ہدایت اللہ فارس
رکن
- شمولیت
- فروری 21، 2019
- پیغامات
- 53
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 56
ہدایت اللہ فارس
------------------------------------------------------
1/ "ابن " سے الف حذف ہوجاتا ہے، جب بیک وقت یہ چار چیزیں پائی جائیں /یعنی ان چار شروط کا پایا جانا ضروری ہے.
"ابن " سے پہلے علم (اسم) ہو اور اس کے بعد بھی علم ہو
"ابن " اور " علم " کے درمیان فاصلہ نہ ہو بلکہ دونوں متصل ہو
"ابن " صفت واقع ہوا ہو اپنے سے پہلے " اسم" کا
دوسرا "اسم" پہلے والے "اسم " کا حقیقی باپ /والد ہو۔
جیسے: محمد بن عبد اللہ ﷺ
یہاں غور کریں۔ "بن" سے پہلے اور بعد میں علم ہے ، دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں بلکہ متصل ہے، "بن" پہلے اسم کی صفت ہے، اور دنوں علموں کے درمیان حقیقی باپ بیٹے کا رشتہ ہے
2/ اگر " والد " کا نام حذف کرکے ڈائیریکٹ دادا یا پردادا یا اس سے اوپر کی طرف بیٹے کی نسبت کردی جائے تو "ابن" الف کے ساتھ ہوگا جیسے۔ابو العباس شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، ابن قیم ، ابن ہشام۔۔۔ وغیرہم رحمہم اللہ ( اسمیں لائن شرط نہیں ہے خواہ ایک لائن میں ہو یا الگ الگ لائن میں ہو)
البتہ اگر باپ کا نام ایک لائن میں اور بیٹے کا نام دوسرے لائن میں ہو تو وہاں "ابن" الف کے ساتھ ہوگا جیسے : فی مجلس قال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد
ابن اسماعیل
یہاں " محمد" اور " اسماعیل" میں باپ بیٹے کا رشتہ ہے لیکن چونکہ بیٹے کا نام ایک لائن میں اور باپ کا دوسرے لائن میں اس لیے " ابن " دوسرے لائن میں " الف " کے ساتھ ہے ۔
3/ اگر بیٹے کی نسبت "ماں " کی طرف کی جائے تو "ابن" الف کے ساتھ ہوگا جیسے: عیسی ابن مریم.
4/ بیٹے کا نام حذف کردیا جائے اور "ابن" کی اضافت کسی صفت یا اپنے آبا واجداد میں سے کسی کے لقب کے ساتھ کردی جائے تو "ابن" مع الف ہوگا جیسے: یا ابن رسول اللہ ﷺ ، ابن السادہ
(اسی طرح سے اگر "ابن" کی اضافت کسی ضمیر کی طرف ہو تو ایسی صورت میں بھی "ابن" الف کے ساتھ ہوگا)
5/ اگر کلمہ " ابن " وسط کلام میں واقع ہوا ہو اور اس سے پہلے حرف ساکن ہو تو " ابن " وجوبا الف کے ساتھ ہوگا جیسے: رسولنا ابن عبداللہ {ﷺ}
6/ علم اور "ابن " کے درمیان فصل ہو (خواہ ضمیر کی صورت میں ہو یا سطر یا کسی اور چیز کے ذریعہ فصل ہو ) تو " ابن" مع الف کے ہوگا جیسے: محمد ھو ابن مالك
یہاں ایک بات اور یاد رکھیں اگر باپ بیٹے کے رشتے کے باوجود "ابن" میں کہیں "الف" لگا ہو(جیسے ۔ عیسی ابن ہشام) تو وہاں "ھو" محذوف ماننا ہوگا (یعنی ۔عیسی ھو ابن ہشام )
7/ "ابن" کو تثنیہ یا جمع بنائیں تو ایسی صورت میں بھی"ابن " مع الف کے ہوگا ۔ مثلأ: قاسم و ابراہیم ابنا محمد {ﷺ }
8/ اگر "ابن" خبر واقع ہو مثلاً کوئی سوال کرتے ہوئے کہے : محمد ابن من ؟
تو جواب دیتے وقت " ابن " مع الف کے کہا جائے گا یعنی جوابا کہیں گے : محمد ابن علی (اگرچہ رشتہ حقیقی باپ بیٹے کا ہی کیوں نہ ہو)
یہاں "ابن " صفت نہیں بلکہ خبر ہے، کیوں کہ یہ سوال کے جواب میں آیا ہوا ہے۔
اسی طرح سے فلاں ابن فلاں ہوگا فلاں بن فلاں نہیں
#فائدہ : " ابن" سے الف حذف کرنے کے لیے چار شروط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ باپ بیٹے کا رشتہ حقیقی ہو۔(جیسا کہ اوپر بیان ہوا) لہذا اس سے وہ رشتے خارج ہوجائیں گے جو جو حقیقی نہ ہوں مثلاً : کوئی کسی کو منہ بولا بیٹا بنالیا ہو اور لوگ اس کی نسبت حقیقی باپ کی طرف نہ کرکے اسی کی طرف کرنے لگیں (اگرچہ کہ یہ اسلام میں جائز نہیں) تو اس وقت بھی "ابن" سے الف حذف نہیں کرسکتے کیوں کہ یہاں باپ بیٹے کا رشتہ حقیقی نہیں ہے۔
اسی طرح سے اگر کوئی کسی کی نسبت (مزاق کے طور پر یا شرارتا یا زبردستی شیطانی کرتے ہوئے یا کسی اور وجہ سے) اپنے باپ کی طرف نہ کرتے ہوئے کسی دوسرے کی طرف کردے (یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس کا باپ نہیں یا اس کی کوئی اولاد ہی نہیں
جیسا کہ یہودیوں نے عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا تھا، اسی طرح سے نصاریٰ نے عیسی علیہ السلام کو ۔۔العیاذ باللہ
قرآن میں ہے: وَقَالَتِ ٱلۡیَهُودُ عُزَیۡرٌ ٱبۡنُ ٱللَّهِ وَقَالَتِ ٱلنَّصَـٰرَى ٱلۡمَسِیحُ ٱبۡنُ ٱللَّهِۖ ...)
تو ایسی صورت میں بھی"ابن" سے الف حذف نہ ہوگا
اسی طرح سے کوئی کسی کام میں ملازم ہو اور وہ اس کام میں بالکل منہمک ہو تو مجازا اسے اس کام کا بیٹا بول دیا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن میں مسافر کو کہا گیا ہے " وَٱبۡن ٱلسَّبِیلِۗ .."
ایسے ہی پانی میں غوطہ زن شخص کو کہا جاتا ہے " ابن الماء "
ایسی صورت میں بھی "ابن" سے الف حذف نہ ہوگا۔۔
واللہ اعلم بالصواب
------------------------------------------------------
1/ "ابن " سے الف حذف ہوجاتا ہے، جب بیک وقت یہ چار چیزیں پائی جائیں /یعنی ان چار شروط کا پایا جانا ضروری ہے.
"ابن " سے پہلے علم (اسم) ہو اور اس کے بعد بھی علم ہو
"ابن " اور " علم " کے درمیان فاصلہ نہ ہو بلکہ دونوں متصل ہو
"ابن " صفت واقع ہوا ہو اپنے سے پہلے " اسم" کا
دوسرا "اسم" پہلے والے "اسم " کا حقیقی باپ /والد ہو۔
جیسے: محمد بن عبد اللہ ﷺ
یہاں غور کریں۔ "بن" سے پہلے اور بعد میں علم ہے ، دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں بلکہ متصل ہے، "بن" پہلے اسم کی صفت ہے، اور دنوں علموں کے درمیان حقیقی باپ بیٹے کا رشتہ ہے
2/ اگر " والد " کا نام حذف کرکے ڈائیریکٹ دادا یا پردادا یا اس سے اوپر کی طرف بیٹے کی نسبت کردی جائے تو "ابن" الف کے ساتھ ہوگا جیسے۔ابو العباس شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، ابن قیم ، ابن ہشام۔۔۔ وغیرہم رحمہم اللہ ( اسمیں لائن شرط نہیں ہے خواہ ایک لائن میں ہو یا الگ الگ لائن میں ہو)
البتہ اگر باپ کا نام ایک لائن میں اور بیٹے کا نام دوسرے لائن میں ہو تو وہاں "ابن" الف کے ساتھ ہوگا جیسے : فی مجلس قال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد
ابن اسماعیل
یہاں " محمد" اور " اسماعیل" میں باپ بیٹے کا رشتہ ہے لیکن چونکہ بیٹے کا نام ایک لائن میں اور باپ کا دوسرے لائن میں اس لیے " ابن " دوسرے لائن میں " الف " کے ساتھ ہے ۔
3/ اگر بیٹے کی نسبت "ماں " کی طرف کی جائے تو "ابن" الف کے ساتھ ہوگا جیسے: عیسی ابن مریم.
4/ بیٹے کا نام حذف کردیا جائے اور "ابن" کی اضافت کسی صفت یا اپنے آبا واجداد میں سے کسی کے لقب کے ساتھ کردی جائے تو "ابن" مع الف ہوگا جیسے: یا ابن رسول اللہ ﷺ ، ابن السادہ
(اسی طرح سے اگر "ابن" کی اضافت کسی ضمیر کی طرف ہو تو ایسی صورت میں بھی "ابن" الف کے ساتھ ہوگا)
5/ اگر کلمہ " ابن " وسط کلام میں واقع ہوا ہو اور اس سے پہلے حرف ساکن ہو تو " ابن " وجوبا الف کے ساتھ ہوگا جیسے: رسولنا ابن عبداللہ {ﷺ}
6/ علم اور "ابن " کے درمیان فصل ہو (خواہ ضمیر کی صورت میں ہو یا سطر یا کسی اور چیز کے ذریعہ فصل ہو ) تو " ابن" مع الف کے ہوگا جیسے: محمد ھو ابن مالك
یہاں ایک بات اور یاد رکھیں اگر باپ بیٹے کے رشتے کے باوجود "ابن" میں کہیں "الف" لگا ہو(جیسے ۔ عیسی ابن ہشام) تو وہاں "ھو" محذوف ماننا ہوگا (یعنی ۔عیسی ھو ابن ہشام )
7/ "ابن" کو تثنیہ یا جمع بنائیں تو ایسی صورت میں بھی"ابن " مع الف کے ہوگا ۔ مثلأ: قاسم و ابراہیم ابنا محمد {ﷺ }
8/ اگر "ابن" خبر واقع ہو مثلاً کوئی سوال کرتے ہوئے کہے : محمد ابن من ؟
تو جواب دیتے وقت " ابن " مع الف کے کہا جائے گا یعنی جوابا کہیں گے : محمد ابن علی (اگرچہ رشتہ حقیقی باپ بیٹے کا ہی کیوں نہ ہو)
یہاں "ابن " صفت نہیں بلکہ خبر ہے، کیوں کہ یہ سوال کے جواب میں آیا ہوا ہے۔
اسی طرح سے فلاں ابن فلاں ہوگا فلاں بن فلاں نہیں
#فائدہ : " ابن" سے الف حذف کرنے کے لیے چار شروط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ باپ بیٹے کا رشتہ حقیقی ہو۔(جیسا کہ اوپر بیان ہوا) لہذا اس سے وہ رشتے خارج ہوجائیں گے جو جو حقیقی نہ ہوں مثلاً : کوئی کسی کو منہ بولا بیٹا بنالیا ہو اور لوگ اس کی نسبت حقیقی باپ کی طرف نہ کرکے اسی کی طرف کرنے لگیں (اگرچہ کہ یہ اسلام میں جائز نہیں) تو اس وقت بھی "ابن" سے الف حذف نہیں کرسکتے کیوں کہ یہاں باپ بیٹے کا رشتہ حقیقی نہیں ہے۔
اسی طرح سے اگر کوئی کسی کی نسبت (مزاق کے طور پر یا شرارتا یا زبردستی شیطانی کرتے ہوئے یا کسی اور وجہ سے) اپنے باپ کی طرف نہ کرتے ہوئے کسی دوسرے کی طرف کردے (یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس کا باپ نہیں یا اس کی کوئی اولاد ہی نہیں
جیسا کہ یہودیوں نے عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا تھا، اسی طرح سے نصاریٰ نے عیسی علیہ السلام کو ۔۔العیاذ باللہ
قرآن میں ہے: وَقَالَتِ ٱلۡیَهُودُ عُزَیۡرٌ ٱبۡنُ ٱللَّهِ وَقَالَتِ ٱلنَّصَـٰرَى ٱلۡمَسِیحُ ٱبۡنُ ٱللَّهِۖ ...)
تو ایسی صورت میں بھی"ابن" سے الف حذف نہ ہوگا
اسی طرح سے کوئی کسی کام میں ملازم ہو اور وہ اس کام میں بالکل منہمک ہو تو مجازا اسے اس کام کا بیٹا بول دیا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن میں مسافر کو کہا گیا ہے " وَٱبۡن ٱلسَّبِیلِۗ .."
ایسے ہی پانی میں غوطہ زن شخص کو کہا جاتا ہے " ابن الماء "
ایسی صورت میں بھی "ابن" سے الف حذف نہ ہوگا۔۔
واللہ اعلم بالصواب