• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیعت یزید سے متعلق عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے ایک قول کی وضاحت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن محمد بن المنكدر ، قال : بلغ ابن عمر أن يزيد بن معاوية بويع له ، قال : إن كان خيرا رضينا ، وإن كان شرا صبرنا.
محمدبن المنکدر کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کرلی گئی ہے تو انہوں نے کہا : اگر یہ باعث خیر ہے تو ہم راضی ہیں اور اگر یہ باعث شر ہے تو ہم صبر کریں گے [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 100 واسنادہ صحیح عنعنہ سفیان مقبولۃ وقدصرح بالسماع عند ابن ابی الدنیا فی الصبر والثواب عليه ص: 114 واسنادہ صحیح]

بعض لوگ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے اس کلام کی یزید کی مذمت پر محمول کرتے ہیں حالانکہ اس میں سرے سے یزید کی مذمت کا کوئی پہلو ہے ہی نہیں ۔
اورغور کرنے کے بات یہ ہے کہ اسی روایت میں اگرعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے شر کے امکان کی بات کہی ہے تو عین اسی روایت میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے خیر کے امکان کی بھی بات کہی ہے ۔پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے اس جملہ کے صرف ایک حصہ کو دیکھا جائے اور دوسرے حصہ کو نظرانداز کردیا جائے؟

دوسری بات یہ کہ اس کلام سے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا اصل مقصود یزیدبن معاویہ کی بیعت پر رضامندی کو بتلانا ہے اور چونکہ بعض لوگ اس بیعت کے ذریعہ اس اندیشے میں تھے کہ کہیں باپ کے بعد بیٹے کے خلیفہ بن جانے سے آگے چل کر یہ اصول نہ بن جائے کہ ہرخلیفہ کے بعد اس کا بیٹا ہی اگلا خلیفہ بنے اس طرح ایک شر شروع ہوجائے تو عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے اس اندیشے کو بیعت نہ کرنے کا جواز نہیں مانا بلکہ یہ کہا کہ اگر ایسا ہوگا تو ہماری ذمہ داری صبر کرنے کی ہے۔
یعنی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا اصل مقصد ان لوگوں کا رد ہے جو محض اندیشوں کی بناپر یزید کی بیعت کرنے میں تردد کے شکار تھے کیونکہ اندیشہ کے ساتھ ساتھ خیر کا بھی امکان تھا اوراندیشے والی بات کوئی قطعی بات نہیں تھی نیز جب امت کی اکثریت نے ایک شخص کو خلیفہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے تو ایسی صورت میں اگر اندیشے والی بات واقع بھی ہوجائے تو بھی ایسے حالات میں اسلام نے صبر کرنے کی تعلیم دی ہے نہ کہ اکثریت کی مخالفت کی ۔
پس جب امت کی اکثریت نے اس بیعت کو قبول کرلیا ہے تو ایک مسلمان کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ اس بیعت میں داخل ہوجائے خواہ یہ بیعت باعث خیر ہو یا باعث شر۔کیونکہ جمہورامت کے اتفاق کے بعد دونوں صورتوں میں ایک مسلمان پریہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جمہور اس امت کے فیصلہ میں شامل ہوجائے اورسبیل المؤمنین سے الگ نہ ہو۔
بالفاظ دیگر یہ کہہ لیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا اصل مقصد یزید کی بیعت کو قابل قبول قرار دینا تھا اور اس کے نتائج کو نظر انداز کرنے کی تعلیم دینا تھا کیونکہ جمہور امت کے اتفاق کے بعد نتیجہ خیر یا شر کی شکل میں کچھ بھی ہو بہر صورت جمہورامت کے ساتھ شامل ہونا ضروری ہے۔

اس کو مثال سے سمجھنے کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: حفظناه من الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أسرعوا بالجنازة، فإن تك صالحة فخير تقدمونها، وإن يك سوى ذلك، فشر تضعونه عن رقابكم»
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کر رہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔[صحيح البخاري 2/ 86 رقم 1315]

اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنازہ کو خیر یا شر نہیں کہا ہے بلکہ اصل تعلیم جنازہ میں جلدی کرنے کی دی ہے اور جنازہ کی نوعیت کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ جنازہ کیسا بھی ہو اچھا ہو یا برا ، وفات کے بعد دونوں صورتوں میں جلدی کرنے میں ہی بھلائی ہے۔
بالکل یہی معاملہ بیعت یزید سے متعلق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے کلام کا بھی ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنے اس کلام میں یزید کی بیعت کو باعث خیر یا باعث شر نہیں کہا ہے بلکہ اس کے نتیجہ کو نظرانداز کرتے ہوئے اصل بیعت کی قبولیت پر زور دیا ہے کہ جمہور امت کے اتفاق کے بعد بیعت قبول کرلینے میں ہی بھلائی ہے کیونکہ اگر یہ باعث خیر ہے تو کوئی بات نہیں اور اگر یہ باعث شر ہے تو بھی بھلائی جمہور امت کے ساتھ رہنے میں ہی ہے ۔
یہ ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس کلام کا اصل مقصود و مدعا، اسے کسی منفی معنی پر محمول کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ لوگ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس کلام کو تو یزید کے خلاف پیش کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جس کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ کلام منقول ہے اسی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ ہی میں وہ بھی بخاری ومسلم کی شرط پرصحیح سند کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے متعلق پوری صراحت منقول ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کروں گا ملاحظہ ہو:

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا ابن علية ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : لما بويع لعلي أتاني فقال : إنك امرؤ محبب في أهل الشام ، وقد استعملتك عليهم ، فسر إليهم ، قال : فذكرت القرابة وذكرت الصهر ، فقلت : أما بعد فوالله لا أبايعك ، قال : فتركني وخرج ، فلما كان بعد ذلك جاء ابن عمر إلى أم كلثوم فسلم عليها وتوجه إلى مكة ۔۔۔
نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: جب علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو علی رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: آپ ایسے شخص ہیں جو اہل شام کی نظر میں محبوب ہیں ، اور میں آپ کو ان پر عامل بناتاہوں لہذا آپ ان کی طرف جائیں ۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے قرابت و رشتہ داری کا ذکر کیا اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم ! میں آپ کی بیعت نہیں کروں گا۔اس کے بعد ابن عمررضی اللہ عنہ ام کلثوم کے پاس آئے انہیں سلام کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔۔۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 133 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]

قارئین بتلائیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اللہ کی قسم کھا کرکہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کروں گا اس کے باوجود بھی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ کا مخالف نہ سمجھا جائے اور یہی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ یزیدبن معاویہ کی بیعت کوقبول کرتے ہوئے کہیں کہ یہ باعث خیر ہے تو ہم راضی ہیں اور باعث شر ہے تو ہم صبر کریں گے ۔تو اس بات کو یزید کی مخالف قرار دیا جائے !
سبط ابن الجوزی متروک و مبتدع نے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس طرزعمل پر امام زہری رحمہ اللہ کا اظہار تعجب نقل کرتے ہوئے کہا:
قال الزہری :والعجب من امتناع عبد الله بن عمر من بيعة أمير المؤمنين فقد بايع يزيد بن معاوية
امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: امیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا رکنا تعجب کی بات ہے جبکہ انہوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت کرلی[تذكرة الخواص لسبط ابن الجوزي: ص: 299]۔

اور روافض نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو اسی وجہ سے ناصبیت کا لقب دے دیا [القول الصراح في البخاري وصحيحه الجامع: ص 170] اور ہمارے سنی بھائیوں نے دوسری انتہاء پر پہونچتے ہوئے انہیں یزید بن معاویہ ہی کا مخالف بنادیا۔

ہمارے نزدیک عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نہ تو علی رضی اللہ عنہ کے مخالف تھے اور نہ ہی یزید کے مخالف تھے بلکہ وہ سیاسی اختلافات سے خود کو دور رکھ کر جمہورامت کے فیصلہ کا انتظار کرتے اور جمہور امت کی طرف سے جو فیصلہ ہوجاتا اسے قبول کرکے اسی پر جم جاتے تھے۔

یادرہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے یزید کی باقاعدہ بیعت کی تھی اور آپ اس بیعت کو کتاب وسنت کے موافق بتلاتے تھے اور دوسروں کی بھی اس بیعت پر باقی رہنے کا حکم دیتے اور مخالفت کی شدید مذمت کرتے [صحيح البخاري 9/ 57 رقم 7111]۔
 
شمولیت
نومبر 13، 2014
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
آپ اھل حدیث حضرات اہل بیت ع کی دشمنی میں انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔یزید جو کہ زانی بالمحارم تھا ،شارب الخمر تھا ،اور قاتل سبط نبی اللہ تھا ۔اسکی وکالت کرتے ہوئے ذرا بھی قیامت میں پیغمبراکرم ﷺ کے سامنے شرمندگی کا خوف نہیں ہے؟حدیث و روایات تو ہم بھی پڑھتے ہیں۔سنی ،شیعہ سب حتی مجدد الف ثانی جیسے ناصبی نے بھی یزید کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیا ہے۔لیکن آپ لوگ جھوٹی معاویہ کے گھڑے ہوئے ھزاروں روایات کا سہارا لے کر پیغمبرﷺ علی ع و فاطمہ الزھراء مظلومہ ،شھیدہ ،مغصوبۃ حقھا کے دل جلاتے ہیں۔یاد رکھو روز محشر شفاعت آل محمدﷺ کے پاس ہوگی نہ آل سفیان کے پاس۔یہ اتمام حجت ہے آپ پر۔۔والسلام علی من التبع الھدی۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
حدیث و روایات تو ہم بھی پڑھتے ہیں۔سنی ،شیعہ سب حتی مجدد الف ثانی جیسے ناصبی نے بھی یزید کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیا ہے۔
یہاں سنی شیعہ سے آپکی مراد اگر پاکستان میں مشہور سنی (بریلوی) اور یہاں کا شیعہ مراد ہے تو واقعی آپ کی بات درست ہے کہ وہ سب ایسا ہی کہتے ہیں مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ آپ سمجھا اہل حدیث کو رہے ہیں اور قول انکا دکھا رہے ہیں جن کو یہ خود مشرک سمجھتے ہیں اور انکے پیچھے نہ نماز پڑھتے ہیں نہ انسے شادیاں کرتے ہیں یہ تو لطیفہ ہی ہو گیا کہ جیسے کوئی مرزائی کہے کہ سارے مرزائی خلام احمد کو نبی مانتے ہیں آپ کیوں نہیں مانتے
البتہ اگر یہاں سنی سے آپکی مراد اہل سنت کے امام و محدثین ہیں اور شیعہ سے مراد ابتدائی دور کے شیعہ ہیں جن سے روایات شرائط کے ساتھ سنیوں نے بھی لی ہیں تو وہ سب اس پر متفق نہیں اور یہی ہمارے شیخ دلائل سے سمجھا رہے ہیں کہ جمہور صحابہ اور محدثین کا موقف آپکی بات کے خلاف تھا
ہاں ہمارے محترم شیخ نے دلائل کا جو معیار بنایا ہے اس پر اعتراض ہے اور آپ کوئی نیا سکیل بنانا چاہتے ہیں مثلا روایت صرف معصوم اماموں کی قبول ہو گی اور صحابہ کی قبول نہیں ہو گی تو پہلے اس پر بات کر لیں بغیر دلیل ایک بات کو رد کرنا تو میں نہ مانوں والی بات ہو گی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ اھل حدیث حضرات اہل بیت ع کی دشمنی میں انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔یزید جو کہ زانی بالمحارم تھا ،شارب الخمر تھا ،اور قاتل سبط نبی اللہ تھا ۔اسکی وکالت کرتے ہوئے ذرا بھی قیامت میں پیغمبراکرم ﷺ کے سامنے شرمندگی کا خوف نہیں ہے؟حدیث و روایات تو ہم بھی پڑھتے ہیں۔سنی ،شیعہ سب حتی مجدد الف ثانی جیسے ناصبی نے بھی یزید کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیا ہے۔لیکن آپ لوگ جھوٹی معاویہ کے گھڑے ہوئے ھزاروں روایات کا سہارا لے کر پیغمبرﷺ علی ع و فاطمہ الزھراء مظلومہ ،شھیدہ ،مغصوبۃ حقھا کے دل جلاتے ہیں۔یاد رکھو روز محشر شفاعت آل محمدﷺ کے پاس ہوگی نہ آل سفیان کے پاس۔یہ اتمام حجت ہے آپ پر۔۔والسلام علی من التبع الھدی۔
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:وقد رواه أبو الحسن على بن محمد بن عبد الله بن أبى سيف المدائنى عن صخر بن جويرية عن نافع ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولما رجع أهل المدينة من عند يزيد مشى عبد الله بن مطيع وأصحابه إلى محمد بن الحنفية فأرادوه على خلع يزيد فأبى عليهم فقال ابن مطيع إن يزيد يشرب الخمر ويترك الصلاة ويتعدى حكم الكتاب فقال لهم ما رأيت منه ما تذكرون وقد حضرته وأقمت عنده فرأيته مواضبا على الصلاة متحريا للخير يسأل عن الفقه ملازما للسنة قالوا فان ذلك كان منه تصنعا لك فقال وما الذى خاف منى أو رجا حتى يظهر إلى الخشوع أفأطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر فلئن كان أطلعكم على ذلك إنكم لشركاؤه وإن لم يطلعكم فما يحل لكم أن تشهدوا بما لم تعلموا قالوا إنه عندنا لحق وإن لم يكن رأيناه فقال لهم أبى الله ذلك على أهل الشهادة فقال : ’’ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ‘‘ ولست من أمركم فى شىء قالوا فلعلك تكره أن يتولى الأمر غيرك فنحن نوليك أمرنا قال ما أستحل القتال على ما تريدوننى عليه تابعا ولا متبوعا قالوا فقد قاتلت مع أبيك قال جيئونى بمثل أبى أقاتل على مثل ما قاتل عليه فقالوا فمر ابنيك أبا القاسم والقاسم بالقتال معنا قال لو أمرتهما قاتلت قالوا فقم معنا مقاما تحض الناس فيه على القتال قال سبحان الله آمر الناس بما لا أفعله ولا أرضاه إذا ما نصحت لله فى عباده قالوا إذا نكرهك قال إذا آمر الناس بتقوى الله ولا يرضون المخلوق بسخط الخالق (البداية والنهاية: 8/ 233 )

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:وَزَادَ فِيهِ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ: فَمَشَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ وَأَصْحَابُهُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، فَأَرَادُوهُ عَلَى خَلْعِ يَزِيدَ، فَأَبَى، وَقَالَ ابْنُ مُطِيعٍ: إِنَّ يَزِيدَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَيَتْرُكُ الصَّلاةَ، وَيَتَعَدَّى حُكْمَ الْكِتَابِ، قَالَ:مَا رَأَيْتُ مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا لِلصَّلاةِ، مُتَحَرِيًّا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274]

جب اہل مدینہ یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اوران کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اوریہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمد بن حنفیہ (حضرت علی رضی الله عنہ کے فرزند) نے ان کی اس بات سے انکار کردیا ، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزیدشراب پیتاہے ، نماز یں چھوڑتا ہے کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیساتم کہہ رہے ہو ، جبکہ میں اس کے پاس جاچکا ہوں اوراس کے ساتھ قیام کرچکاہوں ، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیرکا متلاشی ، علم دین کاطالب ، اورسنت کا ہمیشہ پاسدار پایا ۔ تولوگوں نے کہاکہ یزید ایسا آپ کو دکھانے کے لئے کررہاتھا ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کیا خوف تھا یا مجھ سے کیا چاہتاتھا کہ اسے میرے سامنے نیکی ظاہرکرنے کی ضرورت پیش آتی؟؟ کیا تم لوگ شراب پینے کی جوبات کرتے ہو اس بات سے خود یزید نے تمہیں آگاہ کیا ؟ اگرایسا ہے تو تم سب بھی اس کے گناہ میں شریک ہو ، اوراگر خود یزید نے تمہیں یہ سب نہیں بتایا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کہ ایسی بات کی گواہی دو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ۔ لوگوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہےا گرچہ ہم نے نہیں دیکھا ہے ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اللہ تعالی اس طرح کی گواہی تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ''جو حق بات کی گواہی دیں اورانہیں اس کا علم بھی ہو'' ، لہذا میں تمہاری ان سرگرمیوں میں کوئی شرکت نہیں کرسکتا ، تو انہوں نے کہا کہ شاید آپ یہ ناپسندکرتے ہیں کہ آپ کے علاوہ کوئی اورامیر بن جائے توہم آپ ہی کو اپنا امیربناتے ہیں ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: تم جس چیز پرقتال کررہے ہو میں تو اس کوسرے سے جائز ہی نہیں سمجھتا: مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے ، لوگوں نے کہا: آپ تو اپنے والد کے ساتھ لڑائی لڑچکے ہیں؟ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ پھر میرے والد جیسا شخص اورانہوں نے جن کے ساتھ جنگ کی ہے ایسے لوگ لیکر تو آؤ ! وہ کہنے لگے آپ اپنے صاحبزادوں قاسم اور اورابوالقاسم ہی کو ہمارے ساتھ لڑائی کی اجازت دے دیں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: میں اگران کو اس طرح کا حکم دوں تو خود نہ تمہارے ساتھ شریک ہوجاؤں ۔ لوگوں نے کہا : اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کرلوگوں کو لڑالی پر تیار کریں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: سبحان اللہ ! جس بات کو میں خود ناپسندکرتاہوں اوراس سے مجتنب ہوں ، لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملوں میں اس کے بندوں کا خیرخواہ نہیں بدخواہ ہوں ۔ وہ کہنے لگے پھر ہم آپ کو مجبورکریں گے ، محمدبن حنفیہ نے کہا میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اورمخلوق کی رضا کے لئے خالق کوناراض نہ کرو۔اس روایت کو بیان کرنے والے المدائنی بالاتفاق صاحب تصنیف اور ثقہ تھے۔۔العلامة الحافظ الصادق أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني الأخباري . نزل بغداد ، وصنف التصانيف.
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:وقد رواه أبو الحسن على بن محمد بن عبد الله بن أبى سيف المدائنى عن صخر بن جويرية عن نافع ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولما رجع أهل المدينة من عند يزيد مشى عبد الله بن مطيع وأصحابه إلى محمد بن الحنفية فأرادوه على خلع يزيد فأبى عليهم فقال ابن مطيع إن يزيد يشرب الخمر ويترك الصلاة ويتعدى حكم الكتاب فقال لهم ما رأيت منه ما تذكرون وقد حضرته وأقمت عنده فرأيته مواضبا على الصلاة متحريا للخير يسأل عن الفقه ملازما للسنة قالوا فان ذلك كان منه تصنعا لك فقال وما الذى خاف منى أو رجا حتى يظهر إلى الخشوع أفأطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر فلئن كان أطلعكم على ذلك إنكم لشركاؤه وإن لم يطلعكم فما يحل لكم أن تشهدوا بما لم تعلموا قالوا إنه عندنا لحق وإن لم يكن رأيناه فقال لهم أبى الله ذلك على أهل الشهادة فقال : ’’ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ‘‘ ولست من أمركم فى شىء قالوا فلعلك تكره أن يتولى الأمر غيرك فنحن نوليك أمرنا قال ما أستحل القتال على ما تريدوننى عليه تابعا ولا متبوعا قالوا فقد قاتلت مع أبيك قال جيئونى بمثل أبى أقاتل على مثل ما قاتل عليه فقالوا فمر ابنيك أبا القاسم والقاسم بالقتال معنا قال لو أمرتهما قاتلت قالوا فقم معنا مقاما تحض الناس فيه على القتال قال سبحان الله آمر الناس بما لا أفعله ولا أرضاه إذا ما نصحت لله فى عباده قالوا إذا نكرهك قال إذا آمر الناس بتقوى الله ولا يرضون المخلوق بسخط الخالق (البداية والنهاية: 8/ 233 )

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:وَزَادَ فِيهِ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ: فَمَشَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ وَأَصْحَابُهُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، فَأَرَادُوهُ عَلَى خَلْعِ يَزِيدَ، فَأَبَى، وَقَالَ ابْنُ مُطِيعٍ: إِنَّ يَزِيدَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَيَتْرُكُ الصَّلاةَ، وَيَتَعَدَّى حُكْمَ الْكِتَابِ، قَالَ:مَا رَأَيْتُ مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا لِلصَّلاةِ، مُتَحَرِيًّا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274]

جب اہل مدینہ یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اوران کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اوریہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمد بن حنفیہ (حضرت علی رضی الله عنہ کے فرزند) نے ان کی اس بات سے انکار کردیا ، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزیدشراب پیتاہے ، نماز یں چھوڑتا ہے کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیساتم کہہ رہے ہو ، جبکہ میں اس کے پاس جاچکا ہوں اوراس کے ساتھ قیام کرچکاہوں ، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیرکا متلاشی ، علم دین کاطالب ، اورسنت کا ہمیشہ پاسدار پایا ۔ تولوگوں نے کہاکہ یزید ایسا آپ کو دکھانے کے لئے کررہاتھا ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کیا خوف تھا یا مجھ سے کیا چاہتاتھا کہ اسے میرے سامنے نیکی ظاہرکرنے کی ضرورت پیش آتی؟؟ کیا تم لوگ شراب پینے کی جوبات کرتے ہو اس بات سے خود یزید نے تمہیں آگاہ کیا ؟ اگرایسا ہے تو تم سب بھی اس کے گناہ میں شریک ہو ، اوراگر خود یزید نے تمہیں یہ سب نہیں بتایا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کہ ایسی بات کی گواہی دو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ۔ لوگوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہےا گرچہ ہم نے نہیں دیکھا ہے ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اللہ تعالی اس طرح کی گواہی تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ''جو حق بات کی گواہی دیں اورانہیں اس کا علم بھی ہو'' ، لہذا میں تمہاری ان سرگرمیوں میں کوئی شرکت نہیں کرسکتا ، تو انہوں نے کہا کہ شاید آپ یہ ناپسندکرتے ہیں کہ آپ کے علاوہ کوئی اورامیر بن جائے توہم آپ ہی کو اپنا امیربناتے ہیں ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: تم جس چیز پرقتال کررہے ہو میں تو اس کوسرے سے جائز ہی نہیں سمجھتا: مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے ، لوگوں نے کہا: آپ تو اپنے والد کے ساتھ لڑائی لڑچکے ہیں؟ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ پھر میرے والد جیسا شخص اورانہوں نے جن کے ساتھ جنگ کی ہے ایسے لوگ لیکر تو آؤ ! وہ کہنے لگے آپ اپنے صاحبزادوں قاسم اور اورابوالقاسم ہی کو ہمارے ساتھ لڑائی کی اجازت دے دیں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: میں اگران کو اس طرح کا حکم دوں تو خود نہ تمہارے ساتھ شریک ہوجاؤں ۔ لوگوں نے کہا : اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کرلوگوں کو لڑالی پر تیار کریں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: سبحان اللہ ! جس بات کو میں خود ناپسندکرتاہوں اوراس سے مجتنب ہوں ، لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملوں میں اس کے بندوں کا خیرخواہ نہیں بدخواہ ہوں ۔ وہ کہنے لگے پھر ہم آپ کو مجبورکریں گے ، محمدبن حنفیہ نے کہا میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اورمخلوق کی رضا کے لئے خالق کوناراض نہ کرو۔اس روایت کو بیان کرنے والے المدائنی بالاتفاق صاحب تصنیف اور ثقہ تھے۔۔العلامة الحافظ الصادق أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني الأخباري . نزل بغداد ، وصنف التصانيف.
محمد علی جواد بھائی اس روایت پر جناب حافظ محمد عمر صدیق سے فیس بک پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ روایت مدائنی سے بلا سند ہے

umar sidiq.jpg

اور دوسری بات جو اعتراض کرنے والے کرتے ہیں وہ یہ ہیں محمد بن حنفیہ ایک تابعی ہیں اور بیان کرنے والے عبداللہ بن مطیع رضہ ایک صحابی ہیں اور صحابی کی بات تابعی سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور ان کی عدالت بنا کسی شک ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محمد علی جواد بھائی اس روایت پر جناب حافظ محمد عمر صدیق سے فیس بک پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ روایت مدائنی سے بلا سند ہے

9975 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اور دوسری بات جو اعتراض کرنے والے کرتے ہیں وہ یہ ہیں محمد بن حنفیہ ایک تابعی ہیں اور بیان کرنے والے عبداللہ بن مطیع رضہ ایک صحابی ہیں اور صحابی کی بات تابعی سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور ان کی عدالت بنا کسی شک ہے
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:وقد رواه أبو الحسن على بن محمد بن عبد الله بن أبى سيف المدائنى عن صخر بن جويرية عن نافع ۔۔۔۔۔۔۔۔

امام کثیر رح تو اس کو سند کے ساتھ بیان کررہے ہیں -

جہاں تک صحابی کے قول کو تابعی کے قول پر اہمیت دینے کا تعلق ہے تو وہ عقائد و شریعت کے معاملات میں ہے - صحابی عبداللہ بن مطیع رضی الله عنہ نے صرف خبر دی تھی کہ یزید بن معاویہ رح ایسے اور ایسے ہیں وغیرہ - جس پر محمّد بن حنفیہ رح نے دلائل سے ان کا رد کیا- اگر صحابی کی بات ہر معاملے میں تابعی سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی تو نواسہ رسول حضرت حسین رضی الله عنہ (جو تابعی ہیں) اکابرین صحابہ کا مشوره مانتے ہوے کوفہ کے لئے روانہ نہ ہوتے-

یزید بن معاویہ رح کی خلافت کے حق ہونے کے بارے میں یہ روایت بھی ملاحظه کرلیں :
نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ (کے بعض لوگوں نے) یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ساتھیوں اور اولاد کو جمع کر کے فرمایا: “میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ‘قیامت کے دن ہر معاہدہ توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔’ ہم لوگ اللہ اور رسول کے نام پر اس شخص (یزید) کی بیعت کر چکے ہیں۔میں نہیں جانتا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ہر ایسا شخص جو اس بیعت سے الگ ہو جائے اور اس معاملے (بغاوت) کا تابع ہو جائے، تو اس کے اور میرے درمیان علیحدگی ہے۔ ( بخاری، کتاب الفتن، حدیث 6694) -

اگر یزید بن معاویہ رح شرابی، فاسق و فاجر ہوتے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما لوگوں کو ان کی خلافت پر کبھی نہ ابھارتے-اور ان سے بغاوت کرنے کو جرم قرار نہ دیتے -
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
آپ نے کہا
"
نواسہ رسول حضرت حسین رضی الله عنہ (جو تابعی ہیں) اکابرین صحابہ کا مشوره مانتے ہوے کوفہ کے لئے روانہ نہ ہوتے- "

اگر واقعی میں حضرت حسین رضہ آپ کے خیال میں تابعی ہیں تو ابن مطیع رضہ صحابی کیسے ہوسکتے ہیں ِ؟

بھائی سوال یہ ہےکہ امام ابن کثیر ہوں یا پھر حافظ زہبی رح یہ لوگ ڈائریکٹ مدائنی رحہ سے نقل کر رہے ہیں اور مدائنی رحہ اور ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے ۔ یہی بات جناب حافظ محمد عمر صدیق نے کہی کہ نہ تو امام زہبی نے نہ ہی امام ابن کثیر نے بیان کیا کہ مدائنی کی یہ روایت وہ کہاں سے لے رہے ہیں۔۔۔

جہاں تک سیدنا ابن عمر رضہ کی بات ہے تو اکثر علماء کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ بیعت کر کہ اس کو توڑنے سے منع کیا اور اس پر ناراضگی کا اظہار کیا لیکن اس بات سے یزید بن معاویہ کی مدح ثابت نہیں ہوتی ۔۔ کیوں کہ سیدنا ابن عمر رضہ کی ایک اور روایت بھی آتی ہے۔ مفہوم روایت یہ ہے کہ انہون نے یزید کی بیعت پر کہا کہ اگر بھلائی ہے تو ٹھیک اگر برائی ہے تو صبر کریں گے۔۔ خلاصہ کلام سیدنا ابن عمر رضہ کی اس روایت سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ یزید بن معاویہ کی بیعت ہوچکی تھی جس کو توڑنا منع تھا لیکن اس روایت سے اس کے کردار پر روشنی نہیں پڑتی ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ نے کہا
"
نواسہ رسول حضرت حسین رضی الله عنہ (جو تابعی ہیں) اکابرین صحابہ کا مشوره مانتے ہوے کوفہ کے لئے روانہ نہ ہوتے- "

اگر واقعی میں حضرت حسین رضہ آپ کے خیال میں تابعی ہیں تو ابن مطیع رضہ صحابی کیسے ہوسکتے ہیں ِ؟

بھائی سوال یہ ہےکہ امام ابن کثیر ہوں یا پھر حافظ زہبی رح یہ لوگ ڈائریکٹ مدائنی رحہ سے نقل کر رہے ہیں اور مدائنی رحہ اور ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے ۔ یہی بات جناب حافظ محمد عمر صدیق نے کہی کہ نہ تو امام زہبی نے نہ ہی امام ابن کثیر نے بیان کیا کہ مدائنی کی یہ روایت وہ کہاں سے لے رہے ہیں۔۔۔

جہاں تک سیدنا ابن عمر رضہ کی بات ہے تو اکثر علماء کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ بیعت کر کہ اس کو توڑنے سے منع کیا اور اس پر ناراضگی کا اظہار کیا لیکن اس بات سے یزید بن معاویہ کی مدح ثابت نہیں ہوتی ۔۔ کیوں کہ سیدنا ابن عمر رضہ کی ایک اور روایت بھی آتی ہے۔ مفہوم روایت یہ ہے کہ انہون نے یزید کی بیعت پر کہا کہ اگر بھلائی ہے تو ٹھیک اگر برائی ہے تو صبر کریں گے۔۔ خلاصہ کلام سیدنا ابن عمر رضہ کی اس روایت سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ یزید بن معاویہ کی بیعت ہوچکی تھی جس کو توڑنا منع تھا لیکن اس روایت سے اس کے کردار پر روشنی نہیں پڑتی ۔
السلام و علیکم -

محترم حمزہ صاحب -

صرف میرے خیال میں نہیں بلکہ نواسہ رسول حضرت حسین رضی الله عنہ صحابیت کے اصول پر پورے نہیں اترتے -اس لئے تابعی ہیں- صحابی رسول اس کو کہا جاتا ہے کہ جس نے اپنے مکمل ایمان کی حالت میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو دیکھا ہو- ایمان کی اصل حالت کا بلوغت کے بعد پتا چلتا ہے- یعنی جو بالغ و عاقل ہونے کے بعد نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی تعلیمات پر ایمان لایا اور اسی حالت میں فوت ہوگیا - وہی صحابی کی تعریف کی حثیت سے صحابی رسول کہلاے گا - جب کہ حضرت حسین رضی الله عنہ نبی کریم کی وفات کے وقت صرف پانچ سال کے تھے-لیکن آپ نے اپنی بلوغت میں متعدد صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے علم و فہم سے براہ راست استفادہ کیا- اس لئے آپ تابعی کے صف میں آتے ہیں نہ کہ صحابی کی صف میں-

تاریخی روایات کے مطابق ابن مطیع رضی الله عنہ حضرت عبد الله بن عمررضی الله عنہ کے چچیرے بھائی تھے - اور آپ کے ہم عمر تھے اور ابن عمر رضی الله عنہ کے صحابی ہونے میں تو کوئی شک نہیں اور آپ کے ایمان لانے کے کچھ عرصے بعد ابن مطیع رضی الله عنہ بھی الله کے نبی پر ایمان لے آے تھے - اس لئے صحابی رسول کی صف میں آتے ہیں (واللہ اعلم)-

جہاں تک سیدنا ابن عمر رضہ کی بات ہے تو علماء وقت کا یہ موقف صحیح نہیں کہ " انہوں نے ایک دفعہ بیعت کر کہ اس کو توڑنے سے منع کیا اور اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اس بات سے یزید بن معاویہ کی مدح ثابت نہیں ہوتی وغیرہ " - تاریخ طبری اور تاریخ ابن سعد کی صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ یزید رح کو خلیفہ نامزد کرنے پہلے ان کے والد حضرت امیر معاویہ رضی عنہ نے متعدد جلیل القدر صحابہ کرام سے ان کی خلافت کے بارے میں مشورے لئے تھے - بلکہ اکثر روایت میں تو یہ بھی کہ یزید رح کی خلافت کا موقف سب سے پہلے جلیل القدر صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ نے پیش کیا تھا- ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے بڑی تعداد یزید رح کی خلافت پر متفق تھی اور ان کے اخلاق و کردار پرمطمئن تھی تب ہی تو ان کو خلیفہ نامزد کیا گیا - حضرت ابن عمر رضی الله عنہ کا خطاب ایک نصیحت کے طور پر دارصل ان لوگوں سے تھا جو دلی طور پر بنو امیہ سے رقابت رکھتے تھے - جو شہادت عثمان رضی الله عنہ کے بعد سبائی پرپوگنڈے کے بدولت اکثر نومسلموں میں پائی گئی تھی - اور اسی بغاوت کے خطرے کے پیش نظر حضرت ابن عمر رضی الله عنہ نے لوگوں کو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا یہ فرمان سنایا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے-

جہاں تک ابن کثیر یا پھر حافظ زہبی رح کا مدائنی کی روایت کو بلا سند بیان کرنے کا تعلق ہے تو http://forum.mohaddis.com/members/کفایت-اللہ.129/ اس پر زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں -
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
شکریہ بھائی ، میرہ نام ابو حمزہ ہے حمزہ نہیں
بھائی جہاں تک میرہ مطالعہ ہے عبداللہ بن مطیع رضہ یا ابن مطیع رضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلکل اخیر زمانے میں پیدا ہوئے تھے ۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top