• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برہان التفاسیر لاصلاح سلطان التفاسیر: ایک تعارف

شمولیت
اپریل 24، 2014
پیغامات
158
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
77
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کی ایک اہم تصنیف
برہان التفاسیر لاصلاح سلطان التفاسیر
ایک تعارف

برصغیرہند میں گذشتہ صدی میں جن شخصیتوں نے ہمہ جہت اسلامی خدمات انجام دیں ان میں شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ (۱۸۶۸ ۔ ۱۹۴۸ ء ) کا نام سرفہرست ہے، مولانا نے درس وتدریس، تصنیف وتالیف ، تقریر ومناظرہ ، صحافت، انجمنوں اور تنظیموں کی تشکیل اور دیگر رائج الوقت وسائل واسالیب کے ذریعہ اسلام اور اسلامی شریعت کی ایسی خدمت کی جس کی نظیر ملنی مشکل ہے، یہ محض عقیدت یا جذبات کی بات نہیں ہے بلکہ مولانا کی حیات وخدمات پر نظر رکھنے والے اور ان کے چھوڑے ہوئے علمی ورثہ کی جانکاری رکھنے والے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔
آپ نے جس عہد میں آنکھیں کھولیں وہ مغربی استعمار کا عہد تھا، مسلمانوں کی نہ صرف سیاسی اور حکومتی زوال وانحطاط کا زمانہ تھا بلکہ دینی ومذہبی اعتبار سے بھی مسلمان خطرات سے گھرے ہوئے تھے ۔عیسائیوں ، آریوں، قادیانیوں، نیچریوں، حدیث کے انکاریوں اور دیگر تحریکات باطلہ سے وابستہ اشخاص نے اسلام اور مسلمانوں کو ہدف تنقید بنا رکھا تھا، ایسے نازک وقت میں اسلام کے سپاہی بن کر مولانا میدان میں اترے، اور جملہ اعدائے اسلام کے لیے شمشیر بے نیام ثابت ہوئے، اللہ تعالی نے آپ کو کتاب وسنت کے ٹھوس علم کے ساتھ حکمت وبصیرت اور ایسی فراست سے نوازا تھا کہ مخالفین اسلام وسنت کے مشکل سے مشکل سوالات واعتراضات کا فی الفور معقول ومؤثر جواب دیتے کہ مخالف بغلیں جھانکنے لگتا۔
سطور ذیل میں ہم مولانا کی ایک اہم تصنیف ’’برہان التفاسیر برائے اصلاح سلطان التفاسیر ‘‘کا مختصر تعارف کرانا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ خاص تفسیر میں مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی چار مستقل تصانیف اس کے علاوہ ہیں :(۱) تفسیر ثنائی (۲) تفسیر بالرائے ۔ یہ دونوں کتابیں اردو زبان میں ہیں۔(۳) تفسیر القرآن بکلام الرحمن (۴) تفسیر بیان الفرقان علی علم البیان۔ یہ دونوں کتابیں عربی زبان میں ہیں۔ ان کے علاوہ قرآنیات کے موضوع پر مولانا کی متعدد چھوٹی بڑی کتابیں اور رسائل ہیں جن کی مجموعی تعداد (۳۰) کے لگ بھگ ہے۔ کتاب’’برہان التفاسیر..‘‘ مولانا کے دفاع عن القرآن کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو اصل میں مولانا کے مجلہ اہل حدیث امرتسر میں شائع (۸۱) قسطوں پر مشتمل تحریر ہے، یہ تحریر سلطان محمد (پال) عیسائی پادری کی تحریر کا جواب ہے، سلطان صاحب نے اسلام ترک کرکے عیسائیت کے دامن میں پناہ لی تھی، انہوں نے حالت اسلام میں عربی اسلامی تعلیم حاصل کی تھی اور اسلامی مآخذ پر ان کی نظر تھی، اس علم دانی کے زعم میں انہوں نے قرآن کی ایک تفسیر بنام ’’سلطان التفاسیر ‘‘ لکھنے کا پروگرام بنایا، ایک مرتد عن الاسلام قرآن کی تفسیر کیوں کر لکھے گا، قرآن کی خدمت اور قرآنی تعلیمات سے لوگوں کو واقف کرانے کے لیے، یا اس کی آڑ میں قرآن کو نشانہ بنانے اور اس میں شکوک وشبہات تلاش کرنے کے لیے، اسے بتانے کی ضرورت نہیں۔
مولانا امرتسری رحمہ اللہ جنہوں نے ہر باطل کی تردید اور بیخ کنی کو گویا اپنا مشن بنا لیا تھا وہ کلام الہی پر ہونے والے اس منصوبہ بند حملے پر کیسے خاموش رہ سکتے تھے، فورا انہوں نے اس نام نہاد تفسیر کے تعاقب کا پروگرام بنا لیا، آپ ۶ ؍ مئی ۱۹۳۲ء ؁ کے ’’اہل حدیث ‘‘ کے شمارے میں لکھتے ہیں:
’’ سلطان التفاسیر بصورت رسالہ المائدہ جنوری ۳۲ ء ؁ سے جاری ہے، ہمارے دل میں اسی وقت سے جواب دینے کا القا ہوا تھا، لیکن اتنے دنوں تک ہم نے انتظار کیا کہ رسالہ مذکورہ کے چند نمبر نکل لیں تو توجہ کی جاوے گی ، چنانچہ آج سلسلہ ہذا کا نمبر اول ہے، آئندہ حسب تجویز ایک صفحہ اخبار (اہل حدیث ) اس سلسلہ کے لیے وقف کیا جائے گا ، اس کا نام یہی ہوگا: ’’برھان التفاسیر برائے اصلاح سلطان التفاسیر ‘‘ ۔ ( ص : ۴ )
ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ چونکہ پادری صاحب نے ایک ماہوار عیسائی رسالہ ’’ المائدہ ‘‘ کی معرفت تھوڑا تھوڑا حصہ تفسیر کا شائع کرنا شروع کیا تھا جس کی وجہ سے خیال ہوا کہ اگر اس تفسیر کے خاتمہ تک جنبش قلم کو بند رکھا جائے تو اتنے عرصہ تک زندگی کا کیا اعتبار ، نیز اتنا بڑا کام دفعۃ کرنا محال ہوگا، اس لیے ۶ ؍ مئی ۳۲ ء ؁ سے ہم نے پادری صاحب کے پیچھے اشہب قلم دوڑا دیا، مسلم قلم اتنے زور سے دوڑا کہ پادری صاحب کے برابر جاملا، یہاں تک کہ پادری صاحب نے کسی خاص مانع کی وجہ سے ’’المائدہ ‘‘ میں مضمون شائع کرنا ترک کرکے اعلان کردیا کہ ۔۔۔۔۔۔‘‘۔ ( برہان التفاسیر...ص: ۱۶۴)
پادری صاحب کی تفسیر کا سلسلہ بیچ میں رک گیا تو اس اثناء میں مولانا نے کچھ جدید فرقوں کی تفسیروں کی طرف توجہ فرمائی اور ان کا جائزہ لیتے رہے تاآنکہ سلطان التفاسیر کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا، بیچ میں اس تفسیر کا سلسلہ جب بھی موقوف ہوتا مولانا بے چینی سے اس کے دوبارہ جاری ہونے کا انتظار کرتے اور جاری ہونے پر فورا اس کا محاسبہ شروع کردیتے تاآنکہ اس سلسلہ کی (۸۱) قسطیں اخبار اہل حدیث میں شائع ہوئیں ، جس کے آخر میں مولانا لکھتے ہیں:
’’ (نوٹ) اطلاع: چونکہ پادری سلطان محمد خاں صاحب کی طرف سے تفسیر القرآن کا مضمون تین مہینوں سے نہیں آیا اس لیے سردست دونوں صفحات (جو برہان التفاسیر کے لیے وقف تھے) اکمل البیان کو دیے جاتے ہیں تاکہ یہ جلد ختم ہو‘‘۔ ( اہل حدیث امرتسر: ۲۷ ؍ صفر ۱۳۵۴ ھ مطابق ۳۱ ؍ مئی ۱۹۳۵ ؁ ء ، ص : ۱۱ ) [کتاب ہذا کا آخری صفحہ]
اور لگتا ہے کہ سلطان صاحب یہ سلسلہ اس کے بعد جاری نہ رکھ سکے، اس لیے برہان التفاسیر بھی اسی قسط پر موقوف ہوگئی، اتنے حصے میں مولانا نے قرآن کے پہلے پارے کی مکمل تفسیر پیش کی اور سلطان التفاسیر کا جائزہ لیا۔
اس تفسیر میں مولانا کا طرز یہ رہا کہ پہلے ایک رکوع کا ترجمہ مع مختصر توضیح تحریر فرماتے، اس کے بعد کبھی کبھی حل لغات اور نحوی ترکیب بھی رقم فرماتے، بعد ازاں سلطان التفاسیر اور دیگر کتابوں میں اس رکوع کے ترجمہ وتفسیر سے متعلق جو تسامحات واغلاط ہوتے ان کی اصلاح فرماتے، کبھی کبھی مولانا کا ترجمہ وتوضیح ہی اعتراضات کے جواب کو متضمن ہوتا ، اس لیے اسی پر اکتفا کرتے، کتاب کے قارئین دیکھیں گے کہ مولانا نے جواب نویسی میں تفسیر، اصول تفسیر ، علوم القرآن، حدیث، اصول حدیث، ادب، بلاغت، نحو وصرف اور دیگر فنون کی کتابوں سے جابجا استناد کیا ہے، اس کے علاوہ مختلف فرق ضالہ جدیدہ کے لٹریچر اور مروجہ توریت وانجیل کے مشتملات پر مولانا کی گہری نظر کا بھی یہ کتاب منہ بولتا ثبوت ہے، اردو کے ساتھ عربی وفارسی اشعار وامثال کے برمحل استعمال پر بھی مولانا کو خوب قدرت حاصل ہے، چونکہ مقابل میں ایک عیسائی مصنف ہے اور اس نے جابجا انجیل کو درست وبرتر اور قرآن کو غلط اور کم تر ثابت کرنے کی ناروا کوشش کی ہے اس لیے مولانا معترض کے اعتراض کے قرآن پر عدم انطباق کو ثابت کرتے ہوئے اسے انجیل پرمنطبق کردیتے ہیں اور انجیل کے مختلف مقامات کی عبارتیں نقل کرکے وہی اعتراض اس پر چسپاں کرتے ہوئے گنگناتے ہیں کہ: ’’ایں گنا ہیست کہ در شہر شما خاص کنند‘‘۔
ابطال وتردید کے موضوع میں عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ جواب دہندہ سے متانت وسنجیدگی اور وقار کا دامن چھوٹ جاتا ہے اور وہ معترض کے لب ولہجے اور تیز وتند حملے سے مشتعل ہوکر بسا اوقات غیر مہذب اور ناشائستہ الفاظ واسالیب کا استعمال شروع کردیتا ہے، اور کبھی کبھی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش میں حد درجہ سطحیت پر اتر جاتا ہے، لیکن مولانا امرتسری رحمہ اللہ کی طویل دفاعی خدمات میں ایسی کوئی چیز نہیں نظر آتی، چاہے ان کی تحریر ہو یا تقریر، مناظرہ ہو یا مباحثہ، اسلامی فرقوں سے ہو یا اعدائے اسلام سے ، ہر جگہ وہ پوری متانت، وقار اور شائستگی کا پیکر نظر آتے ہیں، فریق مخالف کی سخت سے سخت گفتگو سننے کا حوصلہ اور برداشت کرنے کا سلیقہ آپ کے خصوصی اوصاف میں سے ہے، زیرتبصرہ کتاب کے صفحہ (۱۳۱) پر مولانا کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں:
’’ناظرین! پادری صاحب کو سوامی دیانند کی طرح قرآن مجید پر نکتہ چینی کا شوق نہیں شغف ہے، اس لیے آپ بے دردی سے اعتراض کردیتے ہیں، ہم بھی ان کو اس میں معذور جانتے ہیں، بلکہ درخواست کرتے ہیں ؂
تیر پر تیر چلاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے‘‘​
ایک مقام پر پادری صاحب کے کچھ اعتراضات اور اغلاط کی اصلاح کے بعد فرماتے ہیں:

’’نوٹ: ہم پادری صاحب کی طرح زود رنج نہیں کہ مخاطب کی ذرا سی لغزش پر آپے سے باہر ہوجائیں اور کہہ دیں کہ ہمارے قابل التفات نہیں (النجات: ۱۵ ؍ اکتوبر ۳۴ ء ؁ ، ص : ۲) نہ ہم قادیانیوں کی طرح ہیں کہ پادری سلطان محمد صاحب کی غلطیوں پر ان کو مرتد، جاہل جیسے مکروہ الفاظ سے یاد کریں، (الفضل : ۱۵ ؍ اگست ۳۱ ء ؁ ) بلکہ ہمارا وہی اصول ہے جو ہر اہل علم کا ہے: لکل جواد کبوۃ، ولکل عالم ھفوۃ (ہر گھوڑا گرتا ہے اور ہر عالم بھولتا ہے) ۔ (ص: ۲۲۹)
مولانا کی یہ روش برہان التفاسیر کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ آپ کی تمام تحریریں اسی وقار وشائستگی اور اعتدال وتوازن کا آئینہ ہیں، افسوس کہ آج یہ روش نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے، بحث ومباحثہ تحریری ہو یا تقریری، اپنوں سے ہو یا غیروں سے، ارباب زبان وقلم بڑی جلدی جذبات سے مغلوب ہوجاتے ہیں اور غیر شریفانہ لب ولہجہ اختیار کر بیٹھتے ہیں، نوجوان نسل کی رگ حمیت خاص طور سے ذرا جلدی پھڑکتی ہے اور اگر خاطر خواہ تربیت سے آراستہ نہ ہو تو اشتعال میں آکر اس سے گفتار وکردار کے ایسے نمونے سامنے آتے ہیں جن میں اسلام اور اہل اسلام کی بدنامی اور پشیمانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، امید کہ علامہ امرتسری کی اس کتاب اور ان کی دیگر تحریروں سے نئی نسل اس باب میں بھی استفادہ کرے گی ۔
واضح رہے کہ مولانا امرتسری کی یہ عظیم الشان تصنیف جو آپ کے ہفتہ وار رسالہ اہل حدیث امرتسر میں تقریبا تین سال کے وقفے میں اکیاسی قسطوں میں شائع ہوئی ، اب تک کتابی شکل میں منظر عام پر نہیں آسکی تھی، اللہ تعالی جزائے خیر دے لجنۃ القارۃ الہندیۃ ، احیاء التراث الاسلامی، کویت کے ذمہ داران کو، جنہوں نے اس جانب توجہ فرمائی ، ان حضرات کے مشورے سے محترم مولانا محمد مستقیم صاحب سلفی ، استاذ جامعہ سلفیہ بنارس ومؤلف کتاب ’’ جماعت اہل حدیث کی تصنیفی خدمات ‘‘ نے ’’اہل حدیث امرتسر ‘‘ کی پرانی فائلوں سے ان تمام قسطوں کو اکٹھا کیا، جو تصفیف وتصحیح اورطباعت واشاعت کے طویل مراحل سے گذر کر قارئیں کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں۔ ہندستان میں اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام مولانا احسن جمیل مدنی بنارسی صاحب نے کیا ۔حافظ شاہد محمود کے مراجعہ اور تحقیق کے ساتھ یہ کتاب (۴۳۰) صفحات میں ۲۰۱۳ء ؁ میں اتحاد اسلامک ریسرچ ودعوہ سینٹر لکہنؤ اور الکتاب انٹر نیشنل بٹلہ ہاؤس دہلی کے اشتراک سے شائع ہوئی ہے۔راقم آثم کو بھی کتاب کی تصحیح ومراجعہ میں حصہ لینے کا شرف حاصل ہے۔شاہد محمود صاحب نے اس کتاب کے تعلق سے درج ذیل خدمات انجام دی ہیں:
۱۔اہل حدیث امرتسر کے شماروں سے کتاب کے پروف کا تقابل اور مزید تصحیح
۲۔ احادیث وآثار کی تحقیق وتخریج
۳۔عربی اور فارسی اشعار وعبارات کا ترجمہ
۴۔کتاب میں مذکور مراجع سے عبارات کا تقابل وتصحیح
اللہ رب العزت مؤلف کی اس خدمت کو شرف قبول بخشے اور اسے ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، اور کتاب کی اشاعت کے محرک، اس کے مرتب ، محقق، مصحح، طابع وناشر اور مستفیدین کو اجر جزیل سے نوازے۔
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔
(اسعد اعظمی، استاذ جامعہ سلفیہ بنارس)
@برہان التفاسیر

برہان التفاسیر
 
Top