اس سے بھی زیادہ زوردار صراحت کے ساتھ ایک اور آیت ہے:"ماآتاکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا" (جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دے دیں اسے لے لو اور جس سے وہ تمہیں منع کریں اس سے رک جاؤ۔ 7:59)
تو یہ آیت نیز اس طرح کی دوسری آیتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ قرآنی تصور میں حدیث کوئی کم درجے کی چیز نہیں بلکہ ایک لحاظ سے اس کا درجہ قرآن کے برابر ہی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک سفیر کسی بادشاہ کی طرف سے دوسرے بادشاہ کے پاس ایک خط لے کر جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خط میں زیادہ تفصیلیں نہیں ہوں گی لیکن جس مسئلے کے لیے سفیر بھیجا جاتا ہے اس مسئلے پر جب گفتگو ہوگی تو سفیر کا بیان کیا ہوا ہر ہر لفظ بھیجنے والے بادشاہ ہی کا پیغام سمجھا جائے گا۔ اس مثال کے بیان کرنے سے میرا منشاء یہ ہے کہ حقیقت میں حدیث اور قرآن ایک ہی چیز ہیں دونوں کا درجہ بالکل مساوی ہے۔ ایک مثال سے میرا مفہوم آپ پر زیادہ واضح ہوگا۔ فرض کیجئے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زندہ ہوں اور ہم میں سے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مخاطب ہو کر یہ جاہل شخص اگر کہے کہ یہ تو قرآن ہے خدا کا کلام، میں اسے مانتا ہوں مگر یہ آپ کا کلام ہے اور حدیث ہے یہ میرے لیے واجب التعمیل نہیں ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فوراً ہی اس شخص کو امت سے خارج قرار دے دیا جائے گا اور غالباً اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پر موجود ہوں تو اپنی تلوار کھینچ کر کہیں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیجئے کہ میں اس کافر و مرتد کا سر قلم کر دوں۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں یہ کہنا کہ یہ آپ کی نجی بات ہے اور مجھ پر واجب العمل نہیں ہے گویا ایک ایسا جملہ ہے جو اسلام سے منحرف ہونے کا مترادف سمجھا جائے گا۔ اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو بھی ہمیں حکم دیں اس کی حیثیت بالکل وہی ہے جو اللہ کے حکم کی ہے۔ فرق دونوں میں جو کچھ ہے وہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ قرآن مجید کی تدوین اور قرآن مجید کا تحفظ ایک طرح سے عمل میں آیا ہے اور حدیث کی تدوین اور حدیث کا تحفظ دوسری طرح سے۔ اس لیے تحقیق اور ثبوت کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں تو ثبوت کا کوئی سوال نہیں تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے جو بھی ارشاد ہوا وہ یقینی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم تھا۔ لیکن بعد کے زمانے میں یہ بات نہیں رہتی۔ میں ایک حدیث سن کر آپ سے بیان کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو بالکل سچے ہیں لیکن میں جھوٹا ہو سکتا ہوں۔ مجھ میں انسانی کمزوری کی وجہ سے خامیاں ہوں گی۔ ممکن ہے میرا حافظہ مجھے دھوکہ دے رہا ہو۔ ممکن ہے مجھے غلط فہمی ہوئ ہو۔ ممکن ہے میں نے غلط سنا ہو۔ کسی وجہ سے مثلاً دھیان کم ہو جانے کی وجہ سے یا کوئی چیز حرکت میں تھی اس کے شور کی وجہ سے میں نے کوئی لفظ نہیں سنا تو خلط مبحث پیدا ہو گیا۔ غرض مختلف وجوہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حدیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کا دوسروں تک ابلاغ اتنا یقینی نہیں رہتا جتنا قرآن کا یقینی ہے۔ قرآن مجید کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نگرانی میں مدون کرایا اور اس کے تحفظ کے لیے وہ تدبیریں اختیار کیں جو اس سے پہلے کسی پیغمبر نے نہیں کی تھیں یا کم از کم تاریخ میں ہمیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مگر حدیث کے متعلق یہ صورت پیش نہیں آئ اور اس کی وجہ ممکن ہے رسول للہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائل مبارکہ کا یہ پہلو بھی ہو کہ آپ میں تواضع بہت تھی۔ اپنے آپ کو محض انسان سمجھتے تھے۔ (انما انا بشر مثلکم)"من یطع الرسول فقد اطاع اللہ" (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا خدا کی اطاعت کرتا ہے۔ 80:4)
کے ذریعے سے یہ واضح کیا گیا کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تم سے بیان کرتے ہیں وہ اپنی خواہش سے نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ کی وحی کردہ چیز ہوتی ہے۔ اس طرح ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو بھی بیان کرتے ہیں وہ خدا کی وحی پر مبنی ہوتا ہے۔ جب وحی آتی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس میں غلطی نہیں کرتے اسے من و عن پہنچاتے ہیں لیکن اگر وحی نہ آئے تو انتظار کرتے ہیں۔ کیونکہ وحی پیغمبر کے اختیار میں نہیں۔ جب خدا چاہتا ہے وحی کرتا ہے اور جب نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے سوائے انتظار کے کوئی چارہ نہیں ہوتا اور وہ اپنی طرف سے کچھ کہہ کر من گھڑت طور سے اپنی بات کو وحی قرار نہیں دے سکتے۔ ہمیں حدیث میں ایسی کافی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بعض دنیوی معاملات میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مشورہ بھی فرماتے تھے۔(وما ینطق عن الھوی۔ ان ھوا الاوحی یوحی 4,3:53)
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جواب یہ تھامثال کے طور پر ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ احکام دیے۔ صحابہ نے کہا کہ کیا یہ وحی پر مشتمل ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ اگو وحی پر مشتمل ہوتے تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا۔ ایک دوسری حدیث بہت دلچسپ ہے جو کھجور کے درختوں کے متعلق ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے اور وہاں دیکھا کہ نر درختوں کے پھول مادہ پھول کے اندر ڈالے جاتے ہیں گویا اس عمل کی وجہ سے کھجور پیدا ہوتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طبیعت میں جو حیا تھی اس کی بناء پر آپ کو یہ عمل پسند نہیں آیا اور کہا کہ نر اور مادہ کا تعلق پیدا کرنا درختوں میں مناسب نہیں ہے، بہتر ہے کہ تم یہ نہ کرو۔ لوگوں نے جب اس حکم پر عمل کیا تو کھجور کی پیداوار اس سال بہت خراب گئ۔ سب لوگ آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم نے اس سال بیج ڈالنے (Pollination) کا عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے کھجور کی پیدا وار نہیں ہوئی اس پر (ترمذی شریف وغیرہ کی حدیثوں کے مطابق)
حدیث کے سلسلے میں اولاً چند اصطلاحوں کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک لفظ حدیث ہے اور ایک لفظ سنت، اب یہ دونوں تقریباً مترادف الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ حدیث سے مراد وہی ہے جو سنت کا مفہوم ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیان کردہ چیزیں، رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل کردہ امور جن کا تذکرہ کسی مشاہدہ کرنے والے کی طرف سے ہوکہ میں نے دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہا یا یوں کیا اور تیسرے وہ امور جنہیں ہمارے مؤلفین "تقریر" کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی وہ امور جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے برقرار رکھا اور اس سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کسی صحابی کو کوئی کام کرتے ہوئے دیکھا اور اسے منع نہ کیا یا خاموش رہے، تو گویا اپنی خاموشی سے آپ نے اس عمل کو برقرار رکھا۔ یعنی آپ کے سکوت سے بھی اسلامی قانون بن جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فریضہ ہے کہ وہ کسی برائ کو دیکھیں تو "نہی عن المنکر" کریں یعنی اپنے صحابی کے کسی ایسے فعل کو جو اسلام کے مطابق نہیں ہے آپ معاف تو کر دیں گے کہ اس صحابی نے غفلت سے یا ناواقفیت سے کیا ہے لیکن اسے روکیں گے ضرور کہ آئندہ ایسا نہ کرے۔ مختصر یہ کہ حدیث سے متعلق تین چیزیں پائ جاتی ہیں، ایک رسول اللہ کا قول، دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل، تیسرا رسول اللہ کا کسی دوسرے کے قول و فعل کو برقرار رکھنا یعنی اصطلاحی طور پر رسول اللہ کی "تقریر" پہلی دو اصطلاحوں یعنی حدیث اور سنت میں اب تو کوئی فرق نہیں لیکن ابتدا میں فرق تھا۔ حدیث کے معنی بولنا یعنی قول اور سنت کے معنی ہیں طرز عمل۔ اب گویا قول اور فعل دونوں ایک ہی طرح کی چیزیں ہو گئی ہیں کیونکہ بارہا صحابہ کی نقل کردہ روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول بھی ہوتا ہے اور رسول اللہ کا عمل بھی مگر اس کے لیے حدیث کو حدیث اور سنت میں تقسیم کر کے ان کو الگ الگ کر کے جمع کرنا ناممکن بات تھی۔ اس لیے کثرت استعمال سے حدیث سے مراد قول بھی ہے اور عمل بھی۔ اسی طرح سنت سے مراد قول بھی ہے اور عمل بھی۔ اب عملاً ان میں کوئی فرق باقی نہیں ہے، جہاں تک میرے علم میں ہے۔اس تمہید کے بعد میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ قرآن کی مماثل چیزیں اور قوموں میں بھی ملتی ہیں، مثلاً یہودیوں کے ہاں توریت اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے یا مثلاً اور قوموں کی طرف خدا کی بھیجی ہوئ کتابیں ہیں، تو قرآن کے مماثل الہامی کتابوں کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں، لیکن حدیث کی مماثل چیزیں دیگر قوموں میں مجھے نظر نہیں آتیں۔ بدھ مت میں ایسی چیز موجود ہے مگر اس کی اہمیت وہ نہیں ہے جو ہمارے ہاں حدیث کی ہے۔ بدھ مت کی اساسی اور بنیادی کتاب اسی قسم کی ہے جیسے ہمارے ہاں ملفوظات کے نام سے مشہور مجموعے ہیں جن میں کسی ولی، کسی بزرگ یا کسی مرشد کے اقوال کو ان کے مریدوں میں سے کسی نے قلم بند کیا ہے۔ گوتم بدھ کے ملفوظات بھی صرف ایک شخص کے جمع کردہ ہیں لیکن حدیث کے مماثل کوئی ایسی چیز نہیں ملتی کہ بہت سے اہل ایمان اپنے مشاہدات اور اپنے محسوسات کو جمع کر کے بعد والوں تک پہنچانے کی کوشش کریں، جیسا کہ حدیث کے مجموعوں میں کوشش کی گئ ہے۔ یہ بات دوسروں کے ہاں مفقود ہے۔ گویا حدیث ایک ایسا علم ہے اور حدیث کے مندرجات ایسی چیزیں ہیں جن کے مماثل کوئی اور چیز دوسرے مذاہب میں ہمیں نظر نہیں آتی ان حالات میں تقابلی مطالعے کا امکان باقی نہیں رہتا لہٰذا براہ راست رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کی تاریخ ہی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں۔ حدیث ساری ہی اللہ کے الہام پر مبنی ہے کیونکہ یہحدیث اور قرآن کے مابین ایک تیسری چیز بھی آتی ہے اس سے بھی واقفیت ہوجانی چاہیے۔ اگر چہ اس میں اور حدیث میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے، لیکن ایک حد تک فرق ضرور ہے وہ چیز ہے حدیث قدسی۔ حدیث قدسی کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیان کردہ وہ حدیث جس کے شروع میں یہ الفاظ آتے ہیں "اللہ کہتا ہے کہ ۔۔۔ فلاں فلاں"
غرض یہ بھی ہجرت مدینہ سے پہلے کی تحریری چیزوں میں ایک چیز کہی جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ اور چیزیں ہمیں ملتی ہیں۔ دوسرا مختصر دور ہجرت کا وقت ہے۔ یعنی مکہ سے مدینہ کے سفر کے دس بارہ دن کا زمانہ۔ اس زمانے میں بھی ہمیں بعض تحریری چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔ مثال کے طور پر سراقہ بن مالک کا واقعہ ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تعاقب کیا۔ چاہا کہ آپ کو گرفتار کر لے اور قریش کے ہاتھ حضور کو بیچ دے۔ کیونکہ قریش نے اعلان کیا تھا کہ جو محمد کو گرفتار کرے گا اسے اتنا انعام دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس اثناء میں کئی معجزات بھی پیش آئے۔ کہتے ہیں کہ آخر میں سراقہ نے معافی چاہی۔ رسول اللہ نے اسے معاف کیا تو اس پر اس نے درخواست کی کہ مجھے پروانہ امن دیا جائے۔ ہمارے راوی بیان کرتے ہیں کہ اس ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دوات قلم اور کاغذ بھی موجود تھا اور حضور کے ہمراہیوں میں لکھنا پڑھنا جاننے والا ایک غلام بھی موجود تھا جس کا نام عامر بن فہیرہ تھا۔ چنانچہ اس کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے املا کروایا، جس میں سراقہ بن مالک کو رسول اللہ کی طرف سے امن اور پناہ دینے کا ذکر تھا۔ بعد میں سراقہ مسلمان ہو گیا اور جس وقت وہ مسلمان ہونے کے لیے آیا اس نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا عطا کردہ پروانہ میرے پاس ہے، چنانچہ اس تحریر کی اساس پر صحابہ نے اسے قریب ہونے کا موقعہ دیا، باوجود ہجوم کے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ گیا اور گفتگو کی۔ اسے ہجرت کے زمانے کی تحریروں میں شامل کیا جائے گا۔ ایسی چیزیں زیادہ تو نہیں ہیں۔ غالباً ہجرت کے دوران کی یہ واحد مثال ہے۔ مگر جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ پہنچے تو اب سرکاری تحریروں کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئ۔ ان میں کچھ سرکاری کاغذات ہیں اور کچھ تحریریں خالص پرائیویٹ قسم کی ہیں۔ بعض تحریریں ایسی ہیں جن کی کوئی توقع بھی نہیں ہو سکتی کہ ایسی چیزیں بھی اس زمانے میں پائ جاتی ہوں گی۔ مثلاً "صحیح بخاری" میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ جتنے لوگ مسلمان ہوئے ہیں ان کے نام لکھو۔ چنانچہ مردم شماری کی گئ۔ صحیح بخاری کے مطابق اس فہرست میں پندرہ سو لکھے گئے۔ مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں سب کی تعداد پندرہ سو کی تعداد ایسی ہے کہ میرے خیال میں ہجرت سے عین بعد کی معلوم ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کہ مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین دو سو خاندان ہوں گے تو پانچ سو کے لگ بھگ افراد ہونے چاہئیں۔ اسی طرح اس میں مدینہ منورہ کے مسلمان بھی ہوں گے تو اس طرح پندرہ سو مسلمانوں کا ہونا ہجرت کے ابتدائی سالوں کا واقعہ معلوم ہوتا ہے، بہت بعد کا نہیں۔ کیونکہ بعد میں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ شمار نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً حجۃ الوداع میں ایک لاکھ چالیس ہزار حضرات فریضہ حج ادا کرنے کو آئے تھے تو پندرہ سو اور ایک لاکھ چالیس ہزار میں ظاہر ہے کوئی نسبت نہیں پائ جاتی۔ مردم شماری کے علاوہ ایک اور چیز بھی ملتی ہے جس کا تعلق غالباً سنہ ١ھ سے ہے اس کی بھی ہمیں کوئی توقع نہیں تھی۔ یہ بھی ایک عجیب و غریب چیز ہے۔یہ تمیم داری کا واقعہ ہے۔ تمیم داری شام کے رہنے والے ایک عیسائی تھے۔ وہ مکہ آتے ہیں، اسلام قبول کرتے ہیں اور پھر اپنے قصے بھی بیان کرتے ہیں۔ وہ ایک جہاز ران تھے بہت سے بحری سفر کر چکے تھے۔ جن کا تفصیل کے ساتھ "صحیح مسلم" میں ذکر آیا ہے۔ تمیم داری نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ کی فوج بہت جلد میرے وطن یعنی شام کو فتح کرے گی جب یہ ہو تو مجھے فلاں فلاں گاؤں بطور جاگیر مرحمت فرمائیں۔ تاریخی کتابوں کے مطابق رسول اللہ نے ایک پروانہ لکھوایا اور اس کو دیا۔ اس کے الفظ یہ ہیں کہ اگر مرطوم، خبرون (اور چند گاؤں کے نام ہیں) وغیرہ فتح ہو جائیں تو تمیم داری کو دیے جائیں۔
بہر حال اہل مدینہ کے اجتماع کا مقصد صرف یہی نہ تھا جو میں نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہوگا کہ تمہاری مشترکہ قوت تم سب کی حفاظت کا باعث ہوگی۔ بلکہ ایک اور چیز بھی تھی جس کو ہم اس دستور کے اندر دیکھتے ہیں اور جس پر سب نے اتفاق کیا، وہ یہ کہ ہر قبیلے کو بہت سے امور میں حسب سابق کامل آزادی رہے گی صرف چند چیزوں کے متعلق یہ وضاحت کی گئ کہ وہ بجائے انفرادی کے مشترکہ ہوں گی اور مرکزی حکومت سے متعلق رہیں گی۔ ان مرکزی امور میں سے ایک عسکری مسئلہ بھی تھا یعنی جنگ۔ اجنبیوں سے جنگ کرنا اور صلح کرنا ناقابل تقسیم قرار دیا گیا یعنی یہ نہ ہوگا کہ جنگ صرف ایک قبیلہ سے ہو اور صلح صرف ایک قبیلہ سے ہو اور باقی لوگ اس میں شریک نہ ہوں بلکہ آئندہ سے صلح اور جنگ ناقابل تقسیم، ایک مشترکہ مسئلہ سمجھی جائے گی۔ اسی طرح انشورنس (یعنی بیمہ زندگی) کا ایک انتظام کیا گیا جس کی تفصیل میں آگے بیان کروں گا۔ یہ سب گویا مشترکہ امور قرار پائے۔بہر حال اس آبادی میں جس میں یکجہتی نہیں پائ جاتی تھی، ایسا انتظام کرنا کہ سب کی مشترکہ حکومت قائم ہو یہ بظاہر خیال و خواب کی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس کی ضرورت تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین کی مواخات کے ذریعے سے گزر بسر کا انتظام کرنے کے بعد جو کام کیا وہ یہ تھا کہ ان سارے گروہوں کے نمائندوں کو اپنے پاس بلایا، مسلمان بھی یہودی بھی، صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میرے والد کے مکان پر یہ اجتماع ہوا۔ اس میں یہودیوں کے نمائندے بھی تھے، عربوں کے بھی۔ عربوں میں اوس کے نمائندے بھی تھے، خزرج کے بھی۔ اسلام قبول کرنے والے اوس اور خزرج کے نمائندہ بھی اور وہ بھی جو تا حال مسلمان نہیں ہوئے تھے، اور مہاجرین کے نمائندے بھی تھے۔ ان سب کو جمع کیا اور ان سے مخاطب ہو کر غالباً یہ فرمایا (کیونکہ صراحت نہیں ملتی کہ اجتماع میں کیا چیز شروع میں پیش آئ) کہ آپ اس وقت مختلف قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں اور بالکل ایک دوسرے سے آزاد ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ اگر ایک قبیلہ پر اس کا دشمن باہر سے حملہ آور ہوتا ہے تو باقی سب لوگ غیر جانبدار رہتے ہیں اور اس قبیلہ کو دشمن کی مجموعی قوت سے تنہا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسے شکست ہو۔ پھر کچھ دنوں کے بعد دوسرے قبیلے پر کوئی بیرونی دشمن حملہ آور ہو اور اسی طرح تیسرے اور چوتھے پر تو نتیجہ یہی ہوگا کہ رفتہ رفتہ دشمنوں کے ہاتھوں سب ختم ہو جاؤ گے۔ اس لیے، کیا یہ مناسب نہیں کہ تم سب قبیلے اپنی ایک مشترکہ حکومت قائم کرو تاکہ تمہاری مشترکہ حکومت کے باعث دشمن کو بھی یہ خوف ہو کہ ہمارا ایک دشمن نہیں، بلکہ بہت سے قبیلے وہاں موجود ہیں وہ سب ہمارا مقابلہ کریں گے اور ہم اپنی تنہا قوت پر اس سارے شہر مدینہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ ایک مشترکہ معاہدہ ہے جو دشمنوں سے تمہارے تحفظ ، تمہارے معاشی اور مالی فوائد کا ضامن ہوگا۔ تجویز معقول تھی اس لیے سبھوں نے یا کم از کم اکثر قبیلوں نے قبول کر لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اکثر کا لفظ صحیح ہے کیونکہ اس واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ اوس کے چار قبیلے شروع میں اس میں شریک نہیں تھے۔