محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
باب:22۔ عزت و آبرو کا بھی قصاص ہے
عزت و آبرو کا بھی قصاص مشروع ہے، اور وہ یہ کہ مثلاً کوئی شخص کسی پر لعنت بھیجے یا بددعا کرے، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے۔ اگر کوئی سچی گالی دے جس میں جھوٹ قطعاً نہیں ہے تو یہ بھی گالی دے سکتا ہے، لیکن معاف کر دینا افضل و بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَجَزَآء سَیِّئَۃِ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللہ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ وَ لِمَنِ انْتَصَرَبَعْدَظُلْمِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ مَاعَلَیْھِمْ مِنْ سَبِیْلٍ
اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، اس پر جو معاف کر دے اور صلح کر لے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے، بیشک وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور ہاں کسی پر ظلم ہوا ہو اور وہ اس کے بعد بدلہ لے، تو یہ لوگ ہیں جن پر کوئی الزام نہیں۔
اور رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:
اَلْمُسْتِبَانِ مَا قَالَا فَعَلٰی الْبَادِیِّ مِنْھُمَا مَا لَمْ یَعْتَدِّ الْمَظْلُوْمَ
آمنے سامنے بولنے والے پر وہی ہو گا لیکن شروع کرنے والے پر کچھ زیادہ ہ گا جب تک کہ اس نے مظلوم پر زیادتی نہیں کی۔
اور اسی کو انتصار بھی کیا جائے گا۔ اور گالی گلوچ ایسی کہ اس میں جھوٹ نہ ہو مثلاً یہ کہ جو برائیاں اس میں ہیں وہ ظاہر کرنی،یا یہ کہ کتا، یا گدھا، وغیرہ کہنا، تو اس میں قصاص ہے لیکن اگر کسی نے افتراء و بہتان لگایا تو جائز نہیں ہے کہ افتراء و بہتان کے بدلہ میں افتراء و بہتان لگا۔ اگر کوئی کسی کو بلا استحقاق کافر یا فاسق کہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ یہ بھی اسے کافر کہے۔ اگر کوئی کسی کے باپ دادا اور قبیلے یا اہل شہر پر لعنت بھیجے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ جواب میں یہ بھی ایسا ہی کہے کہ یہ تعدی اور زیادتی ہے کیونکہ ان لوگوں نے اس پر کچھ نہیں کیا، بلکہ جو کچھ کیا ہے اس آدمی نے کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلہِ شُھَدَآء بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (مائدہ:8)
مسلمانو! اللہ واسطے انصاف کے ساتھ گواہی دینے کو آمادہ رہو، اور لوگوں کی عداوت تمہارے اس جرم کا باعث نہ ہو کہ تم معاملات میں انصاف نہ کرو، ہر حال میں انصاف کرو کہ شیوئہ انصاف پرہیزگاری سے قریب تر ہے۔
اس آیت میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ کفار سے بغض و عناد کی وجہ سے اعتداء اور زیادتی نہ کیا کرو۔ صاف صاف کہہ دیا:
اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (مائدہ:8)
ہر حال میں انصاف کرو کہ شیوئہ انصاف پہریز گاری کے قریب تر ہے۔
پس عزت و آبرو کے بارے میں بھی عدوان اور زیادتی حرام ہے، حالانکہ اس کا حق ہے، پس اگر ایذاء اور تکلیف ایسی پہنچائے جس میں قصاص و بدلہ لیا جا سکتا ہے، مثلاً کسی نے کسی پر بددعا کی تو مظلوم بلا عدوان اور زیادتی کے بد دعا کر سکتا ہے، لیکن اگر حق اللہ اس کے متعلق ہوتا ہے مثلاً جھوٹ بولا تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ یہ بھی جھوٹ بولے۔
اسی طرح فقہاء کہتے ہیں کہ کسی نے کسی کو جلا کر مار ڈالا، یا غرق کر دیا، یا گلا گھونٹ کر مار ڈالا، یا اس کے مثل کسی اور طریقے سے قتل کر دیا تو اس کے لیے وہی کیا جائے جو اس نے کیا ہے لیکن ملحوظ رہے کہ وہ سزا فی نفسہٖ حرام نہ ہو، مثلاً شراب پلائی تو اس کے بدلہ اور قصاص میں شراب پلائی جائے۔ یا لواطت کی تو اس کے ساتھ لواطت کی جائے۔
بعض فقہاء کہتے ہیں کہ جلا کر ما دینے، یا غرق کر دینے، یا گلا گھونٹ کر مار دینے کی عقوبت و سزا، قود بالسیف ہے یعنی تلوار سے اس کی گردن اڑا دی جائے۔ لیکن ہم جو پہلے کہہ چکے ہیں وہی کتاب اللہ اور کتاب الرسول ﷺ سے زیادہ مشابہ ہے۔