• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بے لاگ تحقیقی اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بے لاگ تحقیقی اصول

٭…شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ بلاشبہ مسلمانوں کے لئے ایک بڑی آزمائش تھی۔ شریروں نے اپنے مذموم مقاصد پورے کئے ۔انہیں مزید شہ بھی ملی ۔ حدیث ِرسول کو بھی انہوں نے نشانہ بنایا۔ایسے موقع پر صحابۂ رسول جو محافظ دین وحدیث تھے اپنے لائق شاگردوں سمیت ہر خبر ، حدیث اور روایت کی توثیق ضروری سمجھتے۔یعنی اس خبر کا ناقل کون ہے؟ کوئی شرپسند، فاسق اور زندیق تو نہیں؟ صحابہ کرام کی تربیت اللہ نے اور رسول اللہ ﷺ نے ایسی کردی کہ خبرازرسول کی تحقیق وجستجو بہر صورت کرنی ہے۔انہیں یہ ارشاد الہی ازبر تھا کہ خبر قبول کرنی ہے مگر فاسق کی خبر خوب چھانٹی اورتحقیق کے بعد۔
{ یَأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنْ جَا ئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍفَتَبَیَّنُوْا۔۔۔}(الحجرات:۶)
اہل ایمان اگر تمہارے پاس کوئی فاسق اہم خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔

{ إِذْ تَلْقَوْنَہُ بِأَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِأَفْوَاہِکُمْ مَا لَیْسَ لَکُمْ بِہِ عِلْمٍ وَتَحْسَبُوْنَہُ ہَیِّنًا وَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌ}

(النور:۱۵)
جب تم اپنی زبانوں سے اسے ایک دوسرے کو سنارہے تھے اور تم ایسی باتیں کررہے تھے جس کی حقیقت تم پر آشکارا نہ تھی اور تم اسے معمولی سمجھ رہے تھے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی بات تھی۔

٭…جھوٹی خبر کون پھیلاتا ہے؟ اور اسے کون پہچان سکتے ہیں؟ اس آیت نے بتادیا کہ ہرمدعی شخص اس فن کا ماہر نہیں ہوا کرتا بلکہ چند مخصوص لوگ ہوا کرتے ہیں:
{ وَإِذَا جَا ئَ ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوْا بِہِ، وَلَوْ رَدُّوْہُ إِلَی الرَّسُوْلِ وَ إِلٰی أُولِی الْأَمْرِ مِنْہُمْ لِعِلْمِہِ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہُ مِنْہُمْ، وَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتِہِ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنُ إِلَّا قَلِیْلاً۔}(النسا ٔ:۸۳)
اور جب ان کے پاس امن یا جنگ سے متعلق کوئی بات آتی ہے تو وہ فوراً اسے پھیلا دیتے ہیں۔ اگر وہ اسے اللہ کے رسول یا اپنے میں سے کسی صاحب امر تک پہنچاتے تو ان میں سے تہہ تک پہنچنے والے فوراً جان لیتے۔ اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم شیطان کی پیروی کرتے سوائے چندایک کے۔

٭…انہیں یہ ارشادات ِرسول بھی یاد تھے:
کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِباً (وَفِی رِوَایَۃٍ: إِثْماً) أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔(مقدمۃ صحیح مسلم: ۵)
آدمی کے لئے جھوٹا ہونے یا ایک روایت کے مطابق گناہ گار ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جو سنے اسے آگے بیان کردے۔
مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ(صحیح بخاری)
جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ بنالے۔

مَنْ حَدَّثَ عَنِّیْ بِحَدِیْثٍ یُرِیْ أَنَّہٗ کَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنِ۔(مسند احمد۴؍۲۵۲)
جس نے مجھ سے کوئی حدیث بیان کی اور وہ دیکھتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بے لاگ تحقیق کے لیے صحابہ کرام وتابعین نے یہ چند اصول اپنے پیش نظر رکھے۔

۱۔ روایت ِحدیث میں حد درجہ احتیاط
٭… صحابہ کرام کی طرح مقتدر تابعین بھی روایت اور قبولِ حدیث میں محتاط تھے۔احادیث کو وہ نقد سے گذارتے۔ یہ عظیم لوگ حدیث(نص) کے ہوتے ہوئے ذاتی رائے سے حتی الامکان گریز کرتے۔بلکہ ان کی تمنا یہ ہوتی کہ کاش کوئی اور ہو جو سوال کا جواب اس حدیث سے دے۔ یا سائل کو اسی کے پاس بھیج دیتے۔عبد الرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ کبیر تابعی، فرماتے ہیں: میں نے مسجد نبوی میں ۱۲۰ایسے صحابۂ رسول کو پایا جن میں کسی کو اگر حدیث بیان کرنا ہوتی تو اس کی خواہش یہی ہوتی کہ کوئی اور صحابی بھائی اسے بیان کرے۔ اور جسے فتوی دینا ہوتا وہ بھی یہی خواہش رکھتا۔(کتاب الزہد از ابن مبارک: ۵۸)

٭…سیدنا زبیرؓ اپنے بیٹے عبد اللہ کو حدیث بیان نہ کرنے کا سبب یہ بتاتے :
جب سے میں اسلام لایاہوں میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔جبکہ آپ ﷺ کے ساتھ میرا ایک رشتہ بھی تھا ۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کوئی حدیث پیش کرتے وقت اس میں کمی یا بیشی نہ کربیٹھوں اور
مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا
حدیث کا مصداق بن جاؤں۔(مسند احمد:۱۴۱۳)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی خیال ہے۔ فرماتے ہیں:
اگر مجھے یہ ڈر نہ ہو کہ میں حدیث بیان کرتے وقت غلطی کروں گا تو میں تمہیں وہ کچھ سناتا جو میں نے آپ ﷺ سے سنا۔یا آپ ﷺ نے فرمایا۔ (سنن دارمی: ۲۴۱)

ابن مسعود ہوں یا ابو الدرداء رضی اللہ عنہما جب بھی حدیث رسول بیان کرنے کا سوچتے تو ڈر سے کانپنے لگتے۔اور آنکھیں نمناک ہوجاتیں۔(ابن ماجہ: ۲۳)۔ سیدنا عثمانؓ نے باغیوں کے سامنے اپنی خلافت کے جواز کی چاراحادیث پیش کیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔ روایت کی توثیق :
٭…آپ ﷺ نے ازواج مطہرات سے ایلاء کیامگر بات یوں پھیل گئی کہ آپ ﷺ نے انہیں طلاق دے دی ہے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس خبر کی توثیق کے لئے پہلے اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔پھر اجازت لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔عرض کی :اللہ کے رسول! کیا آپ ﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا اور عرض کی: میں مسجد گیا۔وہاں مسلمان اس خبر پر بہت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی!!! کیا میں ان کے پاس جاؤں اور خبر دوں کہ آپ ﷺ نے طلاق نہیں دی۔آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اگر تم چاہو تو۔(متفق علیہ)

٭…ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ محض یہ جاننے کے لئے آپ ﷺ کے پاس آئے کہ قاصد جو خبر آپ ﷺ کی طرف سے ان کی قوم کے پاس لایا تھا اس کی توثیق کرلوں۔انہوں نے سوال بھی یوں شروع کیا:
أَتَانَا رَسُوْلُکَ، فَزَعَمَ لَنَا أَنَّکَ تَزْعُمُ أَنَّ اللّٰہَ أَرْسَلَکَ؟ قَالَ صَدَقَ۔ قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ السَّمَائَ؟ قَالَ ﷺ: اَللّٰہُ۔قَالَ : فَمَنْ خَلَقَ الأَرْضَ؟ قَالَ: اَللّٰہُ۔ قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ ہٰذِہِ الْجِبَالَ، وَجَعَلَ فِیْہَا مَا جَعَلَ؟ قَالَ: اَللّٰہُ۔قَالَ: فَبِالَّذِیْ خَلَقَ السَّمَائَ وَخَلَقَ الأَرْضَ وَنَصَبَ ہٰذِہِ الْجِبَالَ۔۔آللّٰہُ أَرْسَلَکَ؟ قَالَ : نَعَمْ۔۔۔۔
ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا جس نے ہمیں یہ بتایا کہ آپ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بالکل اس نے سچ کہا۔اس نے عرض کی: یہ آسمان کس نے بنایا؟ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے۔اس نے کہا: زمین کا خالق کون ہے؟ فرمایا: اللہ تعالی۔ کہا: کس نے یہ پہاڑ گاڑے ہیں اور ان میں جو کچھ بنایا ہے ؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم ! جس نے آسمان پیدا کیا اور زمین بنائی اور پہاڑ گاڑے۔۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہاں ! بالکل۔۔۔۔

٭… وہ ایک دوسرے کے بارے میں برملا کہا کرتے:
وَمَا کَانَ بَعْضُنا یکَذِّبُ بعضاً
ہم میں کوئی ایک دوسرے کو جھوٹا نہیں کہتا تھا۔مگر روایت کی توثیق پھر بھی چاہتے ۔ شاہد کی ضرورت پڑتی تو وہ بھی پیش کردیتے۔تاکہ غلطی میں پڑنے کا امکان نہ رہے۔دین کا معاملہ تھا اور خائف تھے کہ کہیں ہماری کوتاہی سے دین رسول اللہ ﷺ امت تک غلط نہ پہنچ جائے۔ جیسے میراث جدہ کے مسئلے میں سیدنا مغیرہ بن شعبہ اور محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہما نے برسرعام گواہی دی۔ (سنن الترمذی ح: ۲۱۰۱) اسی طرح ابو موسیٰ اشعری ؓکی حدیث استئذان پر سیدنا عمر ؓ نے گواہ طلب کیا توابیؓ بن کعب نے گواہی دی۔اور پھر سیدنا عمر ؓ کا ابوموسیٰؓ کو یہ فرمانا:
أَمَا إِنِّیْ لَمْ أَتَّہِمْکَ یَا أَبَامُوْسیٰ َولٰکِنْ خَشِیْتُ أَنْ یَّتَقَوَّلَ النَّاسُ عَلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ۔(صحیح بخاری ح:۵۸۹۱، صحیح مسلم د: ۲۱۵۳)
ابوموسیٰ! میں آپ کو حدیث کے بارے میں متہم نہیں کررہا بلکہ مجھے ڈر یہ ہے کہ لوگ کہیں رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ گھڑنا شروع نہ کردیں۔

گویا خلیفہ محترم نے خاموش پیغام دیا کہ حکومت ِوقت بھی سنت کی محافظ ہے اور کسی کو یہ اجازت نہیں کہ سنت کے خلاف چلے اور غلط خیالات کو پھیلائے۔یہ پیغام بھی تھا کہ اگر خلیفۂ وقت ابوموسیٰ اشعریؓ سے حدیث کے بارے میں باز پرس کرسکتے ہیں توحدیث میں نقب لگانے والے بھی جواب دہی کے لئے تیار رہیں۔ اس لئے روایت حدیث میں سب محتاط ہوگئے۔ یہ سختی محض دین کے تحفظ کے لئے تھی اور اس لئے بھی کہ بہکے لوگ کہیںاسے غیر اہم نہ سمجھ لیں۔ یا اس کے ظاہری مفہوم میں مین میکھ نکالنا شروع کردیں۔یااحادیث کے حکم کو باطن پر محمول کر بیٹھیں۔یا جو بھی حدیث بیان کرے وہ فقاہت کا دعوی بھی کربیٹھے۔یا کوئی حدیث کی روایت میں صحابہ کرام کے تساہل کو اچھالے اور اسے مشکوک معاملہ بنانے کی کوشش کرے۔گویا آپ رضی اللہ عنہ کے یہ اقدام اس بشارت کے مصداق تھے:
إنَّ اللّٰہَ نَزَلَ الحَقَّ علی لِسانِ عُمَرَ وَقَلْبِہِ:
اللہ تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر اتارا ہے۔(مسند احمد ۲؍۴۰۱)

إِنْ یَّکُنْ فِی ہٰذِہٖ الاُمَّۃِ مُحَدَّثُونَ فَعُمَرُ مِنْہُمُ۔
اگر اس امت میں کوئی ملہم ہیں تو عمر انہی میں سے ہیں۔(متفق علیہ)

اس لئے امام ابن عبد البررحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب جامع بیان العلم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نئے مسلمانوں اور قرآن کریم کی مبادیات سے نابلد لوگوں کے بارے میں ان سخت رویوں کی وضاحت یوں فرمائی:
بَابُ ذِکْرِ مَنْ ذَمَّ الإِکْثَارَ مِنَ الْحَدِیْثِ دُوْنَ التَّفَہُّمِ لَہُ وَالتَّّفَقُّہِ فِیْہِ۔
جنہوں نے حدیث کو سمجھے بغیر یا حدیث میں تفقہ کے بغیر بکثرت احادیث بیان کیں۔ان کی مذمت۔ان کا یہ مشہور قول بھی نقل کرتے ہیں:
سَیَأْتِیْ قَوْمٌ یُجَادِلُوْنَکُمْ بِشُبُہَاتِ الْقُرْآنِ فَخُذُوْہُمْ بِالسُّنَنِ فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔(۲؍۱۲۳)
کچھ لوگ آکر قرآن کریم کے شبہات کو پیش کرکے تم سے جھگڑیں گے ۔ تم (مرعوب ہوئے بغیر)انہیں سننِ رسول سے قابو کرنا اس لئے کہ سنن والے ہی کتاب اللہ کے سب سے زیادہ عالم ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔ حلف لی جائے:

سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں:
کُنْتُ إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ حَدِیْثاً نَفَعَنِیَ اللّٰہُ بِمَا شَائَ مِنْہُ، وَإِذَا حَدَّثَنِیْ غَیْرُہُ اِسْتَحْلَفْتُہُ، فَإِذَا حَلَفَ لِیْ صَدَقْتُہُ۔ (مسند احمد ۱/۱۵۴)
میں جب بھی آپ ﷺ سے حدیث سنتا تو مجھے اس سے جو بھی فائدہ اللہ دیتا میں اٹھاتا اور جب کسی اورسے حدیث رسول سنتا تو اس سے قسم اٹھواتا جب وہ قسم اٹھا لیتا تو میں اس کو سچا مان لیتا۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ اصول غالباً اپنے دور ِخلافت میں لاگو کیا کیونکہ دو سطری حدیث کوفہ سے بالشت برابر نکلتی۔ فتنوں کی سرزمیں تو آپ ﷺ نے نجد عراق قرار دی تھی۔ اس لئے کوفہ کے باسی جھوٹ میں طاق اور روایت ِحدیث میں انتہائی غیر محتاط تھے۔ورنہ سیدنا علی ؓ نے سیدنامقداد ؓبن عمرو کی حدیث کو بغیر قسم کے قبول کیا۔ یا سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی حدیث میراث کو بھی بغیر حلف کے مان لیا۔ اس لئے کہ صحابہ کرام اپنے بارے میں یہ کہا کرتے :
وَاللّٰہِ مَاکُنَّا نَعْرِفُ مَا ہُوَ الْکِذْبُ۔
بخدا ہم تو جانتے ہی نہیں تھے کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے؟

٭…روایت ِحدیث میں سخت احتیاط شہادت عثمان کی وجہ سے نہیں بلکہ شہادت فاروق اعظم سے بھی پہلے کی ریت ہے۔ثبوت مانگنے کی عادت نے آخرکہیں توجھوٹ کو ظاہر کرنا تھا۔بطور خاص جب بے شمار فتنے سر اٹھا لیں اورجھوٹ عام بولا جارہا ہو۔اس سختی سے سنت کے بچاؤ کی سبیل نکل آئی۔ ثبوت مانگے جانے لگے اور معاملات بگڑنے کی بجائے سدھر گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۴۔ رحلہ فی طلب العلم:
یہ سنت ِموسوی ہے کہ محض حصول علم کے لئے کٹھن سفر کیا جائے اورجن کے پاس رشد وہدایت تھی اسی کے پاس جایا جائے۔صحابۂ رسول نے بھی اس سنت کو صرف علم حدیث کے حصول کے لئے زندہ کیا۔ وہ بھی مجمع البحرین تک پہنچے اور زمانہ بھر چلتے رہنے میں فخر محسوس کرتے۔ ایک حدیث کی خاطر شہر شہر اور قصبہ قصبہ گئے خواہ انہیں صحراؤں اور ریگزاروں کی گرمی اور پیاس برداشت کرنا پڑی۔یہ سفری مشقت محض کثرت روایات سے پرہیز اور حدیث کو قبول کرنے میں حزم واحتیاط پر قائم تھی نیزبالمشافہ علم کا حصول اس پر مستزاد تھا۔مسند احمد (۴؍۱۵۳) میں ہے : سیدنا ابوایوب انصاری ؓ نے محض اپنی یادداشت کی تصدیق کے لئے صرف حدیث
مَنْ سَتَرَ مُؤْمِنًا فِی الدُّنْیَا عَلَی خِزْیَۃٍ سَتَرَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
حجاز سے مصر تک کا سفر کیا۔عقبہ بن عامرؓ سے یہ حدیث سننے کے بعد فوراً ہی اپنی سواری پر بیٹھ کر واپس مدینہ پلٹ آئے۔ سیدنا عقبہ ؓبن عامر کا ذاتی مسئلہ مکہ میں کھڑا ہواتو سواری پر بیٹھ کر مدینہ آئے اور رسول اکرم ﷺ سے اپنی اس مشکل کا حل چاہا جو آپ ﷺ نے آگاہ فرمادیا۔۔سیدنا جابرؓ بن عبد اللہ ؓ نے کسی سے ایک حدیث سنی مگر اس کے اصل راوی شام میں تھے۔ محض ان سے سننے کی خاطر سواری خریدی اور کئی دنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد جب وہاں پہنچے تو عبد اللہ بن ابی انیس انصاریؓنے ان کا استقبال کیا۔ ان سے عرض کی کہ مجھے علم ہوا کہ آپ کے پاس ایک حدیث رسول ہے جو محض سننے آیا ہوں کہ کہیں آپ سے سنے بغیر میں فوت ہوجاؤں یا آپ کا یہ علم ہم سے رہ جائے۔ انہوں نے اس موقع پر وہ حدیث سنادی جس کے الفاظ یہ تھے:
یَحْشُرُ اللّٰہُ الْعِبَادَ أَوِ النَّاسَ۔۔وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ إِلَی الشَّامِ۔۔عُرَاۃً غُرْلاً بُہْمًا، قُلْتُ: مَا بُہْمًا؟ قَالَ : لَیْسَ مَعَہُمْ شَئٌ۔۔۔ (مسند احمد۳/۴۶۵)
اللہ تعالیٰ بندوں یا لوگوں کو محشر میں جمع کرے گا ۔۔۔اور آپ نے شام کی طرف اشارہ فرمایا۔۔۔وہ ننگے اور بغیر ختنہ کے ہوں گے۔ میں نے عرض کی: مہم کا کیا مطلب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوگا۔

٭…طلبِ علم ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ضروری علم کے حصول کے لئے خروج کا تقاضا کیا ہے ۔ اور یہ رحلہ مستحب ہوگی اگر مزید طلبِ علم کی خواہش ہو۔اور یہ رحلہ اس صورت میں مکروہ ہوگی جب علم اپنے شہر میں موجود ہو ۔ یہی رحلہ اس صورت میں حرام ہوگی جب بیوی بچوں کا یا والدین کا انحصار طالب علم پر ہو اور وہ کس مپرسی کی حالت میں انہیں چھوڑ کر چلاجائے۔یا پھر رحلہ کا مقصد ریا و طلبِ شہرت ہو خواہ وہ عن فلاں یا قال فلان بھی کیوں نہ کہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس کے اثرات اور شاندار نتائج:
صحابہ کے شاگردوں نے بھی تلاش حدیث کے لئے رحلہ کو اپنا شعار بنالیا۔حتی کہ اگر کسی کو معتمد راوی سے حدیث مل بھی جاتی اور یہ علم بھی ہوجاتا کہ جس سے حدیث سنی گئی ہے وہ مدینہ میں حیات ہیں۔ تو خود سواری خرید کر مدینہ منورہ کا رخ کرتے اور ان سے بلاواسطہ حدیث رسول سن لیتے۔امام سعید ؒبن المسیب فرماتے:
إِنْ کُنْتُ لَأَرْحَلُ الأَیَّامَ وَاللَّیَالِیَ فِی طَلَبِ الْحَدِیْثِ الْوَاحِدِ۔(الکفایۃ:۴۰۲)
میں ایک ہی حدیث کی طلب میں کئی دن اور رات سفرکرتا اور یہ ساری مشقت میں پیدل جھیلتا تھا۔

…امام شعبیؒ فرمایا کرتے:
لَوْ أَنَّ رَجُلاً سَافَرَ مِنْ أَقْصَی الشَّامِ إِلٰی أَقْصَی الْیَمَنِ، لِیَسْمَعَ کَلِمَۃَ حِکْمَۃٍ، مَا رَأیَْتُ أَنَّ سَفَرَہُ ضَاعَ۔
اگر ایک شخص شام کے ایک کونے سے یمن کے آخری کونے تک ایک حکیمانہ بات(حدیث) سننے کے لئے سفر کرے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس کا سفر رائیگاں گیا۔(جامع بیان العلم۱/۹۵)

انہوں نے کسی کو مسئلہ بتاتے وقت فرمایا:
أَعْطَیْنَاکَہَا بِغَیْرِ شَئٍ کَانَ یُرْحَلُ فِیْمَا دُوْنَہَا إِلَی الْمَدِیْنَۃِ۔
ہم نے تمہیں یہ حدیث مفت دے دی ورنہ اس سے بھی کم مسئلے کے لئے لوگ شام سے مدینہ کا رخ کرتے تھے۔

…ابوعثمانؒ نہدی فرماتے ہیں:
مجھے علم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث (إِنَّ اللّٰہَ لَیَکْتُبُ لِعَبْدِ الْمُؤْمِنِ بِالْحَسَنَۃِ الْوَاحِدَۃِ أَلْفَ أَلْفٍ حَسَنَۃً۔۔) روایت کی ۔ میں نے اس سال حج کی نیت سے رخت سفر باندھا اور سیدنا ابوہریرہ ؓسے ملنے اور حدیث سننے کی خاطر روانہ ہوا۔جب میں سیدنا ابوہریرہ ؓسے ملا تو میں نے عرض کی: حج کا مقصد یہی تھا کہ کسی طرح آپ سے ملاقات کرکے وہ حدیث سن لوں۔ پھر اس جلیل القدر صحابی ٔرسول سیدناابوہریرہ ؓنے مجھے وہ حدیث سنائی۔(مسند احمد۲/۵۲۱)

…عبد اللہ بن فیروز الدیلمی کہتے ہیں:
مجھے ایک حدیث بروایت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما پہنچی میں پھر ان کی خدمت میں طائف حاضر ہوا اور ان سے یہ حدیث سنی۔ ابن الدیلمی فلسطین کے رہنے والے تھے۔(مستدرک الحاکم ۱/۳۰)۔

…سعید بن جبیر ؒ کہتے ہیں:
اہل کوفہ اس ارشاد الہی میں{وَمَنْ یَّقْتُلُ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِیْہَا} اختلاف کربیٹھے تو میں خود سوار ہو کر سیدنا ابن عباس ؓ کے پاس طائف آیا اور ان سے اس بارے میں پوچھا۔(صحیح بخاری: ۴۵۹۰)

…ایک حدیث کی تحقیق کی خاطر امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ مکہ، پھر مدینہ، پھر بصرہ تشریف لے گئے اور آخر میں علم ہوا کہ اس کا راوی شہر بن حوشب ضعیف ہے اور ان کے اپنے شہر کا ہے۔ جس کا انہیں بہت افسوس ہوا۔ فرمانے لگے: اگر یہ حدیث صحیح مل جاتی تو مجھے میرے اہل خانہ، میرے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔(سنن الدارمی ۱/۱۳۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
…امام شعبی رحمہ اللہ سے کسی نے یہ سوال کیا:
مِنْ أَیْنَ لَکَ ہَذَا الْعِلْمُ؟
آپ کے پاس اتنا علم کہاں سے آیا؟ فرمانے لگے:
بِنَفْیِ الاِعْتِمَادِ، وَالسَّیْرِ فِی الْبِلاَدِ، وَصَبْرٍ کَصَبْرِ الْجِمَادِ وَبُکُوْرٍ کَبُکُوْرِ الْغُرَابِ۔(تذکرۃ الحفاظ ۱/۸۱)
ہر سہارا چھوڑا، مختلف شہروں اور علاقوں میں گھوما پھرا اور اس راہ میں آنے والی ہر مصیبت پر پہاڑ کی طرح صبر کیا اور علم کے حصول کے لئے کوے کی طرح اندھیرے منہ گھر سے نکلا۔

…رحالہ علماء میں امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے نام بھی لئے جاسکتے ہیں۔اور محدثین میں امام بخاری، امام مسلم، اصحاب سنن اربعہ اورامام حاکم وغیرہ نے بھی رحلہ فی الحدیث کا ذوق حاصل کیا ہے ۔ شاہ محدث ؒدہلوی بیان فرماتے ہیں:
فَطَافَ مَنْ أَدْرَکَ مِنْ عُظَمَائِہِمْ ذَلِکَ الزَّمَانِ بِلاَدَ الْحِجَازِ وَالشَّامِ، وَالْعِرَاقِ، وَمِصْرَ، وَالْیَمَنِ، وَخُرَاسَانَ، وَجَمَعُوا الْکُتُبَ وَتَتَبَّعُوا النُّسَخَ وَأَمْعَنُوْا فِی الْفَحْصِ عَنْ غَرِیْبِ الْحَدِیْثِ وَنَوَادِرِ الأَثَرِ۔
اس وقت محدثین کی بڑی بڑی شخصیات نے حدیث کی خاطر حجاز، شام، عراق، مصر، یمن، خراسان کے شہروں کو چھان مارا، کتب حدیث جمع کیں،ان کے مختلف نسخے کریدے، اور غریب الحدیث اور نادر ویکتا آثار پر غور کرنا شروع کردیا۔(حجۃ اللہ البالغۃ)

٭…اگر حصول علم بغیر رحلہ کے ممکن نہیں تو رحلہ ۔۔جو علم کے حصول کا سبب ہے۔۔ کرناواجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَائِفَۃً لِیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیَنْذُرُوْا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْہِمْ }
تو کیوں نہ ان میں سے ایک گروہ سفرپر نہ نکلا تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کرتااور اپنی قوم کو واپس پلٹ کر آگاہ کرتا۔

فوائد رحلہ:
اس رحلہ کے مسلمانوں کو جو فوائد حاصل ہوئے وہ درج ذیل تھے:

۱۔ مشائخ عظام سے براہ راست ملاقات ہوئی، ان کی علمی مجالس میں شرکت اور استفادہ کا انہیں موقع ملا۔
۲۔ ان سے مروی احادیث کو لکھ کرجمع کیا اور مشائخ کی مکتوب احادیث سے ان کا مقابلہ کرکے مزید تصدیق کرالی اور روایت کی اجازت لے لی۔
۳۔ مختلف مشائخ سے احادیث سننے کے بعد ایک ہی حدیث کی مختلف اسانید بھی ان کے پاس اکٹھی ہوگئیں جن میں سے عالی اور صحیح سند کو اختیار کرکے اسے ہی روایت کرتے اوراسے قابل فخر سرمایہ سمجھتے۔
۴۔ کبھی طالب علم ایک شہر کے چندعلماء سے بعض زیادات ایسی سن لیتا جو اس نے اپنے شہر کے علماء سے نہیں سنی ہوتیں۔ بلکہ بعض اوقات ایسے علماء کے پاس بہت کچھ پاتا جو وہ اپنے شہر کے علماء کے پاس نہیں پاتاتھا۔
۵۔ان علمی مباحث میں بھی طالب علم کی شرکت ہوتی جو علمائے حدیث کے مابین برپا ہوتے جن میں احادیث کے مختلف طرق پیش کئے جاتے۔رواۃ حدیث کی معلومات ملتیں اس طرح ان کی علمی پختگی میں خوب اضافہ ہوتا اور قوی وضعیف احادیث کا مزیدعلم بھی۔
۶۔ سند عالی ونازل کا فرق بھی اسی رحلہ کا مرہون منت ہے جو بلاشبہ ایک اہم علم ہے۔
۷۔ غریب یا فرد حدیث کی پہچان بھی دوسری احادیث کے ذریعے اس رحلہ سے ہوجاتی۔ اور یوں غرائب ومناکیر کا علم ہوتا۔
۸۔ طلبۂ حدیث اور ان کے شاگردوں کے مابین تعلقات استوار و مستحکم ہوجاتے۔
۹۔ شہروں اوران میں بسنے والے علماء کا تعارف ہوتا اور آنے والے نئے طلبہ سے علمی تبادلۂ خیال جب ہوتا تو علمِ حدیث آپس میں بٹتا۔ نتیجۃًعلماء وبلدان کی معاجم تیار ہوئیں۔ نیز ابتدائی اسلامی مملکت کے نقشے بھی تیار ہوئے۔

نوٹ: اس عمل نے عام وخاص پرحیرت انگیز اثرات مرتب کئے اور عجیب انکشافات ہوئے جو حدیث دانی کے لئے اعلیٰ دماغی صلاحیتوں کے شاہد بھی ہیں۔مثلاً:

٭…صحیح بخاری کی حدیث جو صبح وضو کرنے سے پہلے ہاتھ دھونے کی ہے اسے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تیرہ تابعین نے سنا۔ جن میں آٹھ مدینہ کے رہنے والے تھے۔ ایک کوفہ کا، دو بصرہ کے ایک یمن کا اور ایک شام کا رہنے والا تھا۔ان تابعین سے روایت کرنے والے پھر سولہ اتباع تابعین ہیں جن میں چھ مدینہ کے رہنے والے ہیں، چار بصرہ کے، دو کوفہ کے ، ایک مکہ کا ، ایک یمن کا ، ایک خراسان کا اور ایک شام کا۔کیا یہ ان کی گھڑت تھی یا سند میں اس طرح ان کا مل جانا حسن اتفاق ہے؟ یوں تیسری نسل میں راویوں کی تعداد سینکڑوں تک جاپہنچتی ہے جو نتیجۃ سینکڑوں اسانید کو جنم دیتے ہیں۔

اسی طرح ستر سے زائد صحابہ نے آپ ﷺ سے ایک حدیث سنی۔ بعد ازوفات نبوی یہ صحابہ مدینہ سے نکل کر شام، عراق، یمن،مصر، حجاز، افریقہ، خراسان وغیرہ چاردانگ عالم میں پھیل گئے جنہوں نے یہی حدیث اپنے شاگردوں کو سنائی اور عام مجالس میں بھی۔جن کی تعداد ہزاروں سے متجاوز تھی۔ سینکڑوں نے پھر یہی حدیث اپنی مجالس علمیہ میں سنائیں جن میں ہزاروں طلبہ ہیں۔یوں ہر علاقے، ہر شہر اور ہر نسل میں اس حدیث کا چرچا ہوتا جوبالآخر کتب میں منضبط ہو گیا اور سند کی تعمیر کرتا گیا۔پھر یہ کام مشکل تھا کہ انہی اسانید میں صرف وہ سند تلاش ہو جس کے تمام راوی ثقہ، ضابط اور قابل اعتماد حفاظ ہوں۔ سینکڑوں کی تعداد میں یہ اسانید ظاہر ہوئیں جن کے ڈانڈے مکہ ، مدینہ، شام ویمن، حجاز وعراق اور مصر وخراسان تک جاملے۔

٭٭٭٭٭

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top