• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے۔۔۔ایک دعویٰ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے


سن 2115 میں انسان نہیں ہونگے۔ اگر ہوئے بھی تو بہت کم ہونگے اور شاید افریقہ کے دور دراز صحراؤں کے کسی اکّا دُکّا گاؤں میں پائے جائیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اِس عجیب و غریب دعوے کو سمجھنے کی کوشش کریں ضروری ہے کہ ہم پہلے یہ جان لیں کہ ’’ٹرانس ہیومن اِزم‘‘ کیا ہے۔
لیکن ٹرانس ہیومن اِزم سے بھی پہلے ہمیں ایک اور ٹرم ’’ٹرانس جینک‘‘ کو سمجھنا ہوگا۔ ٹرانس جینک سے مُراد ہے جینز کا باہمی تبادلہ یعنی جینز کا ایسا تبادلہ جو ایک نوع سے کسی دوسری نوع کے درمیان (لیبارٹری میں) کیا جائے۔ ایسی دو انواع کا آپس میں کسی بھی قسم کا قریبی ربط ضروری نہیں۔ ایک بیکٹیریا اور ایک مینڈک کے درمیان بھی جینز کا تبادلہ کیا جاسکتاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بیکٹیریا ایک یونی سیلولر آرگنزم ہے جبکہ مینڈک ایک ملٹی سیلولر جاندار ہے۔ لیکن ہم مینڈک کی خصوصیات کو بیکٹیریا میں یا بیکٹیریا کی خصوصیات کو مینڈک میں آسانی سے منتقل کرسکتے ہیں اور ایسے ٹرانسفر کو ہی ’’ٹرانس جینک‘‘ کہا جاتاہے۔ ایسا کرنے سے مخلوقات عالم میں کیا کچھ تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں اِن کا مکمل اندازہ لگانا ناممکنات میں سے ہے لیکن اب تک جو جو اندازے لگائے گئے ہیں وہ بھی کائنات کی تاریخ کے سب سے حیران کُن واقعات کہلانے کے بجاطور پر حقدار ہیں۔ جن میں سے ایک یہ دعویٰ بھی ہے کہ، ’’بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے‘‘۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس وقت ترقی یافتہ دنیا کے دو بڑے ادارے ’’ٹرانس جینک‘‘ ریسرچ میں بے پناہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ایک مِلٹری اور دوسرا فارماسیوٹکل انڈسٹری۔ امریکن ملٹری اس وقت ’’ٹرانس جینک ریسرچ‘‘ کو فنڈ فراہم کرنے والے ٹاپ تھری اداروں میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں امریکی ملٹری کا ادارہ ’’ڈارپا‘‘ پیش پیش ہے۔ ڈارپا (DARPA) سے مراد ہے، ’’ڈیفینس ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی‘‘۔ ڈارپا اب تک ، ملٹری کے مقاصد کے لیے کئی کامیاب تجربے چکی ہے۔ انہوں نے ایک بکری ڈیزائن کی ہے جس کے ڈی این اے کے ساتھ مکڑی کا ڈی این اے ملایا گیا ہے۔ ہم اِس ٹرانس جینک گوٹ کو ’’سپائڈر گوٹ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس بکری کی پیداوار سے اُن کا مقصد سپائیڈر سلک کا حصول ہے۔ سپائیڈر سِلک جو مکڑی اپنے لعاب سے بناتی ہے، اِس تجربہ سے قبل صرف مکڑی کے لعاب سے ہی حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ دنیا کا مضبوط ترین دھاگہ ہے جو نہ صرف ہر شئے سے ہلکا ہے بلکہ اس کی قوتِ برداشت اور لچک بھی دنیا کے ہر سِلک سے بہتر ہے۔ بکری کے ساتھ مکڑی کے جینز کا اس طرح تبادلہ کیا گیا کہ ڈیزائن شدہ بکریاں اب ایسا دودھ دیتی ہیں جس میں ایک اضافی پروٹین سپائڈر سلک فراہم کرتی ہے۔ جو سِلک مکڑیوں سے حاصل کیا جاتا تھا اب وہ بکری کے دودھ سے حاصل کیا جارہا ہے اور یوں امریکی آرمی نے اپنے لیے نئے ، ہلکے پھلکے بُلِٹ پروف جیکٹس، نئے پیراشُوٹس، نئے رسّے، نئے بیگز اور نئے جال (کارگو نیٹس) بنالیے ہیں جو بڑے سے بڑے بوجھ گرادینے پر بھی نہیں ٹوٹتے۔
حوالہ،
http://www.bbc.com/news/science-environment-16554357
چنانچہ یہ ایک ثبوت ہے، اس بات کا کہ مختلف انواع کے ڈی این اے کے مختلف ٹکڑے کاٹ کرایک دوسرے میں یوں لگائے جاسکتے ہیں جیسے ہم دو مختلف درختوں کی الگ الگ قلمیں آپس میں جوڑ کر ایک تیسرا نیا درخت اپنے گھر میں پیدا کرلیتے ہیں۔سپائیڈر گوٹ کے بعد سے اب تک ٹرانس جینک پروڈکٹس کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہیں۔ اور ایسی زیادہ تر پروڈکٹس کے لیے امریکن ملٹری کا ادارہ ’’ڈارپا‘‘ لاکھوں ڈالر کے فنڈز مہیا کررہا ہے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا ادارہ جو ’’ٹرانس جینک‘‘ سائنس کو فنڈز دے رہا ہے وہ ملٹری سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ دنیا بھر میں اس ریسرچ کے لیے فنڈز دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ میرا اشارہ فارما سیوٹیکل انڈسٹری کی طرف ہے۔ فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو سب سے زیادہ دلچسپی ’’نیوڈرگ تھراپیز‘‘ کے ساتھ ہے۔ انسانوں کے لیے نئے نئے علاج دریافت کرنے اور انسانی صحت کو بہتر سے بہتر بنانے کے مقاصد کے لیے کون فنڈز نہیں دیگا؟ ڈرگ تھراپیز کے لیے ٹرانس جینک ریسرچ کا پراسیس بہت لمبے راستے سے ہوکر آتا ہے۔
دراصل فارما سیوٹیکل لیبارٹریز کو ہمیشہ ٹیسٹنگ کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ وہ جب بھی کوئی نئی دوا بناتے ہیں تو اس کا کسی انسان پر پہلا تجربہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتاہے۔ انہیں اس کام کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔امریکہ میں انہیں ایف ڈی اے سے اجازت لینا پڑتی ہے جو کہ ایک لمبا اور صبرآزما سلسلۂ مراحل ہے۔
چنانچہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے پیسے سے ٹرانس جینک ریسرچ کے ماہرین جو کام کررہے ہیں اس کے پہلے حصہ میں وہ انسانی ڈین این اے اور کسی جانور کے ڈین این اے کے ملاپ سے ایسا جانور پیدا کرتے ہیں جس میں مخصوص انسانی کوالٹیز ہوتی ہیں۔ وہ مخصوص انسانی کوالٹیز اس لیے پیدا کی جاتی ہیں کہ ان اجزأ یا اعضأ کو جو انسانی ہیں نئی ادویات کی ٹیسٹنگ کے لیے جانوروں پر آزمایا جاسکے۔ اور اس طرح انسانی جان کو ٹیسٹنگ کے مراحل سے بلاخوف و خطر بچایا جاسکتاہے۔ اس کے علاوہ فارماسیوٹکل انڈسٹری کی بہت زیادہ دلچسپی ’’سٹیم سیل لائینز‘‘ Stem Cell Lines پیدا کرنے میں ہے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ٹرانس ہیومن ازم کیا ہے؟ یہ ایک عالمگیر کلچرل تحریک ہے۔ جس کا نصب العین ٹرانس ہیومنز Transhumans پیدا کرناہے۔ یہ بنیادی طور پر دنیا کی توجہ اس آئیڈیا کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ کہ سائنس کی مختلف فیلڈز کے ملاپ سے ہم جلد (زیادہ سے زیادہ بیس سالوں میں) اس قابل ہونگے کہ لفظ ’’انسان‘‘ کی بنیادی تعریف اور تصور کوہمیشہ کے لیے تبدیل کرسکیں۔ اب محاورۃً نہیں بلکہ حقیقتاً ہم اب انسانی ڈی این اے کی لینگوئج کو دوبارہ لکھ سکنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ ہم محض اپنا جینٹک میک اَپ تبدیل کرکے اپنے آپ کو ایک زیادہ ارتقأ یافتہ نوع میں بدل سکتے ہیں۔ ہم ہیومینز یعنی ہوموسیپینز کا ورژن 2.0 تخلیق کرنے پر قادر ہوچکے ہیں۔ اس تحریک کو عام طلبہ یا اساتذہ میں ایچ پلس (H +) کے نام سے جانا جاتاہے، جس کا معنی ہے ہیومنز پلس ۔ ٹرانس ہیومنز اصل میں ایسے انسان ہونگے جنہیں ہم ’’ٹرانزیشنز‘‘ کہہ سکتے ہیں یا اس سے بھی بہتر نام ہوگا، ’’پوسٹ ہیومینز‘‘۔ اور جب ٹرانس ہیومنز سے زمین بھر جائیگی تو پھر ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو اِس وقت ہیں یعنی ہماری موجودہ انسانی ساخت اور ہییت مزید انسانی ساخت اور ہییت کہلانے کی اہل نہیں رہیگی۔ یہ انسانی سطح سے کم تر سطح کہلائے گی۔ ہر وہ انسان جو نارمل ہوگا وہ ٹرانس ہیومینز کے مقابلے میں بالکل ایسے ہوگا جیسے آج ہمارے مقابلے میں بن مانس یا چمپنزیز ہیں۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ قدرت نے ہر نوع کے جانداروں کو الگ الگ خصوصیات سے نوازا ہے۔ مثلاً عقاب، شاہین، شکرا اور اس کلاس کے تمام پرندےبہت زیادہ تیز نظر کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ میلوں دور تک یوں صاف دیکھ سکتے جیسے ہم اعلیٰ کوالٹی کی دوربین کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اِسی طرح کتے کو فطرت کی طرف سے طاقتور قوتِ شامہ عطا کی گئی ہے۔ نہ صرف قوتِ شامہ بلکہ قوتِ سامعہ بھی۔ کتا چالیس ہزار ہرٹز کی کی آواز سن لیتاہے۔ ڈالفن غالباً اسی ہزاار ہرٹز کی آواز سن لیتی ہے۔ بلی اور چیتے کے پٹھے (Muscles) حیران کن حد تک لچکدار ہیں۔ بلی اونچی سے اونچی چھت سے چھلانگ لگانے کے بعد آرام سے اُٹھ کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ شیر میں نسبتاً بے خوفی سب جانوروں سے زیادہ پائی گئی ہے اور اسی وجہ سے شیردل انسان سے مراد بہت بہادر انسان لی جاتی ہے۔ اونٹ میں قوتِ برداشت اور استقامت وافر مقدارمیں موجود ہے۔ غرض ہر جاندار کسی نہ کسی خصوصی انعام سے نوازا گیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جانداروں یعنی جرثوموں سے لے کر بڑے بڑے جانداروں جیسے ہاتھی تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کے جینز ہمارے لیے بڑے قیمتی ہیں۔ ان تمام جینز کو انسانی جینز کے ساتھ ملاکر ایسے انسان پیدا کیے جاسکتے ہیں جو عقاب جیسی تیز نظر، کتے جیسی تیز قوتِ شامہ، شیر جیسے دل، چیتے جیسی چستی، بلی جیسی لچک، ہاتھی جیسی حساسیت یا کسی بھی جاندار کی خصوصی صلاحیت کا اکیلا اور یکتا حامل ہوگا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر Nick Bostrom نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھا ہے کہ دیگر مخلوقات اِس کائنات کے بعض ایسے رازوں سے واقف ہیں جن سے ہم انسان اپنے محدود حواس کی وجہ سے واقف نہیں ہوسکتے۔ مثال کے طور پر بعض جانور زلزلے سے پہلے جان جاتے ہیں کہ زلزلہ آنے والا ہے۔ بعض جانور طوفان آنے سے پہلے جان جاتے ہیں کہ طوفان آنے والا ہے ۔ اسی طرح جانوروں کو کئی دفعہ دیکھا گیا ہے وہ بغیر کسی وجہ کے مشتعل ہوجاتے ہیں۔ کتے بلا وجہ بھونکنے لگ جاتے ہیں، یا ڈر جاتے ہیں اوربلاوجہ چارپائی کے نیچے چھپ جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتاہے؟ یقیناً ان کے وژن ڈفرنٹ ہونے کی وجہ سے وہ بعض ایسی چیزیں دیکھ لیتے ہیں جو ہم انسان اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔ جنگلی جانوروں میں رات کو دیکھنے کی صلاحیت ہے لیکن ہم انسان بغیر روشنی کے رات کو نہیں دیکھ سکتے۔
ٹرانس ہیومنسٹس تحریک کا کہنا ہے کہ ’’ٹرانس ہیومینز‘‘ ایسے انسان ہونگے جن کو ان تمام صلاحیتوں سے آراستہ کیا جائیگا۔ اور اس پراسیس میں یہ ضروری نہیں کہ ہر ایسا انسان شروع میں بچہ ہو۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک ٹرانس ہیومن بننے کے لیے بعض تبدیلیاں ایسی بھی ہیں جو اب اِس وقت موجود انسانوں کو بعض ’’ٹرانس جینک ادویات‘‘ یا خوراکیں کھلانے سے بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ٹرانس ہیومنسٹس اس بات کے حق میں ہیں کہ انسان کے حواس کو عقابوں، کتوں اور دیگر جانوروں کے حواس سے بہتر ہونا چاہیے۔ انسان کا حق ہے کہ وہ قدرت کے چھپے ہوئے رازوں کو جانے اوربہتر سے بہتر زندگی گزارے چنانچہ یہ صرف ٹرانس ہیومن ازم ہی ہے جو انسانوں کو ایسا بلند مرتبہ بلا تردد دلا سکتاہے۔
ٹرانس ہیومنز پیدا کرنے کے لیے صرف بیالوجی اور جینٹکس کے سائنسدان ہی مصروفِ عمل نہیں ہیں بلکہ ٹرانس ہیومن ازم کی بنیادی تعریف میں ہی انٹرڈسپلنری ریسرچ شامل ہے۔ اس میں نیوروفارماکالوجی، نینوٹیکنالوجی، جینٹک انجنئرنگ، سٹیم سیل سائنسز، روبوٹک اسسٹنس، برین مشین انٹرفیسنگ یعنی تقریبا سائنس کی تمام نئی شاخیں جو انسانی جسم کی ساخت اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں ساتھ دے سکتی ہیں ٹرانس ہیومن ازم کی تحریک میں شامل ہیں۔
ٹرانس ہیومنسٹس تحریک غیر قدرتی تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیل رہی ہے۔ ابھی اس تحریک کا آغاز ہوئے چند ہی سال ہوئے لیکن یہ اس وقت تقریباً دنیا کے ہر ملک، ہرقوم اور تمام سیانے مذاہب میں موجود ہے۔ کالج سے یونیورسٹی لیول تک اور بازار سے لے کر ویران جزیروں پر لیٹے ہپّیوں تک سب اس تحریک میں نہایت تیزی کے ساتھ شامل ہورہے ہیں۔ سیانے مذاہب نے بھی آئندہ دو عشروں میں برپا ہونے والی ٹرانس جینک قیامت کا خطرہ بھانپ لیا ہے اور اپنی اپنی تحریکیں بنا لی ہیں۔ اس وقت دنیا میں ’’کرشچئن ٹرانس ہیومنسٹ سوسائٹی‘‘، ’’بدھسٹ ٹرانس ہیومنسٹس ایسویسی ایشن‘‘ اور ’’جیوش ٹرانس ہیومنسٹ ایسویسی ایشن‘‘ موجود ہے۔ اس دوڑ میں کوئی ملک کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا اور کوئی سیانا مذہب بھی آنے والے وقت میں فنا نہیں ہونا چاہتا۔ ان تحریکوں کے لیڈرز نے بھانپ لیا ہے کہ آنے والے طوفان کے راستے میں بند باندھنے سے بہتر ہے کہ ’’تم سب سے پہلے ٹرانس ہیومنز بنا جاؤ!‘‘۔ ان تمام ایسویسی ایشنز نے مل کر ایک ورلڈ وائیڈ ایسویسی بنالی ہے۔ ورلڈز ٹرانس ہیومنز سوسائٹی کے صدر کا نام ہے۔ ڈاکٹر جیمز ہیوز (Dr. James Hughes)۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ٹرانس ہیومنسٹس کا خیال ہے کہ وہ تیزی سے کامیابی کی منزلیں طے کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی تحریک کا نام بدل کر آئی ای ای ٹی (IEET) رکھ لیا ہے۔ جو ’’انسٹی ٹیوٹ فار ایتھکس اینڈ اِمرجنگ ٹیکنالوجی‘‘ کا مخفف ہے۔ ڈاکٹر جیمز ہیوز اب آئی ای ای ٹی کا صدر اور سی ای او ہے۔ دنیا کے چند بڑے نامور سائنسدان اور بااثر لوگ اس تحریک میں شامل ہوچکے ہیں۔ مثلاً آکسفورڈ یونیورسٹی میں آئی ای ای ٹی کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر نِک باسٹرام (Nick Bostrom) ہیں۔ حال ہی میں رائل سوسائٹی آف سائنسز نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا، ’’کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں‘‘۔ اس سیمینار میں ٹرانس ہیومنسٹ تحریک کے عالمی صدر ڈاکٹر جیمز ہیوز نے بہت تفصیل کے ساتھ اس خیال پر روشنی ڈالی کہ مستقبل میں ہم ٹرانس ہیومنز کے ذریعے کائنات کا سفر بہت آسان کرنے والے ہیں۔ ایسے انسان ڈیزائن کرنے پر غور کیا جارہا ہے جو زیرو گریوٹی میں کام کرسکیں اور اسی طرح کے دیگر مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سپیس سائنس کے لیے خصوصی ٹرانس ہیومنز پیدا کرنے والے ہیں۔
ٹرانس ہیومنسٹس تحریک بہت مضبوط اور بہت سیریس تحریک ہے اور پوری دنیا اِسے بہت سیریس لے رہی ہے۔ کالجز، یونیورسٹیز، دیگر ریسرچ ادارے، اور سب اہل علم بہت تیزی کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔اس وقت دنیا کا ملینز نہیں، بلینز بلکہ ٹریلینز ڈالرز اس تحریک کی بدولت ٹرانس ہیومنز پیدا کرنے پر لگاہوا ہے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ٹرانس ہیومینز پیدا کرنے کےلیے کتنے اور کس کے فنڈز استعمال ہورہے؟
اگر آپ گوگل میں ’’Transhumanism‘‘ کا لفظ ٹائپ کریں تو آپ کو دولاکھ پچاس ہزار نیٹ پیجز نظر آئینگے جو ٹرانس ہیومن ازم کے لیے وقف ہیں۔ لیکن اگر آپ گوگل میں ’’Genetic Engineering Laboratories‘‘ کے الفاظ ٹائپ کریں تو آپ چوبیس ملیَن ویب سائیٹس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ سب لوگ تقریباً اسی مشن پر لگے ہوئے ہیں۔
امریکہ میں جارج ڈبلیو بش نے 2006 میں سٹیٹ آف دہ یونین کے ایڈریس میں ایک قانون کی منظوری کے لیے سفارش کی جس کے بعد انسانوں اور جانورں کے درمیان ’’ٹرانس جینک‘‘ سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ یہی بات لمحہ ٔ فکریہ ے۔ امریکہ جیسے ملک کا صدر آخر کسی ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے آن دی ریکارڈ اجلاس میں تقریر کیوں کریگا؟ یقیناً خطرہ بہت بڑا تھا۔ لیکن خوش قسمتی یا بدقسمتی سے صدر اوبامہ نے جو پہلا کام کیا وہ یہی تھا کہ اُس نے صدر بُش کی طرف سے ٹرانس جینک ریسرچ پر لگائی گئی تمام پابندیاں یکسر اُٹھادیں۔ اور اس طرح سب سے بڑا مرحلہ یہ طے ہوگیا کہ سرکاری رقوم کا راستہ ٹرانس جینک ریسرچ کی طرف کھل گیا۔ اور یوں امریکہ کی ٹیکس پیئر رقوم کا مہیب ریلا اس عظیم اور محیرالعقول ریسرچ کی طرف بہہ نکلا۔ یہ پیسہ ہزاروں لیبارٹریز کو جارہا ہے۔ جوبات دنیا کے کسی بھی انسان کو بےپناہ پریشان کرسکتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی ریسرچ کا یہ پیسہ ایک بڑی مقدار میں جس ٹیکنالوجی پر صرف ہونا شروع ہوگیا ہے، اسے سائنس کی زبان میں،
ہیومن اینمل کائمیرا Human Animal Chimera
کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے انسان اور جانوروں کے ملاپ سے پیدا کی جان والی نئی نئی انواع۔ یعنی ایسا جاندار جو ہیومن اینمل ہائی برڈ ہوگا۔ آدھا انسان اور آدھا کوئی اور جانور۔ اگرچہ ظاہراً ایسا کچھ نہیں ہے اور ہیومین اینمل کائیمرا پیدا کرنے سے فقط مراد انسانی بہبود اور نیک مقاصد ہیں۔ مثلاً آج ہم ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے دل بدلوا سکتے ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوسکتاہے جب کوئی ’’دل دینے والا‘‘ بھی موجود ہو۔ اگر کسی نے بروقت دِل نہ دیا تو ہم مرجائینگے۔ کیونکہ ہمارا دل خراب ہوچکاہے۔ لیکن ہیومین اینمل کائمیرا کی شکل میں ہم ایسا جانور پیدا کرواسکتے ہیں جس میں ہمارے لیے ایک عدد دل پیدا کیا جائے گا۔ وہ کوئی جانور ہوگا۔ ایسا جانور جیسے جانور ہم عموماً ذبح کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً وہ گائے، بکری یا بھیڑ ہوسکتی ہے جس کے سینے میں ہمارا دل ہوگا۔ ہم اس جانور کو ذبح کرکے اپنا دل لے لینگے اور یوں ہارٹ ٹرانسپلاٹیشن کے لیے ڈونیشن کے مسئلہ سے جان چھوٹ جائے گی۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ظاہری طور پر تو ہیومین اینمل کائمیرا کی پیداوار ایک مثبت اقدام ہے لیکن اس کے سائیڈ ایفیکٹس کا اندازہ لگانا ممکنات سے باہر ہے۔امریکہ کی ایک ریاست میں باقاعدہ ایک فارم ہے جہاں ایسے سؤر پیدا کیے جارہے ہیں جو تھوڑے سے انسان اور باقی سؤر ہیں۔ تھوڑے سے انسان اس طرح کہ ان سؤروں میں انسانی اعضأ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آرگن ٹرانسپلانٹیشن انڈسٹری کو حتمی مدد دی جاسکے۔ ایک سؤر کے اندر انسانی ڈی این اے کا پھلنا پھولنا عجیب و غریب مظہر ِ فطرت ہے ۔ ایٹم بم کی ایجاد نے ہیروشیما اور ناگاساکی کی جان لی تھی لیکن معلوم نہیں یہ ٹرانس جینک پروڈکٹس کیا گل کھلائینگی؟ بظاہر اُمید ہی اچھی چیز ہے اور اچھی اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ بالآخر ٹرانس جینک پروڈکٹس انسان کی بھلائی کا ہی موجب بنیں گی۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2006 میں امریکہ کے سب سے بڑے ڈیپارٹمنٹ ، ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ نے 773,000 ڈالرز محض صرف ایک مقصد کے لیے دیا کہ دو سال کے اندر اندر اس بات کا جائزہ لے کر بتایا جائے کہ ٹرانس جینک ریسرچ کی اخلاقی پوزیشن کیاہے؟ اس ریسرچ کی اہمیت اس لیے زیادہ تھی کہ اس میں انسانی سبجیکٹ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یعنی براہ ِ راست انسانوں کو تجربات میں شامل کرکے بالآخر حکومت کو یہ بتایا جائے کہ اگر جینٹک انجنئرنگ اُن اھداف تک پہنچ جاتی ہے جن سے انسانیت خوفزدہ ہورہی ہے تو انسان اور غیر ِ انسان میں فرق کرنے کے لیے کیا اخلاقی قدریں مقرر کی جاسکینگی؟ میکس میہل مین Max Mehlman اس پراجیکٹ کا سربراہ تھا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دوسال کا عرصہ پورا ہونے کے بعد کوئی رپورٹ شائع نہ کی گئی اور ریسرچ کے نتائج کو چھپا لیا گیا البتہ کچھ ہی عرصہ بعد ریسرچ لیڈر ’’میکس میہل مین‘‘ نے امریکہ کی ایک ایک یونیورسٹی میں جاکر ’’ڈائریکٹڈ ایوولیوشن‘‘ اور ’’ٹرانس ہیومن ازم اور جمہوریت‘‘ کے عنوان سے لیکچرز کا سلسلہ شروع کردیا۔ ڈائریکٹڈ ایوولیوشن سے معنوی طور پر یہی مراد ہے کہ انسان کی ہدایت پر چلنے والا ارتقأ ۔ کیونکہ اس سے پہلے ارتقأ، فطرت کی ہدایات پر چل رہا تھا۔ میکس کے لیکچرز کے عنوانات سے مترشح ہے کہ لیبارٹری میں نتائج توقعات سے کہیں زیادہ پریشان کن برآمد ہوئے تھے۔
صرف ایک ملک، امریکہ میں ہی اتنے بڑے بڑے حکومتی ادارے خود ٹرانس جینک ریسرچ کو بڑی بڑی رقوم دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت جلد نسل ِ انسانی اپنی موجودہ ساخت سے کچھ اور بننے والی ہے۔
ہم نے اب تک جتنی گفتگو کی اس سے فقط اتنا تاثر ملتا ہے کہ چلو! یہ لوگ جب کچھ پیدا کرینگے تو دیکھ لینگے! لیکن یہ بات ہم بھول رہے ہیں کہ جینٹکلی انجنئرڈ خوراک بھی اتنی ہی تبدیلی کنندہ ہے جتنا کہ نئی نوع کو پیدا کردینے والے عناصر۔ جیسا کہ پولیو کی ویکسین کے ذریعے روئے زمین سے پولیو کا خاتمہ کرنے کی مہم محض قطرے پلا کر چلائی گئی ہے اور اب تقریباً پولیو فنا ہونے ہی والا ہے بالکل اسی طرح محض قطرے پلا کر بھی ہمیں جینٹکلی تبدیل کیا جاسکتاہے۔ یہ ہے اصل فکرمندی کا مقام۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسی طرح امریکن ملٹری کے ادارہ ’’ڈارپا‘‘ کا میں نے پہلے ذکر کیا۔ ڈارپا بلیَنز آف ڈالرز صرف کررہا ہے اور اس کے کئی پروجیکٹس پر بیک وقت کام جاری ہے۔ جن میں سے ایک پروجیکٹ کا نام ہے ، ’’ایکسٹینڈڈ پرفارمینس وار فائٹر‘‘۔ نام سے ہی اندازہ ہورہا ہے کہ یہ عام سپاہیوں کو جینٹکلی ڈیزائن کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس پروگرام کے ارویجنل ڈاکومینٹس نیٹ پر دستیاب ہیں جن میں واضح لکھا ہے کہ سولجرز کے ڈی این اے میں تبدیلی کرنا اس پروگرام میں شامل ہے۔ امریکی عوام نے اسے ’’سپر سولجر ٹیکنالوجی‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ ابھی 2011 میں ڈارپا نے ملیَنز آف ڈالرز کا بجٹ پھر منظور کیا ہے اور جس پروگرام کے لیے منظور کیا ہے اس کا نام ہے، ’’بائیو ڈیزائن‘‘۔ بائیو ڈیزائن حقیقت میں فقط ایک آؤٹ لائن ہے تاکہ بجٹ منظور کیا جاسکے ورنہ فی الحقیقت یہ پراجیکٹ ’’لافانیت‘‘ کے نام سے شہرت پکڑرہا ہے کیونکہ اس پراجیکٹ کے تحت انسانی عمر بڑھانے کے لیے ٹرانس جینک ریسرچ کی جارہی ہے۔ اس پراجیکٹ کے ابتدائی مقاصد میں سیل کی تخریب و تعمیر کا اس نقطہ نگاہ سے مطالعہ مقصود ہے کہ آخر انسانی سیل ختم ہونا اور مرنا کیوں شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہے کہ ہم عمر کے ایک حصہ کے بعد جسم کے تمام سیلز کی دوبارہ پیدائش کے قابل ہوسکیں۔اس عمل کی وضاحت کے لیے ’’ڈارپا‘‘ خود جو اصطلاح استعمال کررہا ہے وہ ہے، ’’کری ایٹنگ اِمّارٹل آرگانزم‘‘ Creating Immortal Organisms........... لیکن یہ نام بھی اس کی حدود کی ٹھیک سے وضاحت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ملٹری دراصل اس پراجیکٹ کے ذریعے اپنے فوجیوں میں ایک ’’ایسی لیتھل فورس‘‘ پیدا کردے گی جو تباہ کن ہوگی۔ اس طرح ان کے فوجی حد سے زیادہ طاقتور اور باصلاحیت ہوجائینگے ۔​
 
Top