غالب کا یہ شعر گو اپنی جگہ بہت خوب ہے، لیکن پورے شعر کے مفہوم سے مجھے اختلاف ہے۔ کوئی شخص نہ تو صد فیصد اچھا اور نیک ہوتا ہے اور نہ صد فیصد بُرا یا خراب۔ اچھے سے اچھے انسان میں بھی کچھ نہ کچھ خرابیاں پائی جاتی ہیں اور بُرے سے بُرے انسان میں بھی کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اچھا اُسے کہا جاتا ہے جس کی اچھائیاں، اُس کی خامیوں پر غالب ہوں۔ اسی طرح بُرا اُسے کہا جاتا ہے جس کی بُرائیاں اس کی اچھائی پر غالب ہو۔ اسی فارمولے کے تحت واعظ یا زبانِ خلق انہی لوگوں کو بُرا کہتی ہے، جس پر برائی کا غلبہ ہو، جیسے حضرتِ غالب۔ اخلاقی اور دینی اعتبار سے موصوف پر بُرائیوں کا غلبہ تھا۔ وہ شرابی تھے۔ کوٹھے پر جایا کرتے تھے۔ نماز روزہ سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ قرض لے کر واپس کرنا، موصوف کا شیوہ نہ تھا۔ان سب خامیوں کے ساتھ ساتھ وہ ایک کٹر شیعہ بھی تھے۔ مبینہ طور پر ان کی بیوی سنی اور نماز روزہ کی پابند تھی۔ اور محترمہ نے حضرت غالب کے کھانے پینے کے برتن تک الگ کر رکھے تھے۔ موصوف زنان خانہ میں اپنی جوتی اتار کر جایا کرتے تھے۔ ان سب اوصافِ غیر حمیدہ کے سبب اگر اُنہیں واعظ بُرا کہتے تو غلط تو نہ کہتے تھے لیکن موصوف علم کلام اور شاعری کے ماہر ٹھہرے۔ اپنے آپ کو یوں ”بچانے“ کی کوشش کرتے ہیں کہ:
غالب بُرا نہ مان جو واعظ بُرا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچّھا کہیں جسے
اور ہم میں سے بھی وہ لوگ جن میں خامیوں کا غلبہ ہے، وہ زبانِ خلق سے بچنے کے لئے حضرت غالب کی ”پیروی“ میں کہہ بیٹھتے ہیں کہ: ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچّھا کہیں جسے ع