بیان کوضرورتکے وقت سے مؤخر کرنا اور بوقت ضرورت واضح کرنا:
بیان کو مؤخر کرنے کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ اتنی تاخیر کرنا کہ عمل کا وقت آپہنچے۔ ایسا کرنا جائز ہے اور ایسا ہوا بھی ہے۔ معراج کی رات نماز مجمل طور پر فرض کردی گئی تھی اور اس کے بیان کو اگلے دن تک مؤخر رکھا گیا تھا حتی کہ جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے اسے بیان کیا۔ اسی طرح رسول اللہﷺ جانتے تھے کہ غنیمت کے مال میں پانچواں حصہ جو ﴿ وَلِذِي الْقُرْبَى ﴾ [الأنفال:41] قرابت داروں کےلیے تھا،ان قرابت داروں سے مراد علاوہ بنونوفل اور بنی عبد شمس کے صرف بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں اگرچہ عبد مناف کی اولاد ہونے میں سارے برابر تھے۔ تو اس کا بیان اس وقت تک مؤخر رکھا گیا حتی کہ جبیر بن مطعم نوفلی اور عثمان بن عفان عبشمی نے آپ سے اس خمس کا مطالبہ کیا ، تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ” «أنا وبنو المطلب لم نفترق في جاهلية ولا في إسلام» “ میں اور بنو عبدالمطلب ایک ہی ہیں، ہم نہ تو جاہلیت میں الگ ہوئے تھے، نہ ہی اسلام میں۔
اسی طرح نماز، زکاۃ اور حج کے بارے میں آیات ہیں ، جن کی وضاحت سنت نے بعد میں آہستہ آہستہ کی تھی۔ اسی قاعدے پر اللہ رب العالمین کا یہ فرمان گرامی بھی دلالت کرتا ہے: ” ﴿ فَإذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (18) ثُمَّ إنَّ عَلَينَا بَيانَهُ ﴾ [القيامة:19،18] “ تو جب ہم اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں (۱۸) پھر اس کا واضح کردینا ہمارے ذمہ ہے۔(۱۹)
تو ان آیات میں ’ثُمَّ‘ کا لفظ تراخی (تاخیر) کےلیے آیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی دلائل ہیں۔
۲۔ اتنی تاخیر کرنا کہ وقت ِ ضرورت ہی گزر جائے۔ تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس طرح مخاطب کو تکلیف مالایطاق (ایسا حکم دینا جس کی بندہ طاقت نہ رکھے)کا مکلف ٹھہرایا جائے گا جو جائز نہیں ہے۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر