• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنت خاتم النبیین سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حسن رضی اللہ عنہ کی توہین

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بنت خاتم النبیین سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حسن رضی اللہ عنہ کی توہین
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی توہین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی، حسن و حسین کی ماں، علی کی بیوی، حضرت فاطمہ زہراء (رضی اللہ عنہم اجمعین) کی بھی یہ لوگ بے حد توہین کرتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کی طرف ایسی ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو ایک عام مسلمان اور ایمان والی عورت بھی نہیں کرسکتی۔ چہ جائیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کا ٹکڑا اور جنت کی عورتوں کی سردار سے ایسی باتیں سرزد ہوں،
کہتے ہیں کہ
آپ رضی اللہ عنہا ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی، علی رضی اللہ عنہ سے برہم رہتی تھیں، ان پر اعتراض کرتی رہتی تھیں اور ان کی معمولی معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی شکایت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتی تھیں حتیٰ کہ بقول ان (شیعوں) کے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بھی آپ رضی اللہ عنہا ان پر اعتراض کیا کرتی تھیں اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کیا کرتی تھیں۔
شیعہ کا محدث ابن الفتال نیساپوری 1
--------------------------------------------------------------------------------
یہ محمد بن حسن فتال نیساپوری ہے ''جلیل القدر متکلم، فقیہ، عالم زاہد اور متقی تھا۔ اسے ابو المحاسن عبدالرزاق سردارنیسابور نے قتل کردیا تھا۔'' (رجال الحلی ص ۲۵۹ مطبوعہ: ایران)
پانچویں صدی کے شیعہ شیوخ میں سے ہے ''روضۃ الواعظین'' کا مصنف ہے۔ (تاسیس الشیعہ ص ۳۹۵) ''شیعہ حضرات کا جلیل القدر شیخ ہے۔ مدرس، علم کلام کا ماہر، فقیہ، عالم، قاری،مفسر اور دیندار آدمی تھا۔ امین اور معتمد علماء میں سے تھا۔'' محمد مہدی خراسان کے مقدمہ کتاب ص ۱۱ سے منقول۔ (مطبوعہ قم، ایران)
--------------------------------------------------------------------------------
بیان کرتا ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کے ایک باغ میں پودے لگائے تھے، علی نے اسے بیج ڈالا اور اس کی قیمت لے کر پوری کی پوری مدینہ کے فقیروں اور مسکینوں میں تقسیم کردی اور اپنے پاس ایک درہم بھی نہیں رکھا۔جب آپ گھر آئے تو فاطمہ آپ سے کہنے لگیں: اے میرے چچا کے بیٹے! تو نے وہ باغ بیچ ڈالا جس میں میرے والد نے پودے لگائے تھے؟ آپ نے کہا: ہاں! اس سے بہتر چیز کے بدلے میں، اب بھی نفع بعد میں بھی نفع۔ آپ نے پوچھا قیمت کہاں ہے؟
علی نے کہا: میں نے اسے تقسیم کردیا ہے، فاطمہ کہنے لگیں: میں بھوکی ہوں میرے دونوں بیٹے بھوکے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ آپ بھی ہماری طرح بھوکے ہیں، اور اس میں سے ایک درہم بھی نہیں بچا، آپ نے علی کے کپڑے کا کنارہ پکڑ لیا، علی کہنے لگے: اے فاطمہ! مجھے چھوڑ دے، آپ کہنے لگیں، خدا کی قسم! ہرگز نہیں، میرے اور آپ کے درمیان میرے والد فیصلہ کریں گے، چنانچہ جبرئیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا، اے محمد! اللہ تجھے سلام کہہ رہا ہے اور کہتا ہے کہ علی کو میری طرف سے سلام کہہ دے، اور فاطمہ سے کہہ دے کہ تیرے لیے مناسب نہیں ہے کہ تو علی کے ہاتھ روکے۔'' 1 ''روضۃ الواعظین'' ج ۱ ص ۱۲۵۔
اسی طرح یہ لوگ آپ کی طرف اس جھوٹ کو بھی منسوب کرتے ہیں کہ:
''آپ نے ابوبکر اور عمر کے سامنے فدک کا مسئلہ اٹھایا اور ان کے ساتھ خوب جھگڑا کیا، لوگوں کے بیچ کھڑے ہوکر ان سے گفتگو کی، آپ زور زور سے چیخیں جس کی وجہ سے لوگ آپ کے گرد جمع ہوگئے۔'' 2 ''کتاب سلیم بن قیس'' ص ۲۵۳۔
اور کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ''آپ نے عمر کا گریبان پکڑ لیا اور اسے اپنی طرف کھینچا۔'' 3 ''الکافی فی الاصول''۔
کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ابوبکررضی اللہ عنہ کو دھمکی لگاتے ہوئے کہا تھا کہ :
''اگر تو علی سے نہ رکا تو میں اپنے بال کھول دوں گی اور اپنا گریبان پھاڑ ڈالوں گی۔''4 ''تفسیر العیاشی'' ج ۲ ص ۶۷۔ اسی جیسی روایت ''الروضۃ من الکافی'' ج ۱ ص ۲۳۸ میں بھی موجود ہے۔
کہتے ہیں کہ ''آپ خلفاء کے ساتھ جنگیں اور معرکہ آرائیاں کرتی رہیں جس کے نتیجے میں آپ کا گھر جلا دیا گیا، آپ کی پسلی توڑ دی گئی، آپ کے پیٹ کا بچہ گر گیا۔'' ان بکواسات و خرافات سے خدا کی پناہ... اور کہتے ہیں کہ ''انہی صدمات کی وجہ سے آپ کی موت واقع ہوئی۔'' 5 ''کتاب سلیم بن قیس'' ص ۸۴،۸۵۔
اس کے علاوہ بھی اس جیسی بہت سی باتیں یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔
حسن بن علی رضی اللہ عنہم کی توہین

جس قدر توہین شیعہ حضرات کی طرف سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ، کی گئی ہے، شاید اور کسی کی اتنی توہین و تحقیر نہ کی گئی ہو، آپ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد لوگوں نے آپ کو آپ کے والد کا جانشین اور اپنا امام بنالیا تھا، لیکن آپ کچھ عرصہ ہی خلیفہ رہے کہ ان لوگوں نے آپ کو بھی اسی طرح چھوڑ دیا تھا جس طرح آپ کے والد کو چھوڑ دیا تھا۔ جس طرح علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے عہد شکنی کی تھی اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ سے بھی غداری کی۔
مشہور شیعہ مؤرخ یعقوبی کہتا ہے:
''حسن اپنے والد کے بعد دو ماہ خلیفہ رہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چار ماہ خلیفہ رہے، آپ عبید اللہ بن عباس کے ساتھ بارہ ہزار کا لشکر لے کر معاویہ سے جنگ کرنے کے لیے بڑھے... معاویہ نے عبید اللہ کو ایک لاکھ درہم دیے جس کی وجہ سے آپ کے ساتھیوں میں سے آٹھ ہزار (معاویہ) کے ساتھ ہوگئے، معاویہ حسن کی طرف بڑھا۔ مغیرہ بن شعبہ، عبداللہ بن شعبہ، عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن ام الحکم آپ کے پاس آئے، آپ مدائن کے مقام پر اپنے خیموں میں موجود تھے، اس کے بعد یہ سب حضرات آپ کے پاس سے اٹھ گئے، لوگوں نے سنا کہ یہ حضرات کہہ رہے تھے اللہ نے رسول اللہ کی اولاد کی وجہ سے خون ریزی سے بچالیا، فتنہ تھم گیا، آپ نے صلح کرلی۔ لشکر تتر بتر ہوگیا، کسی نے ان کی بات کی سچائی میں شک نہیں کیا، لوگ حسن پر کود پڑے، مالِ غنیمت لوٹنے لگے، حسن ایک گھوڑے پر سوار ہوکر مظلم سا باط میں چلے گئے، جراح بن سنان اسدی گھات میں بیٹھ گیا، اس نے کدال آپ کی ران میں مار کر آپ کو زخمی کردیا، آپ کی داڑھی پکڑی، اسے کھینچا اور آپ کی گردن موڑ دی۔''
حسن کو مدائن کی طرف لے جایا گیا، آپ خون بہہ جانے کی وجہ سے بہت کمزور ہوگئے تھے اور شدید بیمار ہوگئے تھے، لوگوں نے آپ کو چھوڑ دیا، معاویہ عراق کی طرف بڑھا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا، حسین انتہائی اور شدید بیمار تھے، جب حسن نے دیکھا کہ آپ میں مقابلہ کی قوت نہیں۔ آپ کے ساتھی آپ کو چھوڑ چکے ہیں تو آپ نے معاویہ کی مزاحمت نہ کی، بلکہ معاویہ سے صلح کرلی۔'' 1

یہ لوگ جب یہ بات سنتے ہیں کہ حسن نے معاویہ (رضی اللہ عنہم) سے صلح کرلی تو بے حد شرمندہ ہوتے ہیں۔ پھر ادھر ادھر کی باتیں اور اپنی عقل و فکر کی اختراع کردہ تاویلات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح تو کرلی مگر بیعت نہیں کی۔ آپ کی امارت و خلافت کو تسلیم نہیں کیا۔ ہم خوفِ طوالت کی وجہ سے ان لوگوں کی کتابوں میں سے صرف ایک روایت یہاں نقل کیے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو آدمی بصیرت حاصل کرنا چاہے، اس کے لیے یہی ایک روایت کافی ہے۔ اس روایت کو فن رجال کے بہت بڑے امام ابوعبداللہ جعفر نے بیان کیا ہے، کہتا ہے:
''معاویہ نے حسن بن علی صلوات اللہ علیہما کو لکھا کہ آپ حسین اور علی کے دوسرے ساتھی میرے پاس آئیں، ان کے ساتھ قیس بن سعد بن عبادہ انصاری بھی چل پڑا۔ یہ لوگ شام پہنچے، معاویہ نے انہیں آنے کی اجازت دی۔ اور ان کے لیے خطباء کو تیار کیا۔ کہنے لگا اے حسن! اٹھ اور بیعت کر، آپ اٹھے اور بیعت کرلی، پھر حسین سے کہا: اٹھ اور بیعت کر، پھر کہا: اے قیس! اٹھ اور بیعت کر، میں نے حسین کی طرف دیکھا کہ دیکھوں، وہ کیا حکم دیتے ہیں؟ (حسن رضی اللہ عنہ کی جگہ حسین رضی اللہ عنہ کی طرف کیونکہ معلوم ہے کہ وہ اپنے بھائی کی صلح کے سخت مخالف ہیں) پھر کہا: اے قیس! یہ میرے سامنے ہے، یعنی حسین علیہ السلام ۔ اور ایک روایت میں ہے حسن اُٹھ کر اس کی طرف گئے اور کہا: اے قیس! بیعت کرلے۔ چنانچہ اس نے بیعت کرلی۔''
،2 ''تاریخ الیعقوبی'' ج ۲ ص ۲۱۵۔

شیعہ مورخ مسعودی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ حسن ر ضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے معاہدہ کرنے کے بعد لوگوں سے یوں خطاب کیا:
''اے کوفہ والو! میں نے تمہاری تین خصلتوں کی وجہ سے تمہیں نظر انداز کردیا، میرے والد سے تمہارا لڑنا، میرا سامان چھیننا اور مجھے پیٹ (لالچ) کا طعنہ دینا، میں معاویہ کی بیعت کرچکا ہوں، سنو اور فرمانبرداری کرو!''
اہل کوفہ نے حسن کے شامیانے اور اونٹ کا کجاوہ لوٹ لیا۔ آپ کے پیٹ میں خنجر مارا، جب آپ کو پیش آمدہ واقعات کا پورا یقین ہوگیا تھا تو آپ نے صلح کرلی۔3 ''مروج الذہب'' ج ۲ ص ۴۳۱۔
اس حد تک آپ کی توہین کی کہ:
''آپ کا خیمہ تک آپ سے چھین لیا، حتیٰ کہ آپ کے نیچے سے مصلیٰ بھی لے گئے، پھر عبدالرحمن بن عبداللہ جعال ازدی نے آپ پر حملہ کردیا اور آپ کے کندھوںسے چادر کھینچ لی، آپ بغیر چادر کے تلوار گردن میں لٹکائے بیٹھے رہے۔''1 ''الارشاد'' للمفید ص ۱۹۰۔
بنی اسد کے ایک آدمی جراح بن سنان نے آپ کی ران میں نیزہ مارا جو گوشت کو چیر کر ہڈی تک جا پہنچا... حسن کو بستر پر ڈال کر مدائن پہنچایا گیا... آپ اپنے زخم کا علاج کرتے رہے۔ قبائل کے کچھ سرداروں نے معاویہ کو اپنی خفیہ اطاعت کے متعلق لکھ بھیجا، آپ کو اس پر ابھارا کہ آپ جلدی سے فاصلہ طے کرتے ہوئے ان تک پہنچیں، ان لوگوں نے معاویہ کو یقین دلایا کہ جونہی یہ لوگ آپ کے لشکر کے قریب پہنچیں گے حسن کو ان کے حوالے کردیں گے یا موقعہ پاکر مار ڈالیں گے۔ حسن علیہ السلام کو اس بات کا پتہ چلا... وہ لوگ آپ کو چھوڑ گئے، اس سے آپ کی بصیرت میں اضافہ ہوا۔ آپ نے ان کی نیت کی خرابی بھانپ لی، آپ سمجھ گئے کہ یہ آپ کو گالیاں بکتے اور کافر قرار
دیتے ہیں، آپ کا خون کرنے اور آپ کے مال و دولت لوٹ لینے کو حلال سمجھتے ہیں۔'' 2

''کشف الغمۃ'' ص ۵۴۰، ۵۴۱۔ اس کی روایت یہاں نقل کی گئی ہے ''الارشاد'' ص ۱۹۰ ''الفصول المہمۃ فی معرفۃ احوال الائمۃ'' ص ۱۲۶ مطبوعہ طہران۔

جس طرح یہ لوگ اپنی کرتوتوں اور اپنے ہاتھوں سے آپ رضی اللہ عنہ کی توہین کرتے رہے، اسی طرح اپنی بد زبانیوں سے بھی آپ کی توہین کرتے رہے۔ کشی نے ابو جعفر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:
''حسن علیہ السلام کا ایک ساتھی، جسے سفیان بن ابی لیلیٰ کہا جاتا تھا، اپنی سواری کے جانور پر بیٹھا، حسن کے پاس آیا، حسن اپنے گھر کے صحن میں چھپے بیٹھے تھے، اس نے آپ سے کہا: اے مومنین کو ذلیل کرنے والے، تجھ پر سلامتی ہو! آپ نے کہا، تجھے کیا معلوم ہے؟
اس نے کہا: تو نے امت کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہا اور پھر اپنی گردن سے یہ بار اتار پھینکا اور اس نافرمان امت کے گلے میں ڈال دیا جو خدا کی نازل کردہتعلیمات کے برعکس حکومت چلا رہی ہے۔'' 1 ''رجال الکشی'' ص ۱۰۳۔
پھر حسن نے اسے بتایا کہ آپ کے گروہ اور آپ کے والد کے گروہ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا، کیسی کیسی توہین اور گستاخیاں کی ہیں، آپ نے بلند آواز میں کہا:
''خدا کی قسم! معاویہ میرے حق میں ان لوگوں سے بہتر ہے جو اپنے آپ کو میرا گروہ کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے مجھے قتل کرنا چاہا، میرا مال لوٹ لیا، خدا کی قسم! معاویہ سے معاہدہ کرکے میں نے اپنی جان بچالی، اپنے گھر والوں کو محفوظ کرلیا، یہ اس سے بہتر ہے کہ یہ لوگ مجھے مار ڈالتے اور میرے اہل بیت کو مار ڈالتے، بخدا! اگر میں معاویہ سے جنگ کرتا تو یہ لوگ مجھے گردن سے پکڑ کر اس کے حوالے کردیتے۔ میں نے اس سے مصالحت کرلی، یہ اس سے بہتر ہے کہ یہ لوگ مجھے مار ڈالتے یا مجھے قیدی بنالیتے، اس نے مجھ پر احسان کیا، بنی ہاشم پر احسان کیا، معاویہ اور اس کے بعد آنے والا ہمیشہ ہمارے زندوں اور مردوں پر احسان کرتا رہے گا۔'' 2 ''الاحتجاج'' للطبرسی ص ۱۴۸۔
آپ کی توہین یوں بھی کی کہ آپ کی اولاد اور پشت سے امامت کا سلسلہ منقطع کردیا، بلکہ آپ کی اولاد میں سے اگر کوئی امامت کا دعویٰ کرے تو اس پر اُن لوگوں کی طرف سے کفر کا فتویٰ ہے۔
 
Top