• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت ابلیس کو نافرمانیِ رب سے زیادہ محبوب

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بدعت ابلیس کو نافرمانیِ رب سے زیادہ محبوب

قلم نگار : مختلف افراد​


حمدباری تعالیٰ اور درود وسلام کے بعد!
ابلیس کو معصیت سے زیادہ بدعت سے پیار ہے، چونکہ بدعت سے امت کو عمومی نقصان پہنچتا ہے، جبکہ معصیت سے صرف صاحبِ معصیت کو نقصان پہنچتا ہے۔
سب سے خطرناک بدعت وہ ہے جو انسان کو دین سے خارج کردے،اور کفر میں داخل کردے، بدعت چاہے علمی ہو یا اعتقادی ، انسان کے پورے نظام حیات میں فساد مچادیتی ہے، جس کی مثال اعتقادی فرقوں جیسے خوارج، روافض، قدریہ، جہمیہ اور معتزلہ میں دیکھی جاسکتی ہے، جنھوں نے بدعت کی بنیاد پر اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کے دائرے سے نکال کر ایک الگ جماعت میں شامل کردیا ۔
مذکورہ فرقوں کا وجود زمانے قدیم میں بھی تھا، لیکن موجودہ دور میں ان فرقوں سمیت کمیونزم، سوشلزم،اورسیکولرازم نے فکری میدان کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے،اگرچہ ان فکروں کے حامل افراد الگ الگ ٹکڑیوں میں یا جماعتی شکلوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن فکری اعتبار سے ایک دوسرے کے مددگار ومعاون ہیں۔

مفاسد بدعت اور بدعت کے نقصانات:
بدعت کے بہت سے سارے سنگین نقصانات ہیں ، جن میں سے چند، ہم ذیل میں بیان کررہے ہیں:
۱۔ بدعت دین کو بدل دیتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دین کی تکمیل فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً} [المائدة: 3] ( آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا)
کیا بدعتی یہ چاہتےہیں کہ دین میں زیادتی کے بعدہی شریعت کی تکمیل ہوگی؟
۲۔بدعت مسلمانوں کو ٹکڑیوں اور باہم مخالف جماعتوں میں منتشر کردیتی ہے،جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: {كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ} [الروم: 32].( سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے)
اورارشاد ربانی ہے: {وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ} [الأنعام: 153].( اور رستوں پر نہ چلنا کہ (ان پر چل کر) خدا کے رستے سے الگ ہو جاؤ گے)
بدعت کی تارکیوں سے نکلنے کی واحد راہ سلف ِامت کے فہم کے مطابق قرآن وسنت کو تھامنے پر منحصر ہے۔
۳۔ بدعت سنن اور عبادات مشروعہ کو اخد کرنے میں ضعف وکمزوری پیدا کرتی ہے، جیسا کہ سلف میں سے کسی نے کہا: جو قوم بھی کسی بدعت میں ملوث ہوتی ہے، اسی کے مثل ان میں سے سنت کو چھین لیاجاتا ہے۔
یقینا اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاقت وقوت اور توانائی ، نیز محنت ووقت جیسی نعمتیں عطا فرمائی ہے، لیکن انسان ان نعمتوں کو بدعات وخرافات میں ہی لگادے تو پھر دین اور سنت پر عمل کرنے کے لئے اس کے پاس کیا بچے گا۔
۴۔بدعتی یہ گمان کرتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دیگر لوگ باطل پر ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: {قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعاً} [الكهف: 103-104] ترجمہ: کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں جو عملوں کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں۔وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی۔ اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں)۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی بدعت پر مصر رہتا ہے اور بدعت سے توبہ نہیں کرتا۔
۵۔بدعتی کو فتنہ میں ملوث ہونے یا عذاب الٰہی کا خوف ہونا چاہیئے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: {فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} [النور: 63] ترجمہ: تو جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیئے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو)۔
۶۔بدعتی کا چہرہ آخرت میں کالا ہوگا، ارشاد ربانی ہے: {يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ} [آل عمران: 106] ترجمہ: جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے منہ سیاہ)۔
ابن عباس ؓفرماتے ہیں کہ : تبیض وجوہ میں اہل سنت شامل ہے اور تسود وجوہ میں اہل بدعت ۔
۷۔ بدعتی پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے دنیا میں ہی ذلت وغضب نازل ہوتا ہے، ارشاد ربانی ہے: {إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ} [الأعراف: 152].
ترجمہ: ( خدا نے فرمایا کہ) جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا تھا ان پر پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور دنیا کی زندگی میں ذلت (نصیب ہوگی) اور ہم افتراء پردازوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں)۔
شاطبی کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا ارشاد {وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ} [الأعراف: 152] اہل بدعت اور ان کے مشابے افراد پر صادق آتا ہے ، کیونکہ بدعت مکمل طور پر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ (الاعتصام۱/۱۶۶)
۸۔بدعت جاری کرنے والے پر تاقیامت گناہ لکھا جاتا رہے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: {لِيَحْمِلُواْ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ} [النحل: 25]. ترجمہ: (اے پیغمبر ان کو بکنے دو) یہ قیامت کے دن اپنے (اعمال کے) پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ سن رکھو کہ جو بوجھ اٹھا رہے ہیں برے ہیں۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج کے دور میں بدعت اور منحرف بدعتی افکار کو مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے فروغ دیا جارہا ہے۔ اور مسلمانوں کے لئے ضرررساں اشیاء کی کثرت سے اشاعت کی جارہی ہے اور دین حنیف کی ان اشیاء کو نظر انداز کیا جارہا ہے جو سنت سے ثابت ہے اور جس میں مسلمانوں کا فائدہ ہے۔ اس طرح کے افکار اور خیالات کے رد میں علماء کرام اور طلبہ علوم دینیہ نے دلائل پر مشتمل اپنی تالیفات اور تحریروں کے ذریعے کثرت سے بحث کی ہے۔
بدعتی انحرافات اکثر شبہات کے باب سے ہوتے ہیں، اور شبہات متعدی مرض ہے، لہٰذا شبہات کے مریضوں سے بچنا ، انکی نشست گاہوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
سنی مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کو شبہات کا مسکن بنانے سے بچے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے اپنے شاگرد رشید ابن قیم ؒ کو نصیحت فرماتے ہوئے کہا تھا: اپنے دل کواسپنچ کی طرح شک وشبہات کی آماجگاہ نہ بناؤ،جس کے نتیجے میں دل شبہات کو جذب کرنے کا عادی بن جاتا ہے، بلکہ اپنے دل کو مضبوط شیشے کے مانند بناؤ، جس کے اوپرسے شبہات گذرتے ہیں لیکن اس پر جم نہیں پاتے،(جب دل شیشے کے مانند ہوگا) تو وہ شبہات کو باریکی سے دیکھ پائے گا، اور اپنے ٹھوس پنے سے اسے اپنے سے دور کرسکے گا، ورنہ تمہارے دل میں جو بھی شبہ پیدا ہوگا وہ دل کو ہی اپنامسکن بنادے گا''۔
پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ بدعت کے مذکورہ نقصانات سے نہ صرف جاہل افراد متاثر ہوتے ہیں بلکہ اہل علم اور اہل بصیرت بھی ان نقصانات سے دوچار ہوتے ہیں۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے:
ترجمہ: (جوبھی دجال کے بارے میں سنے وہ اس سے دور ہوجائے، بخدا، آدمی اپنے آپ کو مومن سمجھے گا لیکن اس کے پاس جائے گا، پھر شبہات کے مجبور کرنے پر اس کی اتباع کرے گا) أحمد وأبوداود .
نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ہر ایک کے لئے عام ہے،لہٰذا اس سلسلے میں غفلت اور کاہلی سے بچنا ضروری ہے۔
فرق منحرفہ: جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ اور ان کے مثل وہ فرقے جو اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے اسمائے حسنی کے سلسلے میں انحراف کرتے ہیں، نیز وہ قرآن وسنت ونبوی میں مذکور اسماء وصفات کے بارے میں بھی انحراف کرتے ہیں، اور اسماء وصفات کے صحیح معانی ومطالب کا انکار کرتے ہیں اور اس کے بدل میں باطل معانی کرتے ہیں،جس کی کتاب وسنت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے اور نہ جسے ماضی میں امت کے سلف صالحین اور ہدایت یافتہ ائمہ نے سمجھا تھا۔
ان فرقوں میں قبروالا صوفی فرقہ بھی ہے، جو قبور اور اہل قبور سے استغاثے، ان سے اپنی حاجات کا سوال، اور مصائب اور پریشانیوں کو دور کرنے کا سوال، ان کے لئے نذر ونیاز اور ان کی قسم کھانا اور اس طرح کے دیگر شرکیہ اعمال کی دعوت دیتا ہے۔

اورخوارج گمراہ فرقوں میں سے ہے:
جومسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھتے ہیں اور مسلمان ذمہ داران حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔ یہ ٹولہ پھر سرگرم ہورہا ہے!! اور زمین میں فساد مچا رہا ہے، قتل وغارت گری اور تباہی وبربادی عام کررہا ہے،جن کا شکار مومنین ومومنات، چھوٹے، بڑے، بچے اور بوڑھے سب ہورہے ہیں، ان کا نعرہ صرف اور صرف ''میرے اور میرے دشمنوں کے خلاف" ہے، اور وہ دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے ہر قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔

اس ٹولے کے ظہور کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی تنبیہ:
۱۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: (اخیر زمانے میں ایک قوم پیدا ہوگی جو تیز دانتوں والی اور بے وقوفوں جیسے خواب دیکھنے والی ہوگی، وہ لوگوں میں سب سے اچھی بات کرنے والے ہونگے، وہ قرآن پرھیں گے،(لیکن وہ)اسلام اس طرح خارج ہوجائیں گے جیسے کمان میں سے تیر نکلتا ہے، لہٰذا جو کوئی انہیں پائے چاہئے کہ اس سے قتال کرے، اس لئے کہ ان سے قتال میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر ہے۔ ) [ابن ماجہ]
اور ایک روایت میں ہے کہ: آسمان کے نیچے سب سے زیادہ برے یہی مقتولین ہونگے، اور سب سے زیادہ بہتر قاتل وہ ہونگے جو انہیں قتل کریں۔
۲۔نبی کریم ﷺ نے خوارج کے تکرار سے خروج اور ہر مرتبہ پیٹ پھیر کر بھاگنے کی خبر دی:
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:(ایک قوم پیدا ہوگی،جو قرآن پڑھے گی، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا،جب بھی کوئی جماعت اٹھے گی، وہ پیٹ پھیر کر بھاگ کھڑی ہونگی )
ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئےسنا:
ترجمہ: (جب جب بھی کوئی جماعت اٹھے گی، بیس سے زیادہ مرتبہ بھاگ کھڑی ہوگی،یہانتک کہ ان میں سے ہی دجال نکلے گا۔) [ابن ماجہ صحیح البانی]
آج کے زمانے میں اس بات کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہی کا حکم ہے اول وآخر۔۔
اے اللہ ہمیں،ہماری اولاد کو، ہمارے پیاروں کو اورہمارے مسلمان بھائیوں کودین اسلام پر قائم ودائم رکھ اور ہماری حفاظت فرما، اور کسی دشمن اور حاسد کے ذریعے ہمیں رسوا نہ فرما،آپ کے خزانے کا ہر خیر ہم مانگتے ہیں اورہر شر سے جس کے خزانے آپ کے ہاتھ میں ہیں پناہ مانگتے ہیں۔
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی​
نظرثانی : عین الدین عین الحق مکی​
 
Top