• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:15۔ شراب نوشی کی حد

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
شراب نوشی کی حد سنت نبوی ﷺ اور مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے جو شراب پئے اُسے کوڑے لگوانا چاہیے۔ پھر پیئے پھر کوڑے لگوانا چاہیے۔ نبی کریم ﷺسے ثابت ہے کہ آپ ﷺنے شرابی کو بار بار کوڑے لگوائے۔ اور آپ ﷺکے خلفاء اور مسلمانوں کا اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے۔

شراب نوشی کی حد: شراب نوشی کی حد سنت نبوی اور مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے۔ اہل سنن (یعنی امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہما اللہ دونوں) نے مختلف وجوہ اور مختلف طریقوں سے روایتیں کی ہیں۔ جن میں اس کی وضاحت کی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:

مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوْہُ ثُمَّ اِنْ شَرِبَ فَاجْلِدُوْہُ ثُمَّ اِنْ شَرِبَ فَاجْلِدُوْہُ ثُمَّ اِنْ شَرِبَ الرَّبِعَۃَ فَاقْتُلُوْہُ
جو شخص شراب پیئے، اُسے کوڑے لگاؤ۔ پھر پیئے پھر کوڑے لگاؤ۔ پھر پیئے پھر کوڑے لگاؤ۔ پھر چوتھی مرتبہ پیئے تو اُسے قتل کر دو۔
نبی کریم ﷺنے بہت سی مرتبہ شراب پینے والوں کو کوڑے لگانے کی سزا دی ہے۔ اور آپ ﷺکے بعد خلفاء راشدین y اور مسلمانوں نے بھی کوڑوں کی سزا دی ہے، اور اسی بنا پر اکثر علماء کہتے ہیں کہ قتل کی سزا منسوخ ہو چکی ہے۔ بعض کا قول ہے یہ سزا محکم ہے۔ بعض کہتے ہیں قتل کرنا ایک تعزیر تھی۔ اگر امام ضرورت سمجھے تو یہ سزا بھی دے سکتا ہے۔

اور نبی کریم ﷺسے ثابت ہے کہ شراب نوشی کی سزا میں آپ ﷺنے چالیں لکڑیاں اور جوتے لگوائے ہیں۔ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی چالیس کوڑے لگوائے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں اسی (80) کوڑے لگوائے ہیں۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کبھی چالیس اور کبھی اسی (80) کوڑے لگوائے ہیں۔ اور اسی بناء پر بعض علماء نے کہا ہے کہ اسی (80) کوڑے لگوانا واجب ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ چالیس کوڑے لگوانا واجب ہے، اس سے زیادہ سزا امام کی رائے پر موقوف ہے جبکہ لوگ شراب کے عادی ہو گئے ہوں۔ اور چالیس کوڑوں سے تنبیہ نہ ہوتی ہو، یا اس کے مثل کوئی اور وجہ ہو تو چالیس سے زیادہ اسی (80) کوڑے لگوائیں۔ اگر پینے والے کم ہیں یا اتفاقاً کسی نے پی لی ہے تو چالیس کوڑے کافی ہیں۔ اور یہ قول زیادہ مناسب اور زیادہ موافق ہے۔ اور یہی قول امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے اور امام احمد رحمہ اللہ کی ایک روایت کے بھی مطابق ہے۔

سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں شراب نوشی کے واقعات زیادہ ہونے لگے تو انہوں نے سزا زیادہ کر دی۔ بعض کو جلا وطن کیا۔ بعض کا سر منڈوا کر ذلیل کیا۔ تو یہ زجر و توبیخ کی مبالغہ آمیز سزا تھی۔ اگر شرابی کو تعزیر چالیس کے بعد چالیس کوڑوں سے زیادہ کرنی ہو تو اس کی روٹی بند کر دی جائے۔ اور اسے جلاوطن کیا جائے تو اچھا ہے۔

امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ آپ کے بعض نائب شراب کی تعریف میں اشعار کہہ رہے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر دیا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور بعض جو اس ثبوت کے قائل تھے، اور سمجھ رہے تھے یہ منسوخ ہو چکا ہے، وہ ان برتنوں میں نبیذ بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔ جب فقہاء کے ایک گروہ نے سنا کہ بعض صحابہ نبیذ پیا کرتے تھے تو وہ یہ سمجھے کہ نشہ آور پیتے تھے۔ اور اس لیے انہوں نے مختلف قسم کی شرابیں پینے کی اجازت دے دی جو انگور اور کھجور وغیرہ سے نہ بنی تھی۔ اور نبیذ تمر (یعنی کھجور) اور کشمش کے جوس کی اجازت دے دی، جب تک کہ نشہ آور نہ ہو جائے۔ اور صواب و صحیح جس پر جمہور مسلمان متفق ہیں وہ یہ ہے کہ ہر نشہ آور چیز خمر (یعنی شراب وغیرہ حرام) ہے اور اس کے پینے والے پر حد جاری ہو گی اگرچہ ایک قطرہ بھی پی لے۔ خواہ دوا کی حیثیت سے بھی کیوں نہ پیئے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺسے پوچھا گیا کہ اگر خمر (شراب) کے سوا کوئی دوا نہیں ہے تو (کیا کیا جائے) آپ ﷺنے فرمایا:

اِنَّھَا دَائٌ وَلَیْسَتْ بِدَوَائٍ وَاِنَّ اللہَ لَمْ یَجْعَلْ شِفَائَ اُمَّتِیْ فِیْمَا حَرَّمَ عَلَیْھَا
یہ بیماری ہے، دوا نہیں ہے اور میری اُمت کی شفاء حرام میں نہیں ہے۔

شراب خوار رپر حد واجب ہوجاتی ہے جبکہ اس پر گواہ موجود ہوں یا شرابی خود شراب پینے کا اقرار کر لے۔ اگر خمر و شراب کی بدبو آئے یا لوگوں نے اُسے قے کرتے دیکھا یا اس کے مثل دوسرے آثار دیکھے جائیں تو کہا گیا ہے اس پر حد جاری نہیں ہوگی کیونکہ یہ احتمال ہے یہ خمر (شربت) نشہ آور نہ ہو یا لا علمی سے اس نے (شراب) پی لی ہو یا زبردستی اُسے پلائی گئی ہو۔

اور کہاگیا ہے کہ اسے کوڑے لگوائے جائیں گے جبکہ معلوم ہو جائے (کہ وہ شربت و شراب) نشہ آور تھی۔ اوریہ قول خلفاء راشدین اور صحابہ کرام y سیدنا عثمان سیدنا علی اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے ماثور ہے۔ اور سنت نبوی ﷺبھی اسی پر دلالت کرتی ہے اور لوگوں کا تعامل (و عمل) بھی یہی ہے اور یہی مذہب امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا ہے اور انہوں نے اس کی تصریح بھی کی ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور انگور اور کھجور کے پتوں کو پکا کر جومشروب تیار کیاجاتا ہے وہ بھی حرام ہے۔ اس کے پینے والے کو کوڑے لگوائے جائیں گے۔ یہ تو خمر و شراب سے بھی زیادہ خبیث ہوتا ہے کہ اس سے عقل اور مزاج دونوں خراب ہوجاتے ہیں یہاںتک کہ اس سے ہیجڑا بن جاتا ہے اور بے غیرتی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اور شراب زیادہ خراب اور خبیث اسی لیے ہے کہ اس سے لڑائی اور یعنی قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس طرح وہ اللہ کے ذکر سے روکتی ہے؛ نماز سے بھی روکتی ہے ۔

بعض متاخرین فقہاء نے اس کی حد میں توقف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں حد سے کم تعزیر کی جائے کیونکہ اس سے تغیر عقل کاگمان ہے اور یہ بمنزلہ بھنگ پینے کے ہے۔ اور متقدمین علماء سے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ ثابت نہیں ہے حالانکہ یہ گھاس اور پتے ایسے نہیں ہیں بلکہ اس کے کھانے والے شوق اور خواہش سے اُسے کھاتے ہیں اور یہ آرزو رکھتے ہیں کہ اور بھی ہوں تو کھالیں۔ جیسے شراب اور خمر کا شوق خواہش اور آرزو رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے اکثر ذکر الٰہی میں خلل آجاتا ہے۔ اور جب اس کی کثرت ہوتی ہے تو نماز میں بھی خلل واقع ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بے غیرتی اور ہیجڑا پن اور فسادِ مزاج، فسادِ عقل وغیرہ میں بھی اس سے خلل پید اہوجاتا ہے۔ لیکن یہ ٹھوس ہوں اور کھائے جاتے ہوں، شراب کی قسم سے نہ ہوں تو اس کے نجس ہونے میں فقہاء کااختلاف ہے۔ اس میں تین قول ہیں؛ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ یہ نجس ہے جیسے شراب نجس ہے۔ اور یہی قول صحیح ہے اور قابل اعتبار ہے۔ بعض کہتے ہیں: کیونکہ اس میں جمود ہے اس لیے نجس نہیں ہے۔ اور بعض نے ٹھوس اور پتلا پن میں فرق کیا ہے۔ بہرحال! یہ بھی اس میں داخل ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺنے حرام کہا ہے کیونکہ لفظاً او رمعنی یہ خمر شراب اور مسکر یعنی نشہ آور چیز ہے ۔

سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بارگاہِ رسالت ﷺمیں عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺہمیں آپ دو قسم کی شراب کے متعلق فیصلہ دیجئے جسے ہم یمن میں تبع اور دانوں سے بناتے ہیں؛ تبع شہد سے بنتی ہے اور مینزر ''جو'' وغیرہ (دانوں) سے بنتی ہے۔ جب اس میں شدت پیدا ہوکر نشہ آجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ نبی اکرم ﷺجو امع الکلم تھے آپ نے فرمایا:

کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ (بخاری و مسلم)
ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں؛ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

ان من الحنطۃ خمرا و من الشعیر خمرا و من الزبیب خمرا ومن التمر خمرا ومن العسل خمرا و انا انہی عن کل مسکر
شراب گیہوں سے بنتی ہے، ''جو'' سے بنتی ہے، کشمش سے بنتی ہے، کھجور سے بنتی ہے، شہد سے بنتی ہے او رمیں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں ۔ (رواہ ابو داؤد وغیرہ)۔

لیکن یہ روایت صحیحین کے اندر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے اور منبر نبوی ﷺپر کھڑے ہو کر آپ نے فرمایا:

الخمر ما خامرالعقل
خمر (نشہ آور چیز جیسے شراب، چرس، ہیرون وغیرہ) وہ ہے جو عقل کو بیکار کر دے ۔

اور ایک روایت ہے :

کل مسکر خار و کل خمر حرام
ہر نشہ لانے والی چیز خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے ۔

یہ دونوں روایتیں امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کی ہیں ۔

اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ r سے مروی ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

کل مسکر حرام وما اسکر الفرق منہ فملء الکف منہ حرام (قال الترمذی حدیث حسن)
ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جس سے مٹکا بھر پینے سے نشہ آئے ا س کا ایک چلو بھی حرام ہے۔

اور ارباب سنن (نسائی اور ابن ماجہ ;) نے مختلف طریقوں سے روایت کی ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

ما اسکر کثیر فقلیلہ حرام
جس کا کثیر (کثیر مقدار میں) پینے سے نشہ آئے اس کا تھوڑا بھی حرام ہے۔
حفاظ حدیث نے اس روایت کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ کسی نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا ہماری سرزمین میں ذرہ (دانوں) سے جس کو میزر کہتے ہیں شراب بناتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں؟آپ ﷺنے جواب میں فرمایا :

امسکر ھو کیا وہ نشہ کرتی ہے ؟
اس نے کہا ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

کل مسکر حرام ان علی اللہ عہدا لمن شرب المسکر ان یسقیہ من طینۃ الخبال
ہر مسکر نشہ آور حرام ہے اور جوشخص نشہ آور چیز پئے اللہ تعالیٰ کا عہد ہے کہ اسے طینۃ الخبال پلائے گا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ۔
یارسول اللہ وما طینۃ الخبال
اے اللہ کے رسول (ﷺ ) یہ طینۃ الخبال کیا چیز ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا:

عرق اھل النار (رواہ مسلم فی صحیحہ)
یہ جہنمیوں کا گندہ خون (پسینہ، پیپ، رطوبت وغیرہ) ہے ۔

اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

کل مسکر خمر و کل مسکر حرام (رواہ ابو داؤد)
ہر نشہ آور چیز شراب میں شمار ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔

اور اس باب میں بے شمار احادیث مستفیضہ (مشہور) مروی ہیں۔ نبی اکرم ﷺکا کلام جو امع الکلم ہوتا تھا، تمام کو جمع کر دیا کہ ہر وہ چیز جو عقل میں فرق پید اکر دے اور نشہ لائے حرام ہے خواہ وہ کھانے والی ہو یا پینے والی۔

علاوہ ازیں خمرو شراب تو کبھی کبھی پکائی جاتی ہے اور گھاس، جڑی بوٹیاں تو پانی میں بھگو دی جاتی ہیں اور پی لی جاتی ہیں ۔

پس خمر و شراب پی بھی جاتی ہے اور کھائی بھی جاتی ہے اور جب یہ نشہ آور ہے تو حرام ہے متقدمین نے اس کی خصوصیات کے متعلق بحث نہیں کی کیونکہ اس کی پیداورار 600؁ھ میں یا اس کے قریب قریب ہوئی ہے جس طرح کہ شراب کی بہت سی قسمیں نبی اکرم ﷺکے بعد پیدا ہوئی ہیں او ریہ سب کی سب ان جوامع الکلم کے اندر آگئیں جو کتاب و سنت کے اندر مذکور ہے ۔
 
Top