• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیوی کو مارنا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بیوی کو مارنا


دوست نے سوال کیا ہے کہ کیا بیوی پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے؟
جواب: اس مسئلے میں اصل حکم یہ ہے کہ بیوی پر ہاتھ نہ اٹھائے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے احادیث میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی نہ تو اپنی کسی بیوی پر ہاتھ اٹھایا اور نہ ہی کسی خادم کو مارا۔ [صحیح مسلم] تو سنت کا اہتمام کرنے والوں کے لیے تو اسوہ حسنہ یہی ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنی بیویوں پر ہاتھ مت اٹھاؤ۔ تو کچھ عرصہ بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ آ گئے اور کہا کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے اس حکم کی وجہ سے بہت سی عورتوں نے اپنے شوہروں پر چڑھائی شروع کر دی ہے۔ تو آپ نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ پھر کچھ ہی عرصہ بعد بہت سی خواتین ازواج مطہرات کے پاس اپنے شوہروں کی شکایات لے کر جمع ہو گئیں تو آپ نے خطبہ دے کر صحابہ سے کہا کہ جن کی عورتیں میرے پاس ان کی شکایات لے کر آئی ہیں، وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ [سنن ابو داود]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو پسند نہیں فرمایا کہ جو اپنی بیویوں پر ہاتھ اٹھاتے ہوں۔ پس قرآن مجید میں جو بیویوں کو مارنے کی اجازت ہے تو اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی پر نشوز کی صورت میں ہاتھ اٹھا لے، اگرچہ اسے حکم یہی ہے کہ وہ ہاتھ نہ ہی اٹھائے لیکن اگر اٹھا لے، تو خاوند سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ شان نزول کی روایات میں موجود ہے کہ ایک صحابی نے اپنی بیوی کے نشوز پر انہیں تھپڑ دے مارا تو وہ اپنے والد کے ساتھ آپ کی خدمت میں آئیں تو آپ نے کہا کہ خاوند سے قصاص لیا جائے لیکن اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل فرما دیں تو آپ نے فرمایا کہ ہم نے کچھ ارادہ کیا تھا اور اللہ عزوجل نے کچھ اور چاہا۔ [تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر]
دوسری بات یہ ہے کہ بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت عمومی (general) نہیں بلکہ استثنائی (exceptional) ہے کہ صرف ان عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے کہ جن میں نشوز یعنی سرکشی اور بغاوت ہو۔ قرآن مجید گھر کے ادارے میں مرد کی حاکمیت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے کہ وہ گھر کا سربراہ اور اولاد کا مربی ہے۔ اور اگر عورت، مرد کی اس حاکمیت کو قبول نہ کرے اور اس کے بالمقابل کھڑی ہو جائے تو اسے نشوز کہتے ہیں اور یہ خاندان، اولاد اور نسل سب کچھ تباہ کر دینے کے مترادف ہے۔ جس گھر میں عورت کا نشوز ہو گا، وہاں اولاد کبھی اپنے باپ کی فرمانبردار نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی عزت تک نہیں کرے گی۔
تیسری بات یہ کہ ہاتھ اٹھانے کی بھی اجازت ہے، حکم نہیں ہے جیسا کہ حالت احرام سے نکلنے کے بعد کہا کہ "فاصطادوا" یعنی شکار کر لو۔ اب اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی احرام سے نکلنے کے بعد شکار کر لے تو گناہ اور کفارہ نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ادھر سے حاجی احرام سے نکلے، اور ادھر سے بندوقیں پکڑ کر چالیس لاکھ کا مجمع شکار پر نکل کھڑا ہو۔ اور آخری بات یہ ہے کہ یہ اجازت بھی آخری درجے میں دی گئی تا کہ ایک چھوٹے ضرر کو قبول کر کے ایک بڑے ضرر سے بچا جا سکے اور وہ بڑا ضرر طلاق کا ضرر ہے۔ واللہ اعلم۔ اور معاشرے میں جو لوگ بیویوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں تو وہ قرآن مجید پڑھ کر نہیں اٹھاتے، معاشرہ ویسے ہی اخلاقی طور پر بہت گرا ہوا ہے۔ لہذا اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے نہ کہ قرآن مجید کو تبدیل کرنے کی۔
بشکریہ محترم شیخ @ابوالحسن علوی صاحب​
 
Top