• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:13۔ چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹا جائے

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:13۔

چور کی چوری شہادت یا اس کے اقرار سے ثابت ہوجائے تو بلا تاخیر قید میں نہ رکھتے ہوئے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ جرمانہ وغیرہ لے کر نہ چھوڑا جائے۔

چور کا ہاتھ کاٹنا فرض ہے اور یہ کتاب اللہ، کتاب الرسول ﷺ {یعنی صحیح احادیث مبارکہ} اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَہُمَا جَزَائً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللہِ وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمo وَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللہِ یَتُوْبُ عَلَیْہِ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (مائدہ۔ع:6)
مسلمانو! مرد چوری کرے یا عورت چوری کرے تو ان دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ حد اللہ کی جانب سے مقرر ہے اور اللہ زبردست واقف ہے تو جو اپنے قصور کے بعد توبہ کر لے اور اپنے آپ کو سنوار لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔

جب شہادت، گواہوں یا اُس {چور} کے اقرار سے چوری ثابت ہوجائے تو اُس پر حد جاری کرنے میں کسی قسم کی تاخیر جائز نہیں نہ اُسے قید میں رکھا جائے نہ کسی قسم کا فدیہ {یعنی ضمانت یا ضمانت قبل از گرفتاری کے مچلکے} لے کر اُسے چھوڑا جائے۔ اور خاص و معظم وقت میں اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے کیونکہ حد قائم کرنا عبادات میں داخل ہے جیسا کہ جہاد فی سبیل اللہ عبادات میں داخل ہے۔ اور یہی سمجھا جائے کہ حد جاری کرنا بندوں کے حق میں ایک بہت بڑی رحمت و رافت ہے۔ پس والی {یعنی جج} اور حاکمِ {وقت} حد جاری کرنے میں سخت گیر ہونا چاہیئے کہ وہ کسی قسم کی رحمت و رافت سے کام نہ لے اور حد کو معطل نہ کرے۔ اور اس کا قصد و اِرادہ یہ ہونا چاہیئے کہ میں حد اس لیے جاری کر رہا ہوں کہ یہ اللہ کی مخلوق پر رحمت و رافت ہے اور منکرات {برائیوں} سے لوگوں کو روک رہا ہوں۔ غصہ کی آگ بجھانا، اللہ کی مخلوق پر اپنی بڑائی اور بلندی جتلانا مقصود نہ ہو، جس طرح کہ باپ اپنے بیٹے کو ادب دیتا ہے، ادب سکھاتا ہے۔ اگر وہ اپنے لڑکے، لڑکی کی تادیب {یعنی سرزنش} سے اپنے آپ کو باز رکھتا ہے اور اُس کی ماں کے حوالہ کر دیتا ہے اور اس کی ماں نرم طبیعت اور ممتا کی وجہ سے ایسا برتاؤ کرتی ہے کہ لڑکا بالکل خراب ہوکر رہ جاتا ہے۔ باپ اُس کو ادب سکھاتا ہے، اُس کی اصلاح چاہتا ہے اور یہ عین رحمت و رافت ہے، لڑکے کی اصلاح ہے۔ اس کی عین خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تادیب {سرزنش} ایسی ہو جائے کہ پھر کبھی وہ سر نہ اُٹھائے اور دوسری مرتبہ ادب سکھانے کی ضرورت نہ رہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور {حد جاری کرنا} بمنزلہ اُس طبیب کے ہے جو مریض کو کریہہ اور کڑوی دوا دیتا ہے۔ یا بمنزلہ اس عضو کے ہے جو سڑ رہا ہے اور اُسے کاٹنے سے وہ خود بچ جاتا ہے۔ یا بمنزلہ پچھنے لگانے کے ہے کہ رگوں کو اس لیے زخمی کیاجاتا ہے کہ اُسے آرام ملے۔ یا بمنزلہ فصد کھولنے کے ہے بلکہ بمنزلہ اُس انسان کے ہے جسے کریہہ اور کڑوی دوا پلانے کے لیے سختی کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ مریض کو شفا اور آرام ملے اور اُسے راحت میسر آئے۔ یہی حال حدود جاری اور قائم کرنے کا ہے۔ محدود {جس پر حد نافذ کی گئی اس} کو راحت ملے، حدود مشروع اسی لیے کی گئی ہیں کہ محدود کو دنیا و عقبیٰ میں آرام و راحت میسر آئے۔

حدود جاری کرنے میں والی {قاضی و جج} اور حاکمِ {وقت} کی نیت، ارادہ اور قصد یہی ہونا چاہیئے کہ رعایا کی اصلاح ہو اور منکرات سے روکا جائے مخلوق اللہ کے لیے فائدہ پہنچانا اور نقصان سے بچانا مقصود ہو اور {حد جاری کرنے والا} حق سبحانہ و تعالیٰ سے حدود قائم اور جاری کرنے میں اللہ کی رضا مندی و رضا جوئی اور خوشنودی کا قصدو اِرادہ رکھے، اس کے حکم کی اطاعت و پیروی کا قصد وارادہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے قلوب کو نرم کر دے اور محدود {جس پر حد جاری کی گئی اس} کے لیے اسبابِ خیر جمع کر دے اس کے لیے جو عقوبت و سزا اور شرعی حد قائم کی گئی وہ اس کے لیے کافی ہو، وہ اس سے راضی رہے کہ اس کی تطہیر (یعنی گناہ سے پاکی) ہورہی ہے ایسا سمجھنا اور اس طرح حد کاجاری اور نافذ ہونا اللہ کا عین فضل و کرم ہے۔

جب حد نافذ کرنے والے حاکم و قاضی یا جج کی نیت خراب ہو، اس کی غرض غرور اور بڑائی ہو اور وہ اپنی ریاست و حکومت {کرسئ صدارت، وزارت یا چیف جسٹسی} قائم کرنا چاہتا ہے کہ لوگ اُسے بڑا سمجھیں، اُس کی اطاعت کے سامنے لوگ سر بسجود ہوجائیں، اس کے قصد و ارادہ کے مطابق مال دیں اور ہر طرح کا ایثار کریں تو معاملہ بالکل برعکس ہوجاتا ہے۔ اس کے اصل مقصد سے بہت دور ہو جاتا ہے اور سراسر حد جاری کرنے کے مقصد میں وہ غلط راہ اختیار کرتا ہے ۔

روایت کی گئی ہے کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلافت پر مامور ہونے سے پہلے مدینہ طیبہ میں ولید بن عبدالملک کے نائب {یعنی گورنر} تھے۔ رعایا اور عوام کی سیاست و اِصلاح بہت اچھی طرح کرتے تھے۔ حجاج بن یوسف عراق سے مدینہ طیبہ پہنچا۔ عراق میں یہ بڑا عذاب اور سختی دیکھ کر آیا ہوا تھا۔ مدینہ طیبہ کے باشندوں کو اس نے سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے متعلق پوچھا ''کیف ھیبۃ فیکم''؟ اس کی ہیبت تم میں کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا: ان کی ہیبت کا کیا پوچھنا! ہم اُن کی طرف نگاہ بھر کے دیکھ بھی نہیں سکتے۔ حجاج نے پوچھا ''کیف محبتکم لہ''؟ اُس سے تمہیں کیسی محبت ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: ''ھو احب الینا من اھلنا'' وہ ہمیں ہمارے اہل و عیال سے زیادہ محبوب ہیں۔ حجاج نے پوچھا ''فکیف ادبہ فیکم'' وہ تمہیں ادب کیسے سکھاتے ہیں؟ تو اُنھوں نے کہا تین کوڑوں سے لے کر دس کوڑوں تک ادب سکھانے کے لیے مارا کرتے ہیں۔ حجاج نے کہا یہ محبت، یہ ہیبت اور یہ ادب آسمان سے اُتری ہوئی ہے، اللہ کا حکم یہی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جب ہاتھ کاٹا جائے تو فوراً گرم تیل میں سینک دیا جائے۔ اور مستحب یہ ہے کہ اس کی گردن میں لٹکا دیاجائے۔ اگر دوسری مرتبہ چوری کرے تو اس کا بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اور اگر تیسری مرتبہ چوری کرے تو صحابہ y اور بعد کے علماء میں اختلاف ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تیسری اور چوتھی مرتبہ میں بایاں پاؤں اور دایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ یہ قول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے۔ اور مذہب شافعی رحمہ اللہ اور ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ دوسرا قول امام احمد رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ اُسے قید کر دیا جائے۔ اور یہ قول سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور کوفیوں کا ہے۔ اور ایک قول امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی ہے۔

ہاتھ اس وقت کاٹا جائے جبکہ چوری کا نصاب پورا ہو اور وہ ایک چوتھائی دینار یا تین درہم ہے۔ جمہور علماء اہل حجاز اور اہل حدیث کا یہی مسلک ہے۔ مثلاً امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ وغیرہ اور بعض علماء کا قول ہے: قطع ید یعنی ہاتھ کاٹنے کانصاب ایک دینار یا دس درہم ہے۔ اور صحیحین میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے مجن (ڈہال) کی چوری میں جس کی قیمت تین درہم تھی ہاتھ کاٹنے کاحکم دیا ہے اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں:

قَطَعَ سَارِقًا فِیْ مَجَنٍّ قِیْمَتُہ' ثَلَاثَۃَ دَرَاھِم ۔(رواہ مسلم)
آپﷺنے ایک ڈھال کی چوری میں جس کی قیمت تین درہم تھی ایک چور کا ہاتھ کاٹا۔

اور اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا:

قَطْعُ الْیَدِ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارِ فَصَاعِدًا
چوتھائی دینار یا اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جائے۔

صحیح مسلم کی روایت یہ ہے:

لَا تُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ اِلَّا فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا
چور کا ہاتھ اُس وقت تک نہ کاٹا جائے جب تک کہ ربع {4/1} دینار یا زائد نہ چرائے

بخاری کی ایک روایت میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:

اِقْطَعُوْا فِیْ رُبْعِ دِیْنَارِ وَلَا تَقْطَعُوْا فِیْمَا دُوْنَ مِنْ ذَالِکَ
ربع (چوتھائی) دینار میں ہاتھ کاٹو، اس سے کم میں نہ کاٹو۔ (رواہ البخاری)

اس وقت ربع دینار کی قیمت تین درہم کے برابر ہوا کرتی تھی اور دینار کی قیمت بارہ درہم ہوا کرتی تھی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور چور کو اس وقت تک چور نہیں کہا جاتا تھا کہ مال حفاظت میں رکھا ہوا نہ چرائے۔ جو مال کہ ضائع شدہ ہے، یا جنگل میں بلا احاطہ اور چار دیواری کے اس میں درخت لگے ہیں اور اس پر سے پھل پھول لیے جائیں یا جو چوپایہ بغیر چوپان کے ہو، اس کے مثل میں ہاتھ نہ کاٹا جائے لیکن لینے والے کے لیے تعزیر ضرور ہو گی۔ اور ڈبل جرمانہ دلوایا جائے گا، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔

اور اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ زیادتی کتنی دلوائی جائے۔ اور یہی قول امام احمد رحمہ اللہوغیرہ کا ہے۔ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے:

لَا قَطْعَ فِیْ ثَمْرَۃٍ وَلَا کَثَر (رواہ اہل السنن)
پھل میں اور پکی کھجور میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

اور عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ والد سے، دادا سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں میں نے قبیلہ بنی مزینہ کے ایک آدمی کو رسول اللہ ﷺ سے یہ پوچھتے سنا ہے: یَا رَسُوْلَ اللہِ جِئْتُ اَسْئَلُکَ عَنِ الضَّالَّۃِ مِنَ الْاِبِلِ میں اس لیے آیا ہوں کہ آپ سے گمشدہ اونٹ کے متعلق پوچھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

مَعَھَا حِذَائُھَا وَ سِقَئُھَا تَاْکُلُ الشَجَرَۃَ وَتَرِدُ الْمَائِ فَدَعُھَا حَتّٰی یَاتِیْھَا بَاغِیْھَا
اس کے ساتھ اس کے کھانے پینے کا سامان موجود ہے، درخت کھائے گا اور پانی پر اترے گا، اُسے چھوڑ دو تاکہ اس کو ڈھونڈنے والا اس تک آجائے۔

اس نے کہا:
فَاالضَّالَۃِ مِنَ الْغَنَمِ
گمشدہ بکری کے متعلق کیا ارشاد ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا:
لَکَ اَوْ لِاَخِیْکَ اَوْ لِلذِئْبِ تَجْمَعُھَا حَتّٰی یَاتِیْھَا بَاغِیْھَا
تیرے لیے ہو گا یا تیرے بھائی کے لیے یا بھیڑئیے کے لیے۔ اسے تم لے لو یہانتک کہ اس کا تلاش کرنے والا آجائے۔

اس نے کہا:
فَالْحَرِیْسَۃُ الَّتِیْ تُوْخَذُ مِنْ مَرَاتِعِھَا
حریسہ جو چرواہے سے لیا جائے؟

آپ ﷺ نے فرمایا:
فِیھَا ثَمَنُھَا مَرَّتَیْنِ وَضَرْبُ نَکَالٍ وَمَا اُخَذَ مِنْ عَطْنِہٖ فَفِیْہِ الْقَطْعُ اِذَا بَلَغَ مَا یُؤخَذُ مِن ذَالِکَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ
حریسہ میں دو چند قیمت اور تعزیر کی جائے اور جو اون اس سے لی جائے تو دیکھا جائے اگر وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچے تو اس میں ہاتھ کاٹا جائے۔

اس نے کہا: یارسول اللہ ﷺاگر پھل پھول لیے ہوں تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ اَخَذَ مِنْھَا بِفَمِہِ وَلَمْ یَتَّخِذْ خُبْنَۃً فَلَیْسَ عَلَیْہِ شَیْءٌ وَّ مَنِ احْتَمَلَ فَعَلَیْہِ ثَمَنُہٗ مَرَّتَیْنِ وَضَرْبُ نَکَالٍ۔ وَمَا اُخِذَ مِنْ اِجْرَانِہٖ فَفِیْہِ الْقَطْعُ اِذَا بَلَغَ مَا یُؤخَذُ مِنْ ذَالِکَ ثَمَنُ الْمِجَنِّ وَ مَالَمْ یَبْلُغْ ثَمَنُ الْمِجَنِّ فَفِیْہِ غَرَامَۃُ مِثْلَیْہِ وَ جَلَدَاتُ نَکَالٍ
جس شخص نے اس میں سے اپنے منہ سے لیا، اور خوشہ نہیں لیا تو اس پر کچھ نہیں اور اگر کچھ اپنے ہمراہ لے گیا تو دو چند قیمت اور تعزیر ہو گی۔ اور جو بڑا خوشہ لے گیا تو اگر وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے تو ہاتھ کاٹا جائے۔ اور اگر ڈھال کی قیمت کو نہیں پہنچتا تو دو چند نقصانی دلوائی جائے۔ اور اس پر کوڑوں کی تعزیر کی جائے۔ (رواہ اہل السنن)

اسی بناء پر آپ ﷺ نے فرمایا ہے:
لَیْسَ عَلَ الْمُنْتَھِبِ وَلَا عَلَی الْمُخْتَلِسِ وَلَا الْخَائِنِ قطعٌ
لوٹنے والے اور اُچکے اور خائن کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔

جیب کترے، رومال اور آستینوں سے {یعنی جیبوں سے مال و دولت} لے جائیں تو اس میں ہاتھ کاٹا جائے گا اور یہی قول صحیح ہے۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
ہمارایہ شعوری ایمان ہےکہ اسلامی قوانین سے بڑھ کر کوئی قانون نہیں ہوسکتا۔اسلام ہی ایک ایسا قانون دیتاہےجو تمام تر معاشرتی ونفسیاتی تقاضوں کوبہترطریقےسے پوراکرسکتاہے۔اور اسلامی قانون ہی ایک ایسا قانون ہے جوانسان کو ہر طر ح کی غلامی سے نجات دلا کر اسے فطری حدودکےاندرآزادی فراہم کرتاہے۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
کیلانی بھائی بہت بہت شکریہ
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہماری زندگیوں میں ہمارے ہاتھوں اسلامی قانون نافذ کروا دے۔ آمین
آصف بھائی یہ توبہت بلندرتبہ ہےجنہیں مل جائے ان کےنصیب کےکیا کہنے۔ویسے ہم تویہ دعاکرتےہیں کہ یااللہ کم ازکم ہمیں ساری زندگی اپنےاسلام کانمائندہ اور ریپریزنٹیٹربناکررکھناتاکہ روزمحشر اس صدی کےاکثرلوگ مغربی اوربرٹش قانون یا کسی دیگرقانون کی نمائندگی سے بھراہوادفترتیرےپاس لے کرآئیں تو ہم سرافتخاردرازکرکےکہیں ہم بھی ہیں جوان کےدرمیان اسلامی قوانین کےپرچارک تھے۔
 
شمولیت
جون 13، 2019
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
جزاکم اللہ خیرا کیلانی بھائی اور محمد آصف بھائی
میں نے ساری بات چیت پڑھی ہے مگر ایک بات کہنا چاہوں گا کہ فَاقْطَعُوْآ کا جو مطلب آپ لوگ لے رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں کلائی پر کاٹ کا نشان لگایا جاتا تھا۔ یعنی اوپری جلد گولائی میں ایک سنٹی میٹر سے کم۔ ہاتھ ہڈی سمیت نہیں کاٹتے تھے۔ وہ زخم تو بعد میں بھر جاتا تھا مگر زخم کا گولائی نشان باقی رہ جاتا۔ یہ چیزیں تراجم اور تفاسییر لکھنے والوں نے وقت کے ساتھ بدل دی ہیں اور انہیں شدت میں لے گئے ہیں۔ ایسے ہی کوڑے مارنے کی سزا ہے۔ استاد کے ہاتھ چھڑی یا پولیس کا ڈنڈا اسی کی مثالیں ہیں۔ کوڑا اتنا سخت نہ ہو کہ کھال ہی ادھیڑ دے یا زخم کا نشان چھوڑے۔ کوڑے وقفوں سے پانچ یا دس کر کے لوگوں کے سامنے مختلف دنوں میں تعداد پوری کی جائے نہ کہ بندہ ہی اپاہج یا مفلوج کر دیا جائے۔ ان سزاؤں کا مقصد عبرت اور اصلاح ہے نہ کہ انہیں تکلیف میں مبتلا کرنا۔ ایسے ہی شادی کے معاملہ میں بچہ پیدا کرنے والی عورت بمقابلہ بانجھ عورت والی احادیث ہیں جن کا غلط ترجمہ اور تفسیر کر کے بہبود آبادی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے حالانکہ قرآن پاک میں واضح حکم ہے کہ بچے کی پیدائش میں وقفہ کیا جائے نہ کہ پہلے بچے کا حق چھین کر بچوں کی لائن لگا دی جائے۔ تراجم لکھنے والوں نے کثرت سے مراد ایسی دی کہ بے تحاشہ لاتعدا بچے پیدا کئے جاتے ہیں اور کہیں پانچ، چھ گیارہ یا انیس بچوں پر بریک لگاتے ہیں حالانکہ انکے پاس وسائلاور جگہ بہت کم ہوتے ہیں

Sent from my SM-A605FN using Tapatalk
 
Last edited:
Top