• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:27۔ولایت و امارت دین کا عظیم الشان رُکن ہے۔۔ السیاسۃ الشرعیۃ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:27۔ولایت و امارت دین کا عظیم الشان رُکن ہے
ولایت امر، امارت و حکومت دین کا عظیم الشان رکن اور اہم ترین واجبات سے ہے، بلکہ دین کا قیام و بقاء اسی سے وابستہ ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِذَا خَرَجَ ثَلَاثَۃٌ فِیْ سَفَرٍ فَلْیُؤَمِّرُوْا اَحَدَھُمْ (ابوداوٗد)
جاننا چاہیے کہ ولایت امر اور امارت ملیہ دین کے اہم ترین اور عظیم ترین واجبات میں سے ہے، بلکہ دین کا قیام و بقاء اسی سے وابستہ ہے، کیونکہ بنی آدم کی اجتماعی مصلحتیں اجتماع کے بغیر ناممکن ہیں۔ بعض بعض کی ضروریات اور حاجتیں اجتماع کے بغیر ممکن ہی نہیں ہیں۔ اور جب اجتماع واجب و لازم ہے، اجتماع کے لیے امیر و سردار کا ہونا بھی واجب اور ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:

اِذَا خَرَجَ ثَلَاثَۃٌ فِیْ سَفَرٍ فَلْیُؤَمِّرُوْا اَحَدَھُمْ (رواہ ابوداوٗد من حدیث ابی سعید و ابی ہریرہw)
جب تم تین آدمی سفر میں نکلو تو ایک کو ان میں سے اپنا امیر بنا لو۔

امام احمد رحمہ اللہ اپنی مسند میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

لَا یَحِلُّ لِثَلَاثَۃٍ یَکُوْنُوْنَ بِفَلَاۃٍ مِّنَ الْاَرْضِ اِلَّا اَمَّرُوْا عَلَیْہِمْ اَحَدَھُمْ
تین آدمی صحراء میں سفر کریں تو ضروری ہے کہ ایک کو ان میں سے اپنا امیر بنا لیں(مسند احمد )

رسول اللہ ﷺنے قلیل سے قلیل اجتماع میں جو بالکل عارضی اور بحالت سفر ہو، واجب اور ضروری قرار دیا ہے کہ ایک کو ان میں سے اپنا امر بنا لیں۔ اور امیر بنا لیناواجب قرار دیا۔ اور یہ اس لیے کہ دیگر ہمہ قسم کے اجتماعات کے لیے تاکید و تنبیہ ہو جائے کہ جب سفر میں تین آدمی مجتمع ہو جائیں تو ایک کو اپنا امیر بنا لینا واجب ہے تو پھر دوسرے اجتماعات میں بدرجہ اولیٰ یہ حکم نافذ ہو گا۔ اور اس لیے نافذ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو واجب گردانا ہے، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی قوت امارت کے بغیر ناممکن ہے، اسی طرح تمام فرائض و واجبات مثلاً جہاد، قیام عدل و انصاف، اقامت حج، اقامت جمعہ و عیدین، نصرت مظلوم، اقامت حدود بغیر قوت، بغیر امارت ناممکن ہے، اور اسی لیے روایت کی گئی ہے:

اِنَّ السُّلْطَانَ ظِلُّ اللہِ فِی الْاَرْضِ
سلطان و حکمران زمین پر اللہ کا سایہ ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور کہا گیا ہے کہ ساٹھ برس جابر و ظالم سلطان کا ہونا زیادہ مناسب اور اصلح ہے، ایک رات بغیر سلطان کے گذارنے سے، اور تجربہ بھی یہی بتلاتا ہے کہ بلا سلطان گذارنے سے ظالم بادشاہ، جابر سلطان کا وجود زیادہ مناسب ہے، اور اسی بناء پر سلف صالح کہا کرتے تھے، مثلا فضل بن عیاض اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ وغیر:

لَوْ کَانَ لَنَا دَعْوَۃٌ مُّجَابَۃٌ لَّدَعَوْنَا بِھَا لِلسُّلْطَانِ
اگر ہماری دعا قبول و مستجاب ہوتی تو ہم سلطان کے لیے دعا کرتے۔

رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّ اللہَ یَرْضٰی لَکُمْ ثَلَاثًا اَنْ تَعْبُدُوْہُ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّاَنْ تَعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا وَاَنْ تَنَاصَحُوْا مَنْ وَّلَاہُ اللہُ اَمْرَکُمْ
تین چیزوں سے اللہ تعالیٰ تم سے بہت خوش ہے، ایک یہ کہ اسی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ دوسری یہ کہ حبل اللہ کو سب مل کر مضبوط تھامے رہو، فرقے فرقے مت بن جاؤ۔ تیسری یہ کہ جس شخص کو اللہ نے تمہارا والی بنایا اس کو نصیحت کیا کرو۔ (رواہ مسلم)

اور فرمایا:

ثَلَاثٌ لَّا یَغُلُّ عَلَیْھِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ اِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلہِ وَمَنَاصَحَۃُ وُلَاۃِ الْاَمْرِ وَ لُزُوْمُ جَمَاعَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ فَاِنَّ دَعْوَتَھُمْ تَحِیْطُ مِنْ وَّرَائِھِمْ
تین چیزوں میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا، اللہ کے لیے اخلاص عمل میں، والیان امر والیان ملک کو نصیحت کرنے میں اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے میں، کیونکہ ان لوگوں کی دعوت و دعا پیچھے سے گھیر لیتی ہے۔ (رواہ اہل سنن)۔

صحیح البخاری میں ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ، اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ، اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (بخاری)
دین نصیحت کا نام ہے، دین نصیحت کا نام ہے، دین نصیحت کا نام ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! نصیحت کس کو کی جائے؟ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ کیلئے، اور اس کی کتاب کے لیے اور اس کے رسول ﷺ کے لیے، ائمہ مسلمین اور عام مسلمانوں کو۔

پس مسلمانوں کا فرض ہے کہ دین اور تقرب الی اللہ کو مد نظر رکھ کر امارت اسلامیہ بنائیں، اور اس سے تقرب الٰہی حاصل کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت افضل ترین عبادت ہے، امارت قائم کرنا، امارت کو مضبوط بنانا یہی زبردست عبادت ہے، لیکن اس میں فساد و خرابی بھی پیدا ہو جاتی ہے، اکثر لوگ اس امارت اور ریاست کے ذریعہ مال و دولت کی خواہش رکھتے ہیں، اور اس کو ذریعہء دنیا بنا لیتے ہیں جس سے اپنا دین اپنی آخرت دونوں برباد کر لیتے ہیں۔ اور خَسَرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ کا مصداق بن جاتے ہیں،
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا:

مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ اُرْسِلَا فِیْ غَنَمٍ بِاَفْسَدَ لَھَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ اَوِ الشَّرْفِ لِدِیْنِہٖ (ترمذی حدیث حسن صحیح)
دو بھوکے بھیڑیئے بکریوں کے ریوڑ میں بھیجے گئے ہیں جو بکریوں کو خراب کر رہے ہیں، ایک مال و دولت کیلئے آدمی کی حرص، دوسرا دین کے بارے میں شرف و بزرگی۔

نبی کریم ﷺنے آگاہ اور خبردار کر دیا کہ حرص علی المال، اور حرص ریاست دونوں چیزیں ایسی ہیں جو دین کو برباد کر دیتی ہیں اور دیکھا جاتا ہے کہ اکثر فساد اور خرابی انہی دو بھوکے بھیڑیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہی دو بھوکے بھیڑئیے انسانی ریوڑ کو تاراج و برباد کر دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے بارے میں خبر دی ہے جس کا نامہء اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، اور وہ بائیں ہاتھ میں نامہء اعمال دیکھ کر کہے گا:
مَآ اَغْنٰی عَنِّیْ مَالِیَہْ ھَلَکَ عَنِّیْ سُلْطَانِیَہْ (الحاقہ:29-28)
میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا، مجھ سے میری بادشاہت چھن گئی۔

ریاست و امارت اور سرداری کے طالب کی انتہا فرعون جیسی ہوتی ہے، اور مال جمع کرنیوالے کی حالت قارون کی سی ہوتی ہے، اللہ نے قرآن حکیم میں فرعون اور قارون کا حال بیان کیا ہے، فرماتا ہے:

اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَینْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ کَانُوْا مِنْ قَبْلِھِمْ کَانُوْا ھُمْ اَشَّدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً وَّ اٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَاَخَذَھُمُ اللہُ بِذُنُوْبِھِمْ وَمَا کَانَ لَھُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ وَّاقٍ (مومن:21)
اور کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ جو لوگ ان سے پہلے ہو گذرے ہیں ان کا کیسا انجام ہوا؟ وہ لوگ کیا بل بوتے کے اعتبار سے اور کیا ان شانوں کے اعتبار سے جو زمین پر چھوڑ گئے ان سے کہیں بڑھ کر تھے تو اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی سزا میں پکڑا اور ان کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوا۔

اللہ کا ارشاد ہے:

تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ o (قصص:83)
یہ آخرت کا گھر ہے جس کو ہم نے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو دنیا میں کسی طرح کی شیخی نہیں کرنی جانتے، اور نہ فساد۔ اور اچھا انجام پرہیزگاروں ہی کا ہے۔

کیونکہ لوگ چار قسم کے ہیں، ایک وہ لوگ جو علو و سربلندی، سرداری کے طالب اور خواہاں ہیں، اور اللہ کی زمین پر فساد پھیلاتے ہیں۔ اپنی سربلندی و سروری کے لیے ہر مکر و فریب کو جائز کر لیتے ہیں، یہ سخت ترین معصیت اور بہت بڑا گناہ ہے۔ ایسے سلاطین، شاہان ملک، رؤساء مفسدین، فرعون اور فرعون کی قوم، فرعون کے گروہ میں سے ہیں، اور اللہ کی مخلوق میں شریر ترین لوگ یہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَھْلَھِا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئِھُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآئَھُمْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
فرعون ملک میں بہت سرکشی کر رہا تھا، اور اس نے وہاں کے لوگوں کے الگ الگ گروہ کر دیئے تھے، ان میں سے ایک گروہ کو کمزور سمجھ رکھا تھا کہ ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فسادیوں میں سے تھا۔(قصص:4)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ وَّلَا یَدْخُلُ النَّارَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ اِیْمَانٍ (مسلم)
وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر کبر و غرور ہو گا اور وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو گا۔

کسی نے کہا: یارسول اللہﷺ! یہ مجھے بہت پسند ہے کہ میرا کپڑا، میرا جوتا اچھا نظر آئے تو کیا یہ بھی کبر و غرور ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:

لَا اِنَّ اللہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ
نہیں یہ کبر و غرور ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند فرماتا ہے۔ کبر و غرور یہ ہے کہ حق کو ٹھکرایا جائے اور لوگوں کو حقیر و ذلیل سمجھا جائے۔

یہ حال ان لوگوں کا ہے جو علو و سربلندی، سرداری و برتری کے خواہاں ہیں، اور فساد فی الارض چاہتے ہیں۔دوسری قسم کے وہ ہیں جو فساد فی الارض چاہتے ہیں۔ علو، سربلندی اور سرداری سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ہے، جیسے چور، ڈاکو، راہزن اور اس قسم کے جرائم پیشہ مفسد اور کمینے لوگ ہیں۔

تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو علو و سربلندی چاہتے ہیں، فساد فی الارض نہیں چاہتے اور یہ دین والوں کا طبقہ ہے، جن کے پاس دین ہے، اور دین کے ذریعہ لوگوں پر علو و سربلندی کے خواہاں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (آل عمران:139)
اور ہمت نہ ہارو اور پریشان نہ ہو اور اگر تم سچے مسلمان ہو تو آخر کار تمہارا ہی بول بالا ہو گا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَلَا تَھِنُوْا وَ تَدْعُوْآ اِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَاللہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ (محمد:35)
تو مسلمانو! بزدل نہ بنو، اور خود پیغام دے کر دشمنوں کو صلح کی طرف نہ بلاؤ اور یاد رکھو کہ آخر کار تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کے ثواب میں کسی طرح کی کمی نہیں کرے گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور اللہ تعالی کاارشاد ہے :

وَ لِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۔(منافقون :8)
عزت اللہ کی اور اس کے رسول کی اور مسلمانوں کی ہے ۔

پس بہت سے علو و سر بلندی کے طالب ایسے ہیں جو سب سے زیادہ ذلیل و خوار ہوتے ہیں ذلت کی انتہا میں گرے ہوئے رہتے ہیں اور کتنے ہیں جو علو و سربلندی اور فساد فی الارض سے گریز کرتے ہیں ، پھر بھی وہ علو و سربلندی کے مناروں پر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ اس لیے ہوتا کہ مخلوق خدا پر علو وسربلندی کی نیت مخلوق پر سخت ترین ظلم ہے کیونکہ تمام انسان ایک ہی جنس ہیں ایک ہی نوع ہیں اور ایک انسان یہ ارادہ اور نیت رکھتا ہے کہ اپنے ابناء جنس پر علو و سربلندی حاصل کرے اور اسی کے مثل دوسرے ہیں وہ اس کے ماتحت رہیںیہ سخت ترین ظلم ہے اور ایسے لوگوں سے بغض و عناد ، حسد و کینہ لازمی ہے او رجو عادل اور منصف ہوتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ اپنے بھائیوں سے سر بلند رہے اور اپنے بھائی جو اسکے جیسے ہی ہیں وہ مقہور ذلیل وخوار ہوکر رہیں غیر عادل انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ قاہر و غالب اور سر بلند ہوکر رہے ان کے پاس بھی دین عقل موجود ہے وہ دیکھتے ہیں کہ بعض کو بعض پر خدا نے فضیلت دی ہے ، فضلنا بعضکم علی بعض جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ انسان کا جسم ہے اور اس جسم کی اصلاح بغیر سر کے ممکن نہیں جیسا کہ اللہ تعالی کاارشاد ہے :۔

وَ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ ٰاٰتکُمْ (الانعام:165)
اور وہی ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ہے اور تم میں سے بعض کو بعض پر قدر و منزلت میں فوقیت دی ہے تاکہ جو نعمتیں تم کو دی ہیں ان میں تمہاری آزمائش کرے۔
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا (الزخرف:32)
سو اس زندگی میں تو ان کی روزی ان میں ہم تقسیم کرتے ہیں اور ہم نے درجوں کے اعتبار سے ان میں ایک کو ایک پر ترجیح دی ہے تاکہ ان میں ایک کو ایک اپنا محکوم بنائے رہے ۔

شریعت اسلام نے یہ لازم اور ضروری گردانا کہ سلطنت ، ریاست اور مال و دولت اللہ کی راہ میں خرچ ہو، سلطنت و ریاست کااصل مقصود یہی ہے تقرب الٰہی حاصل کیاجائے اللہ کا دین قائم اور مضبوط ہو اور جب اللہ کی راہ میں مال و دولت خرچ کی جائے گی ، تو لازمی طور پر دین و دنیا کی اصلاح ہوگی ، اور فلاح و بہبود نصیب ہوگی ، اگر امیر و سلطان دین سے علیحدہ رہے گا تو لوگوں کے حالات خراب ہوجائیں گے ۔

طاعت الٰہی اور اہل معصیت کا امتیاز نیت وارادہ اور عمل صالح سے ہوتا ہے ، جیسا کہ صحیحین کے اندر نبی اکرم ﷺسے مروی ہے آپ نے فرمایا :

ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولا الی اموالکم و انما ینظر الی قلوبکم و الی اعمالکم (بخاری و مسلم )
اللہ تعالی تمہاری صورتیں اور تمہارا مال نہیں دیکھا کرتا ، بلکہ وہ تمہارے قلوب اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اکثر والیان ملک ولاۃ ، امراء ، روساء ایسے ہیں جن پر دنیا مسلط ہوچکی ہے ۔ مال و شرافت ، دولت و بزرگی سے دنیا ہی کے کام لیتے ہیں ۔ حقیقت ایمان ۔ اور کمال دین سے سراسر محروم ہیں بعض ان میں ایسے ہیں جن پر دین غالب ہے لیکن تکمیل جن امور سے ہوتی ہے ان سے سراسر ناواقف ہیں اور اس لیے وہ ان امور کو چھوڑے بیٹھے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو اس کی ضرورت سمجھتے ہیں ، لیکن پھر بھی دین سے اعراض کئے بیٹھے ہیں اور یہ اس لیے کہ سلطنت و ریاست ولایت و امارت کو وہ دین کے خلاف سمجھتے ہیں ان کا اعتقاد یہ ہے یہ دین کے منافی ہے دین ان کے نزدیک ذلت و خواری کانام ہے علو و سر بلندی عزت و بزرگی سے قطعاً محروم ہے ۔

اور یہی حال ان دو مذہبوں کاہوا یہود و نصاری نے دیکھا کہ ان کا دین مکمل نہیں ہے تکمیل دین سے اپنے کو عاجز پایا۔ اور اقامت دین اقامت مذہب میں بلا اور مصائب دیکھے تو گھبرا گئے اور طریقہ دین کمزور ہوگیا دین کو ذلیل سمجھ کر چھوڑ بیٹھے انہوں نے دیکھا کہ اس دین اس مذہب سے نہ تو اپنی مصلحت پوری ہوتی ہے نہ دوسروں کی اسلیے اصل دین کو ہی چھوڑ بیٹھے یہ دو دین اور دو راستے تھے ایک نے دیکھا کہ تکمیل دین کے لیے جس سلطنت اور حزر و جنگ اور مال و دولت کی ضرورت ہے اور جس کی ان کو احتیاج ہے ان کا دین اس ضرورت و احتیاج کو پورا نہیں کرتا اس لیے وہ اصل دین ہی سے نفرت کرنے لگے اور دین کو چھوڑ بیٹھے۔

دوسرا گروہ سلطنت مال و دولت حرب و جنگ کاسامان اپنے دین اپنے مذہب میں پاتا ہے لیکن اقامت دین ان کے مقصد سے خارج ہے اس لیے یہ بھی دین ومذہب کو چھوڑ بیٹھے۔

یہ دو گروہ مغضوب علیھم یہود اور ضالین نصاری ہیں یہود نے سلطنت و سیاست اور امارۃ سیاست کو چھوڑ دیا اور نصاری عیسائیوں نے دین کو چھوڑ دیا ۔

صراط مستقیم انہی لوگوں کی راہ ہے جن پر اللہ تعالی کاخاص انعام ہوا ہے ۔

فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ
اور یہ راہ ان لوگوں کی ہے جن پر اللہ کا خاص انعام ہوا ہے جو انبیاء کرام o، صدیقین ، شہداء و صالحین ہیں ۔

ہمارے پیارے پیغمبر محمد رسول اللہﷺکا یہی طریقہ رہا آپ کے بعد آپ کے خلفاء y اور صحابہ y کا بھی یہی طریقہ رہا خلفاء y اور صحابہ y کے بعد ان کی راہ پر چلنے والوں کا بھی یہی طریقہ رہا

وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (توبہ:100)
اور مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے اسلام لانے میں سبقت کی سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور نیز وہ لوگ جو انکے بعد خلوص دل سے ایمان لائے خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش اور خدا نے ان کے لیے باغ تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور یہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پس ہر مسلمان کافرض عین ہے کہ حسب استطاعت کوشش کرے اور جو شخص ولایت و حکومت پر مامور ہے اس سے وہ طاعت خدا اور اقامت دین اور مصالح مسلمین کی خدمات لے اور ولایت و حکومت کو حتی الامکان مقصد حیات سمجھ کر اس کو مضبوط کرے اور تاامکان محرمات سے بچے اور بچائے جس سے وہ عاجز اور قاصر ہے اس کا مؤاخذہ نہیں ہے، ابرابر نیکوکار کو ولی امر بنانا امت محمدی ﷺ کے لیے بڑی خیرو برکت ہے بمقابلہ فجار و فاسق کو ولی الامر بنانے کے اور جو سلطنت و ریاست امارت و سیاست ولایت کے ذریعہ اقامت دین جہاد فی سبیل اللہ سے عاجز و قاصر ہے وہ اسی قدر خدمات انجام دے جس پر وہ قادر ہو خلوص قلب سے قوم کو نصیحت کرے اور امت محمدیہ ﷺ کے لیے محبت اور خیر وبھلائی کی دعا کرے اور جو خیر وبھلائی ا سکے امکان میں ہے کرتا رہے کیونکہ خدا اس چیز کا مکلف نہیں گردانتا جس سے وہ عاجز و قاصر ہے دین کا قیام کتاب اللہ سے ہے جو ہادی ہے اور حدیث سے ہے جو ناصر و مددگار ہے ان دو کو راہ نما ، راہبر بنا کر نصرت الٰہی حاصل کرسکتے ہیں جیسا کہ خود اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔

پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ قرآن حکیم ، اور حدیث خیر الانام کو سب پر مقدم سمجھے اور اللہ تعالیٰ ہی سے اعانت و امداد چاہے اور خیر طلب کرتا رہے اور پھر دنیا تو اسی لیے ہے کہ اس کے ذریعہ دین کی خدمت کرے ، جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا ہے :

یَاابْنَ اٰدَمَ اَنْتَ مُحْتَاجٌ اِلٰی نَصِیْبِکَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَنْتَ اِلٰی نَصِیْبَکَ مِنَ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْاٰخِرَۃِ اَحْوَجُ فَاِنْ بَدَاْتَ بِنَصِیْبِکَ مِنَ الْاٰخِرَۃِ وَ بِنَصِیْبِکَ مِنَ الدُّنْیَا فَاَنْتَظِمُھَا اِنْتَظَامًا وَّ اِنْ بَدَأْتَ بِنَصِیْبِکَ مِنَ الدُّنْیَا فَاتَکَ نَصِیْبُکَ مِنَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَنْتَ مِنَ الدُّنْیَا عَلٰی خَطَرٍ
اے آدم رحمہ اللہ کے بیٹے تو اپنی دنیا ، اور اپنی آخرت میں اپنے حصے کامحتاج ہے اور آخرت کے نصیبے کا زیادہ محتاج ہے تو تو اپنی آخرت کے حصے سے شروع کر اور دنیا کے حصے کا انتظام کر لے اور اگر تو نے اپنی دنیا کے حصے سے شروع کیاتو آخرت کے حصے کو فوت کر دے گا اور دنیا تیرے لیے خطرہ بن جائے گی ۔

اور اس پر دلیل وہ حدیث ہے جو امام ترمذی رحمہ اللہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا :

مَنْ اَصْبَحَ وَالْاخِرَۃُ اَکْبَرُ ھَمِّہٖ جَمَعَ اللہُ لَہٗ شَمْلَہٗ وَ جَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَاَتَتْہُ الدُّنْیَاوَھِیَ رَاغِمَۃٌ وَّمَنْ اَصْبَحَ وَالدُّنْیَا اَکْبَرُ ھَمِّہِ فَرَقَ اللہُ عَلَیْہِ ضَیْعَتَہٗ وَ جَعَلَ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَلَمْ یَاْتِہٖ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا مَا کُتِبَ لَہٗ
جس نے اس حالت میں صبح کی کہ آخرت اس کا اہم مقصد ہے تو اللہ تعالی اس کے حالات کو درست کر دے اور اس کے دل میں غنا پیدا کر دے گا اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر آئے گی اور جس نے اس حالت میں صبح کی کہ اس کا اہم مقصد دنیا ہے تو اللہ تعالی اسکے سامان کو بکھیر دے گا اور فقر اس کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور دنیا تو اسی قدر اس کو ملے گی جو خدا نے اسکے حق میں لکھ رکھی ہے۔

اور اس کی اصل قرآن حکیم کے اندر ہے :

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنَ اِنَّ اللہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ (الذاریات:57-56)
اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ ہماری عبادت کریں ہم ان سے کچھ روزی کے تو خواہاں ہیں نہیں اور نہ اس کے خواہاں ہیں کہ ہم کوکھلائیں پلائیں اللہ تو خود بڑا روزی دینے والا قوت والا زبردست ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
خاتمہ و دعاء

ہم بارگاہ الٰہی میں دست بدعا ہیں کہ وہ ہمیں اور ہمارے بھائیوں اورتمام مسلمانوں کو اس چیز کی توفیق بخشے جسے وہ محبوب رکھتا ہے اور جس سے وہ راضی ہے۔​

فَاِنَّہُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِ الْعَظِیْمِ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَسَلّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا دَائِمًا اِلٰی یَوْمِ الدِّیْن
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم ناظمین صاحبان
الحمد للہ یہ کتاب مکمل ہو چکی ہے۔ آپ سے گذارش ہے کہ اس کتاب کے تمام تھریڈز کو ایک ہی فولڈر میں رکھ دیں تاکہ یہ کتاب کی شکل میں محفوظ ہو جائے۔

اللہ تعالی ہم سب کو اسلام پر زندہ رکھے اور اسلام کا کام اخلاص کے ساتھ پوری زندگی ہم سے لیتا رہے۔ اور اسلام پر ہی شہادت کی موت عطا فرمائے آمین

عاجز
محمد آصف مغل
 
Top