• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلوغت کے فورا بعد پردہ فرض ہے!!

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ​
بلوغت کے فورا بعد پردہ فرض ہے!!​
احکام و مسائل:اسلام کے بیشتر احکام ایک عاقل و بالغ فرد پر عائد کیے گئے ہیں۔روزے اور پردہ ایک بالغ پر ہی فرض ہیں۔بالغ شخص شریعتِ اسلامیہ کے تمام فرائض ادا کرے گا جس طرح بڑے،نوجوان ادا کرتے ہیں۔بصورتِ دیگر وہ گناہ گار ٹھہرے گا!
پردہ لڑکیوں پر بلوغت کے ساتھ ہی فرض ہو جاتا ہے۔۔بلوغت اس کے لیے پردے کو فرض قرار دے دیتی ہے۔۔اسے بالغ ہوتے ہی اس طرح ہی پردہ کرنا ہو گا جیسے پردے کے احکامات اترتے ہی سیدات صحابیات رضوان اللہ علیہن اجمعین نے کیا:
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : " جب سورة النور نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺسے اس کو سن کر لو گ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جاکر انہوں نے اپنی بیویوں بیٹیو ں ا ور بہنوں کو اس کی آیات سنائیں۔ انصاری عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت 'مذکورہ آیت کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہوں۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فوراً اس کا دوپٹہ بنالیا اور اوڑھ لیا۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجدنبوی میں حاضرہوئیں سب دوپٹے اوڑھے ہوئی تھیں "۔ ( ابوداود)

مشاہدات وتجربات:ان سب باتوں کا علم رکھنے کے باوجودہمارے گھرانوں حتٰی کہ اہلِ علم اور دینی گھرانوں میں بھی بلوغت کے فورا بعد بچی کو پردہ نہیں کروایا جاتا!(عام گھرانوں میں تو پردہ ہے ہی نہیں۔۔جہاں اس کا اقرار کیا جاتا ہے وہاں بھی کچھ عرصہ انکار کی صورت رہتی ہے،پھر بھی ہم دین دار اور محمدی رہتےہیں)
"لوگ کیا کہیں گے کہ بچی اتنی جلدی بڑی ہو گئی ہے؟"
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بچی بالغ ہے،اب مکمل پردہ فرض ہو چکا ہے مگر ہم اپنی عزیزات سے چھپانے کی خاطر بچی کو دورانِ ایام نماز حتٰی کہ مسجد بھی لے جاتے ہیں جب کہ سیدہ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ۔انہوں نے فرمایا :"رسول اللہ ﷺاس مسجد کے صحن میں داخل ہوئے اور بلند آواز سے اعلان فرمایا:کسی جنبی یا حائضہ کو مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں"
اگر عزیزات کو علم ہو جائے تو بچی کو باہر جاتے ہوئے پردہ کروا دیتے ہیں اور گھر کے اندر کزنز،خالو،پھوپھا وغیرہ کے سامنے ڈوپٹہ اوڑھے حسبِ سابق رہتی ہے۔اور کہیں چودہ، پندرہ برس کی عمر میں مکمل پردہ کروایا جاتا ہےاور اس پر سب کو سنایا جاتا ہے کہ میں نے تو اپنی بچی کو بالغ ہوتے ہی پردہ کروا دیا تھا!!یہ ہمارا فرض ہے۔۔عزیزات کی باتیں ہماری ذمہ داری نہیں۔اللہ سبحانہ وتعالٰی کے احکامت کی ادائیگی ہماری ذمہ داری ہے۔(خواتین کی جہالت کی حد کہ ٹوہ میں لگی رہتی ہیں"اچھا تمہیں پتا چلا۔۔اچھا!پھر بھی چھپا رہی ہے۔۔۔لو بھلا ہم کیا اندھے ہیں۔۔اچھا خیر ہمیں کیا؟"کیا یہ بچی کی خرابی ہے کہ اس پر طنز،رونا دھونا،ہائے پکار مچا دیتے ہیں؟نعوذ باللہ)اگرگھر میں والد یا بھائی وغیرہ بات کرنے کی کوشش کریں تو ڈپٹ کر چپ کروا دیتے ہیں کہ مجھے بہتر معلوم ہے۔۔آپ کو کیا علم؟فُلاں کی بچی کو نہیں دیکھا تھا،پندرہ سال کی عمر میں بھی گلیوں میں بھاگی پھرتی تھی۔آپ کی بہن کی بیٹی۔۔آپ کے بھائی کی بیٹی۔۔۔۔"وہ ان کےمکلف تو نہیں۔۔ان کی پہلی ذمہ داری گھر ہے !
پس جس دن آپ کی بیٹی بالغ ہو جائے،اسی دن اسے نقاب اوڑھا دیں۔۔اس پر اب پردہ فرض ہے!!
بلوغت کے فورا بعد پردہ نہ کرنے کی صورت میں:اگر بچی بلوغت کے فورا بعد پردہ نہیں کرتی تو یہ معمول کی بات نہیں۔۔بلوغت کے بعد بچی میں سجنے،سنورنے کی خواہش ابھرتی ہے اور نتیجتا معاشرے کی خرابی۔اگر بچی اس وقت پردہ نہیں کرتی تو بعد میں اسے پردہ کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے!

حل:بچی آٹھ، نو برس کی ہو جائے تو اسے گاؤن یا بڑا ڈوپٹہ اوڑھا کر رکھیں۔۔گیارہ بارہ سال کی عمر میں گھر سے باہر جاتے ہوئے پردہ کروا دیں اور بلوغت پر مکمل پردہ۔۔آپ کو پریشانی نہیں ہو گی!ان شاء اللہ

نوٹ:
یہ دھاگہ خواتین اراکین کے لیے مخصوص ہے۔۔دیگر اراکین کمنٹ کرنے سے گریز کریں۔جزاکم اللہ خیرا
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
اس موضوع پر فارم کی چند بہنوں سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے درج ذیل خیالات کا اظہار کیا
1)لڑکی کے لئے سب سے بڑا مسئلہ پردہ اور حیا کا تحفظ ہے دور جدید نے پردہ کو ایک فرسودہ شے بنا کر پیش کیا ہے آج کے جدید ذرائع ابلاغ جس طرح عورت کے دامن عصمت و عفت کو تار تار کرنے میں مصروف ہیں پوری کافر اقوام نے عالم اسلام کے خلاف ایک سازش کے تحت بے حیائی اور فحاشی کا زہر پھیلانا شروع کیا ہے انھیں دیکھتے ہوئے کوئی بھی باشعور مسلمان اندازہ کر سکتا ہے کہ پردہ کے خاتمے کے بعد کون کون سی قباحتیں بن بلائے خود ہی چلی آئیں گی اھل مغرب نے میڈیا کے زریعے بے حیائی اور فحاشی کے زہر کو ہر گھر کے لوگوں کی رگوں میں اتار دیا ہے اور موجودہ میڈیا کا مقصد صرف عورت کی تشہیر ہی نہیں بلکہ عورت کو ساتر اور باپردہ لباس پہننے سے بچانے کے لئے عریاں اور فحش اشتہارات کو مسلم ممالک میں پھیلایا گیا افسوس اور تعجب تو خود طبقہ نسواں پر ہوتا ہے کہ وہ ایسے کاموں کے لئے خود کو کیسے پیش کر دیتی ہیں وجہ صرف میڈیا ہی ہے جس کی تقلید کے شوق میں اسکی برائیاں فیشن بنا کر نو جواں لڑ کیوں نے اپنا لیں ،​
کسی بھی باضمیر لڑکی یا خاتون سے پوچھیں کیا یہ جائزہے کہ وہ پردہ کئے بغیر گھر سے نکلے اپنے زیورات اور اپنی زیب و زینت نامحرموں کے سامنے ظاہر کر کہ دعوت نظارہ دے ؟؟
کیا پردہ کے متعلق قرآن و حدیث کے دلائل جاننے کے بعد کسی سر پرست یا والدین کے لئے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی بیوی ،بہن یا بیٹی کو پردہ کئے بغیر گھر سے جانے کی اجازت دیں میری تمام بہنوں اور بیٹیوں سے سے یہی اپیل ہے کہ وہ گمراہ کن میڈیا کے افکار کا مقابلہ کریں اور شرم و حیا وپاکدامنی کے تاج کو سر پہ محفوظ رکھیں وہ یہود و ہنود کی تہذیب کو باعث فخر سمجھنے کی بجائے اپنی اسلامی تہذیب پہ فخر کا عملی مظاہرہ کریں ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو مکمل پردہ کی توفیق عطا فرمائے۔

2)ہمارے معاشرے میں جسمانی طوائفیت کو تو برا سمجھا جاتا ہے اور کرنے والی کو ملعون و مطعون کیا جاتا ہے لیکن ذہنی طوائفیت کے حوالے سے ہمارے ہاں کوئی شعور نہیں ہے اور بسا اوقات ہم بھی لاشعوری طور پر اس میں ملوث ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ذہنی طوائفیت کیا ہے ؟؟؟اگر ایک عورت بغیر کسی شرعی رشتے کے کسی مرد سے جسمانی طور پر ملوث ہوتی ہے تو ہم اس کو طوائف کہتے ہیں ۔۔۔۔اس کو لعن طعن کرتے ہیں ۔۔معاشرے میں ایسی عورت کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔۔۔وہ استعمال ہونے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دی جاتی ہیں۔۔۔لیکن اگر ایک شریف زادی شرعی پردہ کرنے والی خاتون بغیر کسی شرعی رشتے کے کسی غیر مرد کو سوچتی ہے۔۔ذہنی طور پر اس کے ساتھ ملوث ہوتی ہےتو اس کو ہم کیا کہیں گے۔۔۔؟؟؟؟؟؟
پردے کے حوالے سے بہت کچھ کہا سنا جا چکا ہے۔۔خاص طور پر ہمارے اس فورم کے حلقے میں ۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ذہنی پاکیزگی کو عام کیا جائے۔۔ہم میں سے ہر ایک اگر اپنے دل کو ٹٹولے تو کسی نہ کسی مقام پر ہم اس میں ملوث ہوتے ہیں ۔۔آج نہیں تو پانچ چھ سال پہلے خصوصاً ٹین ایج میں یہ بیماری بہت عام ہوتی ہے۔۔۔اور اس عمر میں ایسے خواب دیکھنا لڑکیوں کا پیدائشی حق سمجھا جاتا ہے ۔۔سولہ سال کی عمر کو اسی لیے سوئیٹ سکسٹین کہا جاتا ہے۔۔۔بلوغت کے بعد مائیں بچیوں کو ظاہری پردہ کرنا سکھاتی ہیں ۔۔۔انھیں برقع اوڑھنے کی تلقین کرتی ہیں لیکن اس حوالے سے انھیں بالکل گائیڈ نہیں کیا جاتا۔۔ایسے خیالات کا آنا فطری امر ہے ۔۔ماؤں کو سہیلیوں کی طرح ان سے یہ مسئلہ ڈسکس کرنا چاہیے ۔۔۔ناکہ انھیں کسی بیرونی دوست کی ضرورت محسوس ہی نہ ہو جو انھیں غلط سمت لگا دے۔۔۔۔
قرآن میں اس کو دل کی بیماری سے تعبیر کیا گیا ہے۔۔۔
ـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ ۚ إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا ﴿٣٢﴾
ترجمہ:اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو (32)
غور کیجیے ! دل کی بیماری اور برا خیال کیا ہے۔۔۔؟؟؟یہاں ظاہری پردے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ باطنی صفائی و پاکیزگی کا بیان ہے۔۔
اسی ذہنی پاکیزگی کو شرعی اصطلاح میں تقوی کہا جاتا ہے۔۔۔ہمارے ہر شرعی عمل کی بنیاد اسی پر رکھنی جانی چاہیے
یأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَدخُلوا بُيوتَ النَّبِىِّ إِلّا أَن يُؤذَنَ لَكُم إِلىٰ طَعامٍ غَيرَ نـٰظِرينَ إِنىٰهُ وَلـٰكِن إِذا دُعيتُم فَادخُلوا فَإِذا طَعِمتُم فَانتَشِروا وَلا مُستَـٔنِسينَ لِحَديثٍ ۚ إِنَّ ذٰلِكُم كانَ يُؤذِى النَّبِىَّ فَيَستَحي۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذٰلِكُم أَطهَرُ لِقُلوبِكُم وَقُلوبِهِنَّ۔۔۔۔۔۔لا جُناحَ عَلَيهِنَّ فى ءابائِهِنَّ وَلا أَبنائِهِنَّ وَلا إِخوٰنِهِنَّ وَلا أَبناءِ إِخوٰنِهِنَّ وَلا أَبناءِ أَخَوٰتِهِنَّ وَلا نِسائِهِنَّ وَلا ما مَلَكَت أَيمانُهُنَّ ۗ وَاتَّقينَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ شَهيدًا ﴿٥٥﴾
اس آیت پر بھی غور کیجیے پردے کا اولین حکم نازل ہوا ۔۔اور اس کے بعد پردے کا مقصد کیا بیان کیا گیا۔۔۔؟؟؟
دل کی طہارت۔۔باطنی پاکیزگی۔۔۔اور پھر آخرمیں اللہ تعالی نے محرم مردوں کا ذکر کیا تو تتمہ کے طور پر تقوی کا حکم بھی ساتھ دے دیا۔۔۔
گویا پردے کا مقصود ومنتہاء باطنی صفائی ہے۔۔۔اور اگر بہت اچھا پردہ کر لینے کے باوجود ہم اس کے حصول میں ناکام ہیں تو ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی اشد ضرورت ہے
میری بڑی بہن کے رشتے کی بات چلی تو منگنی پر فریقین کا اتفاق ہوا۔۔۔آپا نے امّی سے کہا اگر آپ بات پکی کرنا چاہتی ہیں تو بجائے منگنی کے نکاح کر دیحیئے ورنہ اس بات کو یہیں ختم کر دیں۔۔امی کے استفسار پر انھوں نے کہا کہ منگنی کی صورت میں ذہن لاشعوری طور پر فریقِ ثانی کی طرف لگا رہے گا اور بغیر کسی شرعی رشتے کے میں اس کو درست نہیں سمجھتی۔۔۔اور یوں ان کا نکاح ہو گیا
میری بہن اتنی حیا دار تھیں کہ رشتے کے آغاز سے انھوں نے مکمل اختیار امی ابو کو دے رکھا تھا اور کسی معاملے میں زبان نہیں کھولی تھی لیکن اس مرحلے پر انھوں نے مداخلت کی تھی۔۔۔
یہ نکتہ اٹھایا ہے وہ بہت اہم ہے لیکن اس مسئلے پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔۔۔میں سمجھتی ہوں ماؤں کو اپنی نو عمر بیٹیوں کی بہترین دوست بن جانا چاہیے۔۔۔اور ایک سہیلی کی طرح ہی ان سے ڈسکشن کرنی چاہیے۔۔۔ان کی تربیت اس نہج پر کرنی چاہیے کہ وقت آنے پر وہ بن کہے پردے کی ذمہ داری اٹھانے کے ساتھ ساتھ ذہنی پاکیزگی کا شعور بھی رکھتی ہوں
آخر میں نوعمر بچیوں کی ماؤں کے لیے ایک مشورہ ہے کہ آج کل لڑکیاں بہت جلدی بالغ ہو رہی ہیں ۔۔۔ان سے اپنا آپ سنبھالا نہیں جا رہا ہوتا کہ پردے کی ذمہ داری سر پر آن پڑتی ہے۔۔کوشش کیجئے کہ بلوغت کی عمر کا آغاز جلدی نہ ہو ۔۔۔اس کے لیے ایک تو گھر کا ماحول صاف ستھرا رکھیں ۔۔۔ٹی وی ہو تو اسے نکال دیں ۔۔مزید یہ کہ بچیوں کو گرم چیزیں مثلاً انڈے وغیرہ نہ دیں ٹھنڈی تاثیر والی اشیاء دیں۔۔
اپنی سوچوں کا دھیان رکھو،یہ الفاظ بن جاتی ہیں
اپنے الفاظ کا دھیان رکھو،یہ افعال بن جاتے ہیں
اپنے افعال کا دھیان رکھو،یہ عادت بن جاتے ہیں
اپنی عادت کا دھیان رکھو،یہ کردار بن جاتی ہیں
اپنے کردار کا دھیان رکھو،یہی کردار تمہارا نتیجہ بناتا ہے!!

3)
(خواتین کی جہالت کی حد کہ ٹوہ میں لگی رہتی ہیں"اچھا تمہیں پتا چلا۔۔اچھا!پھر بھی چھپا رہی ہے۔۔۔لو بھلا ہم کیا اندھے ہیں۔۔اچھا خیر ہمیں کیا؟"کیا یہ بچی کی خرابی ہے کہ اس پر طنز،رونا دھونا،ہائے پکار مچا دیتے ہیں؟نعوذ باللہ)اگرگھر میں والد یا بھائی وغیرہ بات کرنے کی کوشش کریں تو ڈپٹ کر چپ کروا دیتے ہیں کہ مجھے بہتر معلوم ہے۔۔آپ کو کیا علم؟فُلاں کی بچی کو نہیں دیکھا تھا،پندرہ سال کی عمر میں بھی گلیوں میں بھاگی پھرتی تھی۔آپ کی بہن کی بیٹی۔۔آپ کے بھائی کی بیٹی۔۔۔۔"وہ ان کےمکلف تو نہیں۔۔ان کی پہلی ذمہ داری گھر ہے !
جہالت کی انتہا ہوتی ہے کیا ان کی بیٹیوں کے ساتھ یہ معاملہ پیش نہیں آتا ۔اس کے ساتھ کوئی انوکھا معاملہ پیش آتا ہے کیا؟؟۔۔اس وقت جب بچی اپنی پریشانی میں ہوتی ہے ایسی حرکات و گفتگو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے ۔۔میں یہ سب باتیں اس لئے کہہ رہی ہوں کہ کل ہمارے ساتھ یہ سب پیش آیا تو جب ہم عملی زندگی میں داخل ہوں تو ایسے کام نہ کرتے پھریں ۔۔خواتین کی تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔۔ان پڑھ تو ان پڑھ پڑھے لکھے ۔۔۔دینی ماحول کے لوگ ایسے کام کریں تو افسوس ہوتا ہے۔۔شاید خواتین کی مٹی ایک سی ہوتی ہے دینی ہوں یا دنیاوی۔۔الا ماشاء اللہ
حل بہت بہترین ہے جو چیز بچوں کو ابتداء سے سکھائی جائے گی ،اسی پر عمل ہو گا۔۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
پردے کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ، کچھ اضافہ کروں گی۔
بلوغت کے بعد انسان اپنے فرائض اور احکامات میں مکلف قرار دیا جاتا ہے۔جیسے کہ نبی کریم ﷺ کی اس حدیث سے وضاحت ملتی ہے۔
" تين قسم كے افراد سے قلم اٹھا لى گئى ہے، بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بے عقل اور پاگل شخص سے حتى كہ وہ ٹھيك ہو جائے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4402 )
مگر بلوغت سے قبل وہ اس کا مکلف نہیں ہوتا ، تاہم والدین ضرور مکلف ہیں۔
درحقیقت والدہ بیٹی کے لیے پہلی تربیت گاہ کی حیثیت رکھتی ہے ، اگر بچی ابتداء سے ماں کو شرعی پردے میں دیکھے گی ، تو وہ بھی یہی اثرات لے گی ، اور اس عمر کی بچی کو کسی عملی مثال سے فرائض کی طرف راغب کرنا آسان ہوتا ہے۔نیز اس عمر سے ہی بچوں کے سوالوں کے معقول جواب فراہم کرتے رہنا چاہیئے۔تاکہ خاندان اور معاشرے کے بے جا سوالات پر وہ اپنی عقل سے جوابات دے سکیں۔ہمارے موجودہ معاشرے کا یہ حال ہے کہ یہاں بلوغت سے '' بڑی'' ہونا نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ سولہ سترہ کی عمر تک پہنچ کر بھی ماں باپ کے لیے وہ رہتی'' بچی'' ہی ہے۔چہرے کا پردہ کرنے کے احکامات کے ساتھ بچیوں کو نہ کرنے کے نقصانات بھی بتانے چاہیئے۔جیسے اوباش مردوں کی نظروں سے محفوظ رہنا ، وغیرہ وغیرہ۔
یہاں قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ عموما لڑکی کی بلوغت کے وقت وہ مسائل کو گہرائی تک نہیں جان سکتی ، چناچہ اس عمر میں '' عقلی دلائل '' بہت کارگر ثابت ہوتے ہیں۔جیسے پردے سے دھوپ اور گردوغبار سے بچا جا سکتا ہے ، پردہ کرنے سے اللہ تعالی خوش ہوتے ہیں ، پردہ کرنے سے جسم کے خدو خال ظاہر نہیں ہوں گے ، پردہ تحفظ دیتا ہے ، یہ سب باتیں اس عمر کی بچیوں کو ضرور بتائی جائیں۔اس سلسلے میں ہمارے لیے بہترین اسوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ، جن کی رخصتی کی عمر 9 سال ہے ، یقینا پردے کے حکم کے بعد آپ رضی اللہ عنہا بھی خود کو ڈھانپے رکھتیں۔چناچہ اس عمر کی لڑکیوں کو سیرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مطالعہ ضرور کروانا چاہیئے۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
ماں باپ تو بوڑھےہونے تک یہ بچے ہوتےہیں
مگر مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی ہے۔
ماں خود تو پر دہ کرتی ہے بیٹی کو نہیں کرواتی اس کی کیا وجوہات ہیں یہ اکثر مشاہدہ کی بات ہے
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
ماں باپ تو بوڑھےہونے تک یہ بچے ہوتےہیں
مگر مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی ہے۔
ماں خود تو پر دہ کرتی ہے بیٹی کو نہیں کرواتی اس کی کیا وجوہات ہیں یہ اکثر مشاہدہ کی بات ہے
یہ دھاگہ خواتین اراکین کے لیے مخصوص ہے۔۔دیگر اراکین کمنٹ کرنے سے گریز کریں۔جزاکم اللہ خیرا
 
  • پسند
Reactions: Dua

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
ماں باپ تو بوڑھےہونے تک یہ بچے ہوتےہیں
مگر مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی ہے۔
ماں خود تو پر دہ کرتی ہے بیٹی کو نہیں کرواتی اس کی کیا وجوہات ہیں یہ اکثر مشاہدہ کی بات ہے
اہم موضوع ہے۔۔کسی دوسرے تھریڈ میں یہ موضوع شروع کیا جائے گا۔ان شاءاللہ
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حدیث مبارکہ ہے۔۔۔


حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ "‏ كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلاَّ الْمُجَاهِرِينَ، وَإِنَّ مِنَ الْمَجَانَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلاً، ثُمَّ يُصْبِحَ وَقَدْ سَتَرَهُ اللَّهُ، فَيَقُولَ يَا فُلاَنُ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ ‏"‏‏.
(60)


ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے ، ان سے ان کے بھتیجے ابن شہاب نے ، ان سے ابن شہاب ( محمد بن مسلم ) نے ، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی ( گناہ کا ) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں ! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا ۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا ، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا ۔
: Sahih al-Bukhari 6069
In-book reference : Book 78, Hadith 99

حدیث کی روشنی میں اگر ہم جائزہ لیں تو آج کل دو بڑے ایسے گناہ ہیں جو اس حدیث کے ذیل میں آتے ہیں ۔۔۔۔۔عورتوں کا پردہ نہ کرنا اور مردوں کا داڑھی نہ رکھنا۔۔۔
چونکہ جھراً گناہ کرنے والا دو برائیوں میں ملوث ہوتا ہے ۔۔۔ایک خود گناہ کرنا اور دوسرا معاشرے پر اس کے بد اثرات ڈالنا۔۔۔اسی لیے اس پر سخت وعید آئی ہے۔۔۔عورتوں کے بے پردہ ہونے میں بھی یہ دونوں قباحتیں موجود ہیں۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پردہ دےاصل دل کا ہوتا ہے ان کےلیے اس حدیث میں غور و فکر کا سامان موجود ہے۔۔۔
مشہور مقولہ ہے
تمہاری نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو دنیا تمہارے ظاہر کو دیکھتی ہے ۔۔۔اور تمہارا دکھاوا کتنا ہی خوشنما کیوں نہ ہو اللہ تمہیں تمہاری نیت سے پرکھتا ہے
چنانچہ ظاہر باطن دونوں لازم و ملزوم ہیں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمت الله و برکاتہ -

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ مصر کے مشہور عالم و مجتہد علامہ ناصر البانی رح جنہوں نے صح ستہ کی احادیث میں صحیح و ضعیف کا امتیاز کیا ہے اور ان کو الگ الگ کرنے میں بہت دقیق اور علمی کام کیا ہے - وہ عورت کے چہرے کے پردہ کے قائل نہیں تھے (واللہ اعلم)- اگر کسی کو اس بارے میں علم ہو تو اس کی رہنمائی فرمائیں -

ویسے میں ذاتی طور پر قرآن و حدیث کے مفہوم سے اس بات کا قائل ہوں کہ عورت کے چہرے کا پردہ کرنا ضروری (واجب) ہے-جیسا کہ آیات سے بھی ثابت ہے :

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ سوره النور ٣١
اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو غیر ارادی طور پر خود سے ظاہر ہو جائے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں-


چہرہ زینت میں شمار ہوتا ہے - اور اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتا جب تک از خود اپنے ارادے سے ظاہر نہ کیا جائے -اس لئے اس کا ڈھانپنا ضروری ہے -
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
یہ بات درست ہے۔
اور شیخ البانی رحمہ اللہ کے ان دلائل کا علمی جائزہ بھی کیا گیا ہے اور تردید بھی کی گئی ہے۔
یہ کتاب محدث لائبریری پر موجود ہے۔
چہرے کے پردے پر ام عدنان کی تحریر بہت زبردست ہے۔اور اسی موضوع پر شیخ توصیف الرحمن الراشدی کا ایک طویل لیکچر ہے ، جس میں بہت سی احادیث سے چہرے کے پردے پر جواز فراہم کیئے گئے ہیں۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کل بچوں کے قبل از وقت بالغ ہونے کی ایک وجہ برائلر مرغی جسے عرفِ عام میں چکن کہا جاتا ہے کا بکثرت استعمال ہے۔۔۔۔ان مرغیوں کو ایسے ہارمونز پر مشتل ٹیکے لگائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے یہ مرغیوں کی طبعی عمر سے پہلے ہی بالغ ہو جاتی ہیں اور دن میں ایک کی جگہ دو دو انڈے دینے لگتی ہیں۔۔۔یہی مرغیاں جب ہم کھاتے ہیں تو ان ہارمونز کے اثرات بذریعہ گوشت ہمارے جسم میں منتقل ہو جاتے ہیں۔۔۔اور ہمارے بچے بھی اپنی طبعی عمر سے پہلے ہی بلوغت کوپہنچ جاتے ہیں۔۔۔
چکن کے علاوہ یہی اثرات ہماری روز مرہ کی خوراک میں بھی پائے جاتے ہیں ۔۔۔وہ فصلیں جو سال میں ایک بار اگائی جاتی تھیں آج ہم وہ سارا سال ہی کھاتے رہتے ہیں۔۔۔بھینسوں کو بھی دودھ زیادہ لینے کی غرض سے یہ ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔۔۔خلاصہ یہ کہ ہماری خوراک ہی ہمارے جسموں کے لیے نافع بننے کی بجائے ضرر رساں ثابت ہو رہی ہے۔۔
 
Top