ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 575
- ری ایکشن اسکور
- 184
- پوائنٹ
- 77
طاغوتوں کے سرغنہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : طواغیت بہت سارے ہیں مگر ان کے سرغنہ پانچ ہیں :
(۱) شیطان جو غیر اﷲ کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے ۔
اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ [یٰس: ۶۰]
اے اولادِ آدم کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ شیطانِ کی عبادت مت کرو یہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
(۲) ظالم حکمران جو اﷲ کے احکام کو بدلتا ہے فیصلے اپنی مرضی اور اپنے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق کرتا ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ آمَنُوْا بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ [النساء : ۶۰]
کیا آپ (ﷺ) نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو بزعم خویش آپ پر نازل کردہ (شریعت) اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی شریعتوں پر ایمان لائے ہیں (مگر ان کا حال یہ ہے کہ) وہ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ انکو حکم کیا گیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کریں ۔
(۳) جو اﷲ کے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کر مخلوق کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلے کرتے ہیں
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اﷲُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ [المائدہ: ۴۴]
جس نے اﷲ کے نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کئے تو وہ لوگ کافر ہیں ۔
شیخ کی مراد اس سے وہ قاضی و جج ہیں جو اﷲ کے احکام کو بدل کر اپنے احکام نافذ کرنے والوں کی مرضی کے فیصلے کرتا ہے ۔
(۴) جو علم غیب کا دعوی کرتا ہے یا اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لئے علم غیب کا قائل ہو ۔
عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَداً [لجن : ۲۶]
(اﷲ) عالم الغیب ہے کسی کو اپنے غیب پر غالب نہیں کرتا۔
(۵) اﷲ کے علاوہ جس کی پرستش کی جائے اور وہ اس پر راضی ہو۔
وَمَنْ یَّقُلْ مِنْہُمْ اِنِّیْ اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِکَ نَجْزَیْہٖ جَہَنَّمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ۔ [انبیاء : ۲۹]
ان میں سے جس نے کہا کہ میں اﷲ کے علاوہ معبود ہوں توایسے شخص کو ہم جہنم کی سزاء دیں گے ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔
[مجموعۃ التوحید ۱/۱۵]
محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ آیت ولا یشرک بعبادة ربہ احداً (اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے) کے بارے میں فرماتے ہیں:
اس آیت کا مطلب اس طرح سمجھنا کہ اس سے مکمل فائدہ حاصل ہو یہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو توحید ربوبیت اور توحید الوھیت میں مکمل تمیز کر سکتا ہو اور اس بارے میں لوگوں کے ان عقائد سے بھی واقف ہو جو وہ طواغیت کے بارے میں رکھتے ہیں اسی طرح وہ ان طواغیت سے بھی باخبر ہو جو اﷲ کی توحید ربوبیت میں خود کو شریک سمجھتے ہیں حالانکہ یہ شرک ایسا ہے جس تک مشرکین عرب بھی نہیں پہنچ سکے تھے اور ایسے شخص سے بھی واقف ہو جو خود تو طاغوت نہیں ہے مگر طاغوت کا تابع ہے اور ایسے شخص سے بھی واقفیت رکھتا ہو جو اپنے دین کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہو اور محمد ﷺ کی شریعت اور نصاری کے دین میں فرق نہیں کرسکتا۔
جو شخص ان تمام باتوں کی معلومات رکھتا ہے وہی دراصل توحید کی حمایت اور شرک کی مذمت والی آیات کا مفہوم و مطلب اچھی طرح سمجھ سکتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سمجھا سکتا ہے۔
[تاریخ نجد، ص : ۵۰۶]