عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
کتاب کا نام
مصنفہ کا نام
ناشر
عورت چھپانے کی چیز ہے اور یہ جس قدر پردہ اور چادر چار دیواری کا اہتمام کرے گی اور پردہ کے متعلق جس شدت سے اسلامی احکام کی پابندی کرے گی ۔اپنی عزت وعصمت کو اتنا ہی محفوظ سمجھے گی ۔اس کی عزت اور شخصی وقار میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔کیونکہ عورت کی عصمت وعفت کے تحفظ کے لیے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے اور جو قوانین وضوابط مقرر کیے ہیں۔اس سے بہترین قوانین کا نفاذ ناممکن ہے ۔پھر ان قوانین وضوابط سے انحراف اور شمع محفل بننے کے شوق سے عورت کی جو تذلیل وتحقیر ہوئی ہے اور بے شرمی وبے حیائی کا جو طوفان بدتمیزی برپا ہوا ہے ۔(الامان والحفیظ)ازل سے ابلیس لعین کی یہی منشا رہی ہے کہ مردوزن کا اختلاط ہو ،جنسی بےراہ روی کے سوتے پھوٹیں اور ہر شخص ضمیر کا مجرم ٹھہرے ۔اس شیطانی وار سے نظریات کمزور پڑتے ،عقائد میں لچک پیدا ہوتی اور مذہبی قوانین میں ترامیم کا بے ہودہ سلسلہ شروع ہوتا یعنی شیطان کی مراد پوری ہو جاتی ہے کہ انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ٹوٹے اور وہ خواہشات کا اسیر ہو کر شیطان کا کارندہ بن جائے۔اسی مناسبت سے شیطان کا سب سے زیادہ زور بےپردگی پر ہے کہ عورت گھر کی زینت بننے کے بجائے شمع محفل اور دل لگی کا سامان بنے۔اس کے لیے نام نہاد دانشور ،مغربیت پسند مفکر اور کتاب وسنت سے نابلد مغرب کے آلہ کار ،مذہبی سکالر اس شیطانی فکر کو ڈوز فراہم کر رہے ہیں۔اور مختلف این جی اوز ،تحریکیں اور جماعتیں حقوق نسواں کی آڑ میں شرم وحیا کی پیکر معصوم وناسمجھ عورت کو بازار کی زینت اور حرص وحوص کی آماجگاہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔زیر نظر مقالہ میں حافظہ عائشہ مدنی نے ان تمام تحریکوں کے محرکات ذکر کر کے کتاب وسنت کے دلائل سے ان کے تدارک کی بہترین کوشش کی ہے ۔اللہ تعالیٰ مؤلفہ کو جزائے خیر دے اور مقالہ ہذا کو دین اسلام سے برگشتہ اور بےپردگی کی دلدادہ خواتین کے لیے باعث ہدایت بنائے ۔آمین(ف۔ر)
اس مقالہ بیسویں صدی میں حقوق نسواں کی تعبیر نو کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
بیسویں صدی میں حقوق نسواں کی تعبیر نو۔مقالہ
مصنفہ کا نام
حافظہ عائشہ مدنی
ناشر
مجلس التحقیق الاسلامی،لاہور
تبصرہ
عورت چھپانے کی چیز ہے اور یہ جس قدر پردہ اور چادر چار دیواری کا اہتمام کرے گی اور پردہ کے متعلق جس شدت سے اسلامی احکام کی پابندی کرے گی ۔اپنی عزت وعصمت کو اتنا ہی محفوظ سمجھے گی ۔اس کی عزت اور شخصی وقار میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔کیونکہ عورت کی عصمت وعفت کے تحفظ کے لیے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے اور جو قوانین وضوابط مقرر کیے ہیں۔اس سے بہترین قوانین کا نفاذ ناممکن ہے ۔پھر ان قوانین وضوابط سے انحراف اور شمع محفل بننے کے شوق سے عورت کی جو تذلیل وتحقیر ہوئی ہے اور بے شرمی وبے حیائی کا جو طوفان بدتمیزی برپا ہوا ہے ۔(الامان والحفیظ)ازل سے ابلیس لعین کی یہی منشا رہی ہے کہ مردوزن کا اختلاط ہو ،جنسی بےراہ روی کے سوتے پھوٹیں اور ہر شخص ضمیر کا مجرم ٹھہرے ۔اس شیطانی وار سے نظریات کمزور پڑتے ،عقائد میں لچک پیدا ہوتی اور مذہبی قوانین میں ترامیم کا بے ہودہ سلسلہ شروع ہوتا یعنی شیطان کی مراد پوری ہو جاتی ہے کہ انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ٹوٹے اور وہ خواہشات کا اسیر ہو کر شیطان کا کارندہ بن جائے۔اسی مناسبت سے شیطان کا سب سے زیادہ زور بےپردگی پر ہے کہ عورت گھر کی زینت بننے کے بجائے شمع محفل اور دل لگی کا سامان بنے۔اس کے لیے نام نہاد دانشور ،مغربیت پسند مفکر اور کتاب وسنت سے نابلد مغرب کے آلہ کار ،مذہبی سکالر اس شیطانی فکر کو ڈوز فراہم کر رہے ہیں۔اور مختلف این جی اوز ،تحریکیں اور جماعتیں حقوق نسواں کی آڑ میں شرم وحیا کی پیکر معصوم وناسمجھ عورت کو بازار کی زینت اور حرص وحوص کی آماجگاہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔زیر نظر مقالہ میں حافظہ عائشہ مدنی نے ان تمام تحریکوں کے محرکات ذکر کر کے کتاب وسنت کے دلائل سے ان کے تدارک کی بہترین کوشش کی ہے ۔اللہ تعالیٰ مؤلفہ کو جزائے خیر دے اور مقالہ ہذا کو دین اسلام سے برگشتہ اور بےپردگی کی دلدادہ خواتین کے لیے باعث ہدایت بنائے ۔آمین(ف۔ر)
اس مقالہ بیسویں صدی میں حقوق نسواں کی تعبیر نو کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
Last edited: