• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بحالت نماز سلام کا جواب دینا مسنون ہے

شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
بسم الله الرحمن الرحيم
السلام عليكم ورحمة الله و بركاته
کشف الشبهات فی رد السلام بالا شارۃ فی الصلوٰۃ

المعروف به

بحالت نماز سلام کا جواب دینا مسنون ہے


إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ – نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا. مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ، فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ، وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران: 102]. {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِى تَسَاءَلُونَ بِهِ وَاْلْأَرْحَامِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا}، {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ، وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ، وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا} [الأحزاب: 71] (۱)

امت مسلمہ کے درمیان ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کوسلام کہنا معلوم و معروف اور مشہور ہے۔ تقریباَ سبھی مسلمان بوقت ملاقات سلام کہنے اور اسکا جواب دینے کے اجرو ثواب سے واقف ہیں اور اسکا اجروثواب ثابت ہے۔ہرخواندہ، ناخواندہ، دین سے واقف یا دین کی سمجھ نہ رکھنے والا ، سبھی ایک دوسرے کوسلام کہتے ہیں اور اسکا جواب بھی ، اپنے اپنے علم کے مطابق، دیتے ہیں۔ہربستی، ہر قریہ ، ہر شہراورہر ملک میں ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں سے بھی زیادہ تعداد میں یہ عمل ہر روزوقوع پذیرہوتاہے۔

لیکن سلام کہنے سے متعلقہ ایک مسئلہ امت مسلمہ میں کم فہمی، غلط فہمی یا ہٹ دھرمی اور تعصب کی بناء پر اکثرو بیشتر وجہ نزاع رہاہے۔ اور آج کل یہ مسئلہ شدت کے ساتھ سامنے آرہاہے۔کہ آیا نماز پڑھنے میں مصروف شخص کو بھی سلام کہاجاسکتاہے؟ اگر کہاجاسکتاہے تونمازی اس کا جواب کیسے اور کیونکر دے؟اس طرح کے دیگرسوالات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔اور بعض مساجد میں نمازی کو سلام کہنے والے شخص کو خاصا سخت سست کہاگیا۔ کیونکہ اس نے مسجد میں آکر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے قبل نماز میں مصرو ف پوری جماعت کو السلام علیکم کہاتھا۔ اس بات کے پیش نظریہ مضمون تحریر کیاجارہاہے۔ تاکہ امت مسلمہ اس سے مستفید ہو اور اﷲ تبارک وتعالیٰ اس کے ذریعے ہم سب کو صحیح ر اہ سمجھنے کی توفیق عطا فرما ئے۔

٭

نمازمیں مصروف شخص یعنی نمازی کو بحالت نماز سلام کرنے یاکہنے کے بارے میں کوئی بات کرنے سے قبل یہ جانناضروری ہے کہ ایک مسلمان سے اسلام کس چیز کا طلبگارہے۔ اسلام دراصل اطیعواﷲاوراطیعوالرسول

کاتقاضا کرتاہے۔یعنی اﷲ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت، فرمانبرداری کا نام ہی اسلام ہے۔اﷲتعالیٰ کا ارشادہے۔

یا ایھاالذین امنوا اطیعواﷲ و رسولہ (۴) اے ایمان والو!اﷲ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو۔

نیز یاایھاالذین امنوا اطیعواﷲ و اطیعوالرسول(۵) اﷲ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے۔ترکت فیکم امرین لن تضلو ماتمسکتم بھماکتاب اﷲ وسنة نبیّہ (۶)

کہ میں تمہارے درمیان دوچیز یں۔

کتاب اﷲ (قرآن مجید)اور اس کے نبی کی سنت چھوڑ کر جارہا ہوں۔جب تک تم ان کی پیروی کرتے رہو گے، گمراہ نہیں ہوگے۔

تَرَكْتُ فيكُمْ شَيْئَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُما كِتابَ الله وسُنَّتي وَلَنْ يَتَفَرَّقا حَتَّى يَرِدا عَلَيَّ الحَوْضَ – المستدرك على الصحيحين للنيسابوري – 1\172

درج بالا قرآنی فرمان کی مزید وضاحت اوپر درج کی گئی حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے۔ ان دونوں فرامین سے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ مسائل کا حل کیسے تلاش کیاجائے اور راہنمائی کہاں سے لی جائے۔ صحیح حدیث پر عمل کرنا ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ اس سے اعراض بلاشبہ صراط مستقیم سے ہٹنے کے مترادف ہے۔

لہذا مسائل میں راہنمائی صرف قرآن وسنت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ پیش نظر مسئلہ میں بھی راہنمائی حاصل کرنے معیار یہی ہے۔

سلام کیا ہے؟

سلام کے بارے میں ایک واضح ترین بات یہ ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ناموں کے تذکرہ میں اس نام کا بھی ذکر فرمایاہے۔ چنانچہ ارشادربانی ہے۔

الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ (۷)

یعنی وہ بادشاہ ، بہت زیادہ پاک(ہر نقص ڈالنے والی شے سے منزہ وپاک)، سلام ( ہرنقص اور آفت سے سلامتی والا)، امن دینے والا ہر شے پر محافظ غالب، زور آور، بڑائی والاہے۔
م
قرآن مجید میں ہی ایک دوسرے مقام پر اﷲ تعالیٰ نے سلام کرنے اور جواب دینے کا ذکر فرمایاك ہے۔

وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا (۸)

کہ جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو۔ یا ان ہی الفاظ کو لوٹادو۔ بے شک اﷲ تعالیٰ ہرچیز کا حساب لینے والاہے۔

مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ سلام میں زیادتی یعنی بہترانداز میں لوٹانا مستحب ہے۔اگر کوئی شخص السلام علیکم کہتا ہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ کہنا زیادہ افضل ہے گو صرف وعلیکم السلام کہنا بھی ٹھیک ہے۔ لیکن سلام کا جواب ہر صورت دینا ضروری ہے۔

حافظ ابن کثیرؒ حضرت حسن بصریؒ کاقول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سلام کہنا نفل ہے۔ اوراس کا جواب فرض ہے۔ اس لیے کہ سلام کا جواب دینا اﷲ کاحکم ہے۔(۹)

احادیث مبارکہ میں بھی سلام کے بارے میں بڑی تاکید اور فضیلت ہے۔اﷲ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے۔

افشوا السلام بینکم (۱۰) کہ اپنے درمیان سلام پھیلاؤ

ایک دوسری حدیث میں ہے۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ»(۱۱)

آپ ﷺسے ایک آدمی نے سوال کیا کہ بہترین اسلام کیا ہے۔تو آپﷺنے فرمایا کہ بھوکوں کو کھانا کھلانا اورواقف نا واقف کوسلام کہنا۔

ایک دوسری حدیث میں اﷲکے رسول ﷺکاارشادہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ» قِيلَ: مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللهِ؟، قَالَ: «إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ فَسَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ» (۱۲)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول وہ کیا ہیں آپ نے فرمایا جب تو اس سے ملے تو اسے سلام کر جب وہ تجھے دعوت دے تو قبول کر اور جب وہ تجھ سے خیر خواہی طلب کرے تو تو اس کی خیر خواہی کر جب وہ چھینکے اور اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہے تو تم دعا دو یعنی یَرحَمُکَ اللہ کہو جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرو۔

اس حدیث مبارکہ میں مسلمان کے مسلمان پر جو چھ حقوق بیان کئے گئے ہیں۔۔ان میں سب سے پہلا حق سلام کہنے کا ہے۔دوسری حدیث سے ہرمسلمان کو سلام کہنے کی فضیلت کا بخوبی علم ہوجاتاہے۔لہذا مسلمان کا مسلمان کو بوقت ملاقات سلام کہنا مشروع ہے اور اس میں کوئی کلام نہیں۔ اس حدیث کا مفہوم بھی عام ہے۔ کسی خاص وقت کاذکر نہیں۔ملاقات کے وقت سلام کہنے کا حکم ہے۔اور ملاقات کی تو بہت سی قسمیں ہیں۔

کیا نمازی کو بحالت نماز سلام کہنا چاہیے؟

نمازی کو سلام کہنے کے متعلق اگرعلیحدہ طورپر اور خاص احادیث نہ بھی موجود ہوں تو بھی پہلے بیان کی جانے والی احادیث ہی اس پردلا لت کرتی ہیں۔کیونکہ نمازی کے پاس جب دوسرا مسلمان آئے گا۔تو وہ دونوں کی ملاقات ہی کہلائے گا۔اور حدیث کے الفاظ بھی یہی ہیں کہ جب تواس سے ملاقات کرے تو سلام کہہ۔ لہذا نمازی کو اس حدیث کی روسے بھی سلام کہاجاسکتاہے۔

لیکن اس مسئلہ پر ہمارے پاس اﷲ کے رسولﷺکے عمل مبارک سے دلائل موجود ہیں۔ جن کا ذکر آئندہ سطورمیں آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔(ان شاء اﷲ)

پہلی حدیث

عَنْ ابْنِ عُمَرَ (رضی اﷲ عنهما) ، قَالَ: قُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ؟ قَالَ: «كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ»(۱۳)

حضرت عبداﷲ بن عمر (رضی اﷲ عنهما) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اﷲعنہ سے پوچھا کہ لوگ اﷲ کے رسول ﷺ کو نماز کی حالت میں سلام کہتے تھے تو آپ ﷺ اس کا جوا ب کس طرح دیتے تھے؟تو آپ رضی اﷲعنہ نے جواب دیا کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے۔

امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح اور علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیاہے۔(۱۴)

اس حدیث مبارکہ سے دوباتوں کی وضاحت ہوتی ہے۔

1۔ اﷲ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیم اجمعین آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بحالت نماز سلام کہاکرتے تھے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو سائل حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما کا سوال یوں ہوتاکہ کیا لوگ اﷲ کے رسول ﷺ کو نماز کی حالت میں سلام کہتے تھے؟ لیکن انہوں نے یہ سوال نہیں کیا بلکہ یوں سوال کیا کہ لوگ اﷲ کے رسول ﷺ کو نماز کی حالت میں جب سلام کرتے تھے تو آپ ﷺ اس کا جواب کس طریقے سے دیتے تھے؟ فرضاََ اگر بحالت نمازسلام کرنامنع ہوتا تو حضر ت بلال رضی اﷲ عنہ کا جواب ہوتا کہ نماز کی حالت میں سلام جائز نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔

۲۔ نماز پڑھنے میں مصروف شخص سلام کا جواب کیسے دے۔ حدیث مبارکہ سے آپ ﷺ کے اسوۃ حسنہ کا پتہ چلتاہے کہ بحالت نماز آپ ﷺ پر کیے جانے والے سلام کا جواب آپ ﷺ کس طریقے سے دیتے تھے۔

علامہ مبارکپوری ؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث نماز میں اشارے کے ساتھ سلام کا جواب دینے میں دلیل ہے۔اور یہی جمہورعلماء کا مذہب ہے۔(۱۵)

دوسرى حديث – حديث ابن عمر

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسْجِدَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ مَسْجِدَ قُبَاءَ يُصَلِّي فِيهِ فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ رِجَالُ الْأَنْصَارِ يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَدَخَلَ مَعَهُ صُهَيْبٌ فَسَأَلْتُ صُهَيْبًا كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ إِذَا سُلِّمَ عَلَيْهِ قَالَ يُشِيرُ بِيَدِهِ (۱۶)

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھمافرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ مسجد قباء میں نماز پڑھنے گئے تو آپ ﷺ کے پاس انصار آئے اور آپ ﷺ کو سلام کیا۔جبکہ آپ ﷺ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔آپ ﷺ کے ساتھ حضرت صھیب رضی اﷲ عنہ بھی تھے۔ میں نے حضرت صھیب رضی اﷲ عنہ سے پوچھا کہ جب لوگ آپ ﷺ کو سلام کرتے تھے تو آپ ﷺ اس کا جواب کیسے دیتے تھے۔ تو حضرت صھیب رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ آپﷺ ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے۔

اس حدیث کے متعلق علامہ شعیب الارناؤوط کہتے ہیں۔ “اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین”(۱۷)

تیسری حدیث – (حدیث صھیب)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ صُهَيْبٍ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَسَلَّمْتُ فَرَدَّ إِلَيَّ إِشَارَةً وَقَالَ لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ إِشَارَةً بِإِصْبَعِهِ (۱۸)

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما حضرت صھیب رضی اﷲعنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں(حضرت صھیب رضی اﷲ عنہ) اﷲکے رسول ﷺ کے پاس سے گزرا اور آپ ﷺ اسوقت نماز پڑھ رہے تھے تو میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اشارہ سے اس کا جواب دیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا لیکن شاید صھیب نے یہ بھی کہا کہ انگلی سے اشارہ کرکے جواب دیا۔

علامہ البانی ؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔نیز علامہ شعیب الارنا ؤوط نے بھی اسے صحیح قرار دیاہے۔(۱۹)

چوتھی حدیث ۔ (حدیث عمار)

عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنَّهُ «سَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَرَدَّ عَلَيْهِ»(۲۰)

حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بحالت نماز سلام کیا تو آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اس سلام کا جواب دیا۔

(قال الشیخ الالبانی ۔ صحيح الإسناد) علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (۲۱)

امام ترمذی رحمہ اﷲ حدیث بلال رضی اﷲ عنہ کے تحت فرماتے ہیں۔

«هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ صُهَيْبٍ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ عَنْ بُكَيْرٍ» وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حَيْثُ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: «كَانَ يَرُدُّ إِشَارَةً» وَكِلَا الحَدِيثَيْنِ عِنْدِي صَحِيحٌ، لِأَنَّ قِصَّةَ حَدِيثِ صُهَيْبٍ غَيْرُ قِصَّةِ حَدِيثِ بِلَالٍ، وَإِنْ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَوَى عَنْهُمَا فَاحْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْهُمَا جَمِيعًا “(۲۲)

کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور صھیب کی حدیث بھی حسن درجے کی ہے۔ لیکن ہم اس کو لیث جوکہ بکیر سے روایت کرتے ہیں۔ کی حدیث کے سوا نہیں جانتے۔ اور زیدبن اسلم نے حضرت عبداﷲبن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا جس میں حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اﷲ عنہ سے پوچھا کہ جب مسجد بنی عمروبن عوف میں لوگ آپ ﷺ کو سلام کرتے تھے۔ تو آپﷺ کیسے جواب دیتے تھے۔ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے جواب دیاکہ ہاتھ سے اشارہ کرکے جواب دیتے تھے۔ امام ترمذی مزیدفرماتے ہیں کہ دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں۔کیونکہ حضرت صھیب رضی اﷲ عنہ اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہ دونوں کے قصے الگ الگ ہیں۔ اور اگر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ان دونوں حضرات سے روایت کیاہے۔ تو اس بات کا امکان ہے کہ انہوں نے دونوں حضرات سے سنا ہو۔

امام ابن حزمؒ كا موقف : ان كا خيال ہےکہ یہ ايك ہى واقعہ ہے اور انہوں نے المدونة سے ايك روايت بطور دليل بيان كى ہے- اور کہا

”زعم الترمذي وتبعه الشوكاني (ج 2: ص 378) انهما قصتان مختلفتان، ولا دليل يؤيده، بل الظاهر انها قصة واحدة، ففى المدونة (ج 1: ص 100) (ابن وهب عن هشام بن سعد عن نافع عن ابن عمر قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قباء فسمعت به الانصار فجاؤا يسلمون على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال فقلت لبلال أو لصهيب: كيف رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهم يسلمون عليه؟ وهويصلى قال: يشير بيديه) والترمذي وأبو داود انما روياه من طريق هشام بن سعد عن نافع، فظهر أن القصة واحدة وانما الشك من ابن عمر، ثم صارالرواة يذكر بعضهم صهيبا وبعضهم بلالا “

( ملاحظہ فرمائیں :المحلى بالآثار شرح المجلى بالإختصار)

امام شوکانی رحمہ اﷲ اپنی مشہور زمانہ تصنیف “نیل الاوطار”میں اس موضوع پر سیر حاصل تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ والأحاديث ) المذكورة تدل على أنه لا بأس أن يسلم غير المصلي على المصلي لتقريره صلى الله عليه وآله وسلم (۲۳)

کہ یہ سب احادیث اس بات پردلالت کناں ہیں کہ نمازی کو بحالت نمازسلام کہا جاسکتاہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حضرت صھیب رضی اﷲ عنہ سے روایت کردہ حدیث کے حوالے سے امام ابن حزمؒ کہتے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ غالباََ آپ ﷺ نے اس اشارے سے منع کردیاتھا۔ مگر یہ صاف جھوٹ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ ﷺنماز سے فارغ ہونے کے بعد اس سے منع فرمادیتے۔ (۲۴)

حالت نماز میں سلام کا جواب کیسے دیں؟

گذشتہ سطور میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نمازی کو نمازکی حالت میں سلام کیا جاسکتاہے۔ اور کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک مسنون عمل ہے۔ ان احادیث میں اگرچہ سلام کہنے اور اس کا جواب دینے کا بھی ذکر ہے ۔لیکن یہاں ذرا وضاحت کے ساتھ سلام کا جواب دینے کے بارے میں تذکرہ کیاجاتاہے۔

تمام احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بحالت نماز سلام کا جواب اشارہ کے ذریعے سے دیا جائے کیونکہ نماز میں کلام کرنا منع ہے اور سلام کا جواب بذریعہ کلام دینا بھی منع ہے۔اس کا بھی آئندہ سطورمیں ذکر ہوگا ۔ ( ان شاء اﷲ)

پانچویں حدیث ۔ (حدیث جابر)

عَنْ جَابِرٍ أَنّهُ قَالَ: إِنّ رَسُولَ اللّهِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَنِي لِحَاجَةٍ. ثُمّ أَدْرَكْتُهُ وَهُوَ يَسِيرُ. (قَالَ قُتَيْبَةُ: يُصَلّي) فَسَلّمْتُ عَلَيْهِ فَأَشَارَ إِلَيّ، فَلَمّا فَرَغَ دَعَانِي فَقَالَ: “إِنّكَ سَلّمْتَ آنِفاً وَأَنَا أُصَلّي” وَهُوَ مُوَجّهٌ حِينَئِذٍ قِبَلَ الْمَشْرِقِ-(۲۵)

حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے مجھے کسی کام کے لیے بھیجا پھر جب میں واپس آپ ﷺ کے پاس آیا تو آپﷺاسوقت۔ حضرت قتیبہ کے بیان کے مطابق۔ سواری پر نماز پڑھ رہے تھے۔میں نے آپ ﷺکو سلام کیا تو آپ ﷺنے مجھے اشارے سے جواب دیا۔جب آپ ﷺنمازسے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا کہ تو نے ابھی مجھے سلام کیاتھا۔ جبکہ میں نماز پڑھ رہاتھا۔ اس لیے جواب نہ دے سکا۔ راوی کہتے ہیں کہ اسوقت آپﷺ کا منہ مشرق(۲۶) کی جانب تھا ۔

اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیاہے۔ اس کے ساتھ د و اور حدیثیں بھی اسی مضمون کی بیان کی ہیں۔امام مسلم اس حدیث کو “باب تحریم الکلام فی الصلوۃ” [یعنی نماز میں باتیں کرنا حرام ہے ]کے باب میں لائے ہیں۔جس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ سلام کا جواب بحالت نماز صرف اشارے سے ہی دیا جاسکتا ہے۔ لفظاََگفتگوسے کلام کرنا حرام ہے۔ امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ زبان سے سلام کا جواب دینا حرام ہے۔ جبکہ اشارے سے سلام کا جواب جائز اور مستحب ہے۔(۲۷)

امام مالک نے بهى ” موطا” میں اسى طرح كا ايك اثر حضرت عبداﷲ بن عمر سے نقل کیا ہے۔

عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَرَدَّ الرَّجُلُ كَلاَماً، فَرَجَعَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَقَالَ لَهُ : إِذَا سُلِّمَ عَلَى أَحَدِكُمْ وَهُوَ يُصَلِّي فَلاَ يَتَكَلَّمْ، وَلْيُشِرْ بِيَدِهِ.(۲۸)

کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ ایک شخص کے پاس سے گزرے جبکہ وہ نمازپڑھ رہا تھا۔ انہوں نے اسے سلام کیا تواس نے زبان سے اس کا جواب دیا۔ اس پر حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ واپس لوٹے اور اس سے کہا کہ جب کسی شخص کو سلام کیا جائے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو نمازی زبان سے جواب نہ دے بلکہ ہاتھ کے اشارے سے جواب دے۔

امام صنعانی،صاحب سبل السلام شرح بلوغ المرام، میں اشارہ سے سلام کا جواب دینے کے حوالے سے لکھتے ہیں :

لِأَنَّ الرَّدَّ بِالْقَوْلِ وَاجِبٌ ، وَقَدْ تَعَذَّرَ فِي الصَّلَاةِ ، فَبَقِيَ الرَّدُّ بِأَيِّ مُمْكِنٍ ، وَقَدْ أَمْكَنَ بِالْإِشَارَةِ ، وَجَعَلَهُ الشَّارِعُ رَدًّا ، وَسَمَّاهُ الصَّحَابَةُ رَدًّا ، وَدَخَلَ تَحْتَ قَوْله تَعَالَى { أَوْ رُدُّوهَا }.(۲۹)

کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے کیونکہ سلام کا جواب دینااﷲتعالیٰ کے حکم { أَوْ رُدُّوهَا } (النساء ۸۶) کے تحت واجب ہے۔اور نمازی اپنی نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے بہترانداز سے صرف اشارہ کے ساتھ ہی سلام کا جواب دے سکتا ہے۔ اور اس طرح شارع علیہ السلام اور آپ ﷺ کے تمام صحابہ کرامؓ نے سلام کا جواب دیاہے۔

امام صنعانی مزیدفرماتے ہیں۔

وَالْقَوْلُ بِأَنَّهُ مَنْ سَلَّمَ عَلَى الْمُصَلِّي لَا يَسْتَحِقُّ جَوَابًا : يَعْنِي بِالْإِشَارَةِ وَلَا بِاللَّفْظِ ، يَرُدُّهُ رَدُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْأَنْصَارِ ، وَعَلَى ” جَابِرٍ ” بِالْإِشَارَةِ ، وَلَوْ كَانُوا لَا يَسْتَحِقُّونَ لَأَخْبَرَهُمْ بِذَلِكَ ، وَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ . (۳۰)

اگر نمازی کو سلام کرنے والا زبان سے یا اشارہ سے جواب کا حقدار نہ ہوتاتو یقیناًاﷲ کے رسول ﷺ انصار کو، حضرت جابر رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو سلام کا جواب نہ دیتے اور ان کو اس مسئلے کی وضاحت بھی کردیتے لیکن ایسا نہیں۔

نماز کی حالت میں سلام کا جواب دیتے ہوئے اشارے کا کونسا طریقہ استعمال کرنا چاہیے؟

اب تک کی ساری بحث سے یہ بات الحمداﷲثابت ہے کہ نمازی کو سلام کا جواب اشارے سے دیاجائے۔اب اس اشارے کی کیفیت کا ذکرکیا جاتاہے کہ اشارہ کس طریقہ سے کیا جائے۔

اوپر بیان کی گئی تقریباََ تمام احادیث میں جہاں اشارے سے سلام کا جواب دینے کا ذکر ہے اس کے ساتھ یہ بھی وضاحت ہے کہ ہاتھ سے اشارہ کرکے یا انگلی کے اشارہ سے جواب دیاجائے۔جبکہ نیچے بیان ہونے والی ابوداؤدکی حدیث میں وضاحت کے ساتھ اس کیفیت کوبیان کیا گیاہے۔

حدیث ابی داؤد

حَدَّثَنَا نَافِعٌ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ- صلى الله عليه وسلم- إِلَى قُبَاءَ يُصَلِّى فِيهِ —– يَقُولُ هَكَذَا وَبَسَطَ كَفَّهُ. وَبَسَطَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ كَفَّهُ وَجَعَلَ بَطْنَهُ أَسْفَلَ وَجَعَلَ ظَهْرَهُ إِلَى فَوْقٍ.(۳۱)

نافع سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد قباء میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ ——- انھوں نے کہا اس طرح! اور ہاتھ کو پھیلایا اور جعفر بن عون نے بتلایا اس طرح کہ ہاتھ کو پھیلایا اور ہتھیلی نیچے کی جانب کی اور پشت کی طرف۔

امام شوکانی کیفیت اشارہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ورد في كيفية الإشارة لرد السلام في الصلاة حديث ابن عمر عن صهيب قال ——- الخ (۳۲)

کہ سلام کا جواب اشارہ سے دینے کی کیفیت حضرت ابن عمر عن صھیبؓ والی حدیث میں انگلی کے اشارے کا ذکر ہے۔ جبکہ حدیث بلال میں ہاتھ کے اشارے کا ذکر ہے۔ تو ان احادیث میں کوئی اختلاف نہیں ہے لہذا کبھی ہاتھ کے اشارے سے یا کبھی انگلی کے اشارے سے سلام کا جواب دینا جائز ہے۔

امام البانی نے اس حدیث کو صحیح قراردیاہے۔

اور ایک تیسرا طریقہ جسے بیہقی نے حسن اسناد کے ساتھ ذکرکیاہے اور جو حضرت ابن مسعود سے مروی ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : لَمَّا قَدِمْتُ مِنَ الْحَبَشَةِ أَتَيْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- وَهُوَ يُصَلِّى ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَأَوْمَأَ بِرَأْسِهِ (۳۳)

کہ جب میں حبشہ سے واپس لوٹا تو نبىﷺ كى خدمت میں حاضر ہوا- آپ ﷺ اسوقت نماز ادا كر ر ہے تهے- میں نےآپ ﷺ كو سلام كيا تو آپ ﷺ نے سرکے اشارے سے جواب دیا۔

بیھقی میں ہی ایک دوسری روایت -جوکہ عبداﷲ بن مسعود سے ہی مروی ہے-کے الفاظ یوں ہیں۔

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ سَلَّمَ عَلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- وَهُوَ يُصَلِّى ، فَقَالَ بِرَأْسِهِ يَعْنِى الرَّدَّ. (۳۴)

یعنی اﷲ کے رسول ﷺ نے سرکے اشارے سے سلام کا جواب لوٹایا۔

یہ حدیث مرسل ہے۔( اسكى سند میں عبدالله بن مسعود اور محمد بن سيرين کے درميان انقطاع ہے)

ان تمام روایات کو اگر تطبیق دی جائے تو یہ بات بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نمازکی حالت میں کبھی انگلی ، کبھی ہاتھ اور کبھی سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیا۔یہ تمام طریقے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔(۳۵)

نمازمیں گفتگو کرنا یا لفظاً سلام کا جواب دینا منع ہے

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَهُوَ فِى الصَّلاَةِ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِى سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَيْكَ فِى الصَّلاَةِ فَتَرُدُّ عَلَيْنَا. فَقَالَ « إِنَّ فِى الصَّلاَةِ شُغُلاً ».(۳۶)

حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اﷲ ﷺ نماز پڑھ رہے ہوتے توہم ان کو سلام کرتے تھے۔ تو آپ ﷺ اس کا جواب دیا کرتے تھے۔لیکن جب ہم نجاشی( بادشاہ حبش) کے پاس سے لوٹ کر واپس آئے تو ہم نے معمول کے مطابق رسول اﷲﷺ کو جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔سلام کیاتو آپ ﷺ نے اس کا جواب نہ دیا۔ نماز کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز میں سلام کرنے سے خشوع میں فرق آتا ہے اور دل پریشان ہوتا ہے(۳۷)

حضرت ابن مسعود سے ہی ایک دوسری حدیث جو سنن ابوداؤد میں ہے جس میں نماز میں بوقت حاجت گفتگو کرنے کا ذکر اس طرح سے ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ وَنَأْمُرُ بِحَاجَتِنَا، فَقَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، فَأَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ، وَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ قَدْ أَحْدَثَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ»، فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ (۳۸)

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ پہلے ہم نماز کی حالت میں سلام کیا کرتے تھے۔ اور اپنے کام کاج کی باتیں بھی کرلیتے تھے۔ لیکن جب میں حبشہ سے واپس آکررسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس آیا تو آپﷺ کو سلام کیا۔لیکن آپﷺ نے اس کا جواب نہ دیا۔ مجھے اپنی نئی اور پرانی باتوں کی فکر پیدا ہوئی (کہ شاید مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوگئی جس کی بناء پر اﷲ کے رسول ﷺ ناراض ہیں اور آپﷺنے جواب نہیں دیا۔) جب آپﷺ نمازسے فارغ ہوئے توآپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ جو چاہتا ہے نیا حکم نازل فرمادیتا ہے۔اور اب بے شک اللہ تعالیٰ نے یہ نیا حکم نازل فرمایا ہے کہ نماز میں باتیں نہ کرو اور پھر آپﷺ نے میرے سلام کا جواب دیا۔

[اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح سنن ابی داؤد میں صحیح قرار دیاہے۔]

ایک اور حدیث جسے امام ابوداؤد نے حضرت جابر کے حوالے سے بیان کیاہے۔

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَرْسَلَنِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِي الْمُصْطَلَقِ، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ يُصَلِّي عَلَى بَعِيرِهِ فَكَلَّمْتُهُ، فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ، فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا: وَأَنَا أَسْمَعُهُ يَقْرَأُ وَيُومِئُ بِرَأْسِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: «مَا فَعَلْتَ فِي الَّذِي أَرْسَلْتُكَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُكَلِّمَكَ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي»(۳۹)

حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم نے مجھے کسی کام کے لیے بنی مصطلق کے پاس بھیجا۔ جب میں واپس آیاتو آپ ﷺ اپنے اونٹ پرنمازپڑھ رہے تھے۔ میں نے آپ ﷺ سے بات کی تو آپﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔میں نے پھر بات کی تو آپﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ اور میں سن رہاتھاکہ آپ قرآن مجید پڑھ رہے تھے اور (رکوع سجود کے لیے) سر سے اشارہ کرتے تھے۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺنے پوچھاکہ جس کام کے لیے میں نے تمہیں بھیجا تھا اس کا کیا بنا۔ اور میں نے تم سے اس لیے بات نہ کی کہ میں نماز پڑھ رہاتھا۔

اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح سنن ابی داؤد میں صحیح قرار دیاہے۔ اما م نسائی نے بھی سنن نسائی میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔(۴۰) علاوہ ازیں امام مسلم نے بھی صحیح مسلم میں اسی مفہوم کی حدیث بیان کی ہے۔(۴۱)

امام شو کانی لکھتے ہیں “ولكنه ينبغي أن يحمل الرد المنفي ههنا على الرد بالكلام لا الرد بالإشارة لأن ابن مسعود نفسه قد روى عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه رد عليه بالإشارة” (۴۲)

کہ سلام کا جواب نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے سلام کا جواب نہ دیا جائے نہ کہ اشارہ کے ساتھ۔جبکہ حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے انہیں اشارے کے ساتھ سلام کا جواب دیا۔

چودھویں صدی ہجری کے محدث شہیر علامہ عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں

وفي الحديث دليل على أنه لا يجوز لمن سلم عليه في الصلاة أن يرد السلام فيها نطقاً وقولاً ، وعلى أنه يستحب له أن يرد باللفظ بعد الفراغ من الصلاة ، ولا دليل فيه على منع الرد في الصلاة بالإشارة، بل مرسل ابن سيرين عند ابن أبي شيبة يدل صريحاً على أنه {صلى الله عليه وسلم} رد السلام على ابن مسعود في هذه القصة بالإشارة (۴۳)

کہ نماز کی حالت میں گفتگو یعنی زبان سے بات کرکے سلام کا جواب دینا جائز نہیں ہے بلکہ یہ بات مستحب ہے کہ نماز سے فراعت کے بعد سلام کا جواب دے۔ آپ مزید لکھتے ہیں۔ اس حدیث میں اشارے سے سلام کا جواب دینے سے منع کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔بلکہ مصنف ابن ابی شیبہ كى مرسل روايت میں اس بات کی صراحت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس قصہ میں حضرت عبداﷲبن مسعود رضی اﷲ عنہ کو اشارے کے ساتھ سلام کا جواب دیا۔

مصنف ابن ابی شیبہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں۔

عن ابن عون ابن سيرين قال لما قدم عبد الله من الحبشة أتى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي فسلم عليه فأومأ وأشار برأسه (۴۴)

اس حدیث کا ایک شاہد سنن الکبریٰ للبیھقی میں بھی موجود ہے۔(۴۵)

نمازمیں سلام کاجواب دینے کے مخالفین کے اعتراضات کا جائزہ

نماز میں سلام کا جواب دینے کی مخالفت کرنے والے حضرات کے استدلال کی عمارت اس حدیث پر کھڑی ہے۔ جسے ابوداؤد نے اپنی سنن، طحاوی نے شرح معانی الاٰثار، دارقطنی نے اپنی سنن( دوسندوں کے ساتھ) اور بیہقی نے سنن الکبرٰی میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے۔ دیگر محدثین نے بھی اس روایت کو اپنی کتب میں نقل کیاہے۔اکثر محدثین نے یہ روایت ابوداؤد کے حوالے سے ہی نقل کی ہے۔

میں یہاں طحاوی کی بیان کردہ روایت بمعہ اسناد کے نقل کرتا ہوں اور پھر اس کی اسنادی حیثیت کے بارے میں محدثین کے اقوال بیان کروں گا۔ا ن شاء اﷲ۔

حَدَّثَنَا فَهْدُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ : أَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ , قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ , عَنْ أَبِي غَطَفَانَ بْنِ طَرِيفٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ , وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ , وَمَنْ أَشَارَ فِي صَلاَتِهِ إشَارَةً تُفْهَمُ مِنْهُ فَلْيُعِدْهَا-(۴۶)

حضرت ابوہر یرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ نماز کی حالت میں (بوقت ضرورت)آدمی تسبیح کہیں اور عورتیں تالیاں بجائیں۔جوشخص حالت نماز میں ایسا اشارہ کرے جو سمجھا جاسکتا ہو(با معنیٰ اشارہ) تو وہ شخص نماز کو لوٹائے۔

اس حدیث کی اسنادی حیثیت پر گفتگو کرنے سے پہلے ایک ضروری بات یہ ہے کہ اس حدیث کو حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔ احناف کے نزدیک حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ (معاذاﷲ)”غیر فقیہ”صحابی ہیں (*) اورپھر اس “غیر فقیہ”کی بیان کردہ روایت سے ہی اپنی مسلک کی حمایت کے لیے دلیل لیتے ہیں۔ یہ دوہرا معیارانصاف کے قریب قطعاََ نہیں ہوسکتا۔ بقول شاعر:

تیری بات کو بت حیلہ گر نہ قرار ہے ،نہ قیام ہے

کبھی شام ہے، کبھی صبح ہے، کبھی صبح ہے ،کبھی شام ہے

ویسے تو علمائے احناف کی یہ عادت بھی ہے کہ اپنے مسلک کی بے جا حمایت کے لیے صحیح احادیث کی تاویل بلکہ ان کو غلط قرار دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ اسطرح حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ جوحدیث ان کے مسلک کے خلاف ہو اس کو اس بناء پررد کرتے ہیں کہ(معاذ اﷲ) وہ “غیرفقیہ”ہیں لیکن جب مسلک کی حمایت میں ہوتو ان کی روایت سے استدلال کا محل کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

مثال کے طور پر کتے کے جوٹھے کو پاک کرنے کے سلسلے میں صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ اس کو سات مرتبہ دھویا جائے اور پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ – (۴۷ ) لیکن یہ صحیح حدیث چونکہ ان کے مسلک کے خلاف ہے۔ لہذاانہوں نے اس صحیح حدیث کے مقابلہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ (باوجود اس کے کہ وہ ان کے نزدیک غیر فقیہ ہیں) کے اس فتوی کوقبول کیا جس میں تین بار دھونے کا ذکر ہے۔ حالانکہ انہی حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے حدیث کے مطابق یعنی سات بار دھونے والا فتوی بھی موجود ہے۔ لیکن مخالفتِ حدیث اور حمایتِ مسلک کی وجہ سے ایک مرجوح فتوی پر عمل جائز قرار دیا گیا ہے۔

یہ بات تو محض ایک جملہ معترضہ کے طور پر سامنے آگئی۔ لہذا اب نفس مضمون کی طرف لوٹتا ہوں ۔

اس روایت کی اسنادی حیثیت یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی محمد بن اسحاق ہے جو مدلس راوی ہے۔ وہ یعقوب بن عتبہ سے”عن”کہہ کہ روایت کرتے ہیں۔ (۴۸) نیز امام ابوداؤدنے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد اس روایت کو”وہم”کے ساتھ تعبیر کیاہے۔(۴۹)

یہ بات قابل ذکر ہے کہ احناف کے امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کے استاد(*)محمد بن اسحاق بے شک وشبہ ایک ثقہ راوی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مدلس بھی ہیں۔اور محدثین کرام بالاتفاق ان کی عنعنہ یعنی”عن”کے ذریعہ والی روایت سے اسوقت تک احتجاج نہیں کرتے جب تک اس کی تحدیث ثابت نہ ہو۔ اس روایت میں چونکہ تحدیث ثابت نہیں۔لہذا ابن اسحاق کی یہ” عن” والی روایت محدثین کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔

(*) قاضی ابو یوسف نے اپنی کتاب الخراج میں ابن اسحاق سے تقریباً ۲۸ مقامات پرنہ صرف روایات لی ہیں بلکہ بعض مقامات پر ان سے احتجاج بھی کیاہے۔ مزید برآں امام ابو نعیم نے مسند ابو حنیفہ میں ابن اسحاق کا استاد بھی قرار دیا ہے

(دیکھئے کتاب الخراج لابى يوسف، مسندابی حنیفہ)

ابن اسحاق کے متعلق امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں۔

[اذا قال حدثنی فهو ثقة عنداھل الحدیث]

آپ مزید لکھتے ہیں

اذاقال حدثنی فحدیثه صحیح عنداھل الحدیث](۵۰)]

یعنی ابن اسحاق جب حدثنی کہے تو محدثین کے نزدیک وہ سچا اور اسکی حدیث صحیح ہے۔لیکن مذکورہ بالا حدیث میں چونکہ ابن اسحاق نے “حدثنی”نہیں کہا۔ بلکہ “عن”کہاہے۔ لہذا یہ روایت قابل قبول نہیں۔

ابن اسحاق کی معنعن روایات کی بناء پر حافظ ابن حجر کہتے ہیں:

وینظر فی عنعنة محمد بن اسحاق (۵۱) کہ محمد بن اسحاق کے عنعنہ کا خیال کیا جائے۔

*دوسری بات*

علمائے احناف کے نزدیک محمدبن اسحاق تو ویسے بھی غیر معتبر راوی ہے اور اس کی بیان کردہ حدیث کو وہ درست قرار نہیں دیتے ۔ پھر ایک غیر معتبر راوی سے استدلال کیسا؟

مثال کے طور پر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے سے متعلق حضرت عبادہ بن صامت کی روایت جسے ابوداؤد(رقم۸۰۶) ،ترمذی، دارقطنی (رقم ۱۲۲۹)، مسند احمد(رقم ۲۱۶۸۸)، صحیح ابن حبان،صحیح ابن خزیمہ اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے۔ لیکن یہ روایت صحیح ہونے کے باوجود علمائے احناف اسے صرف اس بناء پر قبول کرنے سے انکاری ہیں کہ اس کی سند میں محمدبن اسحاق ہے جوان کے نزدیک غیر معتبرراوی ہے۔”احسن الکلام”کے حنفی مصنف کا اس حدیث پر اعتراض ہی یہی ہے کہ “محدثین اور ارباب جرح وتعدیل کا تقریباََ پچانوے فیصد گر وہ اس بات پرمتفق ہے کہ حدیث میں وہ (محمد بن اسحاق) کسی طرح حجت نہیں۔ان کی روایات کا وجود وعدم برابر ہے۔(۵۲)

مزید برآں علمائے احناف ابن اسحاق کو امام ہشام کی جرح کی بنیاد پر “کذاب”کہتے ہیں۔(۵۳) (اگرچہ ان کا یہ کہنا بالکل غلط ہے۔) لہٰذا اگر ان کے اسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ابن اسحاق کو “کذاب”تصور کریں۔ تو بھی مذکورہ بالاحدیث ضعیف ٹھہرے گی۔ اور صحیح احادیث کی معارض ہونے کی بناء پر ناقابل قبول ہوگی۔

مزیدبرآں حضرات احناف کے شیخ الھند مولانا محمود الحسن نے بھی ابن اسحاق کو (محدثین کے اقوال کے خلاف) ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔آپ حدیثِ فاتحہ کے حوالے سے ابن اسحاق پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں[ اور حدیث مذکور کو محمد بن اسحاق جو کہ مدلس ہے معنعن بیان کرتاہے اس وجہ سے لائق احتجاج نہیں ہونا چاہئے](ایضاح الادلہ،ص۴۴، محمود الحسن، مطبع قاسمی مدرسہ اسلامیہ دیوبند)

موصوف اسی صفحہ کی آخری دو سطور میں مزید فرماتے ہیں[اب ان اقوال سے محمد بن اسحاق کالائق احتجاج نہ ہونااظہر من الشمس ہے] (حوالہ سابق))

لہٰذا احناف اس روایت کو اپنے بزرگوں کے اقوال کی روشنی میں اس مسئلے میں بطور دلیل پیش ہی نہیں کرسکتے۔ ہاں اس کے علاوہ کوئی دلیل ہو تو بات اور ہے۔ ھاتوا برہانکم ان کنتم صادقین۔

علامہ زیلعی حنفی اپنی مشہور زمانہ کتاب”نصب الرایة فی تخریج احادیث الهداية”میں اس حدیث کے حوالے

سے لکھتے ہیں کہ اسحاق بن ابراہیم بن ہانی کہتے ہیں کہ امام احمد سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیاگیاتو آپ(امام احمد) نے جواب دیا۔ (لا یثبت اسنادہ ) کہ اس حدیث کی اسناد ثابت نہیں۔اور کہا (لیس بشئی)یہ حدیث کوئی چیز نہیں۔ (۵۴)

علامہ زیلعی نے یہ رائے نقل کرنے کے بعداس پرکوئی تبصرہ نہیں کیا۔ان کا اس تبصرے پر خاموش رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں (علامہ زیلعی) کو بھی دراصل اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتاتوعلامہ زیلعی اس تبصرے پر اپنا تبصرہ اور رائے یا رد ضرور فرماتے۔اور پھر انہوں نے ابن اسحاق کی تدلیس کے بارے میں بھی خاموشی اختیار کی۔

حالانکہ علامہ زیلعی حنفی نے اس مسئلہ میں اپنے دلائل کی ابتداء یوں کی ہے۔(ولنا حدیث جید اخرجه ابوداؤد فی سننه عن ابن اسحاق عن ایوب بن عتبه عن ابی عظفان عن ابی هريرة ان النبی ﷺ قال من اشارفی الصلوٰۃ تفهم او تفقه فقد قطع الصلوٰۃ)( ۵۵)

کہ ہمارے مسلک کی تائید میں ہمارے پاس”جید”حدیث ہے۔ جسے امام ابوداؤ نے بطریق ابن اسحاق عن یعقوب۔۔ ۔عن ابوہریرۃ بیان کیاہے۔ کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس نے نماز میں ایسا اشارہ کیا جو کسی مفہوم کے لیے ہوتو اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔

علامہ زیلعی کا اس حدیث کو جید قرار دینااور اسکے ساتھ ہی یہ نقل کرنا کہ ابن جوزی کے نزدیک ابن اسحاق ہی اس حدیث کی علت ہے ۔ بہت ہی عجیب وغریب بات ہے۔

محدث شہیر علامہ البانی نے اس حدیث کو السلسلۃالضعیفۃوالموضوعۃ ،رقم الحدیث ۴۰۱۱،میں نقل کرکے”منکر”قرار دیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔

(انما علۃ الحدیث ابن اسحاق وھومدلس وقدعنعنہ) (۵۶)

کہ اس حدیث کی اصل علت ابن اسحاق کا مدلس ہونا ہے۔ اور یہ روایت انہوں نے بذریعہ”عن “روایت کی ہے۔

علامہ زیلعی کا تعاقب کرتے ہوئے شیخ البانی لکھتے ہیں “ومن الغرائب قول اللزیلعی فی نصب الرایۃ۔(۲؍۹۰)[حدیث جیدٌ]” (۵۷)

کہ نصب الرایۃ میں علامہ زیلعی کا اس حدیث کو جید قرار دینا عجیب وغریب بات ہے۔

مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ابن جوزی کی بیان کردہ علت کاذکر کرنے کے بعد صاحب “تنقیح”کا تعاقب بھی ذکر کرتے ہیں لیکن صرف اور صرف دفاع ابوغطفان کے حوالے سے جبکہ محمد بن اسحاق کے حوالے سے صاحب”تنقیح”کی خاموشی پر بغیر کوئی تبصرہ کئے گزرجاتے ہیں۔ہمارے نزدیک اس کی صرف اور صرف یہی وجہ ہے کہ ابن اسحاق چونکہ مدلس ہیں اور”عن”سے روایت کررہے ہیں لہٰذا انکی تدیس کا دفاع نہیں کیاجاسکتا۔ جب تک تحدیث ثابت نہ ہو۔

حالانکہ ابن جوزی نے”التحقیق فی احادیث الخلاف” میں ابن اسحاق کو” مجروح ” اور مالک وہشام بن عروہ کے حوالے سے “کذاب “لکھا ہے اور کہا۔ (وھذا حدیث لایصح ،ابن اسحاق مجروح وکذبہ مالک و ہشام بن عروۃ و ابو غطفان مجہول) (۵۸)

صاحب “تنقیح”نے ابو غطفان کی جہالت کے خلاف تو دفاع کیا۔ اور اس معاملے میں ابن معین، مسلم،نسائی اور ابن حبان کی توثیق نقل کی ۔لیکن ابن اسحاق کی تدلیس کے مقابلے میں تحدیث نقل کرنے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کی۔ (۵۹)

جبکہ امام مالک اور ہشام انہیں کذاب قراردے رہے تھے۔ حق کویہ تھا کہ ابن اسحاق کی صداقت کی بھی نقل کرتے اور کہتے کہ ابن اسحاق سچاہے۔ اور اس حدیث کی شاہد فلاں حدیث ہے۔ جس میں ابن اسحاق کی تحدیث موجود ہے۔ مگرایسا نہ ہوا ان کی یہ خاموشی بتاتی ہے کہ “کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے” اور وہ ابن اسحاق کی تدیس ہی ہے جو اس حدیث کو ضعیف قرار دیتی ہے۔انصاف کا تقاضا تویہ تھا کہ جہاں ابو غطفان کی جہالت کو دور کیا وہیں ابن اسحاق کی تدیس کا بھی ذکر کرتے اور کہتے کہ ہاں یہ حدیث ابن اسحاق کی تدیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ لیکن برا ہواس تقلیدکی روش کا جو اچھے خاصے صاحب علم لوگوں کو حق بات کہنے سے روک دیتی ہے۔ شاعر نے کیا سچ کہا ہے۔ ع تقلید کی روش سے بہتر ہے خود کشی

مزید برآں علامہ عینی حنفی نے ابن جوزی کی تعلیل کا جواب دینے کی سعی میں اس حدیث کی اسناد کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن صرف اتنا کہا کہ [اسناد ھٰذا الحدیث صحیح] کیونکہ [وتعلیل ابن الجوزی بابن اسحاق لیس بشئی لان ابن اسحاق من الثقات الکبار عند الجمہور](عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری، ج۷، ص۲۶۹) جبکہ یہاں بھی ان کا وہی انداز ہے جو ان کے دوسرے احباب کا ہے یعنی تدلیس ابن اسحاق کا معاملہ گول کردیا اور سیدھا سیدھا ثقہ کہ دیا ۔اللہ اللہ خیر سلاّ۔

ارے بھائی ان کی ثقاہت سے کسے انکار ہے۔ ہم تو کہتے ہی یہی ہیں کہ وہ ثقہ ہیں مگر اصل بات تو ان کی تدلیس کی ہے اس کی تحدیث تو ثابت کریں۔چلئے اگر ابن اسحاق کی صرف ثقاہت پر ہی فیصلہ کرنا ہے تو پھر نما ز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے سے متعلق حضرت عبادہ بن صامت والی حدیث میں ابن اسحاق نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ آپ اس حدیث کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ۔ جبکہ وہاں ان کی تحدیث بھی ثابت ہے اور وہ روایت بھی صحاح ستہ کے ساتھ ساتھ بہت سے محدثین نے ذکر کی ہے۔ لہٰذا علامہ عینی کا اس حدیث کو صحیح قرار دینا ان کے اپنے اصولوں کی بنیاد پر بھی غلط ہے۔

()

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دینے کا حکم منسوخ ہے۔کیونکہ اشارہ ایک طرح سے بامعنیٰ کلام کے زمرے میں آتاہے۔ اور نماز میں کلام کرنا بالاتفاق منع ہے۔ لیکن قائلین کی یہ بات قرین انصاف نہیں ہے کیونکہ اشارہ کسی طور بھی بامعنیٰ کلام کے برابر نہیں ہے۔ اسی لیے علامہ طحاوی حنفی ۔مذکورہ بالا حدیث ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ (ولیست الاشارۃ فی النظر من الکلام شیء لان الاشارۃ انماہی حرکۃ عضو، وقد راینا حرکۃ سائر الاعضاء غیر الید فی الصلوٰۃ لاتقطع الصلوٰۃ، فکذلک حرکۃ الید) (۶۰) کہ اشارہ کسی طرح بھی کلام کی صف میں داخل نہیں کیونکہ اشارہ تومحض ایک عضو کی حرکت کا نام ہے۔ اور جب جسم کے سارے اعضاء کی حرکت سے نماز نہیں ٹوٹتی تو ایسے ہی ہاتھ کی حرکت سے بھی نماز نہیں ٹوٹتی۔

اور یہی بات درست ہے کہ نماز میں صرف حقیقی کلام یعنی گفتگو کو منع قرار دیاگیا ہے۔نہ کہ کلام کے معنیٰ میں آنے والی حرکت کو، جبکہ اشارہ تو بامعنیٰ کلام بھی نہیں۔

()

علمائے احناف نے اشارہ کے ساتھ کلام سلام کا جواب لوٹانے کے حوالے سے ایک دوسرے زاویے سے صحیح احادیث کا رد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان صحیح احادیث سے ہی ایک اور مناظرانہ دلیل نکالتے ہوئے کہا ہے کہ چلئے اشارہ تو نماز میں ٹھیک ہے لیکن یہ اشارہ سلام کا جواب دینے کے لیے نہیں۔بلکہ یہ تو سلام اور کلام سے منع کرنے کے لیے کیا گیاہے۔فیا للعجب!(۶۱)

حالانکہ اگر نماز میں یہ اشارہ کرنا ہی درست نہیں تو پھر اس سے مذکورہ بالا دلیل لینا بھی عبث ہے۔

بہرحال ان کی اس مناظرانہ دلیل کا واضح اور مسکت جواب تواس مضمون میں اشارہ کے حق میں بیان کی جانے والی تمام احادیثِ صحیح بذات خود ہیں۔ مثال کے طور پر حدیث ابن عمر اور حدیث صھیب وغیرہ۔

علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کا قول ہے غالباََ آپﷺنے اس اشارہ سے منع کردیا تھا۔ مگریہ صاف جھوٹ ہے اگرایسا ہوتاتوآپ ﷺ نماز سے فارغ ہو کر اس سے روک دیتے۔(۶۲)

تمام صحیح احادیث اس بات پر نصوصِ صریحہ ہیں کہ بوقت سلام نماز کی حالت میں رسولﷺ کااشارہ کرنا صرف اور صرف اس شخص کوسلام کا جواب دینے کے لیے تھا۔ جس نے آپ ﷺ کوبحالت نماز سلام کیاتھا۔علامہ عبدالحی حنفی لکھنوی نے بھی یہی بات تعلیق الممجد شرح موطا محمد میں لکھی ہے۔کہ احناف نے اشارہ سے سلام کے جواب کی بجائے اس کی نفی مراد لی ہے تو یہ بات دلیل کی محتاج ہے۔(۶۴)

بعض لوگوں نے ایک اور خود ساختہ دلیل بنانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ اشارہ سے سلام کا جواب شروع زمانہ میں تھا۔ یعنی بعد میں منسوخ ہوگیا۔جیسے

علامہ نیموی حنفی نے آثار السنن میں اس بات کو بیان کیا ہے۔(قدیدل علی ان ردالسلام بالا شارۃ کان فی الاتبداء ولذلک ماراہ ابن عمر وسأل عنہ بلالا وصھیبا رضی اﷲ عنھم(۶۵)

لیکن علامہ نیموی کی اس دلیل کو صاحب ابکار المنن نے دو وجوہات کی بناء پر مردودقرار دیاہے۔

۱۔ابن عمر جو اس حدیث کے راوی بھی ہیں۔ وہ خود نماز میں اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دینے کوجائز سمجھتے تھے۔ (۶۶)

حضرت ابن عمر کا یہ اثر موطا محمد میں باب الرجل یسلم علیہ وھو یصلی کے تحت اس باب کی اکلوتی روایت کی شکل میں موجود ہے۔ ۱خبرنا مالک اخبرنا نافع ان ابن عمرمر علی رجل یصلی فسلم علیہ فرد علیہ السلام فرجع الیہ ابن عمر فقال اذا سلم علی احد کم وھو یصلی فلا یتکلم ولیشر بیدہ)(۶۷)

غور فرمائیں کہ اس روایت سے نہ صرف اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابن عمر نماز کی حالت میں سلام کے قائل وفاعل تھے۔بلکہ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ آپ رضی اﷲ عنہ دوسرے لوگوں کو اس سنت مبارکہ پر عمل کرنے کی باقاعدہ تعلیم دیتے ہوئے یہ طریقہ بتاتے تھے کہ جب نماز ی کو سلام کیاجائے تو وہ کلام یعنی گفتگوسے جواب نہ دے۔ بلکہ ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دے۔(۶۸)

اس روایت کے آخری الفاظ سلام کا جواب بذریعہ نطق (یعنی کلام) لوٹائے جانے پردلالت کناں ہیں۔ جس سے حضرت ابن عمر نے شخص مذکور کو منع فرمایا تھا۔لہٰذا نماز میں اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دینا اگر اتبدائے اسلام میں کلام کے منسوخ ہونے سے قبل تھاتو سلام کا جواب بذریعہ کلام ہوتا نہ کہ اشارہ کے ساتھ۔

()

علمائے احناف کے حدیث مخالف طرز عمل پر حیرت ہوتی ہے۔ ایک جانب تو وہ اس شخص کی نماز کو درست قراردیتے ہیں۔جونماز کی حالت میں اپنے دانتوں سے کھانے کا ریزہ نکالنے میں مصروف رہے اور نکالنے کے بعد اسے کھاجائے تو دوسری طرف وہ نماز میں اشارہ سے سلام کا جواب دینے والے کی نماز کو درست نہیں سمجھتے۔ حالانکہ ایک شخص کا نماز کی حالت میں دانتوں میں پھنسے ہوئے ریزے کو نکالنا بھی ان کے اپنے اصولوں کے مطابق عمل کثیر کی ہی زد میں آتاہے۔اور مزید برآں یہ کہ اگر کوئی شخص پنکھے سے ایک دومرتبہ ہوا کرلے تواس سے بھی علمائے احناف کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔(۶۹) جبکہ فتاوی عالمگیر ی میں اس کا تضاد بھی ہے کہ نمازی ہاتھ یاسرسے ہاں یا ناں کا اشارہ کرے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔(۷۰)اور پھر نماز میں ٹھہرٹھہر کر ایک ایک رکن کے بعد ایک ایک جوں مارے تو بھی نماز فاسد نہیں۔(۷۱) لیکن نماز میں اشارے سے سلام کاجواب دے تو ان کے نزدیک نماز فاسد ہوگی۔حیرت ہے۔

نماز کی حالت میں اشارے سے سلام کا جواب نہ دینے والے بطور دلیل یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں کہ اﷲ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ نماز اور سلام میں نقصان نہیں ہے۔اسے امام احمد نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول ﷺلا غرار فی صلوٰۃ ولا تسلیم(۷۲)

امام ابوداؤد نے احمد سے نقل کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو کسی کو سلام کرے اور وہ تجھ پر سلام نہ کرے اور نماز میں نقصان یہ ہے کہ تو نماز پڑھ کر فارغ ہوتو تجھے شک ہو (کہ تین رکعت نماز پڑھی ہے یا چاررکعت)

اس حدیث کی شرح میں اور معنیٰ ومفہوم کے حوالے سے شارحینِ حدیث میں اختلاف ہے۔

بیہقی نے اس حدیث کے معانی کے ضمن میں لکھا ہے

تبیح التسلیم علی المصلی والرد بالاشارۃ وہی اولی بالاتباع(۷۳) کہ نمازی کوسلام کرنا جائز اور بذریعہ اشارہ اسکا جواب دینا ہی بہتر ہے

ابن الترکمانی لکھتے ہیں لایلزم من نفی الغرام عن الصلاۃ والتسلیم تحریم التسلیم حتیٰ یکون ذٰلک معارضاً لاخبار المبیحۃ للتسلیم والرد بالاشارۃ و حتیٰ یحتاج الی الترجیح بل الغرارالنقصان فی الصلاۃ نقصان سجودہا و رکوعہا و جمیع ارکانہا والغرار فی التسلیم ان یقول المجیب وعلیک ولا یقول و علیکم السلام (۷۴)

کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ نماز میں سلام حرام ہے تاکہ یہ حدیث ان احادیث کی معارض ہو جن میں اشارہ کے ساتھ نماز میں سلام کی اجازت دی گئی ہے۔ دراصل غرار کے معنی نقصان کے ہیں اور نماز کا نقصان یہ ہے کہ اس کے ارکان کی تکمیل نہ کی جائے۔ سلام میں غرارکامطلب یہ ہے کہ سلام کا جواب دینے والاوعلیکم السلام کی بجائے صرف وعلیک کہے۔

ابن سیدہ کے قول کے مطابق سلام میں غرار یہ ہے کہ “سلام علیک”کہے یا سلام کا جواب دیتے وقت “وعلیک”کہے اور وعلیکم نہ کہے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ نماز میں تھوڑا بھی نہ سویا جائے اور نمازی دوسرے کو سلام کہے اور نہ دوسرا نمازی کوسلام کہے۔ علامہ ابن منظور لکھتے ہیں۔

وقال ابن سیدہ واما الغرار فی التسلیم فنراہ ان یقول” سلام علیک” اویرد فیقول “وعلیک” ولا یقول” وعلیکم السلام ” وقیل لاغرار فی الصلوٰۃ ولاتسلیم فیھا ای لاقلیل من النوم فی الصلوٰۃ ولا تسلیم ای لا یسلم المصلی ولا یسلم علیہ (۷۵)

علامہ ابن حزم نے تو اس بات کی واضح طور پر تردید کرتے ہوئے کہا [لیس ہٰذا نفیاً عن رد السلام فی الصلاۃ بلاشارۃ ، ولا یفھم من ہٰذا اللفظ، والدعوۃ مردودۃ الاّ ببرہان (۷۶)

یعنی اس حدیث میں (بحالت نماز) اشارے کے ساتھ جواب دینے سے منع نہیں کیاگیا۔اور نہ ہی ان الفاظ سے یہ مفہوم اخذکیا جاسکتاہے۔لہذا ایسا دعویٰ بلا دلیل مردود ہے۔

علامہ البانی نے عبدالحق الاشبیلی کے حوالہ سے لکھا ہے۔ والصحیح اباحۃ الاشارۃ علی ماذکر مسلم وغیرہ)(۷۷)

کہ صحیح بات یہی ہے کہ بحالت نماز ہاتھ کے اشارہ سے سلام کاجواب دینا جائز ہے جیسا کہ مسلم وغیرہ نے ذکرکیاہے۔(یعنی من حدیث جابر فی ردالسلام بالاشارۃ)

جیساکہ حضرت جابر کی اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دینے والی حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔

اس مضمون میں ذکر کیے جانے والے تمام دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ نمازی کو بحالت نماز سلام کا جواب دینا اﷲ کے رسول ﷺکی سنت مبارکہ ہے اور اس پر عمل کرنا باعث اجروثواب ہے۔

واﷲ اعلم بالصواب و الیہ المرجع والماٰب۔اللہم ان اصبت فہو منک وان أخطأت فہو من الشیطان والعفو و المغفرۃ منک۔اللھم احسن عاقبتنا فی الامور کلھا واجرنا من خزی الدنیا وعذاب الاخرۃ(۷۸)سبحانک اللھم وبحمدک اشھدان الاالہ الا انت استغفرک واتوب الیک۔(۷۹)والحمدﷲ الذی بنعمتہ تتم الصالحات والف الف صلوٰۃ وسلام علی افضل البریات وعلی الہ واصحابہ والتابعین لھم باحسان رضی اﷲ عنھم ورضوا عنہ۔

حوالہ جات و حواشی

یہ خطبة الحا جة ہے جسے اللہ کے رسول ﷺ اپنے صحابہ کرام کو سکھایا کرتے تھے۔ (۱)

آل عمران- ۱۰۲ (۲)

(۳) الا حزاب

(۴) الانفال۔۲۰

(۵) النساء-۵۹

(۶) موطا مالک، کتاب القدر، باب النہی عن القول بالقدر، رقم ۱۵۹۴۔ مستدرک حاکم، باسناد حسن، علامہ البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے، دیکھئے مشکاۃ البانی باب الاعتصام والسنہ، رقم حدیث ۱۸۶

نوٹ: موطا میں لفظ [نبیّہ] ہے جبکہ مشکاۃ المصابیح میں اسکی جگہ لفظ [رسولہ] ہے

الحشر۔۲۳ (۷)

النساء۔۸۶ (۸)

ابن کثیر تحت تفسیر الایۃ (وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۔۔۔الخ) (۹)

(۱۰) مسلم، کتاب الایمان،رقم ۸۱، سنن ابی داؤد، کتاب الادب،رقم ۴۵۱۹

(۱۱) متفق علیہ، مشکاۃ المصابیح رقم ۴۶۲۹، کتاب الآداب، باب السلام

(۱۲) مسلم ، کتاب السلام، باب من حق المسلم ردّ السلام، ج ۴، ص ۱۷۰۴، رقم حدیث ۲۱۶۲

(۱۳) جامع الترمذی ، باب ما جاء فی الاشارۃ فی الصلاۃ، رقم الحدیث ۳۶۹۔ نیز دیکھیں سنن ابن ماجہ ،رقم ۱۰۱۷۔ مسند احمد، رقم ۲۲۷۶۱۔

(۱۴) ترمذی ایضاً

(۱۵) مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ج۳، ص۳۶۰

(۱۶) مسند احمد بتعلیق شعیب الارناؤوط، طبع موئسس قاھرہ، رقم ۴۵۶۸۔ نیز دیکھیں صحیح ابن خزیمہ ،باب الرخصۃ بالاشارۃ فی الصلاۃ برد السلام اذا سلم علی المصلی، رقم ۸۸۸۔

(۱۷) ایضاً، مسند احمد

(۱۸) مسند احمد ، ایضاً، رقم الحدیث ۱۸۹۵۱۔

(۱۹) ایضا، نیز دیکھیں صحیح ابو داؤد رقم ۸۱۸

(۲۰) سنن نسائی، کتاب السہو، باب رد السلام بالاشارۃ فی الاصلاۃ،رقم ۱۱۹۱۔

(۲۱) صحیح السنن النسائی، رقم ۱۱۸۶

(۲۲) ترمذی کتاب الصلاۃ ،باب ما جاء فی الاشارۃ فی الصلاۃ، تحت حدیث رقم ۳۶۸

(۲۳) نیل الاوطار للشوکانی، باب الاشارۃ فی الصلاۃ لرد السلام او حاجۃ تعرض

(۲۴) المحلیٰ لابن حزم، جز۳،ص۸۱،دار الآفاق الجدید، بیروت (امام ابن حزمؒ کے الفاظ )

قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لَعَلَّ هَذِهِ الإِشَارَةَ نَهْيٌ لَهُمْ ؛ قَالَ عَلِيٌّ: هَذَا الْكَذِبُ إذْ لَوْ كَانَ كَذَلِكَ لَنَهَاهُمْ إثْرَ فَرَاغِهِ۔

(۲۵) صحیح مسلم،کتاب المساجد،باب تحریم الکلام فی الصلاۃ

(۲۶) لہٰذا سواری پر نماز پڑھنے کی صورت میں اگر قبلہ رخ نہ بھی رہے تو نماز درست ہے۔

(۲۷) مسلم مع شرح النووی،کتاب المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ

(۲۸) موطا مالک

(۲۹)سبل السلام شرح بلوغ المرام، کتاب الصلاۃ، باب کیف یرد المصلی علی من سلم علیہ،رقم ۲۱۰۔

(۳۰) ایضاً

(۳۱) ابو داؤد، رقم الحدیث ۹۱۹

(۳۲) نیل الاوطار للشوکانی،رقم ۸۴۱، باب الاشارۃ فی الصلاۃ لرد السلام او حاجۃ تعرض

(۳۳) سنن الکبریٰ للبیھقی،

(إسناد ضعيف لأن به موضع انقطاع بين محمد بن سيرين الأنصاري وعبد الله بن مسعود ، وباقي رجاله ثقات)

ایضاً (۳۴)

فقہ السنہ،ج۱،ص۲۶۴ (۳۵)

صحيح البخاري، بَاب مَا يُنْهَى عَنْهُ مِنْ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ (۳۶)

مسلم، کتاب المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ

سنن ابی داؤد، باب رد السلام فی الصلاۃ، رقم الحدیث ۹۲۳(۳۷)

(۳۸) ابوداؤد، ایضاً، رقم الحدیث۹۲۴

(۳۹) ابوداؤد، باب رد السلام فی الصلاۃ ، رقم الحدیث ۹۲۶

(۴۰) سنن النسا ئی، باب رد السلام بالاشارۃ فی الصلاۃ

(۴۱) مسلم، کتاب ا لمساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ

(۴۲) نیل الاوطار للشوکانی،رقم ۸۴۱، باب الاشارۃ فی الصلاۃ لرد السلام او حاجۃ تعرض

(۴۳) مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ج۳، ص۳۵۹

(۴۴) مصنف ابن ابی شیبہ،رقم الحدیث ۴۸۱۹، نیز ج۱،ص۴۱۹،طبع مکتبۃالرشد،الریاض، تحقیق کمال یوسف الحوت،

(۴۵) دیکھئے السنن الكبرى للبيهقي، باب مَنْ أَشَارَ بِالرَّأْسِ، رقم الحدیث ۳۲۲۲

(۴۶ شرح معانی الاثار،ج ۱،ص۲۶۲، باب الاشارۃ فی الصلاۃ ، (

نیز دیکھئے: ابو داؤد ،ج ۱، رقم الحدیث ، دارقطنی ، رقم الحدیث ۱۸۸۸، سنن الکبریٰ للبیہقی، ج۲، ص ۲۴۲ ، رقم الحدیث ، نیل الاوطار للشوکانی، ج ۲، ص۳۷۷، مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ج۳، ص۳۴۵ ، طبع

(*) ملاحظہ فرمائیں کتب اصول فقہ مثلاً نورالانوار، اصول شاشی، توضیح، اصول بزدوی وغیرہ

صحیح مسلم، ایضاً (۴۷)

(۴۸) تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، باب ما جاء فی الاشارۃ فی الصلاۃ [قال المبارکفوری: ان ھٰذا الحدیثَ ضعیف لا یصلْحْ للاحتجاج فان فی سندہ محمد بن اسحاق و ہو مدلس و رواہ عن یعقوب بن عتبۃَ بالعنعنۃ]

” رَوَاهُ أَبُو دَاوُد ، وَقَالَ : ” هَذَا الحَدِيث وهم ” (خلاصة الأحكام في مهمات السنن وقواعد الإسلام

أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي )

(۴۹) ایضاً

(۵۰)مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ،ج ۳۳۔۳۴،ص۸۵۔۸۶، فصل الطلاق فی الحیض

(۵۱) تلخیص الحبیر للعسقلانی، باب اوقات الصلاۃ

(۵۲) احسن الکلام، محمد سرفراز خاں صفدر ،ج ۲،ص۷۷،مکتبہ صفدریہ،گوجرانوالہ،۱۹۹۵

مصنف مذکور اگلے صفحہ(۷۸) پر حاشیہ میں لکھتے ہیں[لیکن افسوس ہے کہ فریق مخالف نہ صرف یہ کہ اس (محمد بن اسحاق کی روایت) سے استدلال کرتابلکہ اس کے بل بوتے پر مسلمانوں کی اکثریت کی نماز کو باطل، بیکاراور کالعدم قرار دینے کا ادھار کھائے بیٹھا ہے] جبکہ خوداسی راوی کی حدیث سے مسئلہ ثابت کرتے ہیں۔ ایں چہ بوالعجمی است؟

(۵۳) دیکھئے الجرح والتعدیل، زیر تذکرہ محمد بن اسحاق [۔۔۔۔عمربن حبیب قال قلت لھشام بن عروۃ حدثنا محمد بن اسحاق قال ذ اک کذاب]

(*) قاضی ابو یوسف نے اپنی کتاب الخراج میں اپنے استاد محمدبن اسحاق سے تقریباً ۲۸ مقامات پرنہ صرف روایات لی ہیں بلکہ بعض مقامات پر ان سے احتجاج بھی کیاہے۔ مزید برآں امام ابو نعیم نے مسند ابو حنیفہ میں ابن اسحاق کو امام ابو حنیفہ کا استاد بھی قرار دیا ہے(دیکھئے کتاب الخراج، مسندابی حنیفہ بحوالہ توضیح الکلام، ص۲۸۶)

(۵۴) نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ، ج ۳،ص۱۱۵، فصل و یکرہ للمصلی ان یعبث بثوبہ

(۵۵) ایضاً

(۵۶) السلسلۃالضعیفۃوالموضوعۃ ،رقم الحدیث ۴۰۱۱

(۵۷) ایضاً

(۵۸) التحقیق فی احادیث الخلاف لابن الجوزی،ج۱ص ۲۴۰، رقم ۵۶۶،دار الکتب العربیہ،۱۴۱۵ھ

(۵۹) تنقیح التحقیق فی احادیث التعلیق لابن عبدالھادی،رقم ۶۲۸، دار الکتب العربیہ، بیروت،۱۹۹۸ء

(۶۰) شرح معانی الاثار للطحاوی،ج۱،ص۲۶۲،باب الاشارۃ فی الصلاۃ

(۶۱) حیرت ہے کہ جو لوگ نماز کی حالت میں دانتوں میں پھنسے ریزے کو نکالنے میں مصروف رہ کر اپنی نماز کو درست قرار دیتے ہیں وہ محض ہاتھ سے اشارہ کرنے کی بناء پر نماز کو باطل قرار دیتے ہیں۔ [تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ محلیٰ ابن حزم ۲ ص۲۵]

(۶۲) دیکھئے حوالہ نمبر۲۴

(۶۳) موطا محمد مع تعلیق الممجد ص۱۲۳، طبع مجتبائی،پاکستان

(۶۴) آثار السنن مع التعلیق الحسن ص۱۴۹

(۶۵) ابکار المنن فی تنقید اٰثارا لسنن لعبد الرحمان مبارکپوری،ص۲۶۸

(۶۶) موطا محمد مع التعلیق، ایضاً

[نوٹ: محدثین کے مطابق، موطا محمد کی سند احناف کے امام محمد تک نہیں پہنچتی ۔اس بناء پر یہ پوری کتاب ہی ضعیف قرار پاتی ہے لیکن

چونکہ علمائے احناف کے نزدیک یہ کتاب معتبر درجہ رکھتی ہے۔ لہٰذا اتمام حجت کے لئے اس سے دلیل پیش کی ہے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث، حضرو، شمارہ۔۷ ، نیز موطا محمد کی سند نامعلوم ہے۔ اگرشا ہ ولی اﷲ دہلوی کی اتحاف النبیہ فیما یحتاج الیہ المحدث والفقیہ کی سند کو بھی دیکھا جائے تو بھی یہ غیر ثابت ہے۔ کیونکہ اس سند کا ایک راوی علی بن حسین بن ایوب نامعلوم ہے۔ اورحسین بن محمد بن خسر و البلخی معتنرلی" غیر موثق، فیہ لین سے متصف ہے۔جبکہ تیسرا راوی محمودبن عمرالزمحشری گمراہ معتنرلی تھا۔جوکہ نیک بنا ہواتھا۔(دیکھئے لسان المیزان، میزان الاعتدال بحوالہ الحدیث حضرو ]

(۶۷)نوٹ: موطا مالک اور مشکاۃ المصابیح میں اسی روایت میں”فرد علیہ السلام”کی جگہ ” فرد الرجل کلاماَ”َ کے واضح الفاظ بھی موجود ہیں

(۶۸) صلوٰۃ الرحمٰن ترجمہ منیۃ المصلی،نیز حقیقۃ الفقہ

نوٹ:عمل کثیر اور عمل قلیل کا حنفی اصول بھی بلا دلیل ہے۔کتاب وسنت میں اس کی کوئی دلیل وبرہان موجود نہیں۔

(۶۹)الفتاویٰ الھندیہ المعروف فتاویٰ عالمگیری

(۷۰)صلوٰۃ الرحمٰن ترجمہ منیۃ المصلی،ایضاً

(۷۱) مسند امام احمد (ج۲ص۱۷۴۶۱) رقم ۹۹۳۸ بطریق عبدالرحمن بن مہدی اور سفیان ثوری ازابو مالک اشجعی ، از ابو حازم، از حضرت ابوہریرہ ۔ علامہ شعیب الارنا ؤوط کہتے ہیں کہ حدیث شرائط مسلم پر صحیح الاسناد ہے نیز اسکے رجال شیخین کے ثقہ رجال ہیں۔ سوائے مالک اشجعی کے جو مسلم کا راوی ہے۔ نیزابوداؤد(ج۱ص۳۴۸)نے بھی اس روایت کو احمد سے نقل کیا ہے۔ مزید برآں حاکم نے المستدرک (ج ۱،ص۲۶۴)۔اوربیہقی نے السنن(ج۲ص۲۶۰)میں بطریق احمد ہی نقل کیاہے۔اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق کے مطابق صحیح قرار دیاہے۔علامہ ذہبی بھی ان کے ہم خیال ہیں ۔

(۷۲) سنن الکبریٰ للبیہقی ، ج۲، باب من لم یر ا لتسلیم علی المصلی

(۷۳) الجوہر النقی لابن الترکمانی،ج۲،ص۲۶۰، باب من لم یر التسلیم علی المصلی

(۷۴)لسان العرب ،ج۵۔ص۱۱

(۷۵) المحلیٰ لابن حزم، ج۳، ص۸۳

(۷۶) الاحکام لعبد الحق الاشبیلی بحوالہ صحیح ابی داؤد للالبانی ۸۵۹

(۷۷) مسند احمد ،ج۴، ص۱۸۱

(۷۸) جامع الترمذی،ج۲،ص۱۸۱
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

یادہانی پر معذرت کے ساتھ جب تھریڈ "سلام" کرنے پر ھے تو عمل بھی ہونا ضروری ھے دیکھیں کہاں غلطی ہوئی۔ ابتسامہ

بسم الله الرحمن الرحيم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

کشف الشبهات فی رد السلام بالا شارۃ فی الصلوٰۃ

المعروف به

بحالت نماز سلام کا جواب دینا مسنون ہے


إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ – نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا. مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ، فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ، وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران: 102]. {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِى تَسَاءَلُونَ بِهِ وَاْلْأَرْحَامِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا}، {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ، وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ، وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا} [الأحزاب: 71] (۱)

امت مسلمہ کے درمیان ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو سلام کہنا معلوم و معروف اور مشہور ہے۔ تقریباَ سبھی مسلمان بوقت ملاقات سلام کہنے اور اسکا جواب دینے کے اجرو ثواب سے واقف ہیں اور اسکا اجرو ثواب ثابت ہے۔ ہرخواندہ، ناخواندہ، دین سے واقف یا دین کی سمجھ نہ رکھنے والا ، سبھی ایک دوسرے کو سلام کہتے ہیں اور اسکا جواب بھی ، اپنے اپنے علم کے مطابق، دیتے ہیں۔ ہربستی، ہر قریہ ، ہر شہر اور ہر ملک میں ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں سے بھی زیادہ تعداد میں یہ عمل ہر روزوقوع پذیر ہوتا ہے۔

والسلام
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
السلام علیکم

یادہانی پر معذرت کے ساتھ جب تھریڈ "سلام" کرنے پر ھے تو عمل بھی ہونا ضروری ھے دیکھیں کہاں غلطی ہوئی۔ ابتسامہ

السلام عليكم و رحمة الله و بركاته
جزاك الله خيرا

غلطی کی اصلاح کردی گئ ہے

والسلام
 
Top