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَ یُشْھِدُ اللہُ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِo وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَ یُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادُo وَ اِذَا قِیْلَ لَہٗ اِتَّقِ اللہِ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَھَنَّمَ وَلَبِئْسَ الْمِھَادِ (بقرہ:204 تا 206)

اے پیغمبر(ﷺ)! بعض آدمی بھی ایسے ہیں جن کی باتیں تم کو دُنیا کی زندگی میں بھلی معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنے دلی ارادے پر اللہ کو گواہ بناتے ہیں حالانکہ وہ تمہارے دشمنوں میں سب سے زیادہ جھگڑالو ہیں اور وہ جب لوٹ کر جائیں تو ملک میں دوڑتے پھرتے ہیں تاکہ اس میں فساد پھیلائیں اور کھیتی باڑی کو اور آدمیوں اور جانوروں کی نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو غرور ان کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے پس ایسے لوگوں کو جہنم کافی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔

پس واجب اور فرض ہے کہ جس کے پاس نوکر اور پناہ گیر پناہ کے لیے آئے وہ دیکھ لے اور تحقیق کر لے کہ واقعی وہ مظلوم ہے۔ اگر وہ مظلوم ہے تو اُسے پناہ دے۔ اور مظلوم ہونا، صرف دعوی کرنے سے کہ میں مظلوم ہوں، ثابت نہیں ہوتا۔ بسا اوقات ایک شخص ظالم ہوتا ہے اور وہ اپنے کو مظلوم بتاتا ہے اس لیے خصم {یعنی جھگڑنے والوں} سے دریافت کرے، دوسروں {لوگوں} سے معلوم کرے اور پوری تحقیق کرے۔ اگر تحقیق سے ثابت ہو کہ واقعی وہ مجرم ہے، ظالم ہے تو حکومت کے سپرد کر دے۔ اور ظلم سے اُسے روکے۔ اخلاق اور نرمی سے سمجھا بجھا کر راہ راست پر لائے اور اگر صلح ممکن ہو دونوں میں صلح و آتشی کر ادے۔ اگر عدل و انصاف کے ساتھ حکم و منصف کے ذریعہ فیصلہ ممکن ہو تو ا سکی کوشش کی جائے۔ اگر یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے تو قوت و طاقت سے کام لے۔

اگر معاملہ ایسا ہے کہ دونوں فریق ظالم ہیں او ردونوں مظلوم بھی ہیں جس طرح کہ نفس پرست، خواہشات کے پجاری ہوا کرتے ہیں، جیسے کہ قیس و یمن کے قبیلے۔ اور اکثر شہری اور دیہاتی دعویدار ایسے ہی ہوتے ہیں۔یا دونوں فریق ظالم نہیں ہیں بلکہ کسی شبہ یا تاویل یا غلطی کی وجہ سے باہم اُلجھ گئے ہیں، اگر ایسا ہے تو اس کی اصلاح کرے یا حکم {و جج} بنا کر فیصلہ کر لے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ اِنْ طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحَدَاھُمَا عَلَی الْاُخْریٰ فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللہِ فَاِنْ فَـآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَ اتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ

اور اگر تم مسلمانوں کے دو فرقے آپس میں لڑ پڑیں تو اُن میں صلح کرا دو۔ پھر ان میں ایک فرقہ اگر دوسرے پر زیادتی کرے تو جو زیادتی کرتا ہے اُس سے تم لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کریں۔ پھر جب وہ رجوع کر لیں تو فریقین میں برابری کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کو ملحوظ رکھو بے شک اللہ انصاف کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے۔ مسلمان تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں میل جول کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (حجرات:9تا10)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

لَاخَیْرَ فِی کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوَاھُمْ اِلَّامَنْ اَمَرَبِصَدَقَۃٍ اَوْمَعْرُوْفٍ اَوْاِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذَالِکَ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا(نساء 114)
ان لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر نہیں مگر ہاں جو خیرات یا نیک کاموں میں یا لوگوں میں میل جول کی صلاح دے اور جو شخص اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایسے نیک کام کرے گا تو ہم اس کو بڑا ثواب عطا فرمائیں گے۔

امام ابو داوٗد اپنی سنن میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں، آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ بھی عصبیت جاہلیہ ہے کہ ایک شخص حق بات پر اپنی قوم اور قبیلے کی نصرت و اعانت کرے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ''نہیں''۔ اور فرمایا:

وَلٰکِنْ مِنَ الْعَصَبِیَّۃِ اَنْ یَنْصُرُ الرَّجُلُ قَوْمَہُ فِی الْبَاطِلِ (رواہ ابو داوٗد)
عصبیت یہ ہے کہ آدمی باطل میں اپنی قوم کی اعانت و امداد کرے۔

اور نبی اکرم ﷺ کاارشاد ہے :

خَیْرُکُمْ اَلدَّافِعُ عَنْ قَوْمِہٖ مَالَمْ یَاثَمْ
تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی قوم کی مدافعت کرے اور اس میں وہ گنہگار نہ ہو۔

پھر آپ ﷺ نے فرمایا :

مَثَلُ الَّذِیْ یَنْصُرُ قَوْمَہُ بِالْبَاطِلِ کَبَعِیْرِ تُرَدِّیْ فِیْ بِئْرٍ فَھُوَ یَجُرُّ بِذَنْبِہٖ۔
جو شخص باطل پر اپنی قوم کی مددکرتا ہے وہ مثل اُس اونٹ کے ہے جو کنوئیں میں گر پڑا اور اپنی دم ہلا رہا ہے۔

اور آپ ﷺنے فرمایا:

مَنْ سَمِعْتُمُوْہٗ یَتَعَزّٰی بِعَزَائٍ الْجَاھِلِیَّۃِ فَاَعِضُّوْہٗ ھُنَّ اَبِیْہٖ وَلاَ تَکِنُوْا
جس شخص کے متعلق تم سنو کہ اس نے جاہلیت کا جھنڈا بلند کیا ہے تو اُسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکو کہ وہ پھولنے پھلنے نہ پائے۔

اور حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ بات جو دعوتِ اسلام اور دعوتِ قرآن و سنت سے خارج ہے، اب خواہ وہ نص کے اعتبار سے ہو، شہر اور آبادی کے لحاظ سے ہو یا جنس اور قوم یا مذہب کے اعتبار سے ہو۔ یا کسی دوسرے اعتبار سے ہو، وہ جاہلیت ہے اور جو ایسا کرتا ہے وہ جاہلیت کا جھنڈ الے کر کھڑا ہوتا ہے۔ بلکہ ایسا ہے جیسا کہ وہ آدمی مہاجر اور انصار میں باہم لڑ پڑے تو مہاجر پکار اٹھا یَالِلْمُھَاجِرِیْن! اور انصاری پکار اٹھا یَا لِلْاَنْصَارِا اور رسول اللہ ﷺکو کہنا پڑا:

اَبِدَعْوَی الْجَاھِلِیَّۃِ وَ اَنَا بَیْنَ اَظْھُرِکُمْ
کیاتم دعوائے جاہلیت لے کر کھڑے ہوگئے اور ابھی تو میں تمہارے درمیان موجود ہوں ۔

اور آپ ﷺ ان پر سخت ناراض ہوئے اور غصہ کا اظہار فرمایا۔
 
Top