• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بردباری اور تحمل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بردباری اور تحمل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالقیس کے سردار جناب اشبح رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :
(( لِلْأَشَجِّ … أَشَجِّ عَبْدِ الْقَیْسِ: إِنَّ فِیْکَ لَخَصْلَتَیْنِ یُحِبُّھُمَا اللّٰہُ: أَلْحِلْمُ وَالْأَنَاۃُ۔ ))1
’’ یقینا تجھ میں دو خصلتیں ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے (ایک) بردباری، (دوسری) تحمل ہے۔‘‘

شرح…: الحلم: عقل کا صحیح ہونا اور اس کا غالب ہونا، انجام پر گہری نظر رکھنا، قوت غضب کا ٹوٹنا اور اس قوت کا عقل کے تابع ہونا مراد ہے۔
حلیم کثیر الحلم کو کہتے ہیں، وہ انسان مراد ہے جو گناہوں سے اعراض کرتا ہے اور تکالیف پر صبر کرتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ وہ انسان ہے کہ جس نے کبھی بھی کسی سے رب کائنات کی رضا کے علاوہ بدلہ نہ لیا ہو اور کسی دوسرے کا بدلہ بھی فقط اللہ کے لیے لیا ہو۔ نیز حلیم اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں شامل ہے۔ حلم اشرف ترین اخلاق ہے اور اس کے حقدار عقل والے انسان ہیں کیونکہ اس میں عزت کی سلامتی، جسم کی راحت اور اللہ کی حمد کی کمائی ہے… حلم کی تعریف یہ ہے کہ غصہ کے ہیجان کے وقت نفس کو ضبط کرنا۔ یہ ملکہ بعض اسباب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسے اسباب دس ہیں۔
(۱)… جاہلوں کے لیے نرمی کرنا، یہ ایسی بھلائی سے تعلق رکھتی ہے جو نرمی کے موافق ہے۔ منثور الحکم میں کہا گیا ہے حلم کے اسباب میں سے سب سے زیادہ تاکید والا سبب جاہلوں کے لیے نرمی و شفقت ہے۔ 2
(۲)… بدلہ لینے پر قدرت رکھنا۔ یہ دل کی وسعت اور اچھی خود اعتمادی سے رونما ہوتی ہے۔
(۳)… گالی نکالنے سے اپنے آپ کو بچانا، یہ نفس کے شرف اور ہمت کی بلندی سے ظاہر ہوتا ہے۔
(۴)… برا سلوک کرنے والے کو بے وقعت سمجھنا۔ یہ تکبر اور خود نمائی سے اعراض کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ حکایت ہے کہ ایک آدمی اکثر احنف (ٹیڑھے پاؤں والے کو کہتے ہیں) کو گالی نکالا کرتا تھا لیکن یہ اسے کوئی جواب نہ دیتا تو گالی نکالنے والے نے کہا: اللہ کی قسم! یہ مجھے جواب اس لیے نہیں دیتا کہ میری اس کے ہاں کوئی وقعت نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: الأمر بالإیمان باللّٰہ تعالی ورسولہ ﷺ، رقم: ۱۱۷۔
2- اس سے مراد حکیمانہ مقولے ہیں جو نثر کی صورت میں ہوتے ہیں۔ (محمد زکریا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس جیسی مثال میں شاعر کہتا ہے ^
اَِذَا نَطق السفیہُ فلا تُجِبْہٗ
فَخَیْرٌ مِنْ اجابتِہٖ السکوتُ
سَکَتُّ عن السفیہِ فَظنّ انّی
عَیَیْتُ عن الجوابِ وما عَیَیْتُ


’’ جب بیوقوف بولے تو اسے جواب مت دو اس کے جواب سے خاموشی بہتر ہے۔ میں بیوقوف سے خاموش رہا تو اس نے گمان کیا کہ بے شک میں جواب دینے سے عاجز آگیا ہوں حالانکہ میں عاجز نہیں آیا۔‘‘
(۵)… گالیوں کے جواب کی جزا سے شرما جانا۔ یہ نفس کے بچاؤ اور کمال مروت سے پیدا ہوتا ہے۔
(۶)… گالیاں دینے والوں پر مہربانی کرنا، یہ کشادہ دلی اور متحد رہنے کی محبت سے رونما ہوتا ہے۔
(۷)… بڑائی کی وجہ سے گالیاں نکالنے والوں کو اور گالیوں کو چھوڑنا، یہ سبب عزم سے ظاہر ہوتا ہے۔
(۸)… جواب کے بدلہ میں جو سزا اور عقوبت ملنے کا خدشہ ہو اس سے ڈرنا، یہ نفس کی کمزوری سے پیدا ہوتا ہے اور بعض اوقات رائے و عقل اسے واجب کرتی ہے اور احتیاط اس کا تقاضا کرتی ہے۔
(۹)… نچلے ہاتھ (ـمراد احسان مند لوگ) اور اس کی حرمت لازمہ کی رعایت رکھنا۔ یہ وفا اور وعدے کی اچھائی سے پیدا ہوتا ہے۔
(۱۰)… خفیہ تدابیر اور مخفی موقعوں کے وقوع کا منتظر رہنا۔ یہ ہوشیاری و عقل مندی سے رونما ہوتا ہے۔
یہ دس اسباب ہیں جو حلم و بردباری کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ بعض اسباب بعض سے افضل و اعلیٰ ہیں یہ بات نہیں کہ بعض اسباب کم فضیلت والے ہیں لہٰذا ان کا نتیجہ حلم سے برا اور مذموم نکلے گا۔ گو تمام کا تمام حلم فضیلت والا ہے لیکن انسان کے لیے بہتر یہی ہے کہ حلم کے افضل ترین اسباب کو دعوت دیں۔1
الأناۃ: احتیاط اور میانہ روی اختیار کرنا اور عجلت کو ترک کرنا اور منفعت میں نظر رکھنے کو کہتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَلتَّؤْدُۃُ فِيْ کُلِّ شَيْئٍ خَیْرٌ، إِلاَّ فِيْ عَمَلِ الْآخِرَۃِ۔ ))2
’’ ہر چیز میں میانہ روی بہتر ہے سوائے آخرت کے عمل کے۔ ‘‘
یعنی ہر عمل میں میانہ روی اختیار کرنا بہتر اور مستحسن ہے لیکن آخرت کے عمل میں مستحسن نہیں بلکہ احتیاط اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ درجات کی بلندی اور نیک کاموں کی کثرت کے لیے کوشش کی جائے کیونکہ بھلائی کی تاخیر میں کئی قسم کی آفات ہوتی ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- الماوردی: ادب الدنیا والدین، ص: ۲۶۱۔ ۲۶۵۔
2- صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۰۰۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اَلتَّأنِّيِ مِنَ اللّٰہِ، وَالْعُجْلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ۔ ))1
’’ میانہ روی اللہ کی طرف سے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ ‘‘
شیطان کی طرف سے جلد بازی کا مطلب ہے کہ وہ اپنے وسوسوں کے ذریعہ انسان کو عجلت پر ابھارتا ہے کیونکہ جلد بازی احتیاط و انجام پر نظر رکھنے سے مانع ہے اور یہ ہلاکت کی جگہوں میں واقع کرنے والی چیز ہے، نیز یہ عجلت شیطانی چال اور اس کے وسوسہ سے تعلق رکھتی ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے: عجلت شیطان کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ یہ بندے میں طیش اور جلد بازی اور حدت ہے جو اسے احتیاط، وقار اور حلم سے روکتی ہے اور چیز کو اس کے غیر محل پر رکھنے کو واجب کردیتی ہے اور برائیاں لاتی ہے اور بھلائیوں کو روکتی ہے۔ یہ عجلت دو مذموم خصلتوں سے پیدا ہوتی ہے ایک تفریط دوسری وقت سے پہلے جلد بازی۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انسان ہمیشہ عجلت کے ثمرات سے شرمندگی چنتا رہتا ہے۔
مذموم عجلت وہ ہے جو فرمانبرداری کے علاوہ کسی کام میں ہو اور ساتھ ساتھ عدم احتیاط ہو اور کسی چیز کے کھوجانے کا خوف نہ ہو۔ اسی لیے ابو العیناء کو کہا گیا: جلدی نہ کر، کیونکہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے تو اس نے کہا: اگر بات ایسے ہی ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام ہرگز نہ فرماتے:
{وَعَجِلْتُ إِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی o} [طٰہٰ:۸۴]
’’ اور میں نے اے رب تیری طرف جلدی اس لیے کی کہ تو خوش ہوجا۔ ‘‘
احتیاط وہی ہے جو بعض نے کہا: بیوقوف کی جلد بازی کی طرح عجلت نہ کر اور نہ ہی سست اور ڈرنے والے کی طرح حملہ کر۔ کہا گیا ہے کہ اس حکم سے ہر وہ کام مستثنیٰ ہے جس کی اچھائی اور بھلائی میں کوئی شبہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَوَھَبْنَا لَہٗ یَحْیٰی وَأَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ إِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَھَبًَا وَّکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ o} [الانبیاء : ۹۰]
’’پس ہم نے اس کی دعا قبول کرلی اور اسے خطاب کیا (بیٹا) یحییٰ اور ہم نے اس کی بیوی کو شفاء دے دی بے شک یہ (انبیاء جن کا تذکرہ پیچھے ہوا) نیکی میں جلدی کیا کرتے تھے۔ اور وہ ہمیں رغبت و رہبت (شوق اور ڈرتے ہوئے) پکارتے تھے اور ہمارے لیے خشوع کرنے والے تھے۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۰۱۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فرمانبرداری کی طرف جلدی اور تیزی کرنے میں اور نفس عبادات (مثلاً نماز کی ادائیگی) میں عجلت کرنے میں فرق ہے کیونکہ پہلی صفت محمود اور دوسری مذموم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَلسَّمْتُ الْحَسَنُ، وَالتَّوْدَۃُ، وَالْاِقْتِصَادُ جُزْئٌ مِنْ أَرْبَعَۃٍ وَعِشْرِیْنَ جُزْئً ا مِنَ النُّبُوَّۃِ۔ ))1
’’ اچھی ہیئت، نرمی اور میانہ روی نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ ‘‘
یعنی یہ خصلتیں انبیاء علیہ السلام کی عادات تھیں اور ان کے فضائل کے اجزاء میں سے جزو ہیں لہٰذا ان کاموں میں انبیاء کی اقتداء اور متابعت کرو۔ کہا گیا ہے کہ اس کے معنی میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ ان خصلتوں سے ہیں جن کو نبوت لے کر آئی اور انبیاء علیہ السلام ان کی طرف دعوت دیتے رہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس نے ان خصلتوں کو جمع کرلیا تو لوگ اسے توقیر و تعظیم کے ساتھ ملیں گے اور اللہ تعالیٰ اسے تقویٰ کا ایسا لباس پہنائے گا جو انبیاء علیہ السلام کو پہنائے گا گویا یہ نبوت کا جزو ہوا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۶۳۵۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اَلتَّأنِّيِ مِنَ اللّٰہِ، وَالْعُجْلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ۔ ))1
’’ میانہ روی اللہ کی طرف سے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ ‘‘

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۰۱۱۔
اپنے رب کی بخشش کی طرف جلدی کرو
سابقوا الی مغفرۃ من ربکم
 
Top