• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برما کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار۔۔۔

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
===== برما کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار۔۔۔ =====

‪#‎UrduArtical‬

دنیا کی مظلوم ترین قومیت کہلانے والے روہنگیا مسلمانوں کی خبریں اس وقت ساری دنیا میں گردش کر رہی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے لگ بھگ آٹھ ہزار روہنگیا مسلمان مشرق بعید کے سمندروں میں کھلے آسمان تلے پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ برما میں حکومتی مظالم سے تنگ آ کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ زندگی کی چند سانسیں اطمینان و سکون سے گزار سکیں۔ لیکن لگتا ہے کہ سکون ان کے نصیب میں نہیں۔ یہ دنیا کی واحد ایسی قومیت ہے کہ جن کے پاس کسی ملک کی شہریت نہیں یعنی کاغذات کے اعتبار کے لحاظ سے یہ دنیا کے انسانوں میں شمار ہی نہیں ہوتے۔ رہنے والے تو یہ برما کے ہیں لیکن برما نے ان کی شہریت 1982ء میں یہ کہہ کر منسوخ کر دی کہ ان کا برما کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں۔ اس وقت سے ان مسلمانوں پربے پناہ مظالم شروع ہوئے۔ برما کی حکومت نے ان پرپابندی لگائی کہ وہ پختہ مکان نہیں بنا سکتے، دو سے زائد بچے پیدا نہیں کر سکتے، شادی کیلئے رجسٹریشن ضروری ہے جو اس قدر مشکل ہے کہ کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہ لوگ اب بنگلہ دیش اور برما کی سرحد کے درمیان سمندر کے کنارے دلدلی زمین والے علاقوں میں جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں جہاں انہیں دنیا کی کوئی سہولت میسر نہیں۔

حکومت ان کے علاقوں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرتی بلکہ ان پر تو یہ پابندی بھی عائد ہے کہ یہ پیدل بھی ملک میں تو کجا، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک کا سفر نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ کوئی کاروبار نہیں کر سکتے، ان کے علاقوں میں کوئی سکول نہیں یعنی ان کے بچے ہمیشہ ان پڑھ ہی رہتے ہیں اور ان کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی ہے۔ برما کی حکومت نے تو ان کے پھل اور انڈے تک کھانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، مبادا کہیں یہ صحت مند ہو کر حکومت کیلئے خطرہ نہ بن جائیں۔ جون 2012ء میں ان پر اس حالت زار میں بھی بے پناہ مظالم ہوئے، ان کی بے شمار جھونپڑ بستیوں کو جلا دیا گیا اور بے شمار عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا گیا۔ یہ لوگ فریاد بھی نہیں کر سکتے کیونکہ برما کی حکومت ان کی کوئی فریاد نہیں سنتی اور یہ پولیس کے پاس بھی نہیں جا سکتے۔

انہی حالات کے پیش نظر ان کی بڑی تعداد نے اپنا علاقہ چھوڑا، سعودی عرب نے چار لاکھ کو پناہ دی، ملائشیا میں ایک لاکھ سے زائد پناہ گزین ہیں تو پاکستان میں بھی دو لاکھ کے لگ بھگ رہائش پذیر ہیں۔ ان کے لئے سب سے آسان علاقہ بنگلہ دیش تھا جہاں اب بھی ان کی تین لاکھ آبادی برما کی سرحد کے کنارے انتہائی غیرانسانی ماحول میں انتہائی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے زندگی بسر کر رہی ہے۔ یہ لوگ صرف زندگی کی ڈور کوٹوٹنے سے بچانے کیلئے اپنی واحد متاع بوسیدہ اور کمزور کشتی کو سہارا بناتے ہیں، اس میں چند دن کی خوراک رکھتے ہیں اور پھر سمندروں میں کود جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی ملک کے ساحل پر جا کر اتریں گے تو کم از کم جینا تو کچھ آسان ہو جائے گا۔ اب تک ہزاروں روہنگیا مسلمان اسی آس و امید میں سمندروں میں کمزور و بوسیدہ کشتیاں ہونے کی وجہ سے غرق ہو کر سمندری مخلوق کی خوراک بن چکے ہیں (ویسے تو ان کے جسم بھی ہڈیوں کے پنجرے ہی ہیں، سمندری مخلوق کو بھی ہڈیوں کے علاوہ کچھ میسر نہیں آتا ہو گا)۔

ان کے ساتھ سمندروں میں کودتے ہوئے ایک اور حادثہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی سمگلر انہیں جھانسہ دے کر پھانستے ہیں، ان کی تمام جمع پونجی ان سے چھین کر انہیں ملائشیا پہنچانے کے نام پر کشتیوں میں سوار کرتے ہیں اور پھر کھلے سمندر میں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔

کچھ کو انسانی سمگلر قیدی بنا لیتے ہیں۔ ان کی رہائی کے لئے ان کے لواحقین سے تاوان طلب کرتے ہیں یا پھر انہیں آگے بیچ دیتے ہیں۔ ہزاروں روہنگیا مسلمان انہی چکروں میں تڑپ تڑپ کر جنگلوں، دلدلی علاقوں اور ویرانوں میں موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ سینکڑوں تو قید ہیں۔ ماہ مئی کے آخر میں ملائشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد پر اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ لوگ اگر تھائی لینڈ پہنچ جائیں تو بھی آسانی نہیں کہ وہاں ظلم پہلے سے کہیں بڑھ جاتا ہے۔

ان سب حالات کے باوجود دنیا کا انسانی حقوق کا کوئی ادارہ ان کے حق میں زبان کھولتا نظر نہیں آتا۔ وہی ادارے جنہیں ہمارے ملک میں ملالہ یوسف زئی اور مختاراں مائی جیسے کردار مل جاتے ہیں، انہیں یوں سسکتے، تڑپتے، مرتے روہنگیا مسلمان کبھی نظر نہیں آتے۔ اقوام متحدہ نے اگرچہ بار بار کہا ہے کہ یہ لوگ دنیا کی مظلوم ترین مخلوق ہیں لیکن اقوام متحدہ ہی نہیں، ساری دنیا کے سارے اعزازات و انعامات تو صرف ملالہ کیلئے ہیں۔ ماہ مئی 2015ء کا آغاز ہوا تو دنیا نے سننا شروع کیا کہ 8ہزار روہنگیا مسلمان سمندروں میں پھنسے ہیں جہاں سینکڑوں بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اس پر اڑوس پڑوس کے کچھ ملکوں خاص طور پر ملائشیا کو خیال آیا، اس نے 29مئی کو ان لوگوں کے حوالے سے 15لاکھ کی دو ماہ پہلے سے اپنی خصوصی کانفرنس بھی رکھی ہوئی تھی جس کا برما نے پہلے ہی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ جوں جوں اس کانفرنس کے دن نزدیک آتے گئے ان مسلمانوں پر ظلم بڑھتا چلا گیا۔ ملائشیا کے مفتی اعظم کے توجہ دلانے پر حکومت مزید متحرک ہوئی تو انڈونیشیا بھی میدان میں آیا، پھر ترکی نے بھی تعاون و امداد کا اعلان کیا۔ حیران کن طور پر فلپائن سے بھی تعاون کی آواز بلند ہوئی۔ پاکستان نے معاملہ او آئی سی میں اٹھانے کا عندیہ دینے پر ہی اکتفا کیا۔ اقوام متحدہ نے جب برما سے اس معاملے پر بات کی تو اس نے اقوام متحدہ کی بات ماننے سے ہی انکار کر دیا۔

امریکہ کی نورا کشتی بھی دیکھنے کو ملی جو ایک طرف روہنگیا مسلمانوں کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف برما کی حکومت سے بھی تعاون ہر روز بڑھاتا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ پاکستان کو تو مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے خطرناک ملک قرار دیتے ہیں لیکن جہاں کہیں بھی ظلم مسلمانوں پر ہو، اس طرف ان کی دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے والی تمام حسیات ہی کام چھوڑ دیتی ہیں۔ برما کے مظلوم مسلمانوں پر جو چاہے آندھی چلے اور ان کا خون بہے، یہ کوئی ظلم نہیں، دہشت گردی نہیں اور نہ اس حوالے سے آج تک کسی ملک یا ادارے نے برما پر کوئی پابندی عائد کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سارے المیے کے ذمہ دار مسلمان خود ہی ہیں جو ایک دوسرے کے لئے بھی آواز بلند کرنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مجھے اپنی جان بچانی چاہئے اور دوسرے کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ عالم کفر نے یکجان ہو کر ساری جنگیں اور قتل و غارت گری مسلم دنیا میں دھکیل کر سارے عالم اسلام کو دہکتی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ مسلمانوں کے ملک ایک ایک کر کے تباہی و بربادی سے دوچار ہیں اور عوام کا قتل عام ہو رہا ہے، آگ پھیلتی ہی جا رہی ہے، مسلمانوں کے خلاف یہ اتحاد اور ایکا اتنا زبردست و منظم ہے کہ دنیا کی سب سے پرامن مذہب کا دعویٰ کرنے والی بدھ قوم مسلمانوں کے معاملے پر سفاکیت کے لحاظ سے سب کو مات دے گئی ہے۔ افریقی ممالک سے شروع ہونے والی مسلم ممالک کی بدامنی، خانہ جنگی اور تباہی و بربادی عرب دنیا اور خلیج کے بعد باقی مسلم ممالک کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اگر اب بھی ہم مسلمان نہ جاگے اور دنیا کی مظلوم مسلم اقوام کا دفاع کرنے کے لئے متحد و منظم نہ ہوئے تو پھر انجام مستقبل ہی نہیں، حال کی آنکھ سے ہم دیکھ سکتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے دشمن تو اپنے ملکوں میں امن و سکون سے رہ رہے ہیں، لیکن ہمیں مار بھی پڑ رہی ہے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں ہمیں مروا بھی رہے ہیں۔ آخر ہم مسلمانوں کی آنکھیں کب کھلیں گی؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عالم اسلام کے حکمران ہی نہیں عوام بھی خواب غفلت سے اٹھنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے حال میں مست ہے۔ ہر طرف ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کی کیفیت ہے تو انجام برما کے مسلمانوں سے کم نہیں ہو گا۔ اس لئے اے امت مسلمہ! اب آنکھیں کھول لو اور برما کے مسلمانوں کی مدد کے لئے آگے بڑھو۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
برما میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی عملی کوششوں پر ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہم وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ ہماری پاک فوج کو برما کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے روانہ کیا جائے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شاباش پاکستان‘برما کے مسلمانوں بارے تاریخی فیصلہ - I am browsing [شاباش پاکستان‘برما کے مسلمانوں بارے تاریخی فیصلہ]. Have a look at it! http://qudrat.com.pk/pakistan/07-Jun-2015/60848
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا!!
اور نجانے ہمارے صحافی حضرات بھی کس قدر بیوقف ہیں ، یا پھر ان بازی گروں کے آلہ کار ہیں، جو عوام کو ہر موقع پر بیوقوف بنانے میں ان کا ساتھ دیتے ہیں!!
ابھی چند دنو ں پہلے، سندھ کے مختلف شہروں میں آبادگاری کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے، اور ان مظاہروں کا مدعا یہ تھا کہ سندھ میں سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے، اور ہماری نون لیگ بھی ان مظاہروں میں شریک تھی!!!فتدبر!!
مشرقی پاکستان، موجودہ بنگلہ دیش سے پاکستان کا جھنڈا اٹھانے والے بہاری تو یہ پاکستان آج تک نہ لا سکے!! جب کہ انہوں نے متحدہ پاکستان کے لئے اپنا خون بھی دیا، اور اپنی زندگیاں کیمپوں کے سپرد کر دیں!! لیکن ہم انہیں پاکستان نہیں لا سکے، کہ سندھ میں سندھی اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے!!!
اور اب یہ چورن بیچا جا رہا ہے کہ پاکستان ، برمی مسلمانوں کو سندھ میں آباد کرے گا!!!
نہیں نہیں !! میں یہ دھوکہ کھانے کو تیار نہیں!!
یہ صرف ایشو کو پیچیدہ کرنے کی باتیں ہیں!! کہ سندھ سے آواز اٹھے اور یہ کہہ دیں ہمارا پروگرام تو تھا مگر سندھ نے رکاوٹ ڈال دی!!
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مولانا امیر حمزہ کا خصوصی کالم "روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں کا دورہ اور مسئلے کا حل!"
‪#‎UrduArtical‬


کراچی میں برما کے روہنگیا مسلمان کافی تعداد میں آباد ہیں، حتیٰ کہ کراچی میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی ’’برما کالونی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آج سے 20سال قبل میری ان مظلوم مسلمانوں سے ملاقات ہوئی تو ’’برما کالونی‘‘ میں ان لوگوں نے مجھے جو مظالم سنائے انہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بنگلہ دیش میں ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں چنانچہ میں ’’برما کالونی‘‘ سے نکلا تو بنگلہ دیش پہنچ گیا۔ ڈھاکہ پہنچا تو میرے میزبان روہنگیا مہاجر مسلمان تھے۔ میں ان کے ہمراہ چٹاگانگ میں روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں میں گیا۔ ’’کاکسس بازار‘‘ اور ٹیکناف خلیج بنگال کے ساحلی شہر ہیں۔ دریائے ناف جو بنگلہ دیش اور روہنگیا مسلمانوں کے علاقے ’’اراکان‘‘ کے درمیان سرحد بناتا ہوا خلیج بنگال میں گرتا ہے، وہاں بھی روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں میں گیا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آٹھ فٹ چوڑے اور بارہ فٹ لمبے کپڑے کے خیموں میں ایک خاندان گزارہ کر رہا تھا اور ان خاندانوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔

برما کی فوج اور پولیس کے مظالم سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ مہذب دنیا کہاں سوئی ہوئی ہے جس کے باسیوں کو ان مظلوموں کی کوئی خبر نہیں ہے۔ میں نے جب روہنگیا مسلمانوں کے علاقے ’’اراکان‘‘ کا تاریخی اور جغرافیائی جائزہ لیا تو مجھے بنگلہ دیش کے پہلو میں ایک اور مقبوضہ کشمیر دکھائی دیا جو برما کامقبوضہ ہے اور روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت کا حامل علاقہ ہے۔ اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت یہ ہے کہ اسے سینکڑوں کلومیٹر لمبا ساحل لگتا ہے۔ سمندری پانی نے اندر آ کر چھوٹی چھوٹی خلیجیں اور کھاڑیاں بنا رکھی ہیں۔ پیچھے کی طرف سے ایک لمبا پہاڑی سلسلہ ہے جس پر گھنے جنگلات ہیں اور یوں اس پہاڑی سلسلے نے اراکان کو برما سے کاٹ رکھا ہے۔ اراکان کا بنگلہ دیش کے ساتھ زمینی رابطہ بھی ہے اور ساحلی علاقہ بھی ملتا ہے جبکہ برما کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا۔ یہی وہ خوف ہے جس کی وجہ سے برما ان مسلمانوں پر ظلم کر کے انہیں یہاں سے بے دخل کر دینا چاہتا ہے۔ انڈیا اپنی شمال مشرقی ریاستوں سے گزر کر اراکان کے راستے ایک اقتصادی کوریڈور بنا کر مشرق بعید کے ملکوں سے تجارت کرنا چاہتا ہے، اس لئے وہ بھی یہاں کے مسلمانوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یوں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی سازش میں انڈیا بھی پوری طرح شامل ہے۔

میں نے دریا اور بے پناہ گھنے جنگل کو عبور کر کے اراکان کے اندر جا کر بھی مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیا اور جغرافیائی صورتحال کو بھی بغور اور بنظر عمیق دیکھا۔۔۔ آج 20سال بعد پھر ان مظلوموں کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ وہ آگ اور قتل عام سے بھاگتے ہوئے بنگلہ دیش آتے ہیں تو اب وہاں بھی پناہ نہیں ملتی اس لئے کہ شیخ حسینہ واجد اور نریندر مودی کا تعلق بڑا گہرا ہے لہٰذا وہ اپنی کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں اور مشرق بعید کے ساحلوں کی طرف چل پڑتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا وہاں اراکان میں سمندری کھاڑیاں اور خلیجیں دور تک اندر آ گئی ہیں پانچ دریا بھی ہیں جو اراکان میں سے گزر کر سمندر میں گرتے ہیں۔ اس لئے لوگ دیہات میں جانے اور کھیتی باڑی کرنے کے لئے کشتیاں استعمال کرتے ہیں۔ یوں ہر گھر میں کشتی ضرور ہوتی ہے، اب یہ کشتی ان کھاڑیوں اور دریاؤں کے لئے ہے۔ کھلے سمندر کے لئے نہیں ہے۔ مگر یہ مظلوم آگ کے سمندر سے بھاگتے ہوئے پانی کے سمندر میں کود پڑتے ہیں۔ کچھ ڈوب جاتے ہیں اور جو ساحلوں پر پہنچ پاتے ہیں انہیں واپس دھکیل دیا جاتا ہے۔ کہیں پناہ بھی مل جاتی ہے۔ میڈیا پر جب یہ خبریں عام ہوئیں تو اب دنیا میں ایک شور مچا ہے، صدر اوباما نے بھی آواز بلند کی ہے، صدر طیب اردگان اور ہماری پاکستان کی حکومت نے بھی ان مظلوموں کے لئے کمیٹی بنا دی ہے جس کے سربراہ وفاقی وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار ہیں جو ایک درد دل رکھنے والے اور انسانیت سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔ پاکستان سے دینی اور سیاسی جماعتیں بھی آواز اٹھا رہی ہیں جو خوش آئند ہے اور انسانیت دوستی کا تقاضا بہرحال یہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد کیسے کی جائے کہ وہ موجودہ مشکلات سے نکل کر امن اور سکون کی زندگی گزار سکیں؟ اس کے لئے ایک تجویز تو یہ ہے کہ 57مسلمان ملکوں میں سے چند مسلمان ممالک روہنگیا کے مسلمانوں کو اپنے ہاں آباد کر لیں۔۔۔ پھر ان میں سے بھی وہ مسلمان ملک جو آس پاس سے تعلق رکھتے ہیں وہ ان کو گلے لگا لیں۔ ان میں سرفہرست بنگلہ دیش ہے جو پہلے ہی مہاجروں کو اپنے ہاں بسائے ہوئے ہے۔ پاکستان میں بھی یہ لوگ موجود ہیں، مزید قبول کئے جا سکتے ہیں۔ ملائشیا اور انڈونیشیا میں جا سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ دونوں ملکوں میں اس وقت روہنگیا مسلمانوں کو پناہ بھی دی گئی ہے۔ سعودی عرب نے بھی ایک عرصہ پہلے برما کے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔

ایک دوسری تجویز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اراکان اور برما کے دیگر علاقوں کے مسلمان جنہیں جنرل نی ون نے 1962ء میں برما کی شہریت سے محروم کر دیا تھا، انہیں برما کی شہریت دلائی جائے۔ عالمی برادری یو این کے ذریعے اس عمل کو یقینی بنائے اور جس قدر بھی روہنگیا مسلمان دوسرے ملکوں میں مہاجر ہیں وہ باعزت طریقے سے واپس لوٹیں اور اپنے ملک میں ایک باوقار شہری کے حقوق لے کر زندگی گزاریں۔ جس انداز سے ان مظلوموں کی داستان دنیا کے سامنے آئی ہے، اس پر برما کی حکومت کومجبور کیا جا سکتا ہے، برما کی مضبوط اپوزیشن رہنما آنگ سانگ سوچی جو اپنے ملک کے مظلوموں پر آواز اٹھانے سے ہچکچاتی ہیں، ان کو بھی دنیا باور کروائے کہ امن کا نوبل انعام واپس لیا جا سکتا ہے کیونکہ جب وہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کے حقوق پر خاموش ہے تو نوبل پرائز یافتہ ہونے کا کیا مطلب؟ یہ تو نوبل پرائز کی توہین اور اہانت ہے۔

تیسری تجویز یہ ہے کہ روہنگیا کے مسلمان ’’اراکان‘‘ میں صدیوں سے آباد ہیں، یہاں ان کی آزاد حکومت بھی قائم رہی ہے۔ برطانیہ جو برصغیر کے ساتھ ساتھ برما پر بھی قابض تھا، اس سے اراکان کے مسلمانوں نے مشرقی پاکستان کے ساتھ الحاق یا آزادی کا حق مانگا تھا۔ انگریز نے ان کے حق کو مانا تھا لیکن حق دیا نہیں۔۔۔ اس لئے روہنگیا مسلمانوں کی محرومی کا ذمہ دار برطانیہ بھی ہے۔ برطانیہ اب اس لحاظ سے ایک کردار ادا کر سکتا ہے کہ آسٹریلیا پر علامتی حکومت ملکہ برطانیہ کی ہے لہٰذا اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کو آسٹریلیا میں آباد کر دیا جائے۔ یو این کے تحت فنڈ قائم کر کے انسانیت کی بھلائی کے اس عمل کو فوری کیا جائے۔ آسٹریلیا ویسے بھی مشرق بعید میں ہی واقع ایک براعظم ہے۔ وہاں دس لاکھ لوگوں کی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔

چوتھی اور آخری میری تجویز یہ ہے کہ جس طرح مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان، بوسنیا اور کوسووا کے لوگوں کو دنیا میں بسانے کے بجائے ان کے اپنے علاقے میں ان کو آزادی دے دی گئی اسی طرح اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کو ان کے علاقے میں آزادی دے دی جائے۔ روہنگیا کے مسلمانوں سے پوچھ لیا جائے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا آزاد اراکان چاہتے ہیں۔۔۔ اسی طرح کشمیر کے مسلمانوں کو بھی حق خودارادیت دے دیا جائے تو جنرل راحیل شریف کے بیان کے مطابق برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا مکمل ہو جائے گا اور یہ پورا خطہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں جنوبی ایشیا میں امن کی پائیداری کے لئے اور خطے کے لوگوں کی خوشحالی کے لئے ایسا کرنا صرف خطے ہی کے نہیں دنیا کے مفاد میں ہے۔
 
Top