• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنات الصلیب

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بنات الصلیب
ان اوراق میں ان عیسائی عورتوں کا تذکرہ ہے جو مسلمانوں کے حرم میں داخل ہوکر یا باہر رہ کر قرونِ اولیٰ سے اسلام اور اہلِ اسلام کی تباہی کا باعث بنی رہیں اور آج بھی صدیوں پرانی کلیسائی منصوبہ بندی کے تحت ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کے گھروں میں اڈہ جمائے نہ صرف مالی منفعت اندوزی اور دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے میں مصروف ہیں بلکہ جاسوسی کی ایسی ہی سرگرمیوں میں منہمک ہیں جن کی بدولت مسلمانوں کا قبلہ اوّل جون 1967ء میں 14سو برس کے تسلط کے بعد
ان کے قبضہ سے نکل گیا۔
از رشحات قلم
قمر الدین احمد
{ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ }
اور اللہ سب سے بہتر تدبیر فرمانے والاہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مئی ۱۴۵۳ء کو سلطان محمدثانی رحمہ اللہ کی زیرِ سرکردگی مسلمانوں نے قسطنطنیہ کو مملکت اسلامیہ کا جزو بنایا،یہ ایک مقدس اورعظیم الشان فتح تھی،جس کے نتیجے میں یہ مقدس فاتح لشکر اور اس کا زعیم مجاہد رسول پاک ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق جنتِ ارضی کا حقدار ٹھہرا۔یہی وہ کامرانی تھی کہ جس کے نتیجے میں سلطان محمدثانی سلطان محمدالفاتح کے نام سے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگیا اور یہی وہ فتح تھی جو صلیبیوں کے دلوں کو حسرت و نامرادی کے داغ دے گئی۔ ان کی ہمتیں پست اور ان کے عزائم خاک آلود کرگئی۔’’سقوطِ قسطنطنیہ‘‘کے بعد صلیبیوں نے ہمیشہ کے لیے ’’صلیبی جہاد‘‘کا عزم ترک کردیا، مگر ۱۴۶۴ء میں ’’ولولۂ ایمانی‘‘سے لبریز بوڑھے پوپ پالیس ثانی ( Pope Plus-II )نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنے ذاتی اخراجات پر ’’صلیبی جہاد‘‘کا بیڑا اٹھایا۔۸ جولائی ۱۴۶۴ء کو سینٹ پٹرکی ایک تقریب میں صلیب برداری کی مذہبی رسم ادا کی اوربڑی مشکل سے بحری بیڑے کا اہتمام کیا ،پوپ کے رفقاء نے جب یہ محسوس کرلیا کہ وہ جاں بلب چندگھڑیوں کا مہمان ہے تو اسے بآور کروایا کہ اس کے ساتھ نہ یورپ کے عوام ہیں اور نہ بادشاہ اور شہزادے ،حتیٰ کہ جولوگ اس ’’مقدس جہاد‘‘میں شریک ہونے کے لیے شامل ہوئے تھے،ان کی ایک نمایاں اکثریت بھی بھاگ چکی ہے۔بایں ہَمہ ۱۴ اگست ۱۴۶۴ء کو پوپ پالیس ثانی کی شمع حیات بھی گل ہوئی۔’’صلیبی جہاد‘‘کا شوق بھی اہلِ یورپ نے دل سے نکال پھینکا۔
مسلمانوں نے یہی سمجھا ،تاریخ نے یہی دیکھا،مگر حقیقت کیا تھی؟حقیقت کو دیکھنے کے لیے سرمۂ بصیرت،رعنائی وجدان اور گیرائیِ فکر کی ضرورت تھی،جن کے پاس یہ کچھ تھا انہوں نے حقیقت کو دیکھا مگر آہ!ایسے افراد کی تعداد ہی کتنی ہے؟اور پھر جو کچھ دنیا کو میسر آئے ہیں دنیا نے ان کی قدر ہی کتنی کی ہے۔اہلِ صلیب نے ’’سقوطِ قسطنطنیہ‘‘کے بعد غیرت مندانہ طریقے سے مسلمانوں سے لڑنے کا شوق ضرور دل سے نکال پھینکا تھا مگر عیّاری ،مکاری اورشاطرانہ چالوں کے چلنے سے ذہن کو معذور اور ہاتھوں کو دستِ کش نہیں کیا تھا،انہیں جب موقع ملا انہوں نے مسلمانوں کے پشت پر خنجر گھونپنے میں تاخیر نہیں کی۔
اہلِ صلیب کی شاطرانہ چالوں اور مکارانہ حربوں میں سب سے کامیاب چال اور سب تیر بہدف حربہ اپنی لڑکیوں کا مسلمانوں کے عقد میں دینا ہے۔ انہوں نے اپنے طبقۂ اناث کی ذہین و فطین، خوبصورت دوشیزائوں کو اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر تربیت دی اور ’’آفرین‘‘ہے اس بے غیر ت قوم کی بے غیرت بیٹی پر جو اپنے قوم کی لٹی ہوئی ناموس پر اپنے عصمت وعفت کو لٹانے کے لیے بآسانی تیار ہوگئی۔یہ سلسلہ ’’سقوطِ قسطنطنیہ‘‘سے قبل چلا آرہا تھا مگر ’’سقوطِ قسطنطنیہ‘‘کے بعدتو گویا صرف یہی راہ رہ گئی ۔خود قیصر قسطنطنیہ نے بھی اسی حربے کو استعمال کیا،چنانچہ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی قمطراز ہیں:
’’قیصر قسطنطنیہ نے اپنی تین خوبصورت لڑکیاں اس توقع میں پیش کیں کہ ایک سے سلطان مراد خان خود نکاح کرے اور دو اس کے دونوں بڑے بیٹوں کی بیویوں میں شامل کی جائیں،اس لڑائی کے بعدقیصر قسطنطنیہ سلطان مراد خان کے یورپ سے بے دخل اور واپس کرنے سے مایوس ہوکر اس کوشش میں مصروف رہنے لگا کہ سلطان سے اس کی صلح رہے اور وہ اپنے مقبوضہ ملک اور قسطنطنیہ کے تخت پر حکمران رہنے دیا جائے۔‘‘]تاریخ اسلام:۳/۳۳۰[
قیصر قسطنطنیہ کا یہ حربہ تو کامیاب نہ رہا اور بالآخر سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ کو تسخیر کرلیا۔
بہرحال ایک طرف صلیبیوں کی مکاریاں بھی جاری رہیں اور دوسری طرف مسلمان بھی چراغِ عدو کی کرنوں سے شکار ہوتے رہے۔وقت گزرتا گیا،ایمان و یقین کی جگہ مادیّت پرستی پروان چڑھتی چلی گئی ۔یہ امت مسلمہ کا المیہ ہے کہ اب اس کی کوکھ سے صلاح الدین ایوبی جیسے جری کی بجائے انو السادات جیسے مصلحت کیش جنم لیتے ہیں،محمد الفاتح جیسے مدبر کی بجائے انورکمال پاشا(اتاترک)جیسے ملحد ودہریے جنم لیتے ہیں،فتح علی خاں ٹیپو جیسے اصول پرست مجاہد کی بجائے یحییٰ خاں جیسے عقل وفہم سے کور فرد جنم لیتے ہیں۔
عیسائی دوشیزائوں کا مسلم معاشرے میں اختلاط کیا رنگ لایا؟
٭ہمارے سیاسی زوال کا سبب بنا۔
٭کتنی ہی مضبوط مملکتیں فنا کاجام پینے پر مجبور ہوئیں۔
٭فحاشی و عریانیت اور قحبہ گری کو فروغ ملا۔
٭مردوں کی نظر میں ان کی غیرت اور عورتوں کی نظر میں ان کی عصمت بے توقیر ہوتی چلی گئی۔
گو آج ایک مسلمان لڑکی نے بھی ’’دوپٹہ پالیسی‘‘ترک کرکے مغرب کی نقالی کی طرف ایک قدم مزید بڑھادیاہے،گو آج نامعلوم کتنی ہی مسلمان لڑکیاں اپنی سب سے قیمتی متاع کو دامنِ اعمال کی سیاہیوں کا سبب بنا رہی ہیں فیاسفاعلیٰ ھذا۔ مگر جان لینا چاہیے کہ اس سے اہلِ صلیب کے کلیجے ابھی ٹھنڈے نہیں ہوئے ..........
اہلِ صلیب کو مسلمانوں پر در آئے کم از کم ڈیڑھ صدیاں گزر چکی ہیں مگر یہاں تو لڑے بغیر ہی سپر ڈال دی گئی ہے،کیونکہ فہم وادراک کا استعمال تو یہاں ممنوع ہے۔’’دجالِ عصر‘‘کی زبان سے گو ’’صلیبی جنگ‘‘کی طبل بجانے کا اظہار ہو چکا ہے مگر ہمارے کانوں میں تو روئیاں ٹھسی ہوئی ہیں،جو کچھ ’’اگلے وقتوں‘‘کے ہمارے درمیان موجود ہیں انہیں اب ’’آقا‘‘کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مسلمان بھی ’’بنیاد پرست‘‘اور ’’انتہاپسند‘‘کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ امّتِ مسلمہ کی باگ اب ان ہاتھوں میں ہے جو ’’فرعونِ عصر‘‘کے درباری ہیں ؎
مجھے ان سے ہے وفا کی امید جو انہیں جانتے وفا کیا ہے؟
بہر حال جولوگ اپنی نسبتیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی جانب کرتے ہیں کاش وہ اب اس غفلت ومساہلت کی فضا سے باہر نکلیں و اللّٰہ ولی التوفیق۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن دردمند دل مصنف نے تقریباً ۱۹۷۰ء کو شائع کروایا تھا پھر اس کی تلخیص بھی خود ہی کی تھی ۔یہ(معلوم ذرائع کے مطابق)اس تلخیص کا تیسرا ایڈیشن ہے ۔ معلوم نہیں اس کتاب کے مصنفِ گرامی بقیدِ حیات ہیں یا اپنے محبوب بارگاہِ ایزدی جاچکے ہیں۔ اگر بقیدِ حیات ہیں تو ان سے ہزار بار معذرت ،اس لیے کہ یہ طباعت ان کی اجازت کے بغیر ہورہی ہے اور اگر وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ہیں تو وہ ایسا مقام ہے جہاں تمام حقائق آشکار ہوجاتے ہیں ۔میں توقع کرتا ہوں کہ اس مقام پر وہ کتاب کے اس گنہگار ناشر کے لیے درگزر کی راہ اختیار فرما کر بلندیِ درجات کے لیے دعاگو ہونگے۔
میرے لیے یہ بہت آسان تھا کہ میں محترم قمر الدین احمد صاحب کی تحریر کو اپنے انداز میں مرتّب کرکے کسی عنوان کی بناء ڈال دیتا۔مگر تحقیق و کاوش کے میدان میں داخلے کے بغیر ایسی حرکت کرنا میرے روح ولب پر ایک بوجھ ہوتا ،جسے باحمیّت طبیعت نے گوارا نہیں کیا۔اس وقت تحقیق و کاوش کے لیے حالات سازگار اور ذہن وفکر تیار نہیں اور دوسری مذکورہ صورت کسی طور گوارا نہیں لہٰذا مناسب یہی سمجھا کہ مصنف کی کتاب جوں کی توں پیش کردی جائے ۔اس مقام پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ مصنف نے اُمّ المومنین ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا اور میصون زوجہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہٗ کا ذکر بھی عیسائی عورتوں کے ضمن میں کیاتھا،جس سے راقم متفق نہیں۔یہ مقام طوالت کے بوجھ کو برداشت نہیں کرسکتا وگرنہ مستند تاریخی حقائق سے ثابت کیاجاسکتا ہے کہ ان پاکیزہ کردار خواتین پر ایسا گمان بھی جائز نہیں۔بایں ہَمہ عرض یہ کرنا ہے کہ اس حصے کو حذف کردیا گیا اوربقیہ پوری تحریر مِن وعَن موجود ہے۔
ممکن ہے بعض احباب پر بحیثیت ناشر میرا عدم اظہار کچھ خلجان کا باعث ہو،مگر ایسا صرف اس ندامت کی وجہ سے کیاگیا ہے جو ناشرِ کتاب ہذا کو مصنف سے ہے،جیسا کہ گزشتہ سطور میں اس کاا ظہار کیاگیا ہے۔بہرحال
کہے گا ہر شخص بے نشاں ہم کو
نشاں اپنا بھی یہ کیا کم رہے گا
دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہم سب کو صحیح معنو ں میں ملّت اسلامیہ کا غمخوار اور شریک بنائے اور اہلِ صلیب کی ریشہ دوانیوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرماکر ہمیں ان کے مد مقابل کامیابی سے ہمکنار فرمائے آمین۔
از طرف
ناشر
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سببِ تالیف
حکومتِ انگلشیہ کے دور میں فنِ ’’میر منشی‘‘یعنی انگریزی کے توسط سے غیر ملکی حضرات کو زبانِ اردو سکھانے کا طریقہ ایک مستقل پیشہ تھا۔مرورِ زمانہ سے وہ فنِ شریف حرفِ غلط کی طرح مٹ گیااور اس کے جاننے والے پیوندِخاک ہوگئے۔جو بچے کھچے چند بد نصیب باقی ہیں وہ چراغِ سحری ہیںاورلفظ ’’میر منشی‘‘اب داستانِ پارینہ ہے۔راقم الحروف ا ن بچے کھچے افراد میں سے ایک ہے۔پاکستان آکر کچھ تو طبعی مناسبت ،کچھ خدمتِ اردو اور کچھ ضروریاتِ زندگی میں نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور اردو کے غیر ملکی شائقین کو درسِ زبان دیتا رہا۔میرے شاگردوں میں بیشتر تعداد ان عیسائی خواتین کی ہے جو اونچے گھرانے کے متمول پاکستانی نوجوانوں کی مناکحت میں ہیں ہمارے ہاں جو بھی نوجوان ترقی کے اعلیٰ مدارج طے کرلیتا ہے اسے ایک مغربی نصرانی دوشیزہ دبوچ لیتی ہے۔ اس قسم کی یورپین خواتین صرف کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور نہایت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی ہیں۔دوسرے پاکستان کے شہر اس کے علاوہ ہیں دوسری طرف میں نے یہ دیکھا کہ ہماری قوم کی بیشتر لڑکیاں جو خود کو مروّجہ تعلیم سے بہرہ اندوز کرنے کے لیے شب وروز محنتِ شاقّہ میں مصروف ہیں رات رات بھر کتابوں میں اپنے سر کھپاتی ہیں اور دن کو سواری کے انتظار میں گھنٹوں بس اسٹینڈ پر کڑکتی دھوپ میں کھڑی رہتی ہیں ۔ان کے والدین خود تکلیفیں اٹھا کر اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی کا ایک بڑا حصہ ان کی تعلیم پر صرف کر ڈالتے ہیں تاکہ ان کی بچیوں کا مستقبل بہتر ہوسکے۔لیکن ہمارے نوجوان اپنی شریکِ حیات کے لیے مغرب کی ملمع کی چمکتی پھڑکتی حسینائوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔یہ پاکستان کی ان بے زبان بیٹیوں کے حق پر ڈاکہ ہے جو ہماری قوم کا قیمتی ترین سرمایہ ہیں جن سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے جو اچھی بیٹی، اچھی رفیقِ زندگی اور اچھی ماں بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔کمی ہے تو صرف یہ کہ ان کی روایتی شرم اورعزت نفس انہیں ان عیسائی جادوگرنیوں کی عشوہ طرازیوں کو اختیار نہیں کرنے دیتی(۱)۔اگر ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یونہی مغربی حسن کی دلفریبیوں کا شکار ہوتی رہی۔تو ہماری پاکستانی بیٹیوں کو کیا بنے گا یہ امر ان تمام حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو سنّتِ رسول کے مطابق لڑکیوں کے والدین ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ان غیر ملکی نصرانی ساحرائوں کے بھیس میں C-I-Aکی ایجنٹ بھی ہیں جو اپنے پاکستانی شوہروں کی زیرِ حفاظت بے خوف و خطر اپنے جاسوسانہ فرائض انجام دے رہی ہیںاور ہمارے دین وایمان اور تہذیب وتمدّن کے لیے بھی چھپا ہوا زہر ہیں۔ سارامعاشرہ ان سے گندہ ہورہاہے ،اسی قسم کی اہلِ کتاب (یہودی)لڑکیاں ہی تو تھیں جن کی جاسوسی کی بدولت ہمارا قبلۂ اوّل ہمارے ہاتھ سے نکل گیا اور مسلمانوں کی گردن ندامت سے جھک گئی۔ ہم نے اپنے دین و مذہب اور تہذیب وتمدّن کے تحفظ کے لیے لاکھوں مسلمانوں کی قربانی دے کر اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر اپنا سب کچھ لٹا کر پاکستان بنایا تھا آج وہ متاع چھیننے کے لیے ہمارے دشمن وہی ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں جو انہوں نے مصر میں استعمال کرکے ۶۷ء میں بیت المقدس ہم سے چھینا تھا ایسا نہ کہ وقت گزر جانے کے بعد ہمیں پچھتانا پڑے اور متحدہ عرب جمہوریہ کی طرح کفِ افسوس ملنا پڑے۔
سر چشمہ شاید گرفتن یہ بیل چو پر شد نہ شاید گرفتن بہ بیل
ہماری حکومت نے بہت پہلے اس خطرہ کا احساس کرلیاتھا اورحکومت کے عمّال پر پابندی عائد کردی تھی جو حکومت کے امکان میں تھا لیکن سرکاری افسران کے علاوہ لاکھوں دوسرے سرمایہ دار پاکستانیوں پر اس قسم کی بندش نہیں لگاسکتی ۔خود قوم کے افراد کو اس حل تلاش کرنا پڑے گا اگر انگلستان میں پاکستانیوں پر ظلم ڈھانے کے لیے غیر سرکاری ادارے وجود میں لائے جاسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ملک میں بھی ایسے عوامی ادارے تشکیل نہ دیئے جاسکیں۔یہ تھے وہ محرکات جنہوں نے ناچیز کو ان واقعات کے اظہار پر آمادہ کیا جن پر ابھی تک قوم کے راہنمائوں کی توجہ نہیں پڑی۔
میں جانتا ہوں کہ میری اس جسارت کا پہلا شاخسانہ یہ ہوگا کہ وہ تمام یورپین خواتین مجھ سے یہ درس و تدریس کا سلسلہ منقطع کرلیں گی جو میرا ذریعہ معاش ہے دوسرے یہ کہ یہ خواتین بے پایاں دولت اور اثر و رسوخ کی مالک ہیں حتیٰ کہ ہمارے ملک کی بعض نسوانہ انجمنوں میں اس قسم کی خواتین اسلامی نام رکھے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں یہ فطری بات ہے کہ میری اس تحریک کو ناکامیاب بنانے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گی اور مجھے خاک میں ملانے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑین گی ہم میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دولت کے لالچ میں ملک اور مذہب دونوں کو بیچ ڈالیں اور ایسے علماء بھی موجود ہیں جو چند رو پہلی ٹکلیوں کے عوض ہر قسم کے جھوٹے سچے فتوے دینے میں عار نہیں سمجھتے راقم الحروف کو اس قسم کے حادثات سے سابقہ پڑ چکا ہے ۔
میں نے اپنے قومی فرض کی ادائیگی کے لیے پاکستان میں بسنے والے ایک ہندو بھارتی جاسوس کی سرگرمیاں طشت از بام کی تھیں وہ ہندو خود تو دور رہا چند مسلمانوں کو کرایہ پر خرید کر ان کے توسط سے مجھ پر قیامت توڑنی شروع کی اور مزے کی بات یہ کہ ایک مولوی صاحب جن کی دہلی میں ۳۶ روپے ماہانہ آمدنی تھی اور یہاں آکر دو کروڑ کے مالک ہوگئے تھے ، ان کی سرگرمیاں میں منظرِ عام پر لایا تھا وہ بھی بالواسطہ اور بلا واسطہ اس ہندو کے ساتھ مل کر میرے درپہ آزار ہو گئے کیا تماشہ ہے کہ ایک محب وطن مسلمان کو مٹانے کے لیے ایک عالم دین نے ایک وطن دشمن کافر کے ساتھ اشتراک جائز سمجھا۔ میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے حب الوطنی کے جوش میں جان کی بازی لگادی تھی ۔ اب پھر وہی نقشہ میرے سامنے ہے ۔ میں ان حالات کا انکشاف کرکے ملک کے باثروت طبقۂ اناث کی دشمنی مول لے رہا ہوں یعنی جان بوجھ کر اوکھلی میں سر دے رہاہوں لیکن میں کیا کروں بناتِ پاک کی بھولی بھالی صورتیں میری آنکھوں کے سامنے گردش کررہی ہیں اور میرے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں میں بہ ثباتِ ہوش و عقل انجام کے پورے ادراک کے ساتھ وہ کررہاہوں جو میری حسِ قوم پرستی اور فرضِ دینی کو تسکین دے سکتا ہے لیکن اس کا بے پناہ خمیازہ بھی مجھے بھگتنا پڑے گا۔
ملے حیات کا انعام سر کٹا کے سہی
ہمارے نام سے روشن چراغِ دار تو ہو
پوشیدہ حربہ
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
قارئین آپ نے کبھی غور فرمایا کہ ظہورِ اسلام سے اب تک چودہ سو برس میں لاکھوں عیسائی عورتیں مسلمانوں کے حبالۂ عقد میں آئیں اور آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ان صلیب کی بیٹیوں کی مسلمانوں کے گھروں پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اس کے برعکس کوئی مسلمان عورت شاذ و نادر ہی کسی مسیحی کی زوجیت میں گئی ہوگی (۱)، تو تنہا یہ ناقابلِ انکار حقیقت فی نفسہٖ اس امر پر دلالت کررہی ہے کہ یک طرفہ عورتوں کی یہ پیشکش جو چودہ سو سال سے آج تک نہایت کامیابی کے ساتھ عالمگیر پیمانہ پر چل رہی ہے ۔ ’’کامیابی ‘‘ اپنی ’’فعالیّت ‘‘ کے اعتبار سے بھی اور تاحال ایک ’’ غیر منکشف راز ‘‘رہنے کے اعتبار سے بھی ۔ وہ یقینا کسی گہری سازش اور مضبوط تنظیم کے تحت جاری رہ سکتی تھی ۔ بایں ہَمہ شاید اسے اتفاق پر مبنی قیاس کہا جائے ، اس کا بھی تجزیہ کر دیکھیے۔
۱۹۵۵ء میں جرمنی کے ڈاکٹر جے -ڈبلیو -فیوک Dr.J-W-Fuck نے اپنی کتاب بزبان جرمنی Die Arabischen Studien in Europa میں یہ الفاظ کہے : Auch Europaische madchen welche sich spater mit fuhrenden Orientalen verheiraten werden " یعنی یہ کہ ’’ یورپ کی لڑکیوں کو ایسی تعلیم دی جائے جو آئندہ چل کر ایشیا کے بڑے لوگوں کو اس مقصد کے لیے منسوب کی جائیں ۔‘‘
اب سے سات سو برس پہلے یعنی ۱۲۷۳ء میں جبکہ صلیبی جنگیں مسلمانوں کو ناپید کرنے میں ناکام ہوچکی تھیں اس زمانہ کے مشہور ِ دوراں مسیحی راہب ولیم آف ٹریپولی Williams, Bishop of Tripol نے اپنی لاطینی کتاب Tractus du Saracenorum statu de ( مسلمانوں کے ملک فتح کرنے کا طریقہ ) میں اپنی قوم کو مشورہ دیا تھا کہ ’’ مسلمان بزورِ شمشیر فتح نہ ہوں گے اس مقصد کے لیے دوسرے طریقے استعمال کیے جائیں ۔‘‘ پھر ایسی ہی چیز ایک دوسرے عیسائی پادری پیٹر دی وینریبل Peter the Venerable ( ۱۱۵۷ء -۱۱۹۲ء) نے کہی پھر یہی موضوع ریمنڈلولوس ( ۱۳۱۶ء -۱۲۳۰ء) ایک تیسرے عیسائی عالم نے دہرایا اور پھر بصورت قرارداد ویانا کی مشہور کونسل ۱۳۱۱ء میں یہی چیز پیش ہوئی ۔
اب اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ زمانۂ قدیم سے جو عیسائی حسینائیں مسلمانوں کی زوجیت میں ڈھلی چلی آرہی ہیں وہ عیسائی دنیا کے بہترین دماغوں کے غور وفکر کا نتیجہ اور ایک سوچے سمجھے طویل المیعاد منصوبہ کے تحت ہے ۔
تاریخ پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ ظورِ اسلام سے پہلے کوئی دوسرا مذہب ایسا نہ تھا جو تبلیغی سرگرمیوں میں عیسائی مذہب کا مدّمقابل ہوتا عیسائی مشنریوں کا بلا شرکتِ غیرے اور بلا روک ٹوک دنیا کے پورے تبلیغی میدان پر قبضہ تھا جب اسلام عالم وجود میں آیا تو یہ اجارہ داری ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور نتیجۃً وہ مسلمانوں سے حسد ورقابت رکھنے لگے چنانچہ فوجی ، سیاسی ، نشری ، نفسیاتی ، سازشی کوئی بھی ایسی حکمت عملی نہ تھی جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی بھیڑوں نے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے استعمال نہ کی ہو اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
قیصرِ روم کے ساتھ غزوات ، صلیبی جنگیں ، اسپین میں مسلمانوں کے خون کا سیلاب اوربعد میں ترکی کے خلاف تمام عیسائی دنیا کا اتحاد اور پھر لیپانٹو Lepanto کی بحری جنگ میں ترکی بحری بیڑے کی تباہی ، یہ تو تھیں براہِ راست جنگی کوششیں ۔ زارِ روس کے ساتھ خفیہ معاہدہ کی رُو سے ترکی کے حصہ بخرے ، ہندوئوں کو ملا کر ہندوستان سے اسلامی حکومت کا خاتمہ ، یہودیوں کو سامنے رکھ کر بیت المقدس پر جابرانہ قبضہ ، یہ ہیں سیاسی چالیں۔ اسلام اور شارع اسلام پر اخبارات اور کتب کے ذریعہ رکیک حملے جو ہر روز سامنے آتے رہتے ہیں یہ ہے پروپیگنڈہ محاذ۔ عیسائی دنیا کی اسلام کو ختم کرنے کے لیے یہ تحریکات ہیں جس کا علم عام طور پر لوگوں کو ہے ۔بہت سی ایسی تحریکات بھی ہیں جو منظرِ عام پر نہیں آئیں مثلاً اوائلِ اسلام کے زمانے میں بقول جی -ایف -ہڈسن G-F-Hudson مصنف کتاب Oldest Relation between Chiana & Europe عیسائی دنیا نے ایک گروہ نسطوری راہبوں کا ملک تاتار کو بھیجا تھا کہ وہ انہیں عیسائیت کی تبلیغ کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف اکساکر جنگ پر آمادہ کرے چنانچہ کئی سو برس کے بعد چنگیز خان کے پیشرو تاوانگ خان Ta Wang Khan نے جو ترکوں کے کرائتKiraet قبیلے کا سردار تھا بادشاہ Emanuel I اوّل شاہ یونان کے پاس اپنے سفیر بھیجے تھے اور یہ پیغام بھیجا تھا کہ ’’ میری فوج کے سامنے ۱۳ صلیبیں ہوتی ہیں ہر صلیب کے پیچھے ایک لاکھ پیادہ فوج اور دس ہزار شہسوار ہوتے ہیں میں یہ سب صلیب کے دشمنوں ( مسلمانوں ) کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہوں ۔ ‘‘ یہ واقعہ Encyclopedia of Religions & Ethics کی دسویں جلد میں مذکور ہے ۔
تاوانگ خان کی اس پالیسی پر چنگیز خان اور دوسرے منگول خاقان کار بندرہے ، اور لاکھوں مسلمانوں کو خاک میں ملایا گیا۔ دیکھا آپ نے عیسائیوں کی اس دور رَس پالیسی کا نتیجہ ، اسی قسم کی گہری چالیں تثلیث پرستوں کی اسلام دشمنی کے ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ کولمبس جس کے سر نئی دریافت کرنے کا سہرا ہے اسے اسپین کی اسلام دشمن ملکہ ازابیلا نے اس واسطے سرمایہ لگاکر بھیجا تھا کہ وہ مشرق میں منگول خاقان سے رابطہ قائم کرکے اس سے مسلمانوں پر حملہ کرائے یہ حقیقت John Bartalet Brener نے اپنی کتاب موسومہ بہ The Exlporers of North America میں منکشف کی ہے ۔ایسی صدہا مثالیں دی جاسکتی ہیں جو اس بات کاناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی بھیڑیں روزِ اوّل سے ہمیں اور ہمارے مذہب کو مٹانے پرتلی ہوئی ہیں اور انہوں نے کوئی کسر کوئی دقیقہ اپنی اس کوشش میں جو ان کے لیے بمنزلہ عبادت کے ہے اٹھا نہیں رکھا۔
دوسری طرف عیسائیوں کے لیے مسلمانوں کے طرزِ عمل پر نگاہ ڈالیے انہوں نے شروع سے اپنے قول و عمل سے یہ واضح کیا کہ تمہارا خدا ہمارا خدا ہے ، تمہارے انبیاء ہمارے انبیاء ، تمہارا قبلہ ہمارا قبلہ اور تمہاری کتاب ہماری کتاب ہے ۔ تم اہلِ کتاب ہو حتیٰ کہ ان کے ساتھ شادی بھی جائز قرار دیدی۔ اصحابِ کہف کا واقعہ اسلام سے پہلے کا اسے قرآن میں جگہ ملی۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ وہ عیسائی مذہب کے پیرو تھے ۔ نصرانی قبیلہ طے کے حاتم کو مسلمان ہیرو سمجھا گیا۔ عہدِ عتیق کے شاعرعمرۃ القیس کو باوجود عیسائی ہونے کے وہی مرتبہ دیا جاتا ہے جو کسی مسلمان کو ۔ یہاں تک ہوا کہ بی بی ماریہ قبطیہ کوجو عیسائی فرقہ Jacobite سے تعلق رکھتی تھیں وہ درجہ دیاگیا جو دوسری امّہات المؤمنین کو۔ یہ رسول اکرم ﷺ کی شانِ کریمی تھی کہ اہلِ کتاب سے عملاً یگانگی کا ثبوت پیش کیا اورکوئی غیریت نہ برتی ۔ مسلمانوں کی نیت نیک تھی اس فراخ دلی کا نتیجہ یہ تو ضرور نکلا کہ عیسائیوں کے پورے پورے قبیلے مسلمان ہوگئے ( یہ قول لاہور کے ریورنٹ ڈبلیو-پی-ہیرس Rev W.P.Hares کی تصنیف A History of the Christian Church سے منقول ہے ۔ لیکن عیسائیت کے پرستاروں نے ہمارے اس حسنِ سلوک سے ہمیشہ ناجائز فائدہ اٹھایا اور اب بھی اٹھارہے ہیں۔
منجملہ اور چالوں کے جن کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے صلیب کے عملبرداروں نے اہلِ اسلام کو زک دینے کے لیے ایک نہایت پُرا ثر حربہ تیار کیا جس کی کوئی شکل وصورت نہ تھی لیکن وہ قیامت سامانی میں جدید دور کے ایٹم بم سے زیادہ مہلک ثابت ہوا۔ وہ ایک طریقہ کار تھا جس کی تباہ کاری کے سامنے بڑی سے بڑی جنگی تدبیر گوئے طفل سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی اس لیے کہ جنگی چال کا حیطۂ کار ایک محدود قوت اور وسعت ارضی تک پُر اثر رہتا ہے اور زیرِ نظر نصرانی شاطرانہ چال کا پھیلائو لا متناہی مکان اور زمان پر محیط ہے۔ پہلی صدی ہجری سے لے کر جون ۱۹۶۷ء کے عرب یہودی محاربہ تک مسلمانوں پر جتنی بھی قیامتیں ٹوٹیں ان سب کو وہی ایک تیر بیندھتا چلا گیا۔ اور نہ جانے کب تک اور ہماری بدبختی کا باعث بنارہے اور وہ بے پناہ حربہ یہ ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
صنفِ لطیف کی فطرت کا یہ پہلو اظہر من الشمس ہے کہ وہ جس مسلک اور مذہب سے وابستہ ہو اس پر نہایت پختہ عقیدہ اور شدت کے ساتھ عمل کرتی ہے ادھر مسلمانوں کی آزاد خیالی کہ اہلِ کتاب میں شادی جائز قرار دیدی۔بس پھر کیا تھا ان دونوں اجزا کو مرکب کرکے بہت چابکدستی سے مسیحی دانشوروں نے ایک ایسا زہرِ ہلاہل تلاش کیا جس کا تریاق ناممکن تھا انہوں نے اپنی قوم کو مشورہ دیا کہ اپنی لڑکیاں مسلمانوں سے منسوب کریں اور ان کے ذریعہ ریشہ دوانیوں کا جال بچھا دیں۔ بارھویں صدی سے ۱۹۵۵ء تک عیسائی مدبرین اپنی قوم کو اس نسخہ کے استعمال کی تاکیدکرتے رہے ان چند اقتباسات کے علاوہ جو بیشتر سپردِ قلم کیے گئے نامعلوم اور کتنی جگہ اور کس پیرایے میں عیسائیوں کے بزرگوں نے یہ تلقین انہیں کی ہوگی اور ان کی صاحبزادیوں نے کیسی خوش اسلوبی ، رازداری ، وفاکیشی ، استقلال اور مذہبی جذبہ کے ساتھ جو طبقۂ اناث کی فطرت کا خاص حصہ ہے اس حربہ کو استعمال کیا ہوگا۔ مندرجہ ذیل سطور میں اس کی تھوڑی سی جھلک ہے اس لیے کہ اس موضوع پر مستقل لٹریچرموجود نہیں خال خال کہیں اشارۃً تذکرہ آگیا ہے اس لیے کہ کسی کو کیا معلوم کہ یہ عورتیں گھر کی چاردیواری میں اپنے مسلمان خاوندوں کی حفاظت میں بیٹھی کیا کرتی تھیں ۔ مسلمان مؤرخوں نے اپنے نوشتوں میں صرف اہم واقعات جنگوں وغیرہ کا تذکرہ کیا ، تفصیلات میں نہیں پڑے اور عیسائی مؤرخین اپنے باپ دادا کے بتائے ہوئے راز کو کیوں افشا کرتے ۔ اس لیے تاریخ کا یہ پہلو منظرِ عام پرنہیں آیا مثلاً اندلس کے تقریباً تمام مسلمانوں نے نصرانی عورتوں سے شادیاں کیں لیکن اس کی تفصیل کہیں نہیں ملتی ۔ بایں ہَمہ ایک تاریخی ترتیب سینکڑوں کتابوں کے مطالعے کے بعد پیشِ خدمت ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اُمّ عاصم ( 716 A-C ) Um Asim Egilona
موسیٰ بن نصیر کے صاحبزادے عبدالعزیز نے مفتوحہ اندلس کے مقتول حکمران راڈرک کی بیوہ کو جسے عربوں نے اُمّ عاصم کہہ کرپکارا، اپنے حبالۂ عقد میں لیا۔ اس نے عبد العزیز کو مشورہ دیا کہ تاج بنواکر پہنیں انہوں نے عذر کیا کہ اوّل تو اس کے لیے بیت المال سے روپیہ نہیں لیا جاسکتا اور پھر اسلام میں اس کی ممانعت ہے ۔اُمّ عاصم نے کہا کہ میرے پہلے خاوند کے دیئے ہوئے جواہرات موجود ہیں آپ ان سے تاج بنوالیں اور محل کے اندر اس کے پہننے میں کیا قباحت ہے اس لیے کہ کوئی باہر کا آدمی اسے نہ دیکھ سکے گا۔ چنانچہ تاج بنوالیاگیا ایک روز تاج پہنے عبد العزیز اپنے مکان میں بیٹھے تھے کہ ایک اورنصرانیہ کہ وہ بھی مسلمان سے منسوب تھی ان کے یہاں آئی اس نے اپنے خاوند کو جاکر تاج پہننے کا مشورہ دیا۔ جب اس نے عذر کیا کہ اسلام میں تاج پہننے کی اجازت نہیں تو اس نے عبدالعزیز کے یہاں جو کچھ دیکھا تھا وہ بیان کیا کسی طرح یہ بات لشکر گاہ میں پھوٹ نکلی اور لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ عبد العزیز عیسائی ہوگئے ہیں کیونکہ تاج پہنتے ہیں۔ فوج میں بغاوت ہوئی اور وہ قتل کردیئے گئے ۔ دیکھا آپ نے اس چالاک نصرانیہ نے کس خوش اسلوبی سے اپنے خاوند کا بدلہ لینے کے ساتھ ایک مجاہد مسلمان کو ختم کرایا۔ جو عیسائیت کے لیے مستقل خطرہ تھا۔
خالد القسری کی ماں
خالد القسری ہشام بن عبدالملک کے عہد ۷۳۴ء تا ۷۴۲ء میں بہت با اختیار حاکم تھا ۔ پہلے مکہ کا والی تھا بعد میں عراق کا حاکم اعلیٰ مقرر ہوا اس نے پندرہ سال تک بڑے تزک و احتشام سے حکومت کی۔ اس کی ماں عیسائی تھی اس کے اثر سے اس نے عیسائیوں کے ساتھ بہت مراعات کیں اور بڑے عہدے دیئے ، ماں کو خوش کرنے کے لیے اس نے کوفہ میں ایک گرجا تعمیر کرایا۔ ظاہر ہوا کہ وہ بیٹے کے جوان ہونے اور برسرِ اقتدار آنے کے دور تک عیسائی تھی اور پھر بیٹے کے ایسی ماں کی آغوش میں تربیت پانے کے بعد کیا خیالات اور کردار ہونگے ۔ اس کے پاس بے پناہ دولت تھی اس پر بددیانتی کے الزام میں مقدمہ چلا وہ قید ہوکر قتل کیاگیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ملکہ حُل حُل ( 757 A-C ) Hulal
پہلے اندلسی اموی خلیفہ عبدالرحمان کی بیوی اور خلیفہ ہشام اندلسی کی ماں تھیں۔ کائونٹس سارا والی اشبیلیہ ( 745 A-C ) ( Countess sara of sevite ) پہلے اموی اندلسی خلیفہ عبد الرحمان کی بیوی شاہزادہ ابراہیم اور اسحاق دوبیٹوں کی ماں تھیں۔
میری Marry
عبد الرحمان الناصر الثالث کی ماں ان کا دورِ حکومت ۹۱۳ء ہے۔ لیمپاگی (733 A-C ) ( Lampagie ) ڈیوک آف ایکی ٹین کی لڑکی عثمان ابی نیزہ بربری سردار اسپین کے نکاح میں آئیں۔ عثمان نے عیسائیوں کی شہ پر اسلامی حکومت اسپین سے بغاوت کی ، عبد الرحمان حاکمِ اسپین نے انہیں شکست دی اور وہ مارے گئے ۔
عبد اللہ کی بیوی Wife of Abdullah
عمربن ابی ربیعہ کی ماں تھیں ، ان کے حالات نہیں ملتے بس اتنا معلوم ہے کہ وہ نصرانی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔
سلطانہ صبح الشکنیۃ Sultana Aurora Basque
حکیم دویم خلیفۂ اندلس کی ملکہ ، خلیفہ ہشام دویم اندلسی کی ماں۔ حکومت پر خاوند اور بیٹے کے دور میں پوری طرح حاوی رہیں اہلِ کلیسا کا ملک پر اقتدار رہا۔
المنذر کی بیوی ( 886 A-C ) Wife of Al Manzar
اندلسی سلطان محمد اوّل کے بیٹے المنصور جو بعدہٗ المنذر کہلائے ۔ ابتداً عیسائیوں کی بہت سرکوبی کی اور ان پر قیامت کی طرح ٹوٹے لیکن بعد میں ایک عیسائی عورت سے عقد کرلیا اور یہاں تک اس سے متاثر ہوئے کہ کنواری مریم کے گرجا میں چادر چڑھائی نصرانیوں پر مہربان ہوکر الطاف اور اقتدار سے نوازا۔
ایک رومی سردار کی بیٹی Daughter of a Roman Lord
الف لیلیٰ کے مرکزی کردار خلیفہ ہارون الرشید ۷۷۶ء -۸۰۹ء کی محبوبہ۔ مشہور ہے کہ خلیفہ ہر جگہ اسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔
فلورا ( 850 A-C ) Flora
عبد الرحمان دوم اندلسی کے دورِ حکومت میں ایک مسلمان سے بیاہی ہوئی ایک مسیحی خاتون کی صاحبزادی ۔ ماں نے عیسائیت کی تعلیم دی وہ پادری کے چنگل میں پھنس گئی اس نے اسے مسلمانوں کے خلاف انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کیا گرفتار ہوئی رحم کیاگیا بجائے قتل کے صرف کوڑوں کی سزا دی گئی فرار ہوکر پھر پادری کے پاس پہنچی اور بغاوت پھیلانے کے الزام میں قتل کی گئی ۔
ملکہ زہرا ( 1465-82 A-C ) Isabel de solis ( Zahra )
قشتالیہ کے سردار ال کائیڈ آف بیدمار Castilian Alcayde of Bedmar کی دختر ، ابوالحسن اندلسی کی بیوی تھی تفصیلی حالات پتہ نہیں چلتے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلامیانِ اندلس کے آخری دور میں ابو الحسن وہ تاجدار تھا جس نے ہر چہار جانب سے ہونے والے کلیسا کے حملوں کے سیلاب کا نہ صرف پامردی سے مقابلہ کیا بلکہ انہیں پے در پے شکستیں بھی دیں جب ازابیلا آوف کیسٹائل اور فرڈیسنینڈ شاہ ارغوان کی متحدہ حکومت نے غرناطہ کی اسلامی حکومت سے خراج طلب کیا تو اس شیر مرد ابو الحسن نے یہ جواب دیا کہ ’’ہماری ٹکسال اب سکے نہیں آلاتِ حرب ڈھالتی ہے ۔‘‘ چنانچہ فرڈینسنڈ نے شہر لوشہ پر جو غرناطہ کو جانے والی سڑک پر واقع تھا بارہ ہزار پیادہ اور چار ہزار سوار کی معیت میں یلغار کی اسے ابو الحسن نے بقول Decisive Battle of the World کے مصنف ایسی شکستِ فاش دی کہ جنگِ اندلس کا وہیں آخری فیصلہ ہوگیا ہوتا ، لیکن محلاتی سازشوں نے اس جنگ کا نقشہ بدل دیا تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ابو الحسن امیرِ غرناطہ کی دو بیویاں تھیں ایک مسلمان ملکہ عائشہ اور دوسری ملکہ زہرا۔ زہرا نصرانیہ کے غلبے سے بچنے کے لیے ملکہ عائشہ نے ابو الحسن کو اس کی عدم موجودگی میں معزول کراکے اپنے بیٹے ابو عبد اللہ کو بادشاہ بنوادیا ۔ ابو عبد اللہ بزدل اور ناتجربہ کار تھا اس نے عیسائیوں سے شکستیں کھائیں اور ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گیا۔ انجام کار اسلامی غرناطہ مفتوح ہوکر تاخت و تاراج ہوا اور وہاں مسلمانوں پر عورتوں اور بچوں سمیت وہ مظالم ڈھائے گئے جس کی نظیر روئے زمین پر نہیں ملتی جس جگہ سپین سے باہر نکلتے وقت ابو عبد اللہ نے اپنی کھوئی ہوئی میراث سلطنت پر آخری نگاہ ڈالی اس کا نام آج تک Last sieh of the Moors ’’اندلس کی آخری آہ‘‘ہے۔غرناطہ کی مثال اسپین میں بالکل ایسی ہی ہے جیسے سمندر میں ایک جزیرہ ہر چہارجانب سے یہ چھوٹی سی مملکت عیسائیوں کے ممالک میں محصور تھی جو سب کے سب مسلمانوں کو یہاں سے نکال دینے کو اپنا مذہبی اور قومی فریضہ سمجھتے تھے ۔ انہوں نے کوئی ہتھکنڈہ ’’جنگ اور محبت میں سب جائز ہے ‘‘ کے مصداق اس مقدس فرض کی تکمیل میں اٹھا نہ رکھا ہوگا اور یقینا صنفِ لطیف سے بھی جو ان کا پرانا آزمودہ ہتھیار ہے ضرور کام لیا ہوگا ، متذکرہ الصدر لڑکی فلورا کے سلسلے میں ایک مسلمان کی عیسائی بیوی کا اپنی لڑکی کو اسلام کے خلاف تعلیم اور مسلم حکومت کے خلاف تحریکات میں نمایاں کردارایک مثال ہے کہ مسلمانوں کی عیسائی بیویوں نے مسلمانوں کی حکومت اکھاڑنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہوگا ۔ ڈاکٹر محمد یوسف مصنف کتاب ’’ اندلس تاریخ و ادب ‘‘ نے لکھا ہے کہ ’’ خوبصورت نازک اندام لڑکیوں کو خلافِ اسلام تحریک میں پیش پیش رکھاجاتا تھا۔‘‘اور پھر مسلمانوں کا اسپین سے اخراج عیسائی دنیا کی قومی تحریک بن گئی تھی اس میں صنفِ لطیف کا جذباتی کردار ایساہی تھا جیسا کانگریسی تحریک کے زمانے میں ہندو عورتیں شراب اور سگرٹ کی دُکانوں پر پیکٹنگ اور لاٹھی چاجنگ وغیرہ میں مقدمۃ الجیش کا کام کرتی تھیں یا جیسا خلافت کے زمانے میں مسلمان عورتوں نے جوش کے عالم میں اپنی سب سے عزیز ترین چیز زیورات اتار کر خلافت فنڈ میں پھینک دیئے تھے ایسی ہی صورت ان لاتعداد تثلیث کی پرستار خواتین کی بھی تھی جو اندلسی مسلمانوں کے گھروں میں بیٹھی تھیں حتیٰ کہ فرمانروائے مملکت ابو الحسن کی بھی ایک ملکہ نصرانی نژاد تھی ۔تاریخ اس باب میں خاموش ہے لیکن ملکہ اُمّ عاصم نے جس دور رَس چال سے اپنے خاوند عبد العزیز کو مروایا تھا اس کی روشنی میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس باا قتدار مسیحی عورت ملکہ زہرا نے عیسائی دنیا کی ہَمہ گیرتحریک یعنی اسلامیوں کا اسپین سے اخراج میں کیا نہ کیا ہوگا یہ اسلام کے خلاف دنیائے عیسائیت کی جنگ تھی اور وہ عیسائی تھی اور عورت تھی جو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں جذباتی اور زیادہ سرگرم ہوتی ہیں جان تک سے گریز نہیں کرتی۔ کوئی عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں اپنے بیٹے کو جائیداد یا تخت وتاج کا وارث نہیں بناتی ملکہ عائشہ کا اپنے خاوند کو معزول کراکے اپنے بیٹے کو تخت نشیں بنوانے کا غیر فطری عمل یقینا کسی سازش کا نتیجہ تھا ۔ملکہ زہرا کے پاس اقتدار بھی تھا حکومت کے اندرونی حلقے میں بھی وہ موجود تھی عیسائی ہونے کی وجہ سے عیسائی دنیا سے ساز باز میں بھی اسے آسانی تھی ۔ مذہبی جنون میں دیوانے اور میدان جنگ ہارے ہوئے کلیسائی حکمرانوں نے بھی اس مُہرے کو استعمال کیا ہوگا ۔ بادشاہ کی زوجہ تھی یقینا عقل و خِرد رکھتی ہوگی ۔ وہ سیاسی چال یقینا اسلام دشمن نصرانی ملکہ زہرا ہی سے سرزد ہوسکتی ہے ۔آٹھ سو برس پرانی اندلس کی اسلامی سلطنت کو حرف غلط کرنے اور اسپین سے توحید کے علمبرداروں کا نام و نشان مٹانے میں صلیب کی اس بیٹی کا بہت بڑا ہاتھ معلوم ہوتا ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ملکہ ازابیلا اوّل قشتالیہ ( 1451 1504 A-D )
یوں تو روزِ اوّل سے آٹھ سو برس تک اسپین کے عیسائی حکمران اور عوام مسلمانوں کو یہاں سے نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش میں مصروف رہے لیکن جب ارغوان کے والی شاہ فرڈینسنڈ اور قشتالیہ کی ملکہ ازابیلا کی شادی ہوئی تو یہ دونوں حکومتیں متحد ہوکر ایک زبردست قوت بن گئیں تمام مؤرخین اس امر پر متفق ہیں کہ ملکہ سے زیادہ متعصب عورت شاید ہی کبھی ہوئی ہو اس نے برسراقتدار آتے ہی مسلمانوں کو اندلس سے نکالنے کی تیاریاں شروع کردیں نہ صرف جزیرہ نمائے اسپین میں بلکہ مغرب کی دیگر تمام مسیحی طاقتوں کو مذہب کے نام پر اسلامیانِ اندلس کے قتل میں حصہ لینے کی دعوت دی گئی اور انہوں نے اس صدا پر لبیک کہا ۔ پاپائے روم نے اپنا پورا تقدس اور اقتدار اس تحریک کے کامیاب بنانے میں استعمال کیا۔ اک آگ تھی جس کے شعلے کلیسائی دنیا کے چپہ چپہ سے ابھر رہے تھے اور ایک چھوٹی سی آبادی اندلس کو تو وہ راکھ بنانے کے لیے تیز سے تیز تر کیے جارہے تھے ۔ تاریخ کے ورق پر اس سے زیادہ جانگداز واقعہ کوئی نہیں جس میں زندہ انسان صرف اس واسطے دہکتی آگ میں جھونک دیئے گئے ہوں اور ان کا گوشت کھایا گیا ہو کہ وہ مسلمان تھے ، اس سب قیامت کی روح رواں ازابیلا تھی ، اس کا مقصد صرف اپنی مذہبی دیوانگی کو تسکین دینا تھا۔ جب اسپین میں مسلمان ختم ہوگئے تو اس نے مشہور مہم جو کولمبس کو مغرب کی طرف جہازرانی کے لیے بھیجا تاکہ ہلاکو اور چنگیز کی ذرّیت کو اکسا کر مشرق سے مسلمانوں پر حملہ کرانے کے لیے آمادہ کیا جائے ۔ واضح ہو اکہ صرف اسپین سے مسلمانوں کا اخراج اس عیسائنی کا نصب العین نہیں تھا بلکہ وہ تو یہ چاہتی تھی کہ دین اسلام صفحۂ عالم سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے کولمبس تاتار میں بسنے والے اس مفروضہ ( Saint Prestor John ) ولی پریسٹر جان سے رابطہ قائم کرنے کی نیت سے چلا تھا جسے عیسائی دنیا مدت سے مسیحیت کا مددگار اور مسلمانوں کی سرکوبی کرنے والا سمجھتی تھی ۔ Encyclopedia of Religians & Ethics میں لکھا ہے کہ یہ شخص تاوانگ خان تھا جس کی پیروی اورتتبع میں عہدِ سابق کے منگول حملہ آوروں نے جن میں چنگیز خان اور ہلاکوشامل ہیں وسطِ ایشیا کی تمام مسلمان حکومتوں کو تاخت و تاراج اور ۵/۴ مسلم آبادی بشمول عروس البلاد بغداد خاک میں ملایا تھا۔ لاتعداد کتب موجود ہیں جن میں مرقوم ہے کہ منگولوں کی قیامت میں جو دنیائے اسلام پر ٹوٹی عیسائی عورتوں کا کافی ہاتھ تھا۔ بہر کیف یہ مذہبی جنون تھا جو کولمبس کے شوقِ مہم جوئی کو مہمیز کررہاتھا اور یہی جذبہ تھا جس نے ملکہ ازابیلا کو ایک امید موہوم اور ظاہرانہ ناممکن مہم پر کثیررقم خرچ کرنے پر آمادہ کیاتھا۔ ان کے وہم وگُمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ درمیان میں ایک اور دنیا بھی حائل ہے اس عیسائی عورت کا کردار مسیحی عورتوں کا اسلام کے نام لیوائوں کے خلاف تعصب کی ایک بَیّن مثال پیش کرتا ہے ۔ زمانہ بدل گیا وہ پہلے سے ظاہری تشدد آمیز طریقِ کار بدل گئے لیکن عیسائی عورت کی نفسیات اب بھی وہی ہے ۔ صرف نیام بدلا۔ تلوار وہی ہے اس کا خم وہی ہے دھار وہی ہے کاٹ بھی وہی ہے ۔ آج کی ازابیلا پرانی ازابیلا سے مختلف نہیں صرف اس نے تہذیب و تمدن کا لبادہ اوڑھ لیا ہے مسلمانوں سے کدورت اس کی گھٹی میں پڑی ہے ۔ اللہ محفوظ رکھے ہربلا سے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شیر دل رچرڈ کی بہن
جس وقت تیسری جنگِ صلیبی میں سلطان صلاح الدین ایوبی اور رچرڈ شیردل یروشلم
( بیت المقدس )کے لیے مصروفِ کار زار تھے اس وقت رچرڈ شاہِ انگلستان نے سلطان کے سامنے تجویز پیش کی کہ اس کی بہن ملک العادل سلطان کے بھائی سے منسوب کردی جائے اور بیت المقدس اس کے جہیز کے طور پر دیدیا جائے تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے جنگ کے آخری فیصلے کے تذبذب اور مشکلات کو ترجیحاً پسند کیا لیکن شاہِ انگلستان کے ظاہر آسان اور دل خوش کن دامِ تزویر میں نہ آیا ۔مسلمانوں میں یہ پہلا شخص تھا جو عیسائیوں کے پرانے ہتھکنڈے سے محفوظ رہا ورنہ بیت المقدس گیارہویں صدی ہی میں مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جاتا افسوس کے دوسرے اسلام کے نام لیوائوں نے اس تدبّر سے کام نہ لیا۔
سیر ککتیتی بیگی Syurruktiti Begi 1100 A-D
چنگیز خان منگول کا پیشرو جسے شاہِ چین نے تاوانگ خان کا خطاب دیا تھا ،جس کی اسلام دشمنی کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے ۔عیسائیوں کے نسطوری فرقے کا پیرو اور نہایت کٹّر متعصب تھا متذکرۃ الصدر اس کی بھتیجی تھی ۔عقل و خِرد میں ایسی یکتا کہ اس نے آگے چل کر فاتحین عالم منگولوں کو اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچایا اور اپنے چار لڑکوں کو شہنشاہ بنوایا۔ اس نے چونکہ سخت قسم کے اسلام دشمن ماحول میں پرورش پائی تھی۔ اس لیے خود بھی مسلمانوں سے بغض و عناد رکھتی تھی یہ چنگیز خان کے سب سے چھوٹے بیٹے تلوئی خان کے عقد میں آئی۔ چھوٹا بیٹا ہونے کے سبب یہ شاہزادہ چنگیز خان کا منظورِ نظر تھا اور خود اس کی طبیعت پر سیر ککتیتی بیگی اس کی بیوی حاوی تھی اس طرح مسلمانوں کے قتل و غارتگری میں جسے صرف منگول وحشت و بربریت کہا جاتا ہے اس عیسائی عورت کی عیاریاں کارفرما تھیں جسے وہ اپنے پورے تدبر اور پوشیدہ وسیع اختیارات کے ساتھ اللہ کے پرستاروں کے مٹانے کے لیے صر ف کرتی تھیں۔
 
Top