• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تارک نماز کا حکم شرعی بقلم فیضلۃ الشیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
تارک نماز کا حکم شرعی بقلم فیضلۃ الشیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ

فتاوی اسلامیہ،جلد نمبر1ص480تا483،ط،دارالسلام،لاہور

فیضلۃ الشیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صحیح مسلم‘‘میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ نبی کریمﷺنے فرمایا:

ستكونُ أمراءُ . فتعرفونَِ وتُنْكرونَ . فمن عَرِف بَرِئ . ومن نَكِرَ سَلِمَ . ولكن من رَضِي وتابعَ قالوا : أفلا نقاتلهُم ؟ قال : لا . ما صلوا
’’عنقریب کچھ ایسے امراء ہونگےکہ جن کو تم پہچانو گے بھی اور انکار بھی کرو گے،جس نے پہچان لیا وہ بری ہوگیا اور جس نے انکار کردیا وہ سلامت رہا،لیکن جو شخص ان سے راضی ہوگیا اور جس نے ان کی پیروی کی(وہ ہلاک ہوگیا)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:’’کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟‘‘آپﷺنے فرمایا:’’نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں(تم ان سے لڑائی نہ کرو)
((صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،ح:1854))
اور سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:
خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ ، وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ , وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ " . قَالُوا : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلا نُنَابِذُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ ؟ قَالَ : " لا , مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلاةَ
’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو وہ تم سے محبت کریں،وہ تمہارے لیے دعا کریں اور تم ان کے لیے دعا کرو اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھو،وہ تم سے بغض رکھیں،تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:’’کیا ہم تلوار کے ساتھ انہیں ختم نہ کردیں؟آپﷺنے فرمایا:’’نہیں جب تک وہ نماز قائم رکھیں(ان کے خلاف تلوار نہ اٹھاو)
((صحیح مسلم،کتاب الامارۃ:1855))
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت ہےکہ رسول اللہﷺنے ہمیں بلایا تو ہم نے آپ کی بیعت کی،ہم نے یہ بیعت کی کہ ہم پسندیدگی اور ناپسندیدگی میں،مشکل اور آسانی میں اور اپنے اوپر ترجیح دئیے جانے کی صورت میں بھی سمع واطاعت کا مظاہرہ کریں گے اور اہل لوگوں سے حکومت نہیں چھینیں گے،اسی سلسلہ میں فرمایا:


إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ
’’ہاں الا یہ کہ تم حکمرانوں کی طرف سے صریح کفر کا ارتکاب دیکھ لو اور تمہارے پاس اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برہان ہو‘‘

کتاب وسنت میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے،جس سے یہ معلوم ہو کہ ’’تارک نماز‘‘کافر نہیں ہے،یا یہ معلوم ہو کہ وہ مومن ہے،یا یہ معلوم ہو کہ وہ جنت میں داخل ہوگا،یا یہ معلوم ہو کہ وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔زیادہ سے زیادہ اس سلسلہ میں جو وارد ہے وہ ایسی نصوص ہیں جو توحید اور لاالہ الا اللہ کی شہادت کی فضیلت پر دلالت کرتی اور اس کا ثواب بیان کرتی ہیں اور یہ نصوص یا تو کسی ایسے وصف کے ساتھ مقید ہیں،جس کے ساتھ ترک نماز ممکن نہیں یا یہ معین حالات کے بارے میں وارد ہیں،جن میں انسان ترک نماز کے لیے معذور ہوتا ہے یا یہ عام ہیں اور انہیں ترک نماز کے کفر کے دلائل پر محمول کیا جائے،کیونکہ ترک نماز کے کفر کے دلائل خاص ہیں اور خاص عام سے متقدم ہوتا ہے،جیسا کہ اصول حدیث اور اصول فقہ میں ایک معروف اصول ہے


اگر کوئی شخص یہ کہے،کیا یہ جائز نہیں کہ تارک نماز کے کفر پر دلالت کرنے والی نصوص کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ ان سے مراد وہ شخص ہے جو نماز کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے اس ترک کردے؟ہم عرض کریں گے کہ نہیں یہ تاویل جائز نہیں،کیونکہ اس میں دو رکاوٹیں ہیں،اس وصف کا ابطال لازم آتا ہے،جسے شریعت نے معتبر قرار دیا اور جس کے مطابق حکم عائد کیا۔یعنی شریعت نے تارک نماز پر کفر کا حکم لگایا ہے اور یہاں یہ نہیں کہا کہ جو کوئی نماز کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے ترک کرے وہ کافر ہے،اور پھر اقامت نماز کی بنیاد پر دینی اخوت کو قائم کیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ دینی بھائی وہ ہیں جو نماز کے وجوب کا اقرار کریں۔اللہ تعالیٰ یہ بھی نہیں فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور وجوب نماز کا اقرار کرلیں تو۔۔۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
اور نہ ہی نبی کریمﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ آدمی اور شرک وکفر کے درمیان فرق وجوب نماز کے اقرار کی وجہ سے ہے کہ جو اس کے وجوب کا انکار کرے،وہ کافر ہے۔اگر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺکی مراد یہ ہوتی تو اس سے روگردانی اس بیان کے خلاف ہوتی،جسے قرآن نے پیش کیا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ((سورہ النحل:89)
’’ہم نے آپ پر(ایسی)کتاب نازل کی ہے کہ(اس میں) ہر چیز کا(مفصل)بیان ہے‘‘

اور جس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺسے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:

وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ))((النحل:44))
’’اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو(ارشادات)لوگوں پر نازل ہوئے ہیں،وہ ان پر ظاہر کردو‘‘
اس میں دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ اس سے ایک ایسےوصف کا اعتبار لازم آتا ہے،جسے شریعت نے مناطِ حکم قرار نہیں دیا۔نماز پنجگانہ کے وجوب کا انکار موجب کفر ہے اس شخص کے لیے جو جہالت کی وجہ سے معذور ہو خواہ نماز پڑھے یانہ پڑھے،مثلا ایک شخص اگر پانچوں نمازوں کو تمام شروط،ارکان،واجبات،مستحبات سمیت اداکرے لیکن وہ کسی عذر کے بغیر ان نمازوں کے وجوب کا منکر ہوگا تو وہ کافر ہوگا حالانکہ اس نے نماز کو ترک نہیں کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ نصوص کو اس بات پر محمول کرنا کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو وجوب نماز کا انکار کرتے ہوئے ترک کرے،صحیح نہیں ہے،جب کے صحیح اور حق بات یہ ہے کہ تارک نماز کافر ہے اور اپنے اس کفر کے باعث ملت سے خارج ہوجاتا ہے،جیسا کہ ابن ابی حاتم کی اس روایت میں صراحت ہے،جو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ

لا تشركوا بالله شيئا ولا تتركوا الصلاة عمدا فمن تركها عمدا متعمدا فقد خرج من الملة "
’’رسول اللہﷺنے ہمیں وصیت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو شریک نہ بناو،قصدوارادہ سے نماز ترک نہ کرو کیونکہ جو شخص قصد وارادہ سے جان بوجھ کر نماز ترک کردیتا ہے تو وہ ملت سے خارج ہوجاتا ہے‘‘
((مجمع الزوائد،رقم:714،واخرجہ ابن ماجہ مختصرا و حسنہ الالبانی،رقم:4034))

نیز اگر ہم اسے ترک انکار پر محمول کریں تو پھر نصوص میں نماز کو بطور خاص ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوگاکیونکہ یہ حکم تو نماز،زکوۃ،روزہ ،حج اور ان تمام امور کے لیے عام ہےجو دین کے واجبات اور فرائض میں شمار ہوتے ہیں،کیونکہ ان میں سے کسی ایک کا اس کے وجوب کے انکار کی وجہ سے ترک موجب کفرہے،بشرطیکہ انکار کرنے والا جہالت کی وجہ سےمعذور نہ ہو۔


جس طرح سمعی اثری دلیل کا تقاضا ہےکہ تارک نماز کو کافر قرار دیا جائے،اسی طرح عقلی نظری دلیل کابھی تقاضا ہے اور وہ اس طرح کہ جو شخص دین کے ستون نماز ہی کو ترک کردےتو اس کے پاس پھر ایمان کیسے باقی رہا؟نماز کے بارے میں اس قدر ترغیب آئی ہےجس کا تقاضا یہ ہےکہ ہر عاقل مومن اس کے ادا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے،اور اس کے ترک کے بارے میں اس قدر وعید آئی ہےجس کا ہر عاقل مومن سے تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کے ترک سے اور اسے ضائع کرنے سے مکمل احتیاط برتے،کیونکہ اگر اسے ترک اور ضائع کردیا گیا تو اس کا تقاضا یہ ہوگا کہ پھر ایمان باقی نہ رہے!
جہاں تک اس مسئلے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قول کا تعلق ہے تو جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہ رائے یہ ہے،بلکہ کئی ایک علماء نے کہا ہے کہ اس پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ تارک نماز کافر ہے۔

عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

قال عبد الله بن شقيق كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم لا يرون شيئا من الأعمال تركه كفر غير الصلاة
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اعمال میں ترک نماز کے سوا اور کسی عمل کو کفر نہیں سمجھتے تھے‘‘
((سنن ترمذی،کتاب الایمان،باب ماجا فی ترک الصلاۃ:2622،حاکم نے اسے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے))
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ سیدنا عمر،عبدالرحمن بن عوف،معاذ بن جبل،ابوہریرہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ ’’تارک نماز‘‘کافر ہے۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کسی نے اس مسئلہ میں ان کی مخالفت بھی نہیں کی۔
علامہ منذری نے’’الترغیب والترہیب‘‘میں امام ابن حزم کا یہ قول نقل کیا ہے اور انہوں نے اس سلسلہ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ مزید نام بھی شمار کروائے ہیں۔مثلا(سیدنا)عبداللہ بن مسعود،عبداللہ بن عباس،جابر بن عبداللہ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم اور غیر صحابہ کرام میں سے امام احمد بن حنبل،اسحاق بن راہویہ،عبداللہ بن مبارک،ابراہیم نخعی،حکم بن عتیبہ،ایوب سختیانی،ابوداؤد طیالسی،ابوبکر بن شیبہ،زہیر بن حرب رحمۃ اللہ علیہم اور بہت سے دیگر علماء کا بھی یہی مذہب ہے۔


میں کہتا ہوں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مشہور مذہب ہےاور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی ایک قول یہی ہےجیسا کہ ھافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے آیت کریمہ:
کی تفسیر میں ذکر فرمایا ہے۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی’’کتاب الصلوۃ‘‘میں لکھا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب میں ایک قول یہی ہے،اور امام طحاوی رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔

اگر کہا جائے اس کا کیا جواب ہے،جس سے ’’تارک نماز‘‘کو کافر نہ سمجھنے والوں نے استدلال کیا ہے؟اس کے جواب میں ہم کہیں گےکہ جن دلائل سے انہوں نے استدلال کیا ہےان کی اس موضوع پر اصلاً دلالت ہی نہیں ہے،کیونکہ یا تو یہ ایسے وصف سے مقید ہیں کہ اس کے ساتھ ترک نماز کی تکفیر کے دلائل کے ساتھ اس کی تخصیص کردی جائے گی۔
تارک نماز کو کافر نہ دینے والوں نے جن دلائل سے استدلال کیا ہے،وہ ان مذکورہ بالا چار حالتوں سے خالی نہیں ہیں۔

یہ مسئلہ بہت اہم اور عظیم مسئلہ ہے۔انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور نماز کی حفاظت کرے تاکہ اس کا شمار بھی ان لوگوں میں سے ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ ۔وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۔وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ ۔وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ ۔اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۔
’’ بے شک ایمان والے رستگار ہوگئے،جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں،اور جو بےہودہ باتوں سے منہ موڑتے رہتے ہیں،اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں،اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،مگر اپنی بیویوں یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انھیں ملامت نہیں‘‘
 
Top