• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلی‌کو خریدنا یا بیچنا درست ہے کیا ؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بلی‌کو خریدنا یا بیچنا درست ہے کیا ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ــــــــــــــــــــــــــ
بلیوں کی خرید و فروخت

سؤال :ما حكم بيع وشراء القطط ؟.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله

ذهب أكثر العلماء إلى جواز بيع القط ، وذهب بعض أهل العلم إلى تحريمه وهم الظاهرية ورواية عن الإمام أحمد رحمه الله ، وحكاه ابن المنذر عن أبي هريرة رضي الله عنه .

والقول بتحريم بيعه هو الراجح ، لثبوت النهي عن بيعه عن النبي صلى الله عليه وسلم ، وليس له ما يعارضه .

روى مسلم (1569) عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ قَالَ : سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ قَالَ : زَجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ .

وروى أبو داود (3479) والترمذي (1279) عَنْ جَابِرٍ بن عبد الله رضي الله عنهما قَالَ : ( نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ) صححه الألباني في صحيح أبي داود .

و (السِّنَّوْرِ) هو الهر (القط) .

وقد ذهب بعض أهل العلم إلى تضعيف هذه الأحاديث ، ولكن قولهم مردود .

قال النووي في المجموع (9/269) : " وأما ما ذكره الخطابي وابن المنذر أن الحديث ضعيف فغلط منهما ، لأن الحديث في صحيح مسلم بإسناد صحيح " انتهى .

وقال الشوكاني في "نيل الأوطار" (6/227) رداً على الجمهور الذين حملوا النهي في الحديث على كراهة التنزيه ، وأن بيعه ليس من مكارم الأخلاق والمروءات ، فقال : " ولا يخفى أن هذا إخراج للنهي عن معناه الحقيقي بلا مقتضٍِ " انتهى .

وقال البيهقي في السنن (6/18) رداً على الجمهور أيضاً : " وقد حمله بعض أهل العلم على الهر إذا توحش فلم يقدر على تسليمه ، ومنهم من زعم أن ذلك كان في ابتداء الإسلام حين كان محكوماً بنجاسته ، ثم حين صار محكوماً بطهارة سؤره حل ثمنه ، وليس على واحد من هذين القولين دلالة بينة " انتهى .

وجزم ابن القيم بتحريم بيعه في "زاد المعاد" (5/773) وقال : " وكذلك أفتى أبو هريرة رضي الله عنه وهو مذهب طاووس ومجاهد وجابر بن زيد وجميع أهل الظاهر ، وإحدى الروايتين عن أحمد ، وهو الصواب لصحة الحديث بذلك ، وعدم ما يعارضه فوجب القول به " انتهى .

وقال ابن المنذر : " إن ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم النهي عن بيعه فبيعه باطل ، وإلا فجائز" انتهى من "المجموع" (9/269) .

وقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم النهي عنه كما سبق في صحيح مسلم .

وجاء في "فتاوى اللجنة الدائمة" (13/37) :

" لا يجوز بيع القطط والقردة والكلاب وغيرها من كل ذي ناب من السباع لأن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن ذلك ، وزجر عنه ولما في ذلك من إضاعة المال ، وقد نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك " انتهى .

والله أعلم .

الإسلام سؤال وحواب

______________________
ترجمہ :
بليوں كى خريد و فروخت
سوال :بليوں كى خريد و فروخت كا حكم كيا ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد للہ:

بعض اہل علم بليوں كى خريد و فروخت كے جواز كے قائل ہيں، اور بعض اہل علم اس كے حرام ہونے كے قائل ہيں، اور يہ ظاہريوں كا قول اور امام احمد سے ايك روايت ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نےاسے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے.

اس كى خريد و فروخت حرام ہونے والا قول راجح ہے، كيونكہ اس كى بيع كى ممانعت اور نہى كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت ملتا ہے اور اس كے مخالف كوئى حديث نہيں.

امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو زبير رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے كتے اور بلى كى خريد و فروخت كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے ڈانٹا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1569 ).

اور ابوداود اور ترمذى نے سیدنا جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے اور بلى كى قيمت سے منع فرمايا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3479 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1279 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

اور " السنور " بلى كو كہتے ہيں.

اور بعض اہل علم نے ان احاديث كو ضعيف قرار ديا ہے، ليكن ان كا يہ قول مردود ہے صحيح نہيں.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں لكھتے ہيں:
" خطابى اور ابن منذر نے جو يہ بيان كيا ہے كہ يہ حديث ضعيف ہے، تو ان كا يہ كہنا غلط ہے، كيونكہ يہ حديث مسلم ميں صحيح سند كے ساتھ موجود ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 9 / 269 ).


اور " نيل الاوطار " ميں امام شوكانى رحمہ اللہ جمہور كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں جنہوں نے حديث ميں نہى كو كراہت تنزيہى پر محمول كيا ہے، اور يہ كہ اس كى فروخت مكارم اخلاق ميں سے نہيں، اور ايسا كرنا خلاف مروءت ميں شامل ہوتا ہے، اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" يہ مخفى نہيں كہ يہ نہى كو بغير كسى مقتضى كے نہى كو اس كے حقيقى معنى سے نكالنا ہے " انتہى.
ديكھيں: نيل الاوطار ( 6 / 227 ).

اور امام بيھقى رحمہ اللہ بھى جمہور كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" بعض اہل علم نے اسے اس پر محمول كيا ہے كہ جب بلى وحشى بن جائے اور اسے سپرد كرنے پر قدرت نہ ركھى جائے، اور بعض نے يہ گمان كيا ہے كہ يہ ابتدائے اسلام ميں تھا جب كہ بلى كے نجس ہونے كا حكم تھا، پھر جب اس كے جھوٹے كے طاہر ہونے كا حكم جارى ہوا تو اس كى قيمت حلال ہو گئى، ان دونوں ميں سے كسى بھى قول كى كوئى واضح دليل نہيں ہے " انتہى.
ديكھيں: سنن البيھقى ( 6 / 18 ).

اور علامہ ابن قيم رحمہ اللہ نے " زاد المعاد " ميں اسكى خريد و فروخت كو بالجزم حرام قرار ديتے ہوئے كہا ہے:

" اور اسى طرح ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى فتوى ديا، اور طاؤس، مجاھد، اور جابر بن زيد، اور سب اہل ظاہر كا يہى مسلك ہے، اور امام احمد كى ايك روايت بھى يہى ہے، اور اس كے متعلق بيان كردہ حديث كے صحيح ہونے كى بنا پر يہى قول صحيح ہے، اور اس كے مخالف كوئى نہيں تو اس كى حرمت كا كہنا واجب اور ضرورى ہے " انتہى.
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 773 ).

اور امام ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى خريد و فروخت كى نہى اور ممانعت ثابت ہوجائے تو اس كى خريد و فروخت باطل ہے، وگرنہ جائز ہو گى " انتہى.
ماخوذ از: المجموع ( 9 / 269 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى نہى اور ممانعت كا ثبوت ملتا ہے، جيسا كہ صحيح مسلم كى حديث بيان ہو چكى ہے.

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى درج ہے:

" بليوں اور كتوں كى خريد و فروخت جائز نہيں، اور اسى طرح دوسرے چيڑ پھاڑ كرنے والے درندے جن كى كچلى ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا اور ايسا كرنے سے ڈانٹا ہے، اور اس ليے بھى كہ اس ميں مال كا ضياع ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے " انتہى


ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 37 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top