• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بڑے بھیا کی پریشانی از ابوالبیان رفعت سلفی

شمولیت
جون 25، 2014
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
59
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(بڑے بھیا کی پریشانی)
(ابوالبیان رفعتؔ سلفی)
شمالی ہند کے اکثر علاقوں میں مشترکہ خاندانی نظام دورقدیم اور زمانہء جاہلیت سے رائج ہے جہاں ایک باپ کی کئی نسلیں ایک ساتھ اور ایک ہی گھر بار میں زندگی گزارتی ہیں،بالخصوص پسماندہ اور غریب خاندانوں میں تقریباً تمام بڑے بھائیوں کو اپنے والدین اورچھوٹے بھائی بہنوں کے ظلم و ستم کا شکار ہونا پڑتا ہے ،کیونکہ جب تک والدین زندہ ہیں تمام بھائیوں کو ایک ساتھ ایک ہی گراونڈ میں رہناہی پڑے گا،اور جیسے ہی بڑا بھائی تھوڑا بہت کمانے کھانے کی عمر کوپہونچتا ہے ، والد محترم یہ کہہ کر’’بڑے بابو بچپن سے جوانی تک میں نے تم کو پالا پوسا پڑھایا لکھا یا اب تم گھر کی ساری ذمہ داریاں سنبھالو‘‘ اپنی ساری معاشی و اقتصادی ذمہ داریوں سے بالکل کنارہ کش ہوجاتے ، جب تک بڑے بھیا کی شادی نہیں ہوتی وہ اپنی ساری کمائی والدین اور تمام چوٹے بھائیوں اور بہنوں پر لٹاتے رہتے ہیں ،نتیجتاً گھر کے تمام افراد بڑے بھیا کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے اورہر جگہ بڑے بھیا کی فیاضیوں اور حسن سلوک کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں ،
لیکن جیسے بڑے بھیا کی شادی ہوئی اور بھابھی نے گھر میں قدم رکھا ،اس کے چند ہی دنوں کے بعد گھر کے وہی افراد جو ابھی تک بڑے بھیا کے راہوں میں آنکھیں بچھاتے تھے ،ہر موڑ اور ہر گام پر بڑے بھیا کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں ،چند جملے ملاحظہ فرمائیں :
بھابھی کو پاتے ہی بھیا سب کو بھول گئے، اب بھیا بھابھی میں اتنے busyہوگئے کہ ہم لوگوں کی طرف نظر اٹھاکربھی نہیں دیکھتے ،لگتا ہے بھا بھی اچھی نہیں ہیں شاید انہوں نے بھیا پر کچھ جادو وغیرہ کروادیا ہے۔
بڑے بھیا اور بھابھی سے متعلق بدگمانیوں کا یہ دروازہ کھلنے کے بعد پوری زندگی نہیں بند ہوتا۔بعض دفعہ تو اس بے جا بدگمانی کی وجہ سے پورا گھر فتنوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے ،آئے دن ساس بہو اور بھابھی اور نندوں کے درمیان جھگڑے ہوتے رہتے ہیں ،اب ایسی صورت میں بڑے بھیا کے سامنے صرف دوہی راستے نظر آتے ہیں ،یا تو بھا بھی کو گھر چھوڑ کر پردیس بھا گ جائیں ،یا پھر بھابھی کو بھی ساتھ ساتھ پردیس لئے لئے پھریں،اگر گھر چھوڑیں تو بیوی کونوکرانی سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کریں ،اور اگر ساتھ رکھیں تو زندگی بھر کے لئے یہ طعنہ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجائیں کہ :فلاں صاحب کتنے بڑے زن مرید اور اپنے والدین کے کتنے نا فرمان ہو گئے دیکھو نا دلہن پاتے ہی اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو بالکل بھلادیا،اور اپنی دلہن کو لے کر پردیس چلے گئے ۔
ظاہر سی بات ہے جب تک بھیا اکیلے تھے ساری کمائی گھر والوں کو بھیج دیتے تھے ،لیکن اب شادی کے بعد بیوی بچوں کے ساتھ پردیس میں رہنے کی وجہ سے اخراجات کافی بڑھ گئے ،اس کے باوجود گھر والے ذرا بھی نہیں سوچتے کہ اب تو بھیا پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں ،یہی کیا کم ہے کہ بھیا اپنے بال بچوں کو پردیس میں پالنے کے ساتھ ہم لوگوں کا بھی حتی المقدور خیال کرتے ہیں ، اور ابھی بھی آئے دن تھوڑا بہت پیسہ والدین اور بھائی بہنوں کے لئے بھیجتے رہتے ہیں ۔
جب بچوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے اور بڑے بھیا گھر پر بہت زیادہ پیسہ نہیں بھیج پاتے تو گھر کے سارے افراد بڑے بھیا کے خلاف محاذ آرائی کرناشروع کردیتے ہیں ،اور معاملہ یہاں تک پہونچ جاتا ہے کہ اب بڑے بھیا کے سامنے صرف دوہی راستے ہیں یا تو اپنے بال بچوں کو لیکر ہمیشہ کے لئے گھر والوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں ،یا پھر بال بچوں کو گھر پر چھوڑ کر لمبی تنخواہ والی نوکری پر گلف (سعودی ، ابو ظہبی ، کویت یاقطر )چلے جائیں ، اب اگر بڑے بھیا ہوشیار اور اپنے بال بچوں کی مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں تووالدین سے یہ کہہ کر ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاتے کہ ان شاء اللہ اپنی طاقت بھر ہمیشہ اپنے والدین کا خیال کرتا رہوں گا،ایسی صورت میں کچھ دنوں تک مشقت جھیلنے کے بعد بڑے بھیا کے بچے پڑھ لکھ کر بڑے ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ بڑے بھیا کی پریشانیاں دن بدن ختم ہونے لگتی ہیں ، اور کچھ دنوں کے بعد اللہ کے فضل و کرم اور اس کی عنایتوں سے بڑے بھیابالکل خود کفیل ااور معاشی تنگیوں سے بالکل آزاد ہو جاتے ہیں ۔
اور اگر بڑے بھیا بالکل بے حس اور لاوبالی قسم کے ہوتے ہیں تو وہ گھروالوں کو خوش کرنے کے لئے اپنی بیوی اور بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر دو یا ڈھائی سال کے لئے گلف (سعودی ، ابو ظہبی ، کویت یاقطر وغیرہ )کے سفر پر چلے جاتے ہیں ، اور پردیس پہونچنے کے بعد تقریباً اپنی پوری کمائی گھر والوں پر لٹاتے رہتے ہیں ، جس میں سے ان کے بچوں کو اکثر صرف کھانااور کپڑا ہی بقدر ضروت ملتا ہے ،ایک لمبی مدت تک باہری ملکوں میں روزی کمانے کے بعد بڑے بھیا جب وطن عزیز واپس لوٹتے ہیں تو بیوی بالکل بیوہ اور بچے بالکل یتیم اور لاوارث نظر آتے ہیں ،کبھی بیوی غلط ماحول سے متاثر ہوکر غلط راہ اختیار کر لیتی ہے ، اور بچے بالکل بد تہذیب بد دین اور لفنڈو بن جاتے ہیں ۔
اب بڑے بھیا کی جوانی بالکل ڈھل چکی ہے، اور بچے تو بالکل ناکارہ ہو چکے ہیں لیکن چھوٹے بھائی پڑھ لکھ کر ، اچھی اچھی ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں ، بہنوں کی شادیاں بھی ہو چکی ہیں ، ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہئیے کہ گ ھر کے سارے افرادبڑے بھیا کا احسان مانتے اور ان کی قدر و عزت کرتے ،بھیا کے گھر پہونچتے ہیں گھر کے سارے افراد ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں کہ چونکہ اب بڑے بھیا کے بچے بہت زیادہ ہو گئے ، ان کی فیملی کا خرچہ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے ، اس لئے اب بھیا اور ان کے بال بچوں کوبانٹ دینا چاہیئے، اس بات پر سب کا اتفاق ہوجاتا ہے م اور وہ بڑے بھیا جنہوں نے اپنی بچپن سے بڑھاپے تک اپنا سب کچھ اپنے بال بچوں کا خیال کئے بغیراپنی ساری کمائی اپنے والدین اور چھوٹے بھائی بہنوں پر لٹاتے رہے انہیں ان کے بال بچوں سمیت بڑی بے دردی سے گھر باہر نکال دیا جاتا ہے ،
اسلام والدین کو اولاد کے درمیان بھی عدل انصاف کا حکم دیتا ہے ارشاد نبوی ہے’’اتقوااللہ واعدلوا بین اولادکم‘‘(اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو)اولاد کے درمیان عدل و انصاف کی بہت ساری صورتیں ہیں مثلاً بچوں کی تعلیم و تربیت میں عدل و انصاف،بچوں کو کھلانے پلانے میں انصاف،بچوں کے ساتھ سختی نرمی میں عدل و انصاف،بچوں پر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالنے میں عدل و انصاف ۔
اگر کوئی باپ اپنی اولاد میں سے کسی بچے کی تعلیم و تربیت پر زیادہ دھیان دیتا ہے اور کسی پر کوئی توجہ نہیں دیتا تو یہ سراسر ظلم ہے
اسی طرح اگر کوئی اپنی اولاد میں سے کسی خاص بچے پر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالتا ہے اور بقیہ کو بالکل آزاد چھوڑ دیتا ہے تو یہ بھی سراسرظلم ہےاگر کوئی باپ اپنی اولاد میں سے کسی بیٹے کو کوئی تحفہ دیتا ہے اور بقیہ بیٹوں کو بالکل محروم کردیتا ہے تو یہ بھی سراسر ظلم ہے ۔
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے باپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئے اور جاکر عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو بطور عطیہ ایک غلام دیا ہے جو میرا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح عطیہ دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو ! پس میرے باپ واپس آگئے اور وہ دیا ہوا عطیہ (مجھ سے ) واپس لے لیا ،
ایک اور روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے بشیر کی اس کے علاوہ بھی تیری اولاد ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں!آپ نے پوچھا کیا تونے ان سب کو اس کی مثل عطیہ دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا :تب تو مجھے اس پر گواہ مت بنا ‘ اس لئے کہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا [متفق علیہ]
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’والدین کو چاہیئے کہ وہ اولاد کے درمیان عدل و مساوات کا اہتمام کریں ، کسی ایک بچے کے ساتھ ترجیحی سلوک سے دوسرے بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے ، اور بعض دفعہ وہ اس نا انصافی سے تنگ آکر گھر چھوڑ جاتے ہیں ، جس سے وہ خود بھی پریشان ہوتے ہیں ،والدین کے لئے بھی یہ چیز پریشانی کا باعث بنتی ہے ، اور بالآخر خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے [ریاض الصالحین ج ۲ ص :۴۷۰،۴۶۹]
والدین کو چاہیئے کہ جیسے بیٹا بڑا ہوجائے اور معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے اس کی شادی کر کے اس کے لئے الگ مکان کا انتظام کردے اور اگر باپ خود نہیں کر سکتا تو بیٹے کو اس کا م کا پابند بنا دے ۔ تاکہ اسے اپنے بال بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی پرورش و پرداخت میں کوئی الجھن اور دشواری نہ پیش آئے ۔ اسی طرح چھوٹے بڑے تمام بیٹوں کے ساتھ یہی رویہ اپنائے ،۔ ایسا کرنے سے تمام بچے جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی پوری کوشش کریں گے ،اپنی طاقت بھر اپنے والدین کی مد د اور ان کا بھر پور تعاون بھی فرمائیں گے ان شاء اللہ
 
Top