مجھے ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ کیا سید لڑکی کی کسی غیر سید سے شادی ہو سکتی ہے ؟
شیخ محترم @ابوالحسن علوی
نکاح کے لیے صرف دین میں برابری ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ برابری خاندان، علم، شکل وصورت، مال وغیرہ کی برابری شرعی حکم نہیں ہے اگرچہ عرف کے تحت اسے ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔
امام مالک، ایک روایت کے مطابق امام احمد اور امام ابن تیمیہ ، امام ابن قیم رحمہم اللہ نے نکاح میں صرف دین کی برابری کو شرط قرار دیا ہے جبکہ جمہور فقہاء نے اس کے علاوہ خاندان اور پیشہ وغیرہ کی برابری کو بھی شرط قرار دیا ہے۔ پہلا قول راجح ہے اور اس کے دلیل کے بارے تذکرہ کرتے ہوءے شیخ صالح المنجد ایک مقام پر امام ابن قیم رحمہ اللہ کے ذکر کردہ دلاءل نقل کرتے ہوءے لکھتے ہیں؛
قال الله تعالى : ( يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) الحجرات / 13 ،
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔
وقال تعالى : ( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ) الحجرات / 10 ،
سوا اس کے نہیں مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
وقال : ( وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ) التوبة /71 ،
مومن مرد اور عورتیں ان میں سے بعض، بعض کے ولی ہیں۔
وقال تعالى : ( فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ) آل عمران/ 195 .
پس اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول کی کہ میں کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مذکر ہو یا مونث۔
وقال صلى الله عليه وسلم : ( لا فضل لعربي على عجمي ، ولا لعجمي على عربي ، ولا لأبيض على أسود ، ولا لأسود على أبيض ، إلا بالتقوى ، الناس من آدم ، وآدم من تراب ) .
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؛ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے مگر تقوی کی بدولت، تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔
وقال صلى الله عليه وسلم : ( إن آل بني فلان ليسوا لي بأولياء ، إن أوليائي المتقون حيث كانوا وأين كانوا ) .
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو فلاں میرے اولیا نہیں ہیں بلکہ میرے اولیا تو وہ ہیں جو متقی ہوں جہاں بھی ہوں اور جیسے بھی ہوں۔
وفي الترمذي عنه صلى الله عليه وسلم : (إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه ، إلا تفعلوه ، تكن فتنة في الأرض وفساد كبير . قالوا : يا رسول الله ! وإن كان فيه ؟ فقال : إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه . ثلاث مرات) .
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا رشتہ آئے کی جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو اور اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فساد اور فتنہ برپا ہو جائے گا۔ صحابہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرچہ اس میں کچھ ہو تو آپ نے تین مرتبہ کہا: جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا رشتہ آئے کی جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔
ہاں! یہ بات درست ہے کہ عرف میں نکاح کے دوران دین کے علاوہ ان چیزوں کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے تا کہ میاں بیوی کے مابین نباہ میں آسانی ہو۔ اگر ایک پی ایچ ڈی یا لیڈی ڈاکٹر خاتون کی شادی کسی میٹرک پاس شخص سے کر دی جائے گی تو نباہ میں مشکلات تو بہت زیادہ ہوں گی۔اسی طرح اگر کسی لکھ پتی کی بیٹی کی شادی کسی بے روزگار شخص سے کر دی جائے گی تو وہ لڑکی اس کے لیے شدید مشکلات پیدا کرے گی۔ اسی طرح اگر کسی سید زادی کی شادی کسی موچی یا حجّام سے کر دی جائے گی تو شاید نباہ مشکل ہو جائے گا لہذا عرف کے اعتبار سے ان چیزوں کا لحاظ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ کوئی شرعی تقاضا نہیں ہے یعنی اگر لڑکی اور لڑکے کے اولیا یا لڑکی اور لڑکا آپس میں شادی پر دلی طور راضی ہوں تو پھر اس قسم کے معیارات کوئی رکاوٹ نہیں ہیں۔