Rashid Nawaz
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 18، 2018
- پیغامات
- 13
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 13
السلام علیکم
میری کچھ دن پہلے اپنے ایک شیعہ دوست سے باغِ فدک کے بارے میں بات ہوئی اور اس میں اُسے میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت سنائی کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی یا انکا کوئی وارث نہیں ہوتا۔
حسب توقع اس نے اس حدیث کا رد کیا اور اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ اسکا کہنا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک تو وراثت کا دعوی کیا تھا، اور ایک ہبہ کا دعوی بھی کیا تھا۔ جسکے مطابق ہبہ کے دعوی پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گواہ مانگے تو شاید ایک امِ ایمن تھیں اور علی رضی اللہ عنہ گواہ کے طور پر پیش ہوئے مگر خلیفہ ءِ اول نے شرعی گواہی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس دعوی کو رد کر دیا تھا۔ شیعہ دوست کے الفاظ تھے کہ حاکمِ وقت نے فاطمہ علیہ السلام کے پیش کردہ گواہوں کی گواہی کو بھی ماننے سے انکار کیا اور فدک پر قبضہ کر لیا۔
اس پر میں نے اپنے اس دوست کو عقلی دلائل سے تو ثابت کر دیا کہ ہبہ اور وراثت کا دعوی ایک ہی وقت میں صحیح نہیں ہوسکتا۔ اگر بی بی فاطمہ نے فدک کو وراثت میں مانگا تو اسکا مطلب وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم کی وفات تک انہی کی ملکیت میں تھا بی بی فاطمہ کو ہبہ نہی ہوا تھا۔ اور اگر انہوں نے ہبہ کا دعوی کیا تو وراثت کا دعوی باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ اسکا مطلب ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مطابق جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم کی وفات ہوئی تو فدک انکی ملکیت میں نہیں تھا بلکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ملکیت بن چکا تھا لہذا وراثت کا دعوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔۔۔
ابھی اس وقت مجھے سنی نقطہ ءِ نظر جاننا ہے جو حدیث سے ثابت ہو۔ کہ ہمارے نزدیک آیا فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دونوں دعوے کیے تھے؟ یعنی دعوی وراثت اور دعوی ہبہ؟؟ یا پھر اہلسنت کے نقطہ نظر کے مطابق بی بی فاطمہ نے محض وراثت کا دعوی کیا تھا اور ہبہ کا دعوی محض اہل تشیع حضرات کی طرف سے الزام ہے ہماری کتب کے مطابق فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہبہ کا دعوی نہیں کیا۔۔۔۔
اسکی حقیقت بتا دیں ۔
جزاک اللہ۔
میری کچھ دن پہلے اپنے ایک شیعہ دوست سے باغِ فدک کے بارے میں بات ہوئی اور اس میں اُسے میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت سنائی کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی یا انکا کوئی وارث نہیں ہوتا۔
حسب توقع اس نے اس حدیث کا رد کیا اور اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ اسکا کہنا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک تو وراثت کا دعوی کیا تھا، اور ایک ہبہ کا دعوی بھی کیا تھا۔ جسکے مطابق ہبہ کے دعوی پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گواہ مانگے تو شاید ایک امِ ایمن تھیں اور علی رضی اللہ عنہ گواہ کے طور پر پیش ہوئے مگر خلیفہ ءِ اول نے شرعی گواہی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس دعوی کو رد کر دیا تھا۔ شیعہ دوست کے الفاظ تھے کہ حاکمِ وقت نے فاطمہ علیہ السلام کے پیش کردہ گواہوں کی گواہی کو بھی ماننے سے انکار کیا اور فدک پر قبضہ کر لیا۔
اس پر میں نے اپنے اس دوست کو عقلی دلائل سے تو ثابت کر دیا کہ ہبہ اور وراثت کا دعوی ایک ہی وقت میں صحیح نہیں ہوسکتا۔ اگر بی بی فاطمہ نے فدک کو وراثت میں مانگا تو اسکا مطلب وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم کی وفات تک انہی کی ملکیت میں تھا بی بی فاطمہ کو ہبہ نہی ہوا تھا۔ اور اگر انہوں نے ہبہ کا دعوی کیا تو وراثت کا دعوی باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ اسکا مطلب ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مطابق جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم کی وفات ہوئی تو فدک انکی ملکیت میں نہیں تھا بلکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ملکیت بن چکا تھا لہذا وراثت کا دعوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔۔۔
ابھی اس وقت مجھے سنی نقطہ ءِ نظر جاننا ہے جو حدیث سے ثابت ہو۔ کہ ہمارے نزدیک آیا فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دونوں دعوے کیے تھے؟ یعنی دعوی وراثت اور دعوی ہبہ؟؟ یا پھر اہلسنت کے نقطہ نظر کے مطابق بی بی فاطمہ نے محض وراثت کا دعوی کیا تھا اور ہبہ کا دعوی محض اہل تشیع حضرات کی طرف سے الزام ہے ہماری کتب کے مطابق فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہبہ کا دعوی نہیں کیا۔۔۔۔
اسکی حقیقت بتا دیں ۔
جزاک اللہ۔