• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بات کرنی چاہیے

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اگر آپ میرے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تو دو میں سے ایک بات ہے ۔ یا تو واقعی مجھ میں کوئی خامی موجود ہے یا پھر آپ میرے بارے میں کسی غلط فہمی کے شکار ہیں۔ لہذا ہمیں بات کرنی چاہیے پھر یا تو میں اپنی خامی درست کرلوں گا یا آپ کی غلط فہمی دور کرسکوں گا۔ لہذا ناراض ہوکر تعلق ختم کرلینا کسی مسئلہ کا حل نہیں ۔ بات کرنی چاہیے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
میں یا تو ”بُرا“ ہوں یا ”اچھا“ ہوں۔ اگر میں بُرا ہوں تو بُرے لوگوں کی نظروں میں پسندیدہ اور ”اچھا“ ہوں جبکہ اچھے لوگوں کی نظر میں بُرا ہوں۔ لیکن اگر میں ”اچھا“ ہوں تب بھی صرف اچھے لوگوں کی نظر میں اچھا ہوں، بُرے لوگوں کی نظر میں کبھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ گویا میں اچھا ہوں یا بُرا، اس سماج کے لگ مجھے اچھا اوربُرا دونوں کہتے رہیں گے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ اچھے اور بُرے سب لوگ مل کر مجھے ”اچھا“ کہنے لگیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ میں اصل میں ”منافق“ ہوں، جو بیک وقت ”اچھوں“ کو بھی خوش رکھتا ہوں اور ”بُروں“ کو بھی۔ اس لئے مجھے اس بات سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی کہ لوگ مجھے اچھا کہتے ہیں یا بُرا۔ لیکن مجھے اس بات کی بہت فکر ہوتی ہے کہ کہیں سب لوگ مجھے ”اچھا“ نہ کہنے لگیں۔ اسی طرح میں سماج کے ایسے لوگوں سے خصوصا" محتاط رہتا ہوں، جنہیں سب لوگ متفقہ طور پر اچھا کہتے اور سمجھتے ہیں۔ :)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
غالب کا یہ شعر گو اپنی جگہ بہت خوب ہے، لیکن پورے شعر کے مفہوم سے مجھے اختلاف ہے۔ کوئی شخص نہ تو صد فیصد اچھا اور نیک ہوتا ہے اور نہ صد فیصد بُرا یا خراب۔ اچھے سے اچھے انسان میں بھی کچھ نہ کچھ خرابیاں پائی جاتی ہیں اور بُرے سے بُرے انسان میں بھی کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اچھا اُسے کہا جاتا ہے جس کی اچھائیاں، اُس کی خامیوں پر غالب ہوں۔ اسی طرح بُرا اُسے کہا جاتا ہے جس کی بُرائیاں اس کی اچھائی پر غالب ہو۔ اسی فارمولے کے تحت واعظ یا زبانِ خلق انہی لوگوں کو بُرا کہتی ہے، جس پر برائی کا غلبہ ہو، جیسے حضرتِ غالب۔ اخلاقی اور دینی اعتبار سے موصوف پر بُرائیوں کا غلبہ تھا۔ وہ شرابی تھے۔ کوٹھے پر جایا کرتے تھے۔ نماز روزہ سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ قرض لے کر واپس کرنا، موصوف کا شیوہ نہ تھا۔ان سب خامیوں کے ساتھ ساتھ وہ ایک کٹر شیعہ بھی تھے۔ مبینہ طور پر ان کی بیوی سنی اور نماز روزہ کی پابند تھی۔ اور محترمہ نے حضرت غالب کے کھانے پینے کے برتن تک الگ کر رکھے تھے۔ موصوف زنان خانہ میں اپنی جوتی اتار کر جایا کرتے تھے۔ ان سب اوصافِ غیر حمیدہ کے سبب اگر اُنہیں واعظ بُرا کہتے تو غلط تو نہ کہتے تھے لیکن موصوف علم کلام اور شاعری کے ماہر ٹھہرے۔ اپنے آپ کو یوں ”بچانے“ کی کوشش کرتے ہیں کہ:

غالب بُرا نہ مان جو واعظ بُرا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچّھا کہیں جسے​
اور ہم میں سے بھی وہ لوگ جن میں خامیوں کا غلبہ ہے، وہ زبانِ خلق سے بچنے کے لئے حضرت غالب کی ”پیروی“ میں کہہ بیٹھتے ہیں کہ: ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچّھا کہیں جسے ع
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
میں یا تو ”بُرا“ ہوں یا ”اچھا“ ہوں۔ اگر میں بُرا ہوں تو بُرے لوگوں کی نظروں میں پسندیدہ اور ”اچھا“ ہوں جبکہ اچھے لوگوں کی نظر میں بُرا ہوں۔ لیکن اگر میں ”اچھا“ ہوں تب بھی صرف اچھے لوگوں کی نظر میں اچھا ہوں، بُرے لوگوں کی نظر میں کبھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ گویا میں اچھا ہوں یا بُرا، اس سماج کے لگ مجھے اچھا اوربُرا دونوں کہتے رہیں گے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ اچھے اور بُرے سب لوگ مل کر مجھے ”اچھا“ کہنے لگیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ میں اصل میں ”منافق“ ہوں، جو بیک وقت ”اچھوں“ کو بھی خوش رکھتا ہوں اور ”بُروں“ کو بھی۔ اس لئے مجھے اس بات سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی کہ لوگ مجھے اچھا کہتے ہیں یا بُرا۔ لیکن مجھے اس بات کی بہت فکر ہوتی ہے کہ کہیں سب لوگ مجھے ”اچھا“ نہ کہنے لگیں۔ اسی طرح میں سماج کے ایسے لوگوں سے خصوصا" محتاط رہتا ہوں، جنہیں سب لوگ متفقہ طور پر اچھا کہتے اور سمجھتے ہیں۔ :)
سبحان اللہ! دریا کو کوذے میں بند کردیا ہے یوسف ثانی بھائی۔

کلمہ حق کہنے کا لازمی نتیجہ مخالفت،تنقید اور دشمنی ہے۔ جیسا کہ سب سے اعلیٰ اور بہترین اخلاق رکھنے والے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کلمہ حق بلند کیا تو مشرکین اور کفار ان کے جانی دشمن بن گئے۔ پس جان لو کہ اگر باطل تمہاری دعوت پر کوئی تنقید نہیں کرتا،تمہاری مخالفت نہیں کرتا اور تمہیں برابھلا نہیں کہتا تو وہ دعوت حق نہیں بلکہ دعوت باطل ہے جسے تم دعوت حق سمجھنے کی غلطی میں مبتلا ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کوئی شخص نہ تو صد فیصد اچھا اور نیک ہوتا ہے اور نہ صد فیصد بُرا یا خراب۔ اچھے سے اچھے انسان میں بھی کچھ نہ کچھ خرابیاں پائی جاتی ہیں
یوسف بھائی جان آپ پر تنقید کرنا میں صحیح نہیں سمجھتا ہوں، لیکن آپ نے لکھا کہ اچھے سے اچھے شخص میں بھی برائیاں ہوتی ہے یہ غلط ہے، آج کے دور کے لئے یہ جملہ درست ہے .

کیا ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم میں کوئی برائی تھی؟ یا دوسرے کوئی انبیاء میں؟؟

تمام شخصیت پر اس طرح تنقید کرنا ٹھیک نہیں ہے.

تھوڑی وضاحت کر دے بھائی.
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
یوسف بھائی جان آپ پر تنقید کرنا میں صحیح نہیں سمجھتا ہوں، لیکن آپ نے لکھا کہ اچھے سے اچھے شخص میں بھی برائیاں ہوتی ہے یہ غلط ہے، آج کے دور کے لئے یہ جملہ درست ہے .

کیا ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم میں کوئی برائی تھی؟ یا دوسرے کوئی انبیاء میں؟؟

تمام شخصیت پر اس طرح تنقید کرنا ٹھیک نہیں ہے.

تھوڑی وضاحت کر دے بھائی.
محترم عامر بھائی جب کوئی بات کی جاتی ہے تو وہ عمومی طور پر ہوتی ہے اور اس سے مراد اکثریت ہوتی ہے کل یا تمام نہیں۔یوسف ثانی بھائی کی مراد عام لوگوں سے ہے اس میں انبیاء کرام وغیرہ شامل نہیں کیونکہ وہ ہستیاں خاص دلائل کی وجہ سے مستثنی ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں قوم کے لوگ بے وفا ہوتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس قوم میں کچھ باوفا لوگ نہ ہوں۔ بس اکثریت کی بے وفائی کی وجہ سے پوری قوم کو ہی بے وفا کہہ دیا جاتا ہے۔ اور جیسے ہم کہتے ہیں کہ عربی بہت مہمان نواز ہوتے ہیں تو اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اکثر عربی مہمان نواز ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ عربیوں میں کچھ لوگ مہمان نواز نہ ہوں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
محترم عامر بھائی جب کوئی بات کی جاتی ہے تو وہ عمومی طور پر ہوتی ہے اور اس سے مراد اکثریت ہوتی ہے کل یا تمام نہیں۔یوسف ثانی بھائی کی مراد عام لوگوں سے ہے اس میں انبیاء کرام وغیرہ شامل نہیں کیونکہ وہ ہستیاں خاص دلائل کی وجہ سے مستثنی ہیں۔
جزاک اللہ خیراً
 
Top