جلال Salafi
رکن
- شمولیت
- اپریل 13، 2019
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 41
برزخی فرقے منکرین عذاب قبر کا رد
عذاب قبر قرآن مجید سے
القرآن - سورۃ نمبر 6 الأنعام
آیت نمبر 93
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِىَ اِلَىَّ وَلَمۡ يُوۡحَ اِلَيۡهِ شَىۡءٌ وَّمَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُؕ وَلَوۡ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِىۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَالۡمَلٰٓئِكَةُ بَاسِطُوۡۤا اَيۡدِيۡهِمۡۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَكُمُؕ اَلۡيَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡهُوۡنِ بِمَا كُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ غَيۡرَ الۡحَـقِّ وَكُنۡتُمۡ عَنۡ اٰيٰتِهٖ تَسۡتَكۡبِرُوۡنَ
ترجمہ:
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو، اور اسی طرح وہ جو یہ کہے کہ میں بھی ویسا ہی کلام نازل کردوں گا جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ؟ اور اگر تم وہ وقت دیکھو (تو بڑا ہولناک منظر نظر آئے) جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں گرفتار ہوں گے، اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے (کہہ رہے ہوں گے کہ) اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس لیے کہ تم جھوٹی باتیں اللہ کے ذمے لگاتے تھے، اور اس لئے کہ تم اس کی نشانیوں کے خلاف تکبرکا رویہ اختیار کرتے تھے۔
موت کے بعد سے قیامت کے دن تک جو عذاب اللّٰہ رب العزت کے نافرمان بندوں کو دیا جائے گا اسی کا نام عذاب قبر ہے ۔مرنے کے بعد عموماً میت کو زمین میں ہی گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا ہے اور قیامت قائم ہونے تک نافرمانوں کو قبر کے اندر عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لہذا اسی مناسبت سے اس عذاب کو عذاب قبر کا نام دیا گیا ہے ۔
حالانکہ عذاب کا یہ سلسلہ حالت نزع ہی سے جبکہ میت چارپائی پر ہوتی ہے شروع ہو جاتا ہے اور فرشتے اس کے چہرے اور پیٹھ پر ضربیں لگانی شروع کر دیتے ہیں اور اگر اللّٰہ تعالیٰ اس عذاب کا
کوئی حصہ دنیا والوں پر ظاہر کر دیتا تو نہ چارپائی نظر آتی اور نہ اس کے آس پاس بیٹھے لوگ دکھائی دیتے ۔ لیکن اس عذاب کا تعلق غیب کے ساتھ ہے اور اللّٰہ ابھی اسے انسانوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتا ۔
امام بخاری رح اور دیگر محدثین کرام نے یہ اور اس طرح کی دیگر آیات کو عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے ۔
چنانچہ امام بخاری رح نے صحیح بخاری میں باب کچھ اس طرح باندہ ہے ۔
صحیح بخاری
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: عذاب قبر کے متعلق جو حدیثیں منقول ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ اپنی جانوں کو نکالو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ ھون ھوان کے معنی میں ہے۔ اور ھون رفق کے معنی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم انہیں دوبارہ عذاب دیں گے پھر برے عذاب کی طرف پھیر دیں گے اور اللہ تعالیٰ کا قول آل فرعون پر سخت مار پڑے گی۔ صبح و شام آگ کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور جس دن قیامت قائم ہوگی کہا جائے گا آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔
صحیح البخاری میں امام بخاری رح کے اس باب سے معلوم ہوا کہ یہ آیات عذاب قبر سے متعلقہ ہیں
امام بخاری کا خاص طور پر حوالہ ہم نے اس لیے دیا کیونکہ برزخی فرقے کے بانی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب اور ان کے ماننے والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ امام بخاری رح اور امام ابو حنیفہ رح کے ساتھ ہیں جبکہ دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ موصوف اور ان کے پیروکار امام بخاری رح اور امام ابو حنیفہ رح کیا بلکہ کسی محدث کے ساتھ نہیں ہیں۔
اسی مضمون کی قرآن مجید میں دیگر آیات بھی ہیں مثلاً ۔
القرآن - سورۃ نمبر 8 الأنفال
آیت نمبر 50
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ لَوۡ تَرٰٓى اِذۡ يَتَوَفَّى الَّذِيۡنَ كَفَرُوا ۙ الۡمَلٰٓئِكَةُ يَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡهَهُمۡ وَاَدۡبَارَهُمۡۚ وَذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِيۡقِ
ترجمہ:
اور اگر تم دیکھتے (تو وہ عجیب منظر تھا) جب فرشتے ان کافروں کی روح قبض کر رہے تھے، ان کے چہروں اور پشت پر مارتے جاتے تھے (اور کہتے جاتے تھے کہ) اب جلنے کے عذاب کا مزہ (بھی) چکھنا۔
القرآن - سورۃ نمبر 47 محمد
آیت نمبر 27
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَكَيۡفَ اِذَا تَوَفَّتۡهُمُ الۡمَلٰٓئِكَةُ يَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡهَهُمۡ وَاَدۡبَارَهُمۡ
ترجمہ:
پھر اس وقت ان کا کیا حال بنے گا جب فرشتے ان کی روح اس طرح قبض کریں گے کہ ان کے چہروں پر اور پیٹھوں پر مارتے جاتے ہوں گے ؟
دوسری جگہ آل فرعون کے بارے میں ارشاد ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 40 غافر
آیت نمبر 45
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَوَقٰٮهُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوۡا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ الۡعَذَابِۚ
ترجمہ:
نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جو برے برے منصوبے بنا رکھے تھے، اللہ نے اس (مرد مومن) کو ان سب سے محفوظ رکھا اور فرعون کے لوگوں کو بد ترین عذاب نے آگھیرا۔
اَلنَّارُ يُعۡرَضُوۡنَ عَلَيۡهَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا ۚ وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ
ترجمہ:
آگ ہے جس کے سامنے انہیں صبح و شام پیش کیا جاتا ہے اور جس دن قیامت آجائے گی (اس دن حکم ہوگا کہ) فرعون کے لوگوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔
امام بخاری رح نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے ۔
اور فرعون کی لاش اللّٰہ تعالیٰ نے عبرت کے لیے محفوظ فرمادی ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 10 يونس
آیت نمبر 92
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَالۡيَوۡمَ نُـنَجِّيۡكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَكَ اٰيَةً ؕ وَاِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنۡ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ
ترجمہ:
لہذا آج ہم تیرے (صرف) جسم کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد کے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن جائے۔ (کیونکہ) بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل بنے ہوئے ہیں۔ ؏
صبح و شام جو آگ پر پیش کیے جارہے ہیں وہی عذاب قبر ہے جس میں اجسام کو آگ پر پیش کیا جارہا ہے ۔ جبکہ روحیں اول دن سے جہنم میں سزا بھگت رہی ہیں ۔اور قیامت کے دن انہیں اشدالعذاب میں داخل کردیا جائے گا جس میں وہ روح و جسم دونوں کے ساتھ داخل ہوں گے ۔اور قیامت کے دن عذاب قبر ختم ہو جائے گا اور صرف عذاب جہنم باقی رہے گا ۔
یاد رہے کہ عذاب قبر کا تعلق علم غیب سے ہے اس لیے فرعون کی لاش پر عذاب کے اثرات ہمیں نظر نہیں آتے جس طرح میت پر قبض روح کے وقت عذاب یہ پٹائی کا کوئی اثر ہم نہیں دیکھتے ۔ ہم ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت اللّٰہ رب العزت کے سپرد کرتے ہیں ۔
القرآن - سورۃ نمبر 9 التوبة
آیت نمبر 101
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمِمَّنۡ حَوۡلَــكُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ۛؕ وَمِنۡ اَهۡلِ الۡمَدِيۡنَةِ ؔۛ مَرَدُوۡا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعۡلَمُهُمۡ ؕ نَحۡنُ نَـعۡلَمُهُمۡ ؕ سَنُعَذِّبُهُمۡ مَّرَّتَيۡنِ ثُمَّ يُرَدُّوۡنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيۡمٍ
ترجمہ:
اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے۔
اس آیت میں دوہری سزا سے دنیا اور پھر قبر کا عذاب مراد ہے ۔اور بھاری عذاب سے قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے ۔
قوم نوح کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 71 نوح
آیت نمبر 25
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مِّمَّا خَطِٓيْئٰتِهِمۡ اُغۡرِقُوۡا فَاُدۡخِلُوۡا نَارًا ۙ فَلَمۡ يَجِدُوۡا لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَنۡصَارًا
ترجمہ:
ان لوگوں کے گناہوں کی وجہ ہی سے انہیں غرق کیا گیا، پھر آگ میں داخل کیا گیا، اور انہیں اللہ کو چھوڑ کر کوئی حمایتی میسر نہیں آئے۔
اس آیت سے واضح ہوا قوم نوح غرق ہوتے ہی جہنم کی آگ میں داخل ہو گئی اور عذاب کا سلسلہ ان پر جاری ہوگیا۔
سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں کی موت کفر پر ہوئی لہذا موت کے وقت ان سے کہا گیا ۔
القرآن - سورۃ نمبر 66 التحريم
آیت نمبر 10
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّـلَّذِيۡنَ كَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ كَانَـتَا تَحۡتَ عَبۡدَيۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَـيۡنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمۡ يُغۡنِيَا عَنۡهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيۡـئًا وَّقِيۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيۡنَ
ترجمہ:
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے، اللہ ان کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کو مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ دونوں ہمارے دو ایسے بندوں کے نکاح میں تھیں جو بہت نیک تھے۔ پھر انہوں نے ان کے ساتھ بےوفائی کی، تو وہ دونوں اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہیں آئے اور (ان بیویوں سے) کہا گیا کہ : دوسرے جانے والوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں چلی جاؤ۔
سورۃ نوح کی آیت سے معلوم ہوا کہ پانی میں جسم غرق ہوئے اور جہنم میں ان کے جسموں کو نہیں بلکہ روحوں کو داخل کیا گیا ۔ نیذ جسم بھی روح کے ساتھ عذاب میں شریک ہیں ۔ جیسا کہ عذاب قبر کی احادیث سے واضح ہے۔ جس کا بیان آگے چل کر ہوگا انشاءاللہ ۔
راحت قبر کے بارے میں قرآن مجید میں ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 89 الفجر
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ
ترجمہ:
(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔
ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً
ترجمہ:
اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔
فَادۡخُلِىۡ فِىۡ عِبٰدِىۙ
ترجمہ:
اور شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں۔
وَادۡخُلِىۡ جَنَّتِى
ترجمہ:
اور داخل ہوجا میری جنت میں۔ ؏
آیت 27تا30
میت سے اس طرح کا خطاب موت کے وقت کیا جاتا ہے ۔
اسی طرح سورۃ النحل میں ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 16 النحل
آیت نمبر 32
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الَّذِيۡنَ تَتَوَفّٰٮهُمُ الۡمَلٰۤئِكَةُ طَيِّبِيۡنَ ۙ يَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمُۙ ادۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ
ترجمہ:
یہ وہ لوگ ہیں جن کی روحیں فرشتے ایسی حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوتے ہیں وہ ان سے کہتے ہیں کہ : سلامتی ہو تم پر ! جو عمل تم کرتے رہے ہو، اس کے صلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔
ان آیات سے ثابت ہوا نیک لوگوں کی ارواح کو قبض کرلینے کے بعد جنت میں داخل کردیا جاتا ہے۔
اوپر جو آیات نقل ہوئی ہیں ان کے انداز سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عذاب وثواب میں پورا انسان یعنی جسم اور روح دونوں شریک ہیں۔
قرآن کریم کی ان آیات کو سلف صالحین نے ثواب و عذاب قبر کے سلسلہ میں پیش کیا ہے۔اور عذاب قبر کی واضح اور مکمل تفصیلات احادیث صحیحہ میں بیان کی گئی ہیں۔جو اگلی تحریر میں بیان کی جائیں گی انشاءاللہ۔
جمع و ترتیب احقر جلال الزمان
یہ مضمون میں نے ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی حفظ کی تصنیف عذاب قبر کی حقیقت سے اخذ کیا ہے۔
عذاب قبر قرآن مجید سے
القرآن - سورۃ نمبر 6 الأنعام
آیت نمبر 93
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِىَ اِلَىَّ وَلَمۡ يُوۡحَ اِلَيۡهِ شَىۡءٌ وَّمَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُؕ وَلَوۡ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِىۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَالۡمَلٰٓئِكَةُ بَاسِطُوۡۤا اَيۡدِيۡهِمۡۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَكُمُؕ اَلۡيَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡهُوۡنِ بِمَا كُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ غَيۡرَ الۡحَـقِّ وَكُنۡتُمۡ عَنۡ اٰيٰتِهٖ تَسۡتَكۡبِرُوۡنَ
ترجمہ:
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو، اور اسی طرح وہ جو یہ کہے کہ میں بھی ویسا ہی کلام نازل کردوں گا جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ؟ اور اگر تم وہ وقت دیکھو (تو بڑا ہولناک منظر نظر آئے) جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں گرفتار ہوں گے، اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے (کہہ رہے ہوں گے کہ) اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس لیے کہ تم جھوٹی باتیں اللہ کے ذمے لگاتے تھے، اور اس لئے کہ تم اس کی نشانیوں کے خلاف تکبرکا رویہ اختیار کرتے تھے۔
موت کے بعد سے قیامت کے دن تک جو عذاب اللّٰہ رب العزت کے نافرمان بندوں کو دیا جائے گا اسی کا نام عذاب قبر ہے ۔مرنے کے بعد عموماً میت کو زمین میں ہی گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا ہے اور قیامت قائم ہونے تک نافرمانوں کو قبر کے اندر عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لہذا اسی مناسبت سے اس عذاب کو عذاب قبر کا نام دیا گیا ہے ۔
حالانکہ عذاب کا یہ سلسلہ حالت نزع ہی سے جبکہ میت چارپائی پر ہوتی ہے شروع ہو جاتا ہے اور فرشتے اس کے چہرے اور پیٹھ پر ضربیں لگانی شروع کر دیتے ہیں اور اگر اللّٰہ تعالیٰ اس عذاب کا
کوئی حصہ دنیا والوں پر ظاہر کر دیتا تو نہ چارپائی نظر آتی اور نہ اس کے آس پاس بیٹھے لوگ دکھائی دیتے ۔ لیکن اس عذاب کا تعلق غیب کے ساتھ ہے اور اللّٰہ ابھی اسے انسانوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتا ۔
امام بخاری رح اور دیگر محدثین کرام نے یہ اور اس طرح کی دیگر آیات کو عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے ۔
چنانچہ امام بخاری رح نے صحیح بخاری میں باب کچھ اس طرح باندہ ہے ۔
صحیح بخاری
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: عذاب قبر کے متعلق جو حدیثیں منقول ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ اپنی جانوں کو نکالو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ ھون ھوان کے معنی میں ہے۔ اور ھون رفق کے معنی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم انہیں دوبارہ عذاب دیں گے پھر برے عذاب کی طرف پھیر دیں گے اور اللہ تعالیٰ کا قول آل فرعون پر سخت مار پڑے گی۔ صبح و شام آگ کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور جس دن قیامت قائم ہوگی کہا جائے گا آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔
صحیح البخاری میں امام بخاری رح کے اس باب سے معلوم ہوا کہ یہ آیات عذاب قبر سے متعلقہ ہیں
امام بخاری کا خاص طور پر حوالہ ہم نے اس لیے دیا کیونکہ برزخی فرقے کے بانی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب اور ان کے ماننے والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ امام بخاری رح اور امام ابو حنیفہ رح کے ساتھ ہیں جبکہ دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ موصوف اور ان کے پیروکار امام بخاری رح اور امام ابو حنیفہ رح کیا بلکہ کسی محدث کے ساتھ نہیں ہیں۔
اسی مضمون کی قرآن مجید میں دیگر آیات بھی ہیں مثلاً ۔
القرآن - سورۃ نمبر 8 الأنفال
آیت نمبر 50
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ لَوۡ تَرٰٓى اِذۡ يَتَوَفَّى الَّذِيۡنَ كَفَرُوا ۙ الۡمَلٰٓئِكَةُ يَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡهَهُمۡ وَاَدۡبَارَهُمۡۚ وَذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِيۡقِ
ترجمہ:
اور اگر تم دیکھتے (تو وہ عجیب منظر تھا) جب فرشتے ان کافروں کی روح قبض کر رہے تھے، ان کے چہروں اور پشت پر مارتے جاتے تھے (اور کہتے جاتے تھے کہ) اب جلنے کے عذاب کا مزہ (بھی) چکھنا۔
القرآن - سورۃ نمبر 47 محمد
آیت نمبر 27
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَكَيۡفَ اِذَا تَوَفَّتۡهُمُ الۡمَلٰٓئِكَةُ يَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡهَهُمۡ وَاَدۡبَارَهُمۡ
ترجمہ:
پھر اس وقت ان کا کیا حال بنے گا جب فرشتے ان کی روح اس طرح قبض کریں گے کہ ان کے چہروں پر اور پیٹھوں پر مارتے جاتے ہوں گے ؟
دوسری جگہ آل فرعون کے بارے میں ارشاد ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 40 غافر
آیت نمبر 45
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَوَقٰٮهُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوۡا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ الۡعَذَابِۚ
ترجمہ:
نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جو برے برے منصوبے بنا رکھے تھے، اللہ نے اس (مرد مومن) کو ان سب سے محفوظ رکھا اور فرعون کے لوگوں کو بد ترین عذاب نے آگھیرا۔
اَلنَّارُ يُعۡرَضُوۡنَ عَلَيۡهَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا ۚ وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ
ترجمہ:
آگ ہے جس کے سامنے انہیں صبح و شام پیش کیا جاتا ہے اور جس دن قیامت آجائے گی (اس دن حکم ہوگا کہ) فرعون کے لوگوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔
امام بخاری رح نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے ۔
اور فرعون کی لاش اللّٰہ تعالیٰ نے عبرت کے لیے محفوظ فرمادی ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 10 يونس
آیت نمبر 92
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَالۡيَوۡمَ نُـنَجِّيۡكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَكَ اٰيَةً ؕ وَاِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنۡ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ
ترجمہ:
لہذا آج ہم تیرے (صرف) جسم کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد کے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن جائے۔ (کیونکہ) بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل بنے ہوئے ہیں۔ ؏
صبح و شام جو آگ پر پیش کیے جارہے ہیں وہی عذاب قبر ہے جس میں اجسام کو آگ پر پیش کیا جارہا ہے ۔ جبکہ روحیں اول دن سے جہنم میں سزا بھگت رہی ہیں ۔اور قیامت کے دن انہیں اشدالعذاب میں داخل کردیا جائے گا جس میں وہ روح و جسم دونوں کے ساتھ داخل ہوں گے ۔اور قیامت کے دن عذاب قبر ختم ہو جائے گا اور صرف عذاب جہنم باقی رہے گا ۔
یاد رہے کہ عذاب قبر کا تعلق علم غیب سے ہے اس لیے فرعون کی لاش پر عذاب کے اثرات ہمیں نظر نہیں آتے جس طرح میت پر قبض روح کے وقت عذاب یہ پٹائی کا کوئی اثر ہم نہیں دیکھتے ۔ ہم ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت اللّٰہ رب العزت کے سپرد کرتے ہیں ۔
القرآن - سورۃ نمبر 9 التوبة
آیت نمبر 101
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمِمَّنۡ حَوۡلَــكُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ۛؕ وَمِنۡ اَهۡلِ الۡمَدِيۡنَةِ ؔۛ مَرَدُوۡا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعۡلَمُهُمۡ ؕ نَحۡنُ نَـعۡلَمُهُمۡ ؕ سَنُعَذِّبُهُمۡ مَّرَّتَيۡنِ ثُمَّ يُرَدُّوۡنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيۡمٍ
ترجمہ:
اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے۔
اس آیت میں دوہری سزا سے دنیا اور پھر قبر کا عذاب مراد ہے ۔اور بھاری عذاب سے قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے ۔
قوم نوح کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 71 نوح
آیت نمبر 25
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مِّمَّا خَطِٓيْئٰتِهِمۡ اُغۡرِقُوۡا فَاُدۡخِلُوۡا نَارًا ۙ فَلَمۡ يَجِدُوۡا لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَنۡصَارًا
ترجمہ:
ان لوگوں کے گناہوں کی وجہ ہی سے انہیں غرق کیا گیا، پھر آگ میں داخل کیا گیا، اور انہیں اللہ کو چھوڑ کر کوئی حمایتی میسر نہیں آئے۔
اس آیت سے واضح ہوا قوم نوح غرق ہوتے ہی جہنم کی آگ میں داخل ہو گئی اور عذاب کا سلسلہ ان پر جاری ہوگیا۔
سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں کی موت کفر پر ہوئی لہذا موت کے وقت ان سے کہا گیا ۔
القرآن - سورۃ نمبر 66 التحريم
آیت نمبر 10
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّـلَّذِيۡنَ كَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ كَانَـتَا تَحۡتَ عَبۡدَيۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَـيۡنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمۡ يُغۡنِيَا عَنۡهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيۡـئًا وَّقِيۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيۡنَ
ترجمہ:
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے، اللہ ان کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کو مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ دونوں ہمارے دو ایسے بندوں کے نکاح میں تھیں جو بہت نیک تھے۔ پھر انہوں نے ان کے ساتھ بےوفائی کی، تو وہ دونوں اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہیں آئے اور (ان بیویوں سے) کہا گیا کہ : دوسرے جانے والوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں چلی جاؤ۔
سورۃ نوح کی آیت سے معلوم ہوا کہ پانی میں جسم غرق ہوئے اور جہنم میں ان کے جسموں کو نہیں بلکہ روحوں کو داخل کیا گیا ۔ نیذ جسم بھی روح کے ساتھ عذاب میں شریک ہیں ۔ جیسا کہ عذاب قبر کی احادیث سے واضح ہے۔ جس کا بیان آگے چل کر ہوگا انشاءاللہ ۔
راحت قبر کے بارے میں قرآن مجید میں ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 89 الفجر
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ
ترجمہ:
(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔
ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً
ترجمہ:
اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔
فَادۡخُلِىۡ فِىۡ عِبٰدِىۙ
ترجمہ:
اور شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں۔
وَادۡخُلِىۡ جَنَّتِى
ترجمہ:
اور داخل ہوجا میری جنت میں۔ ؏
آیت 27تا30
میت سے اس طرح کا خطاب موت کے وقت کیا جاتا ہے ۔
اسی طرح سورۃ النحل میں ہے ۔
القرآن - سورۃ نمبر 16 النحل
آیت نمبر 32
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الَّذِيۡنَ تَتَوَفّٰٮهُمُ الۡمَلٰۤئِكَةُ طَيِّبِيۡنَ ۙ يَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمُۙ ادۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ
ترجمہ:
یہ وہ لوگ ہیں جن کی روحیں فرشتے ایسی حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوتے ہیں وہ ان سے کہتے ہیں کہ : سلامتی ہو تم پر ! جو عمل تم کرتے رہے ہو، اس کے صلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔
ان آیات سے ثابت ہوا نیک لوگوں کی ارواح کو قبض کرلینے کے بعد جنت میں داخل کردیا جاتا ہے۔
اوپر جو آیات نقل ہوئی ہیں ان کے انداز سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عذاب وثواب میں پورا انسان یعنی جسم اور روح دونوں شریک ہیں۔
قرآن کریم کی ان آیات کو سلف صالحین نے ثواب و عذاب قبر کے سلسلہ میں پیش کیا ہے۔اور عذاب قبر کی واضح اور مکمل تفصیلات احادیث صحیحہ میں بیان کی گئی ہیں۔جو اگلی تحریر میں بیان کی جائیں گی انشاءاللہ۔
جمع و ترتیب احقر جلال الزمان
یہ مضمون میں نے ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی حفظ کی تصنیف عذاب قبر کی حقیقت سے اخذ کیا ہے۔