• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بہت بڑا فتنہ اور فساد

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
12718144_949465058455097_4577890284499785097_n.jpg


بسم اللہ الرحمن الرحیم

بہت بڑا فتنہ اور فساد

1967- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابُورَ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْصَارِيُّ، أَخُوفُلَيْحٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنِ ابْنِ وَثِيمَةَ النَّصْرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ >۔

* تخريج: ت/النکاح ۳ (۱۰۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۸۵) (حسن)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے پاس (بہن ، بیٹی کے لئے) کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو ، تو اِس سے (اپنی بہن ، بیٹی) کا نکاح کر دو ، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا

-------------------------

(سنن الترمذي : 1084 (حسن صحيح) ، ،
تخريج مشكاة المصابيح : 3026 (حسن لغيره) ، ،
المعجم الأوسط للطبراني : 7/131 ، ، 1/141 ، ،
سنن ابن ماجه : 1967 (حسن) ، ،
السلسلة الصحيحة : 1022 (حسن لغيره) ، ،
صحيح الجامع : 270 (حسن))
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مجھے ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ کیا سید لڑکی کی کسی غیر سید سے شادی ہو سکتی ہے ؟

شیخ محترم @ابوالحسن علوی

نکاح کے لیے صرف دین میں برابری ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ برابری خاندان، علم، شکل وصورت، مال وغیرہ کی برابری شرعی حکم نہیں ہے اگرچہ عرف کے تحت اسے ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔


امام مالک، ایک روایت کے مطابق امام احمد اور امام ابن تیمیہ ، امام ابن قیم رحمہم اللہ نے نکاح میں صرف دین کی برابری کو شرط قرار دیا ہے جبکہ جمہور فقہاء نے اس کے علاوہ خاندان اور پیشہ وغیرہ کی برابری کو بھی شرط قرار دیا ہے۔ پہلا قول راجح ہے اور اس کے دلیل کے بارے تذکرہ کرتے ہوءے شیخ صالح المنجد ایک مقام پر امام ابن قیم رحمہ اللہ کے ذکر کردہ دلاءل نقل کرتے ہوءے لکھتے ہیں؛

قال الله تعالى : ( يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) الحجرات / 13 ،

اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔
وقال تعالى : ( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ) الحجرات / 10 ،

سوا اس کے نہیں مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
وقال : ( وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ) التوبة /71 ،

مومن مرد اور عورتیں ان میں سے بعض، بعض کے ولی ہیں۔
وقال تعالى : ( فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ) آل عمران/ 195 .

پس اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول کی کہ میں کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مذکر ہو یا مونث۔
وقال صلى الله عليه وسلم : ( لا فضل لعربي على عجمي ، ولا لعجمي على عربي ، ولا لأبيض على أسود ، ولا لأسود على أبيض ، إلا بالتقوى ، الناس من آدم ، وآدم من تراب ) .

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؛ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے مگر تقوی کی بدولت، تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔
وقال صلى الله عليه وسلم : ( إن آل بني فلان ليسوا لي بأولياء ، إن أوليائي المتقون حيث كانوا وأين كانوا ) .

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو فلاں میرے اولیا نہیں ہیں بلکہ میرے اولیا تو وہ ہیں جو متقی ہوں جہاں بھی ہوں اور جیسے بھی ہوں۔
وفي الترمذي عنه صلى الله عليه وسلم : (إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه ، إلا تفعلوه ، تكن فتنة في الأرض وفساد كبير . قالوا : يا رسول الله ! وإن كان فيه ؟ فقال : إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه . ثلاث مرات) .

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا رشتہ آئے کی جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو اور اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فساد اور فتنہ برپا ہو جائے گا۔ صحابہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرچہ اس میں کچھ ہو تو آپ نے تین مرتبہ کہا: جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا رشتہ آئے کی جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔

ہاں! یہ بات درست ہے کہ عرف میں نکاح کے دوران دین کے علاوہ ان چیزوں کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے تا کہ میاں بیوی کے مابین نباہ میں آسانی ہو۔ اگر ایک پی ایچ ڈی یا لیڈی ڈاکٹر خاتون کی شادی کسی میٹرک پاس شخص سے کر دی جائے گی تو نباہ میں مشکلات تو بہت زیادہ ہوں گی۔اسی طرح اگر کسی لکھ پتی کی بیٹی کی شادی کسی بے روزگار شخص سے کر دی جائے گی تو وہ لڑکی اس کے لیے شدید مشکلات پیدا کرے گی۔ اسی طرح اگر کسی سید زادی کی شادی کسی موچی یا حجّام سے کر دی جائے گی تو شاید نباہ مشکل ہو جائے گا لہذا عرف کے اعتبار سے ان چیزوں کا لحاظ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ کوئی شرعی تقاضا نہیں ہے یعنی اگر لڑکی اور لڑکے کے اولیا یا لڑکی اور لڑکا آپس میں شادی پر دلی طور راضی ہوں تو پھر اس قسم کے معیارات کوئی رکاوٹ نہیں ہیں۔

 
Top