محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِيْنَكُمْ۰ۭ قُلْ اِنَّ الْہُدٰى ھُدَى اللہِ۰ۙ اَنْ يُّؤْتٰٓى اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِيْتُمْ اَوْ يُحَاۗجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ۰ۭ قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللہِ۰ۚ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۷۳ۚۙ يَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۷۴ وَمِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّہٖٓ اِلَيْكَ۰ۚ وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِيْنَارٍ لَّا يُؤَدِّہٖٓ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْہِ قَاۗىِٕمًا۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ۰ۚ وَيَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۷۵ بَلٰي مَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۷۶
گویا یہ اصول کہ اقویٰ اضعف کو پامال کرے، بڑا اصول ہے ۔ موجودہ یورپ نے اسے یہودیوں سے سیکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سفید فام اور بااقتدار حکومتیں ضعیف اور ناتوانوں کو اپنا آزو قۂ حیات سمجھتی ہیں اور اخلاقاً وعرفاً انھیں حکم دینے میں کوئی مضائقہ خیال نہیں کرتیں۔
قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے قانون انصاف وعدل کے خلاف ہے اورخدائے قدوس پر یہ زبردست الزام ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی حالت میں بھی تعصب کو جائز ودرست قرار نہیں دیتے۔ انصاف وعدل بہرحال قابل لحاظ ہے ۔
۱؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ یہودیوں کی مخالفت محض اس بناپر تھی کہ مسلمان کیوں اس نعمت اسلام سے بہرہ اندوز ہیں یعنی بجز تعصب کورانہ کے اور کوئی چیز انھیں اسلام کی صداقتوں کے قبول کرنے سے نہیں روکتی۔ وہ نہیں سوچتے کہ یہ خدا کی دین ہے ۔ جسے چاہے محروم رکھے۔ اس کی مصلحتوں کو اس کے سوا اور کون جانتا ہے۔اوربات اسی شخص کی مانو جوتمہارے دین کے تابع ہے۔ تو کہہ ہدایت وہی ہے جو اللہ ہدایت کرے اس لیے کہ جو تم کو دیاگیا ہے ، وہ کسی کو نہیں دیا گیا یا یہ کہ تمہارے رب کے پاس وہ تم سے جھگڑا کریں تو کہہ فضل خداکے ہاتھ میں ہے ، جسے چاہے، دے اور خدا گنجائش والا ہے۔ (۷۳) وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔۱؎ (۷۴) اور اہل کتاب میں کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تو اس کے پاس مال کا ایک ڈھیر امانت رکھے تو وہ تجھے ادا کردے اور کوئی ان میں ایسا ہے کہ اگر تو ایک اشرفی بھی اس کے پاس رکھے تو وہ تجھے ادا نہ کرے مگرجب تک کہ تو اس کے سرپرکھڑا رہے۔ یہ اس لیے ہے کہ انھوں نے کہا۔ ہم پر جاہلوں (یعنی مسلمانوں) کے حق کا گناہ نہیں ہے اور وہ جھوٹ بولتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔۲؎(۷۵) (گناہ) کیوں نہیں بلکہ جس نے اپنا عہد پورا کیا اور خدا سے ڈرا تو خدا ایسے ہی پرہیز گاروں سے محبت رکھتا ہے۔ (۷۶)
۲؎ اہل کتاب میں یہودی بدترین تعصب کے حامل ہیں۔ ان کی ہروقت یہ کوشش رہتی ہے کہ مسلمانوں کو لوٹا جائے اور ان کے خون سے ہاتھ رنگے جائیں۔ مسلمانوں کے باب میں وہ ہرقسم کے غدر اور خداع کو جائز قرار دیتے اور کہتے ہیں: یہ ان پڑھ اور غیر سرمایہ دار لوگ ہروقت ہماری جوع البقری کا شکار ہوسکتے ہیں اور ان کو دھوکا دینے اور لوٹنے میں مذہباً کوئی مضائقہ نہیں۔بد ترین تعصب
گویا یہ اصول کہ اقویٰ اضعف کو پامال کرے، بڑا اصول ہے ۔ موجودہ یورپ نے اسے یہودیوں سے سیکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سفید فام اور بااقتدار حکومتیں ضعیف اور ناتوانوں کو اپنا آزو قۂ حیات سمجھتی ہیں اور اخلاقاً وعرفاً انھیں حکم دینے میں کوئی مضائقہ خیال نہیں کرتیں۔
قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے قانون انصاف وعدل کے خلاف ہے اورخدائے قدوس پر یہ زبردست الزام ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی حالت میں بھی تعصب کو جائز ودرست قرار نہیں دیتے۔ انصاف وعدل بہرحال قابل لحاظ ہے ۔
{ قِنْطَارٍ} خزانہ۔ مال کثیر{ سَبِیْلٌ} اصل معنی راہ اور راستے کے ہیں۔ یہاں مراد ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کوئی طریق اعتراض والزام نہیں۔حل لغات