قسم اول: مرفوع روایات
ذخیرہ احادیث میں صرف دو مرفوع روایات ملتی ہیں جن سے بیس رکعات تراویح کی دلیل لی جاتی ہے ، ذیل میں ان دونوں مرفوع روایات کا جائزہ پیش خدمت ہے:
پہلی مرفوع روایت
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ ( فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ ) عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ»[مصنف ابن أبي شيبة: 2/ 164 رقم7692 ، واخرجہ ایضا عبدبن حمید فی ’’المنتخب من المسند‘‘ ص: 218 رقم 653 ، و ابن ابی ثابت فی ’’الجزء الأول والثاني من حديث ابن أبي ثابت، مخطوط‘‘ 1/ 12 ترقیم جوامع الکلم ، و الطبرانی فی ’’المعجم الکبیر‘‘ رقم 11/ 393 رقم 12102 وفی ’’الاوسط‘‘ 1/ 244 رقم 798 و فیہ ایضا 5/ 324 رقم 5440 ، وابن عدی فی ’’الكامل في ضعفاء الرجال‘‘ 1/ 391 و ابوالحسن النعالی فی ’’حدیثہ‘‘ رقم 33 ترقیم جوامع الکلم ، و البیھقی فی ’’السنن الكبرى ‘‘2 / 496 ، و الخطیب فی ’’موضح أوهام الجمع والتفريق ‘‘ 1/ 387 و ’’ تاريخ بغداد‘‘ 13/ 501 ، وابن عبدالبر فی ’’التمهيد لابن عبد البر: 8/ 115، وعمروبن مندہ فی ’’المنتخب من الفوائد‘‘ 2 /265 ، وابوطاھر ابن ابی الصقر فی ’’مشيخة أبي طاهر ابن أبي الصقر‘‘ ص: 86 کلھم من طریق ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان بہ والزیادہ عند ابن عدی و البیھقی اسنادہ موضوع]۔
’’ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان‘‘ پر محدثین کی جرح :
اس روایت کی سند میں ایک راوی ’’ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان‘‘ ہے جس پر محدثین نے سخت جرحین کی ہیں ، قدرے تفصیل ملاحظہ ہو:
امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)نے کہا:
كذب وَالله[العلل ومعرفة الرجال 1/ 287 واسنادہ صحیح]۔
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
ضَعِيفُ الْحَدِيثِ[الطبقات الكبرى لابن سعد: 6/ 384]۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ليس بثقة [تاريخ ابن معين - رواية الدارمي: ص: 242]۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
منكر الحديث [الجرح والتعديل لابن أبي :2/ 115]۔
امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
أبو شيبة إبراهيم بن عثمان ساقط[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 9]۔
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
ضعيف[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 115نے کہا]۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث. سكتوا عنه وتركوا حديثه[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 2/ 115]۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
سكتوا عَنْهُ[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 310]۔
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
ولأبي شيبة أحاديث غير صالحة غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره، وَهو ضعيف على ما بينته [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
إبراهيم بن عثمان هو أبو شيبة الواسطي منكر الحديث[سنن الترمذي ت شاكر 3/ 337]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
إِبْرَاهِيم بن عُثْمَان أَبُو شيبَة مَتْرُوك الحَدِيث كُوفِي [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 12]۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے بھی اسے متروکین مین ذکرکیاہے:
إبراهيم بن عثمان. أبو شيبه قاضي واسط[الضعفاء والمتروكين للدارقطني: ص: 4]۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
تفرد به أبو شيبه إبراهيم بن عثمان العبسي الكوفي وهو ضعيف [السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 496]
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
وليس بالقوي[التمهيد لابن عبد البر: 8/ 115]۔
امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
وإبراهيم متروك الحديث[ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 1/ 548]۔
امام نووي رحمه الله (المتوفى676)نے کہا:
وَأَبُو شَيْبَةَ هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ وَكَانَ قَاضِيَ وَاسِطٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ[شرح النووي على مسلم 1/ 64]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ترك حديثه [الكاشف للذهبي: 1/ 219]۔
امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
وفيه إبراهيم بن عثمان أبو شيبة وهو متروك[مجمع الزوائد للهيثمي: 4/ 180]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
متروك الحديث[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 215]
راوی مذکور کی کسی بھی امام نے توثیق یا تعدیل نہیں کی ہے:
راوی مذکورسے متعلق بہت سے ناقدین کی جرحیں ملتی ہیں لیکن ہم نے اوپر صرف ان جروح کو پیش کیا ہے جو اپنے قائلین سے ثابت ہیں ، ان ناقدین کے برخلاف کسی ایک بھی ناقد سے راوی مذکور کی توثیق سرے سے منقول ہی نہیں ، توثیق تو درکنار اس بدنصیب راوی کی تعدیل بھی کسی امام سے نہیں ملتی ۔
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911)نے کہا:
مَعَ أَنَّ هَذَيْنِ الْإِمَامَيْنِ الْمُطَّلِعَيْنِ الْحَافِظَيْنِ الْمُسْتَوْعِبَيْنِ حَكَيَا فِيهِ مَا حَكَيَا وَلَمْ يَنْقُلَا عَنْ أَحَدٍ أَنَّهُ وَثَّقَهُ وَلَا بِأَدْنَى مَرَاتِبِ التَّعْدِيلِ [الحاوي للفتاوي 1/ 414]۔
لیکن کچھ لوگ مغالطہ دینے کے لئے امام ابن عدی اور یزید بن ہارون کا غیرمتعلق قول پیش کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس راوی کی تعدیل کی گئی ہے اور یہ دیندار راوی ہے ، حالانکہ ان دونوں اماموں نے بھی نہ تو اس راوی کی توثیق کی ہے اورنہ ہی تعدیل ، ذیل میں ان اماموں کے کلام کی وضاحت کی جارہی ہے۔
امام ابن عدی کا قول:
امام ابن عدی سے نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا:
ولأبي شيبة أحاديث(؟)صالحة غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔
عرض ہے کہ:
اولا:
یہ عبارت
’’الکامل‘‘ کے جس نسخہ سے نقل کی گئی ہے اس میں اس عبارت کے اندر ناسخ سے ایک لفظ چھوٹ گیا ہے اوروہ ہے
’’صالحة‘‘سے قبل
’’غیر‘‘ کا لفظ ، یعنی اصل عبارت یوں ہے :
ولأبي شيبة أحاديث غير صالحة غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔
یعنی اس عبارت میں
’’صالحة‘‘سے قبل موجود لفظ
’’غیر‘‘ کی کتابت ایک نسخہ میں ناسخ سے چھوٹ گئی ہے ، اس کی دو دلیلیں ہیں:
پہلی دلیل :
’’الکامل‘‘ کے کئی مخطوطات میں اس مقام پر لفظ ’’غیر‘‘ موجود ہے انہیں میں سے وہ مخطوطہ بھی جو دکتوربشار عواد کے زیر مطالعہ تھا جیساکہ انہوں نے تہذیب الکمال کے حاشیہ میں وضاحت کی ہے ان کے الفاظ آگے آرہے ہیں، اسی طرح تین محققین کی تحقیق سے بیروت سے ’’الکامل‘‘ کا جو نسخہ طبع ہوا ہے اس میں بھی متعلقہ عبارت لفظ ’’غیر‘‘ کے اثبات کے ساتھ ہے اور محققین نے کل گیارہ (١١)مخطوطوں سے اس کتاب کی تحقیق کی ہے لیکن حاشیہ میں اس مقام پر نسخوں کا کوئی اختلاف نہیں بتایا ہے، جس سے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس تمام مخطوطوں میں موجود یہ عبارت لفظ ’’غیر‘‘ کے اثبات ہی کےساتھ تھی ورنہ محققین حاشیہ میں نسخوں کا اختلاف ضرور بتلاتے جیساکہ دیگرمقامات پر انہوں نے نسخوں کے اختلافات کو بتلایاہے، ذیل میں ہم اس محقق نسخہ کا عکس پیش کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
دوسری دلیل:
عبارت کاسیاق وسباق بھی اس لفظ ’’غیر‘‘ کے اثبات پر شاہد ہے۔
غورکریں کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اس روای کی غیرصالح احادیث پیش کی ہیں اس کے بعد کہا کہ مذکورہ غیر صالح احادیث کے علاوہ بھی اس کی مزید غیرصالح احادیث ہیں ، چنانچہ ابن عدی رحمہ اللہ کا پورا کلام یہ ہے:
ولأبي شيبة أحاديث غير صالحة غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔
اس عبارت میں
’’غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره‘‘ پرغورکیجئے ، یعنی امام ابن عدی فرمارہے ہیں کہ اوپر میں نے اس کی جو چند غیرصالح احادیث پیش کی ہیں اس کے علاوہ بھی اس سے غیرصالح احادیث مروی ہیں ۔ یہ سیاق صاف بتلاتا ہے کہ ابن عدی نے راوی مذکور کی جن احادیث کو گنایا ہے اورجن کی طرف اشارہ کیا ہے دونوں کی نوعیت ایک ہی ہے ، مزید یہ کہ اس کے فورا بعد اپنے اس فیصلہ کی یہ علت بھی بتلائی ہے کہ :
وهو ضعيف على ما بينته[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔
یعنی ایسا اس وجہ سے ہے کیونکہ یہ ضعیف راوی ہے۔
دکتور بشار عواد نے بھی مذکورہ دونوں دلائل کی بنیاد پر اپنا یہی موقف پیش کیا ہے کہ اس عبارت میں لفظ ’’غیر‘‘ بھی موجود ہے موصوف تہذیب الکمال کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:
الذي في نسختي المصورة من الكامل لابن عدي : غير صالحة"وهو الاصوب فيما أرى لقول ابن عدي قبل هذا بعد أن أورد لابراهيم جملة من الاحاديث غير الصالحة : ولابي شَيْبَة أحاديث غير صالحة غير ما ذكرت عن الحكم وعن غيره ، وهو ضعيف على ما بينته". والظاهر لنا من المقارنات الكثيرة أن المزي اعتمد رواية أخرى من الكامل لابن عدي غير التي عندي ، لكثرة ما أجد من الاختلاف بين الذي في "الكامل" وبين الذي ينقله المزي عنه ، وهذا ليس من عادته فهو دقيق في النقل في الاغلب الاعم.[حاشیہ رقم٤ :تهذيب الكمال للمزي: 2/ 151]
دکتور بشار کی وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام مزی رحمہ اللہ کے سامنے بھی وہی مخطوطہ تھا جس میں مذکورہ عبارت ادھوری تھی ۔
ثانیا:
اگراس عبارت ’’غیر‘‘ کا اثبات نہ بھی مانیں تب بھی اس عبارت میں راوی مذکور کی نہ تو توثیق ہے اورنہ ہی تعدیل ، اس میں صرف یہ ہے اس کی بعض مرویات صالح ہیں ، بس ۔ اب اگرکسی راوی نے چند درست باتیں نقل کردیں تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ وہ راوی معتبر یا دیندار ہے ، بخاری کی ایک روایت کے مطابق تو شیطان نے بھی آیۃ الکرسی سے متعلق درست بات کہی ، اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق بھی کی لیکن ساتھ میں اسے جھوٹا بھی قرار دیا چنانچہ فرمایا:
أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ[صحيح البخاري: 3/ 101 رقم 2311]۔
معلوم ہوا کہ کذاب لوگ بھی کبھی کبھی صحیح بات بیان کردیتے ہیں لیکن اس سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ ایسی چند روایت بیان کرکے وہ قابل اعتبار ہوگئے ۔
نیز امام ابن عدی رحمہ اللہ مذکورہ کلام کے بعد فورا کہا :
وهو ضعيف على ما بينته[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 392]۔
یہ اس بات کا زبردست ثبوت ہے کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ اسے بہر صورت ضعیف ہی مانتے ہیں ، لہٰذا قائل کی منشا کے خلاف اس کے قول کی تشریح کرنا بہت بڑی خیانت ہے۔
یزید بن ہارون کا قول:
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
يزيد بن هارون ما قضى على الناس رجل يعنى في زمانه أعدل في قضائه منه [تاريخ ابن معين ، رواية الدوري: 3/ 523]۔
عرض ہے کہ یزید کے اس قول میں محض درست فیصلہ کرنے کی بات ہے اور درست فیصلہ کرنے کے کسی کی دینداری قطعا ثابت نہیں ہوتی ، مسلمان تو درکنار کتنے غیرمسلمین ہیں تو درست فیصلے کرتے ہیں تو کیا ان کو دیندار اورمتقی مان لیا جائے ؟
علامہ نذیر احمد املوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عدل فی القضاء تو بعض غیر مسلموں کا بھی ضرب المثل ہے ، نوشیرواں عادل کا نام آپ نے بھی سنا ہوگا ، بقول شیخ سعدی مرحوم:
نوشیرواں نہمرد کہ نام نکو گذاشت (انوار مصابیح : ص ١٨١، ١٨٢)۔
اس کے بعد علامہ رحمہ اللہ نے شریح رضی اللہ عنہ کی مثال پیش کی ہے حالت کفر میں یہ اتنے درست فیصلے کرتے تھے کہ ابوالحکم سے مشہور ہوگئے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے فیصلہ کی تحسین کی لیکن ان کی کنیت تبدیل کردی (ابوداؤد رقم 4955 واسنادہ صحیح)۔
اس کے بعد علامہ رحمہ اللہ آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’سوچنے کی بات ہے کہ جب عدل فی القضاء سے کسی شخص کا مسلمان ہونا لازمی نہیں تو بھلا تدین اور تقوی ،حفظ اور ضبط کا وہ مرتبہ جو قبول روایت کے لئے محدثین کے نزدیک معتبرہے اس کاثبوت صرف اتنی سی شہادت سے کیسے ہوجائے گا‘‘ (انوار مصابیح : ص ١٨١، ١٨٢)۔
یادرہے کہ یزید کے اس کے قول کے ناقل ابن معین رحمہ اللہ بکثرت دینداری کے اعتبارسے بھی رواۃ کو ثقہ کہتے رہتے ہیں اور دوسرے مقام پر انہیں رواۃ کی حفظ و ضبط کے اعتبار سے تضعیف بھی کرتے ہیں لیکن زیر تذکرہ راوی کو ابن معین رحمہ اللہ نے صرف ضعیف کہا اورکسی بھی موقع پر اسے ثقہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوا کہ ابن معین رحمہ اللہ کی نظر میں بھی یزید کے اس قول سے زیرتذکرہ راوی کی دینداری ثابت نہیں ہوتی۔
اس روایت کے مرودو ہونے پر اجماع ہے:
بیس رکعات والی یہ روایت محدثین کے یہاں بالاتفاق مردود یعنی ناقابل قبول ہے البتہ اسے رد کرتے ہوئے کسی نے ضعیف کہا ، کسی نے سخت ضعیف کہا،کسی نے منکر کہا ، کسی نے معلول کہا تو کسی نے موضوع کہا لیکن بہرحال اسے مردود قرار دینے پرتمام کے تمام محدثین متفق ہیں ، ذیل میں ہم چندمحدثین کی تصریحات پیش کرتے ہیں:
حدیث مذکور کی تضعیف کرنے والے محدثین:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
تفرد به أبو شيبه إبراهيم بن عثمان العبسي الكوفي وهو ضعيف [السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 496]
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
و سلم أنه كان يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر إلا أنه حديث يدور على أبي شيبة إبراهيم بن عثمان جد بني أبي شيبة وليس بالقوي[التمهيد لابن عبد البر: 8/ 115]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ومن مناكير أبى شيبة ما روى البغوي، أنبأنا منصور بن أبى مزاحم، أنبأنا أبو شيبة، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة والوتر.[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 48]
امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
عن ابن عباس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر. رواه الطبراني في الكبير والأوسط وفيه أبو شيبة إبراهيم وهو ضعيف.[مجمع الزوائد للهيثمي: 3/ 224]۔
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840):
وَمَدَارُ أَسَانِيدِهِمْ عَلَى إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ أَبِي شَيْبَةَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَمَعَ ضَعْفِهِ مُخَالِفٌ لِمَا رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي صَحِيحِهِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ قَالَتْ: "كَانَتْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ ثَلَاثَ عشرة ركعة منها ركعتي الْفَجْرِ.[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 2/ 384]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وأما ما رواه بن أبي شيبة من حديث بن عباس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر فإسناده ضعيف وقد عارضه حديث عائشة هذا الذي في الصحيحين مع كونها أعلم بحال النبي صلى الله عليه وسلم ليلا من غيرها [فتح الباري لابن حجر: 4/ 254]۔
أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي (المتوفى: 974) نے کہا:
وَأَمَّا مَا وَرَدَ مِنْ طُرُقٍ أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ. وَفِي رِوَايَةٍ زِيَادَةُ (فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ) فَهُوَ شَدِيدُ الضَّعْفِ اشْتَدَّ كَلَامُ الْأَئِمَّةِ فِي أَحَدِ رُوَاتِهِ تَجْرِيحًا وَذَمًّا [الفتاوى الفقهية الكبرى:1/ 194 ]۔
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911):
هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ جِدًّا لَا تَقُومُ بِهِ حُجَّةٌ[الحاوي للفتاوي 1/ 413]۔
حدیث مذکور کی تضعیف کرنے والے حنفی اکابرین:
حنفیوں کے امام زيلعي الحنفی رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
وَهُوَ مَعْلُولٌ، بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ، جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ، وَلَيَّنَهُ ابْنُ عَدِيٍّ فِي "الْكَامِلِ"، ثُمَّ إنَّهُ مُخَالِفٌ لِلْحَدِيثِ الصَّحِيحِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟، قَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ، وَلَا فِي غَيْرِهِ، عَلَى إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً[نصب الراية للزيلعي: 2/ 153]۔
حنفیوں کے علامه عينى الحنفی رحمه الله (المتوفى855) نے کہا:
کذبہ شعبۃ وضعفہ احمد وابن معین والبخاری والنسائی وغیرھم و اورد لہ ابن عدی ھذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ [عمدۃ القاری:ج١١ص١٨٢].
تنبیہ:
یاد رہے کہ مکتبہ شاملہ میں عمدۃ القاری کا جو نسخہ ہے اس میں اتفاق سے وہ صفحات غائب ہیں، جن میں علامہ عینی رحمہ اللہ کا مذکورہ کلام موجود ہے اس لئے ہم ذیل میں عمدۃ القاری کے مطبوعہ نسخہ سے متعلقہ صفحات کا عکس پیش کررہے ہیں:
حنفیوں کے امام ابن الهمام الحنفی (المتوفى861) نے کہا:
وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ.[فتح القدير للكمال ابن الهمام:1/ 467]۔
دیوبندیوں کے علامه أنور شاه رحمه الله (المتوفى1353) کہتے ہیں:
وأما النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فصح عنه ثمان ركعات، وأما عشرون ركعة فهو عنه بسند ضعيف وعلى ضعفه اتفاق[العرف الشذي للكشميري: 2/ 208]۔
یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعات والی روایت صحیح ہے رہی بیس رکعات والی روایت تو وہ ضعیف سند سے منقول ہے اور اس کے ضعف پرسب کا اتفاق ہے۔
ابوالطیب محمدبن عبدالقادر سندی حنفی نے کہا:
ووردعن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر ، رواہ ابن ابی شیبۃ و اسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ ھذا وھو فی الصحیحین فلا تقوم بہ الحجۃ [شرح الترمذی: ج١ ص٤٢٣]۔
مولانا محمدزکریا فضائل اعمال والے کہتے ہیں:
لا شک ان تحدید التراویح فی عشرین رکعۃ لم یثبت مرفوعا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق صحیح علی اصول المحدثین وماورد فیہ من روایۃ ابن عباس فمتکلم فیھا علی اصولھم [اوجزا المسالک ج١ ص٣٩٧]۔
حنفیوں کے علامہ حبیب الرحمان اعظمی کہتے ہیں:
بہرحال ہم کو اتنا تسلیم ہے کہ ابراہیم ضعیف راوی ہے اور اس کی وجہ سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے [رکعات تراویح:ص ٥٩ ، بحوالہ انوار مصابیح :ص١٧٣ ]۔
عبدالشکورلکھنوی نے کہا:
اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے ، اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[علم الفقہ:ص١٩٨]۔
یعنی عبدالشکورصاحب کو اعتراف ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
غلام حبیب دیوبندی لکھتے ہیں:
ولکنھما ضعیفان [ضیاء المصابیح فی مسئلۃ التراویح:ص٥].
موصوف نے یہ بات بیس والی روایت کو دو کتابوں سے نقل کرنے کے بعدلکھا ہے۔
حدیث مذکور صحیح حدیث کے خلاف اوربالاتفاق مردودہے:
بعض لوگ بے بسی میں یہ تو تسلیم کرلیتے ہیں کہ حدیث مذکور ضعیف ہے لیکن پھر کہتے ہیں کہ اسے تلقی بالقبول حاصل ہے اس لئے یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود مقبول ہے ۔
عرض ہے کہ یہ دعوی سراسر جھوٹ ہے کہ اس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس حدیث کو امت نے قبول کرنے بجائے صحیح حدیث کے خلاف بتلاکر رد کردیا ہے ، ملاحظہ ہوں چند حوالے:
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840)نے کہا:
وَمَدَارُ أَسَانِيدِهِمْ عَلَى إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ أَبِي شَيْبَةَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَمَعَ ضَعْفِهِ مُخَالِفٌ لِمَا رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي صَحِيحِهِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ قَالَتْ: "كَانَتْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ ثَلَاثَ عشرة ركعة منها ركعتي الْفَجْرِ.[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 2/ 384]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وأما ما رواه بن أبي شيبة من حديث بن عباس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر فإسناده ضعيف وقد عارضه حديث عائشة هذا الذي في الصحيحين مع كونها أعلم بحال النبي صلى الله عليه وسلم ليلا من غيرها [فتح الباري لابن حجر: 4/ 254]۔
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911)نے کہا:
مَعَ تَصْرِيحِ الْحَافِظَيْنِ الْمَذْكُورَيْنِ نَقْلًا عَنِ الْحُفَّاظِ بِأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِمَّا أُنْكِرَ عَلَيْهِ، وَفِي ذَلِكَ كِفَايَةٌ فِي رَدِّهِ، وَهَذَا أَحَدُ الْوُجُوهِ الْمَرْدُودِ بِهَا.[الحاوي للفتاوي 1/ 414]
حنفیوں کے امام زيلعي الحنفی رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
وَهُوَ مَعْلُولٌ، بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ، جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ، وَلَيَّنَهُ ابْنُ عَدِيٍّ فِي "الْكَامِلِ"، ثُمَّ إنَّهُ مُخَالِفٌ لِلْحَدِيثِ الصَّحِيحِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟، قَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ، وَلَا فِي غَيْرِهِ، عَلَى إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً[نصب الراية للزيلعي: 2/ 153]۔
حنفیوں کے امام ابن الهمام الحنفی (المتوفى861) نے کہا:
وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ.[فتح القدير للكمال ابن الهمام:1/ 467]۔
ابوالطیب محمدبن عبدالقادر سندی حنفی نے کہا:
ووردعن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر ، رواہ ابن ابی شیبۃ و اسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ ھذا وھو فی الصحیحین فلا تقوم بہ الحجۃ [شرح الترمذی: ج١ ص٤٢٣]۔
حدیث مذکور موضوع ہے:
مذکورہ حدیث کے مردود ہونے پر تو اہل علم کا اتفاق ہے لیکن یہ حدیث مرودو ہونے میں کس درجہ کی ہے اس بابت اہل فن کے اقوال مختلف ہیں کسی نے اسے ضعیف کہا تو کسی نے ضعیف جدا کہا تو کسی نے نے معلول کہا تو کسی نے منکر کہا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع کہا اوریہی آخری بات ہی راجح ہے ، کیونکہ اس کی سند میں ’’ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان‘‘ نامی جھوٹا راوی موجود ہے۔
امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)نے کہا:
كذب وَالله[العلل ومعرفة الرجال 1/ 287 واسنادہ صحیح]۔
حنفیوں کے علامه عينى الحنفی رحمه الله (المتوفى855) نے امام شعبہ کی اس جرح کو برضاء ورغبت نقل کرتے ہوئے کہا:
کذبہ شعبۃ وضعفہ احمد وابن معین والبخاری والنسائی وغیرھم و اورد لہ ابن عدی ھذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ [عمدۃ القاری:ج١١ص١٨٢].
امام سیوطی رحمہ اللہ نے بھی امام شعبہ رحمہ اللہ کی اس جرح کو برضاء وتسلیم نقل کرتے ہوئے کہا:
وَمَنْ يُكَذِّبُهُ مِثْلُ شُعْبَةَ فَلَا يُلْتَفَتُ إِلَى حَدِيثِهِ[الحاوي للفتاوي 1/ 414]۔
امام شعبہ رحمہ اللہ کی تکذیب ابراہیم بن عثمان سے متعلق دو شبہات کا ازالہ:
پہلا شبہ:
کہاجاتاہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے ابراہیم بن عثمان کو جو جھوٹا کہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابراہیم بن عثمان نے الحکم سے یہ روایت بیان کی کہ جنگ صفین میں ستر بدری صحابہ نے شرکت کی ، لیکن امام شبعہ رحمہ اللہ نے خود الحکم سے اس موضوع پر مذاکرہ کیا تو الحکم کے ساتھ اس مذکرہ میں خزیمہ بن ثابت کے علاوہ کسی اور کی شرکت معلوم نہ ہوسکی۔ حالانکہ یہ معروف بات ہے کہ جنگ صفین میں متعدد صحابہ نے شرکت کی۔
اسی لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
قلت: سبحان الله، أما شهدها على ! أما شهدها عمار.[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 47]۔
عرض ہے جنگ صفین میں کتنے لوگ شریک تھے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ الحکم نے کتنی تعداد بتلائی ہے ۔
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا أُميَّة بن خَالِد قَالَ قلت لشعبة أَن أَبَا شيبَة حَدثنَا عَن الحكم عَن عبد الرَّحْمَن بن أبي ليلى أَنه قَالَ شهد صفّين من أهل بدر سَبْعُونَ رجلا قَالَ كذب وَالله لقد ذاكرت الحكم ذَاك وَذَكَرْنَاهُ فِي بَيته فَمَا وجدنَا شهد صفّين أحد من أهل بدر غير خُزَيْمَة بن ثَابت [العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله 1/ 287 واسنادہ صحیح]۔
یعنی ابراہیم بن عثمان نے الحکم کے حوالہ سے ستر کی تعداد بتلائی ، لیکن امام شعبہ نے الحکم سے مذاکرہ کیا تو الحکم کو صرف ایک ہی صحابی کے شرکت کی بات معلوم تھی۔
یعنی امام شعبہ رحمہ اللہ نے ابراہیم بن عثمان کو اصحاب صفین کی تعداد نقل کرنے میں جھوٹا نہیں کہا، بلکہ یہ تعداد الحکم کے حوالہ سے نقل کرنے پر جھوٹا کہا کیونکہ الحکم کو اس تعداد کا علم ہی نہیں تھا۔
اس سے ثابت ہوا کہ ابراہم بن عثمان نے الحکم پرجھوٹ بولا۔
رہا امام ذہبی رحمہ اللہ کا اظہار تعجب تو محض الحکم کی معلومات پر ہے ، یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ اس بات حیرت کا اظاہر کررہے ہیں کہ الحکم کو اصحاب صفین میں سے صرف ایک ہی نام کا علم کیسے رہا جبکہ اور لوگ بھی اس میں شرک تھے، یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ کا اظہار تعجب الحکم کی معلومات پر ہے نہ کہ ابراہیم بن عثمان کو جھوٹا کہے جانے پر ، ایسی صورت میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا یہ اظہار تعجب تو ابراہم بن عثمان کے کذاب ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ جس شخص کو صرف ایک صحابی کی شرکت معلوم ہو ، عین اسی شخص سے سترصحابہ کی شرکت نقل کرنا بہت بڑا جھوٹ ہے۔
اگرکوئی کہے کہ مذاکرہ میں الحکم نے یہ تو نہیں کہا کہ میں نے ابراہیم سے یہ تعداد نہیں بیان کی ۔
تو عرض ہے کہ مذکرہ میں الحکم کے سامنے اس بات کا تذکرہ ہی کہاں ہوا کہ ان کے حوالے سے ابراہیم بن عثمان ستر صحابہ کی شرکت بیان کررہاہے، مذاکرہ تو اس بات پر تھا کہ جنگ صفین میں کتنے بدری صحابہ نے شرکت کی ، اور اس مذکرہ میں خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اورنام سامنے نہ آسکا ، تو اسی بات کو امام شعبہ رحمہ اللہ نے دلیل بنایا ہے کہ جب الحکم کو صرف ایک ہی صحابی کا نام معلوم تھا تو انہی کے حوالہ سے ابراہیم بن عثمان نے ستر صحابہ کا نام کیسے بتادیا ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابراہیم بن عثمان نے الحکم پرجھوٹ بولا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : علامہ نذیر احمد الاملوی رحمہ اللہ کی کتاب
انوارالمصابیح ص ١٧٣، ١٧٧۔
دوسرا شبہ:
بعض لوگ کہتے ہیں کذب کا اطلاق غلطی پر بھی ہوتا ہے لہٰذا امام شعبہ نے جو کذب کی بات کہی ہے وہ غلطی کرنے کے معنی میں ہے۔
عرض ہے کہ:
اول: تو یہ دعوی بلادلیل ہے کہ ابراہیم بن عثمان کو کثیرالغلط کے معنی میں کذاب کہا گیا ہے ، کیونکہ مطلقا جب کسی کے کذب کی بات کہی جائے تو حقیقی معنی ہی مراد ہوگا الایہ کہ کوئی قرینہ مل جائے ، اوریہاں کوئی قرینہ نہیں۔
دوم: امام شعبہ رحمہ اللہ کے دیگر اقوال اس بات پرزبردست شاہد ہیں کہ انہوں نے ابراہیم بن عثمان کو حقیقی معنوں میں جھوٹا قرار دیا ہے۔
چنانچہ خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق، أخبرنا جعفر بن محمد بن نصير الخالدي، حدثنا محمد بن عبد الله بن سليمان الحضرمي، حدثنا محمد بن موسى، حدثنا المثنى- هو ابن معاذ- حدثنا أبي قال: كتبت إلى شعبة- وهو ببغداد- أسأله عن أبي شيبة القاضي أروي عنه؟ قال: فكتب إلي: لا ترو عنه فإنه رجل مذموم، وإذا قرأت كتابي فمزقه. [تاريخ بغداد: 6/ 110 واسنادہ صحیح واخرجہ ایضا ابن حبان فی المجروحين:1/ 104 من طریق المثنی بہ]۔
امام شعبہ رحمہ اللہ کے اس قول میں غورکیجئے اس میں امام شعبہ ، ابراہیم کو برا آدمی کہہ رہے ہیں ، غورکریں کہ اگرامام شعبہ کی نظر میں ابراہیم بن عثمان دیندار شخص ہوتا اوراس کے تعلق سے امام شعبہ نے کذب ، غلطی کے معنی میں استعمال کیا ہوتا تو اسے ’’رجل مذموم‘‘ برا آدمی نہ کہتے۔ معلوم ہوا کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے حقیقی معنی میں کذب کا اطلاق کا اطلاق کیا ہے۔
یادرہے کہ کچھ لوگ ابراہیم بن عثمان کے دفاع میں امام ابن عدی اوریزید بن ہارون کا قول بھی پیش کرتے ہیں ، اس کی پوری وضاحت اوپر کی جاچکی ہے۔
معلوم ہوا کہ اس روایت میں موجود ابوشیبہ، ابراہم بن عثمان نامی راوی پرجھوٹ بولنے کی جرح ہے اوراس کا جھوٹ بولنا ثابت بھی ہے لہٰذا اس کی بیان کردہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔