• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدھ مت اور بون کی پانچ تبتی روایات کی تعارفی تاریخ

ابو عمر

مبتدی
شمولیت
دسمبر 06، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
101
پوائنٹ
0
الیکزینڈر برزن
برلن، جرمنی​

آج شام مجھے بدھ مت اور بون کی پانچ تبتی روایات کی تاریخ پر گفتگو کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ان میں سے چار تو بدھ مت کی روایتیں ہیں: نینگما، کاگیو، ساکیہ اورگیلوگ، جبکہ بدھ مت کے پہلے سے موجود بون کی تبتی روایت پانچواں سلسلہ ہے۔ ہم اکثر ان ناموں کے بعد حرف "پا " کی آواز سنتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے اس روایت یا سلسلے کا پیروکار مثلاً گیلوگ پا کا مطلب ہے ایسا فرد جو گیلوگ روایت کی پیروی کرتا ہو۔
بدھ مت کا تعارف از شہنشاہ سونگ سن گیمپو

تاریخ کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں پانچویں صدی عیسوی تک پیچھے جانے کی ضرورت ہے۔ اس صدی کے آغاز میں وسطی تبت کے بادشاہ سونگ سن گیمپو نے زہانگ زہنگ کی مغربی تبتی سلطنت کو فتح کیا اور پہلی متحدہ تبتی سلطنت قائم کی۔ اس زمانے میں رواج تھا کہ بادشاہ اپنی مملکت کو متحد اور محفوظ رکھنے کے لیے قریبی ملکوں کی شہزادیوں سے شادی کر لیتے تھے اس طرح ہمسایہ بادشاہ ایسے ملکوں پر حملے نہیں کرتے تھے جہاں ان کی بیٹیاں زندگی بسر کر رہی ہوں۔ شہنشاہ سونگ سن گیمپو نے چین، نیپال، اور زہانگ زہنگ کی شہزادیوں سے شادی کر لی۔ یہ شہزادیاں اپنےساتھ اپنے آبائی ملکوں کے مذہب بھی لے آئیں۔ چین اور نیپال کی شہزادیاں اپنے ساتھ بدھ مت کی کتابیں اور زہانگ زہنگ کی شہزادی اپنے بون عقائد لے کر آئیں۔ بون زہانگ زہنگ کا مقامی مذہب تھا۔

اگر ہم مغربی تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اس ابتدائی دور پر بدھ مت کا اثر زیادہ نہیں تھا۔ اہم پیش رفت یہ تھی کہ اس کے پہلے شہنشاہ نے اپنے علاقے میں بدھ مت کے تیرہ مندر تعمیر کیے۔ تبت کا نقشہ ایسا ہے گویا زمین پر کوئی بھتنی لیٹی ہوئی ہو۔ اس بھتنی کے جسم پر آکیو پنکچر کے نشانات کی طرح ۱۳ نشانات لگا کر شہنشاہ نے ان مقامات پر مندر تعیمر کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ تبت کی اس بھتنی کی طاقت کو زیر اور قابومیں کر سکے۔ یوں بدھ مت "برف کی سرزمین" میں وارد ہوا۔

اپنی مملکت کو مزید مضبوط کر نے کے لیے سونگ سن گیمپو کی خواہش تھی کہ تبتی زبان لکھنے کے لیے حروف تہجی ہونے چاہییں۔اس لیے اس نے اپنے وزیر توگمے سمبھوٹا کو بھیجا کہ وہ ختن سے حروف تہجی لے کر آئے۔ یہ حروف تہجی ھندوستان سے نہیں لیے گئے جیسا کہ تبت کی روایتی تاریخوں میں بیان کیا گیا ہے۔ وسط ایشیا میں واقع ختں مغربی تبت کے شمال کی بودھی مملکت تھی۔ ختن کے لیے جس راستے سے وزیر روانہ ہوا وہ کشمیر سے گزرتا تھا۔ جب وہ وھاں پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ عالم جس سے ملنے کے لیے وہ ختن آیا ہے اس وقت کشمیر میں ہے۔ اس طرح یہ کہانی مشہور ہوئی کہ تبت کا انداز تحریر کشمیر سے آیا ہے۔ املا کا تجزیہ بتاتا ہے کہ تبت کے حروف تہجی ان خصوصیات کے حامل ہیں جو ختن اندازِ خط کے ساتھ مخصوص ہیں۔ بعد ازاں ہندوستانی بدھ مت کی بہ نسبت چین اور ختن کے ساتھ بدھ مت کے رابطے زیادہ رہے۔ تاہم اس ابتدائی زمانے میں تبت میں بدھ مت کی بہ نسبت بون مذہب زیادہ مستحکم رہا۔ ریاستی آداب و رسوم بون مذہب کی تعلیمات سے ہی لیے گئے تھے۔
منتقلی کا قدیم زمانہ (نیا نگما)

آٹھویں صدی کے درمیان میں ایک اور عظیم شہنشاہ تری سونگ دت سن تخت پر بیٹھا۔ اسے تبت میں مستقبل میں ہونے والی بودھی تعلیمات کے بارے میں پیشین گوئی ملی اور اس پیشین گوئی کے مطابق اس نے ہندوستان سے بدھ مت کے ایک بڑے استاد شنتراک شیتا کو بلایا۔ ہندوستان سے آنے والے راہب کی آمد کے فوراً بعد وھاں چیچک کی وبا پھوٹ پڑی۔ بادشاہ کے وزراء تبت میں ہر طرح کے بیرونی اثر و رسوخ کے خلاف تھے۔ انہوں نے اس چیچک کا الزام شانتا رکشیتا پر لگا کر اسے تبت سے نکال دیا۔ تبت چھوڑنے سے پہلے شانتا رکشیتا نے شہنشاہ کو مشورہ دیا کہ وہ گرو رنپوچے پدم سمبھاوا کو دعوت دے کہ وہ آ کر ان برے حالات کو بہتر بنائے اور مسائل کو حل کرے۔ تری سونگ دت سن نے اس مشورے پر عمل کیا اور اس کی دعوت پر پدم سمبھاوا تشریف لائے اور تبت کو ان مسائل سے نجات دلائی۔ بادشاہ نے پھر شنتراک شیتا کو واپس آنے کی دعوت دی۔ ملک میں پہلے سے بدھ مت کے بہت سے مندر موجود تھے لیکن اب انہوں نے تبت میں لہاسا کے جنوب میں سَمیے کے مقام پر پہلی خانقاہ تعمیر کی۔ ہندوستانی راہب نے یہاں ابتدائی راہبوں کو منظم کیا۔

گرو رنپوچے نےکچھ پڑھایا لیکن اصل میں اس نے تبت میں زیادہ نہیں پڑھایا۔ اس نے اکثر کتابوں کو یہ سوچتے ہوئے دفن کر دیا کہ تبت کے لوگ اس وقت اس کی دعوت قبول نہیں کر رہے تھے۔ ان کتابوں میں اعلٰی ترین تنتر تعلیمات تھیں جنہیں ذوگچن (dzogchen) یعنی 'عظیم کمال' کہا جاتا تھا۔

اس کے بعد بہت سے چینی، ھندوستانی اور زہانگ زہنگ عالموں نے سَمیے خانقاہ میں مل جل کر کام کیا۔ انہوں نے اپنی اپنی روایتوں کی کتابوں کی تدوین اور ترجمے کیے۔ جلد ہی بدھ مت ریاستی مذہب بنا دیا گیا۔ اس وقت اہل چین کا تبت میں بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا۔ ہر دوسرے سال چین کا شہنشاہ سَمیے کو دو راہب بھیجتا تھا۔ چین کے راہب جس بدھ مت کی پیروی کرتے تھے وہ چن تھا- یہ جاپانی زین (Zen) کا چینی پیش رو تھا۔

شانتا رکشیتا نے چینیوں کے ساتھ مستقبل میں کسی ممکنہ جھگڑے کی پیش بینی کی۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ مذہبی تاریخ خلا میں آگے نہیں بڑھتی۔ یہ سیاسی تاریخ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور اس زمانے میں چین اور تبت کے درمیان بہت سی جنگیں ہو رہی تھیں۔ شنتراک شیتا نے کہا کہ ان کے شاگرد کمل اشیل کو بلانا چاہیے تا کہ وہ آنے والے مسائل کو حل کرے۔

اسی دوران شہنشاہ تری سونگ دت سن نے مزید کئی تبتیوں کو ھندوستان بھیجا کہ وہ وھاں سے تعلیمات لے کر آئیں اور اس نے مزید ھندوستانیوں کو اس ملک میں آنے کی دعوت دی۔ بہت سی مزید کتابیں دفن کی گئیں۔ چونکہ چین اور وسط ایشیا کے درمیان بہت سی جنگیں جاری تھیں اور وزرا تبت میں بیرونی اثر و رسوخ کے خلاف تھے، لٰہذا یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ سَمیے اور دربار میں موجود بون پیروکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، کیونکہ بون فرقے کا تعلق بنیادی طور پر زہانگ زہنگ سے تھا۔

ھندوستان کے نمائندے کمل اشیل اور چین کے نمائندوں کے درمیان دھرم پر ایک مناظرہ بھی ہوا اور اس میں چینی ہار گئے۔ بلا شبہ ایک چن عالم کسی منطقی مناظرے میں ھندوستان سے آنے والے منطق کے عالم کو شکست نہیں دے سکتا تھا۔ یہ کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ چن عالموں کو منطق کی کوئی تربیت حاصل نہیں تھی۔ کئی وجوہات کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مباحثہ ایک سیاسی اقدام تھا جس کا مقصد چینیوں کو یہاں سے نکالنا اور تبت میں ھندوستانی بدھ مت کو مرکزی بودھ روایت کے طور پر اختیار کرنے کا جواز پیدا کرنا تھا۔ تبت کے ھمسائے تمام بادشاہوں اور سلطنتوں میں تبت کے لیے ھندستان کی طرف سے سب سے کم فوجی خطرات تھے۔

میں تاریخی واقعات کو تبت کے معیاری مذھبی نقطۂ نظر کی بجائے قدرے مغربی سائنسی انداز سے پیش کرنا پسند کرتا ہوں، کیونکہ مجھے اس کی تربیت حاصل ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ واقعات کی قدرے زیادہ واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ زیادہ بامعنی ہے۔

اس کے بعد بہت سے اور تراجم بھی ہوئے۔ نویں صدی کے شروع میں شاہی سرپرستی میں علمائے سنسکرت نے تبتی سنسکرت لغت تیار کی اور تراجم کی اصطلاحات اور اسلوب بھی طے کیے۔ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ علما نے لغت میں تنتروں کی کوئی بھی اصطلاح شامل نہیں کی کیونکہ تنتروں پر پہلے ھی بہت اختلافات تھے۔

نویں صدی کے وسط میں بدھ مت پر شہنشاہ لنگ درم کے بدنامِ زمانہ ظلم و ستم کا واقعہ پیش آیا۔ لنگ درم کو ایک شیطان کے طور پر پیش کرنے کے بجائے، جیسا کہ مذہبی تاریخ میں کیا جاتا ہے، یہ حقیقت کے زیادہ قریب ھو گا کہ اس تمام ستمگری کو سمیے کے بودھ راھبوں اور علماء کی ان کوششوں کے ردعمل کے طور پر دیکھا جائے جو وہ حکومت پر بہت زیادہ اثرانداز ھونے کے لیے کر رہے تھے۔ حکومت کی طرف سے اکٹھے کیے جانے والے بہت سے ٹیکس خانقاہوں پر خرچ ہو جاتے تھے اور معاشی بوجھ ناقابل برداشت ہو چکا تھا۔

اصل میں لنگ درم نے صرف خانقاھوں کو بند کیا تھا، اس نے بدھ مت کو تباہ نہیں کیا۔ اس نے بدھ مت کے کتب خانے تباہ نہیں کیے کیونکہ جب آتش ایک صدی بعد تبت آیا تو اس نے یہ کتب خانے دیکھے۔ خانقاہوں سے باہر بدھ مت جاری رہا۔ جو کچھ اس نام نہاد " منتقلی کے قدیم دور" (قدیم دورِترجمہ) کے دوران اور اس سے پہلے جاری رھا، اسے بعد میں نینگم روایت میں " قدیم روایت" کا نام دیا گیا۔
منتقلی کا دور جدید

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ھے، بون کو سزا دینے کا عمل بدھ مت کو سزا دینے سے کئی سال پہلے واقع ہوا۔ گرو رنپوچے اور اس وقت کے دوسرے بودھ بزرگوں کی طرح بون بزرگوں نے بھی حفاظت کی خاطر اپنی کتابوں کو دفن کر دیا۔ ابتدائی دسویں صدی میں بون کے پیروکاروں نے اپنی کتابوں کی تلاش شروع کی۔ یہ کتابیں نہ صرف تنتروں بلکہ سوتروں کے بارے میں بھی تھیں۔ بون کی تعلیمات بھی بدھ مت کی تعلیمات کی طرح ھی ہیں۔ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ بون پیروکاروں نے اپنی مخفی کتابوں کے ذخیرے کی تلاش بودھ پیروکاروں میں اس روایت کے آغاز سے پہلے شروع کر دی تھی۔

دسویں صدی کے آخر میں تبت میں تنتروں کے بارے میں بہت زیادہ غلط فہمی پائی جاتی تھی۔ یہ غلط فہمی نیانگما روایت میں تھی جو خانقاہوں سے باھر موجود رہی۔ لوگ ان تعلیمات کو لفظی معنی میں ماننے لگے تھے خصوصا اس کے وہ حصے جو جنس اور تشدد کے بارے میں تھے۔ جنس اور تشدد میں کشش انسانی معاشرے کے لیے نئی بات نہیں؛ یہ یقیناً اس دور میں بھی موجود تھی۔

پہلے کی طرح بادشاہ نے اس وقت بھی ھندوستان کی طرف عالم روانہ کیے تاکہ وہ ایک بار پھر تعلیمات لے کر آئیں اور غلط فہمی کو دور کریں۔ غلط فہمی پیدا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اب وھاں خانقاھیں نہیں تھیں جو مطالعے اور تربیت کے عمل کو ایک درست معیار کے مطابق قائم کرتیں۔

اب ہم اس دور میں ہیں جسے "منتقلی کا دور جدید" (سرما: ترجمے کا دور جدید) کہتے ہیں۔ اس دور میں بدھ مت کی وہ روایتیں جنہیں کدم، سا کیہ اور کاگیو کہتے ہیں، شروع ہوئیں۔ ہندوستان میں یہ نام نہیں پائے جاتے تھے۔ یہ نام یہاں اس طرح آئے کہ بہت سے مترجمین ہندوستان اور نیپال آئے اور وہ وہاں سے مختلف تحریریں، تعلیمات اور تنتروں سے فیض یاب ہو کر آئے۔ بہت سے ہندوستانی، نیپالی اور کشمیری اساتذہ بھی تبت آئے۔ مختلف تبتی سلسلے انہی مختلف اساتذہ سے شروع ہوئے۔

یہ معاملہ بالکل اسی طرح کا ہے جیسا آج کل ہم دیکھتے ہیں۔ تبت کے بہت سے لامہ مغرب میں آئے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتا ہو اور ان میں سے اکثر نے اپنے اپنے دھرم مرکز قائم کر لیے۔ بہت سے اہل مغرب ہندوستان اور نیپال جاتے ہیں اور وہاں ان تبتیوں کے زیرِ نگرانی مطالعہ کرتے ہیں جو جلاوطنی میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے جب اپنے آبائی وطن کو لوٹتے ہیں تو وہاں اپنے دھرم مرکز قائم کر لیتے ہیں۔ اب ہمارے پاس کئی سلسلے مثلا کالو رنپوچے کا سلسلہ، شمر رنپوچے کا سلسلہ، سوگیال رنپوچے کا سلسلہ، نمخہائے نوربو رنپوچے کا سلسلہ، لامہ یشی کا سلسلہ، گیشے رابتن سلسلہ، ترنگپا رنپوچے سلسلہ اور اس طرح کے کئی اور سلسلے موجود ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی تبت میں موجود نہیں تھا۔ بہت سے مغربی لوگ یہ کہتے ہیں میں کالو رنپوشے کا پیروکار ہوں یا یہ کہ میں نمخہائے نوربو کا پیروکار ہوں۔ اس طرح ہم اپنی پہچان کسی نہ کسی استاد کے ساتھ قائم کرتے ہیں۔ تبت میں بھی یہ سلسلہ اور ربط اسی طرح پایا جاتا ہے جیسا کہ آج ہم مغرب میں دیکھتے ہیں۔ یہ سلسلے بالکل نئے ہیں اور اس سے پہلے یہ موجود نہیں تھے۔

جیسا کہ آج ہم دیکھتے ہیں، بہت سے لوگوں نے کئی اساتذہ سے پڑھا، ایسا ہی اس وقت بھی تھا۔ یہ سلسلے آپس میں خلط ملط ہو گئے۔ لوگوں نے مختلف سلسلوں سے علم حاصل کیا اور کسی نہ کسی طرح سے وہ باہم مل گئے۔ دھرم مرکز کا آغاز کرنے کے بجائے انہوں نے خانقاہیں قائم کیں۔ پھر جو کچھ ہوا اور امید ہے کہ یہ مغرب میں بھی ہوا ہو گا، ان میں سے اکثر سلسلوں نے اپنی خاص تعلیمات اور اساتذہ کو باہم ملا کر ایک قابل ذکر تعداد میں سکول اور مدارس بنا لیے۔ یہ ناممکن ہے کہ بدھ مت کے دو سو سے زائد مختلف ذوق رکھنے والے طریقے موجود رہیں۔ مختلف عملیات، کتب، تنتروں کے ورد وغیرہ کے منتقل ہونے کے سلسلے اکٹھے آگے بڑھے اور کدم، کاگیو اور ساکیہ مکاتب فکر میں اس نئے دور کے دوران اکٹھے ہو گئے۔ تبت میں اس نئے مرحلے سے پہلے جو مختلف سلسلے موجود تھے وہ نینگما اور بونپو مکتب فکر میں جمع ہو گئے۔ اس دور سے پہلے مختلف منتشر قسم کی خانقاہیں موجود تھیں جو کسی منظم مکتب فکر کے تحت جڑی ہوئی اور باہم ملی ہوئی نہیں تھیں۔

پانچ تبتی روایتوں کا کوئی متعین تشخص نہیں ہے۔ یہ صرف رواجی نوعیت کی ہیں جو مختلف طریقوں اور اساتذہ سے لیے گئے ہیں۔ یہ تعلیمات حصول آگہی کے وہ سلسلے ہیں جو تبت میں آنے والے مہمان اساتذہ نے یہاں منتقل کیے۔ اس طرح سے بدھ مت اور بون کی پانچ تبتی روایتیں وجود میں آئیں جن کا آغاز دسویں صدی کے آخر میں ہوا۔
کدم اور گیلوگ

کدم سلسلے کا آغاز ہندوستانی بزرگ آتش سے ہوا۔ اس سلسلے کی ایک اہم ترین خصوصیت لوجونگ تعلیمات ہیں۔ لوجونگ کا ترجمہ عام طور 'ذہنی تربیت' کیا جاتا ہے لیکن میں اس کا ترجمہ 'رویوں کا تزکیہ' کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ یہ سلسلہ مزید تین سلسلوں میں تقسیم ہوا اور پھر تسونگ کھاپا نے چودھویں صدی کے آخر اور پندرھویں صدی کے شروع میں اسے دوبارہ متحد کیا اور اس کی اصلاح کی۔ اس طرح یہ گیلوگ روایت بن گیا۔

تسونگ کھاپا کی ایک بہت ہی اہم کامیابی یہ تھی کہ اس نے اس وقت تک میسر بدھ مت کی تمام کتابیں پڑھیں۔ کئی کتابوں کے تبتی زبان میں مختلف تراجم موجود تھے۔ بہت سی کتابوں کا ترجمہ تین، چار یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ کیا گیا اور ان کی کئی تشریحیں اور تفسیریں موجود تھیں۔ تسونگ کھاپا نے تقریباً ان سب سوتروں اور تنتروں کو پڑھا اور ان کی ہر چیز کا باہم تقابل کیا۔ اس نے ان سب کو پڑھا اور ان کے بارے میں لکھا کہ "اس پیراگراف کا یہ ترجمہ اس طرح کا ہے اور وہ ترجمہ اس طرح کا، یہ تفسیر یوں بیان کرتی ہے اور وہ تفسیر اس طرح بیان کرتی ہے۔ لیکن یہ ترجمہ یا یہ تفسیر غیر منطقی ہے اور اس سے کوئی مفہوم نہیں نکلتا۔ کیونکہ یہ اس اس انداز سے تضاد اور اختلاف کا شکار ہے."

اس طرح سے تسونگ کھاپا تمام اہم کتابوں کے صحیح ترجمے اور صحیح تفہیم کے سلسلے میں اپنے نتیجے پر پہنچا ۔ وہ اپنے نتائج کو یوں کہہ کر بیان نہیں کرتا کہ "اس پیراگراف کا مطلب یوں ہے کیونکہ میں یوں کہتا ہوں" بلکہ اس نے ہر بات کو منطق اور عقلی بنیادوں پر ثابت کیا۔ مزید برآں، اس نے ہر کتاب کے مشکل حصے پر خصوصی توجہ دی ۔ یہ ایسے حصے تھے جنہیں ہر شخص نظر انداز کر جاتا تھا۔ اس طرح اس کی کتابیں گیلوگ مکتب فکر کی بنیاد بن گئیں۔

تسونگ کھاپا کے بہت سے شاگرد تھے۔ ان میں سے ایک کو بعد میں "دلائی لامہ اوّل" کا نام دیا گیا اگرچہ "دلائی لامہ" کا نام اس سلسلے میں تیسری تجسیم سے پہلے وجود میں نہیں آیا تھا۔ تیسرے دلائی لامہ کو یہ نام منگولوں نے دیا۔ یہ پانچواں دلائی لامہ تھا جس نے ساتویں صدی کے وسط میں تبت میں سیاسی اقتدار حاصل کیا اور اسے یہ سیاسی اقتدار منگولوں نے دیا تھا۔ منگولوں نے یہ کام بنیادی طور پر ایک سو پچاس سال سے جاری تبت کی خانہ جنگی کو ختم کرنے اور وہاں اتحاد اور استحکام پیدا کرنے کے لیے کیا۔ پھر دلائی لامہ نہ صرف گیلوگ سلسلے بلکہ تبت کی تمام روایتوں کے محافظ بن گئے، اگرچہ دلائی لامہ کا سلسلہ اصل میں گیلوگ مکتب فکر سے ہی وجود میں آیا تھا۔ پانچویں دلائی لامہ کے بڑے استاد کو "پہلا پن چن لامہ" کہا جاتا ہے۔
سا کیہ

سا کیہ سلسلہ بنیادی طور پر ہندوستانی استاد ویروپ کے ذریعے وجود میں آیا۔ اس سے لمبدرے نامی تعلیمات کا آغاز ہوا جس کا مطلب ہے 'راستے اور ان کے نتائج'۔ اہم سا کیا تعلیمات میں سوتروں اور تنتروں کو اکٹھا کیا گیا تھا۔ سا کیہ مکتب فکر ابتدائی پانچ اساتذہ کے سلسلوں کے ذریعے سے فروغ پذیر ہوا۔ ان سب کا تعلق ایک ہی معزز خاندان سے تھا۔ ان میں سے ایک چوگیال پیگپا کو تبت میں تیرھویں صدی کے دوران مغل شہنشاہ قبلائی خان نے سیاسی نیابت بھی دی تھی۔ اس اقدام سے تبت میں پہلی مرتبہ نئے ترجمے کے دور میں سیاسی اتحاد دوبارہ قائم ہوا۔
کاگیو

کاگیو روایت کے دو بڑے سلسلے ہیں۔ ایک شینگپا کاگیو۔ اور اس سلسلے کا سربراہ کالو رنپوچے تھا ۔ یہ تبتی استاد کینگپو نیلجور سے شروع ہوا جو گیارھویں صدی کے شروع میں ہندوستان گیا اور اپنے ساتھ تعلیمات لے کر آیا۔ بنیادی طور پر یہ تعلیمات نیروپ اور دو بڑی خاتون اساتذہ یعنی یوگنی نیگوما اور یوگنی سکھ سدھی سے لی گئیں۔

دوسرا اہم کاگیو سلسلہ دیگپو کاگیو ہے۔ یہ وہ سلسلہ ہے جو تیلوُپا سے ہوتے ہوئے نیروپا اور پھر تبتی مارپا، میلاریپا اور گیمپوپا تک پہنچا۔ گیمپوپا کے بعد یہ سلسلہ ان کے طلبہ کے درمیان اور پھر ان طلبہ کی اگلی نسلوں کے درمیان بارہ ذیلی سلسلوں میں تقسیم ہو گیا۔ ان بارہ میں سے آج صرف تین سلسلے ہی زیادہ پھیلے ہوئے ہیں اور مغرب میں بھی مشہور ہیں۔ کرما کاگیو مکتب فکر کا آغاز پہلے کرماپا نے کیا تھا جو گیمپوپا کا براہ راست شاگرد تھا۔ دوسرے دو دروگپا اور دریگونگ کاگیو ہیں۔

روایتی طور پر ہر کاگیو مکتب فکر آزاد ہے اور تمام کاگیو سلسلوں کا عام طور پر کوئی بھی سربراہ نہیں۔ جب موجودہ تبت کے پناہ گزیں ۱۹۵۹ء میں لہاسا شورش کے دوران ہندوستان کو فرار ہوئے تو بہت سے نمایاں کاگیو سلسلے کے سربراہان بھی سولہویں کرماپا کے ساتھ فرار ہو گئے۔ تنظیم نو مکمل کرنے کے لیے اسے عارضی طور پر تمام کاگیو سلسلوں کا رہنما منتخب کر لیا گیا۔ آج کل مختلف کاگیو سلسلوں نے اپنے اپنے انفرادی طریقے اختیار کر لیے ہیں۔

گیارھویں صدی کی ابتداء کے دوران جب ترجمے کے نئے مکاتب فکر سامنے آ رہے تھے تو نینگما اساتذہ نے اپنی کتابوں کو ظاہر کرنا شروع کیا جو اس سے پہلے دفن کی ہوئی تھیں۔ لونگ چن پا نے ان سب کو تیرھویں صدی میں نینگما مکتب فکر کی متنی بنیاد فراہم کرنے کے لیے اکٹھا کیا۔ نینگما روایت میں شاید مختلف تبتی مکاتب فکر میں سب سے کم یکسانیت اور یک رنگی ہے۔ اس کی ہر خانقاہ مکمل طور پر آزاد ہے ۔
ریمی: غیر فرقہ وارانہ تحریک

یہاں ایک اور تحریک کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے یعنی ریمی یا "غیر فرقہ وارانہ تحریک"۔ اس کا آغاز جنوب مشرقی تبت کے علاقے کھم میں انیسویں صدی کی ابتداء میں ہوا۔ اس کی بنیاد رکھنے والے تمام اساتذہ کاگیو، سا کیہ اور نینگما سلسلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں شاید سب سے زیادہ مشہور پہلا کاگنترول رنپوچے جیمگون کاگنترول تھا۔ ریمی تحریک شروع کرنے کی بڑی وجہ تمام روایات بشمول گیلوگ روایت کے سلسلوں اور ان کی کتابوں کو محفوظ کرنا تھا جو اس وقت تک نایاب ہو چکی تھیں۔

کچھ مغربی دانشوروں کے نزدیک ریمی تحریک کے آغاز کے پیچھے اضافی سیاسی ایجنڈا بھی ہے۔ گیلوگ مکتب فکر بہت زیادہ مضبوط ہو گیا تھا اور وسطی اور شمال مشرقی تبت (آمدو) میں مرکزی روایت بن گیا تھا۔ مزید برآں اس مکتب فکر کے پیروکاروں نے وسط تبت کی حکومت پر بھی بہت اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔ دوسری روایتوں نے شاید اس سے خوف محسوس کیا اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ باہم مل جل کر کام کرتے ہوئے ہی اپنی شناختوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اس طرح وہ تبت کے لیے ایک متبادل متحد کرنے والی قوت بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ سو اس طرح ہم ریمی تحریک تک پہنچے۔

شاید یہ تبت کی پانچوں سلسلوں کی تاریخ کا کافی تعارف ہے۔ اگرچہ بہت سے اور نام بھی ہیں لیکن یہ تفصیل اس کی تاریخ اور اس کی اہم شخصیات مثلاً دلائی لامہ، پنچن لامہ اور کرماپوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ جاننے کے لیے مددگار ہو گی۔ مزید برآں، یہ معلومات فرقہ واریت کی خلیجوں سے بچنے میں بھی مدد کر سکتی ہیں اور اس طرح ہم تبت کے تمام سلسلوں کے لیے عزت اور احترام کے جذبات پیدا کر سکتے ہیں۔
 
Top