• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"تاریخ سے سبق آموزی،،، انداز اور فوائد" از حذیفی حفظہ اللہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم الله الرحمن الرحيم

"تاریخ سے سبق آموزی،،، انداز اور فوائد"

از حذیفی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 17-رجب- 1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "تاریخ سے سبق آموزی،،، انداز اور فوائد" ارشاد فرمایا :

جس میں انہوں نے کہا کہ عبرت حاصل کرنا اور سبق آموزی روشن ذہنوں کا خاصہ ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کو دیکھ کر خود سدھر جائیں، مومن عبرت حاصل کرے تو یہ عبادت ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے سابقہ لوگوں کے واقعات بیان کر کے عبرت حاصل کرنے کا حکم ہی تو دیا ہے، بلکہ ایسے لوگوں کی مدح سرائی فرمائی جبکہ عبرت نہ پکڑنے والوں کی قرآن و سنت میں مذمت کرتے ہوئے جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا گیا، مومن کیلیے ہر چیز سبق آمیز ہوتی ہے حتی کہ بیماری بھی اسے نصیحت کرتی ہے، جبکہ منافق کیلیے بڑی سے بڑی دلیل بھی کار گر ثابت نہیں ہوتی، اس کائنات کی ہر چیز سے سبق حاصل کرنا عبادت ہے، اس سے انسان کا دل ثابت قدم ہوتا ہے، شکوک و شبہات زائل ہوتے ہیں، دل میں وحدانیتِ الہی مزید پختہ ہوتی ہے ، نقصانات کم ہوتے ہیں، نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں اور اللہ تعالی پر اعتماد بڑھتا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ: موت کو یاد رکھو اور اپنا محاسبہ تسلسل کے ساتھ کرتے رہو ۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، وہ غیب جاننے والا اور دلوں کو پھیرنے والا ہے، وہی گناہوں کو بخشتا ہے، میں اپنے پروردگار کی نعمتوں پر اسی کی حمد و ثنا بجا لاتا ہوں ، اس کی نعمتوں کا صحیح شمار بھی وہی کر سکتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، تعریف اسی کی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ بشیر و نذیر ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل اور صحابہ کرام پر سلامتی، برکتیں ، اور رحمتیں نازل فرما جنہیں اللہ تعالی نے اپنا ولی بنایا، اللہ تعالی بہترین مولا اور بہترین مدد گار ہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

خلوت و جلوت میں تقوی الہی اختیار کرو؛ تا کہ اللہ تعالی تمہارے امور سنوار دے اور حالات بہتر کر دے۔ تقوی ہی نیک اور کامیاب لوگوں کا طریقہ کار ہے، اور تقوی سے محرومی واضح خسارہ ہے۔

اللہ کے بندو!

ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جو اہل بصیرت اور ایمان ہیں، عقلمندوں اور نیک لوگوں کی راہ پر چلو۔

عقلِ سلیم اور سلیم الفطرت لوگ ہی عقلمند ہیں، یہی لوگ وحی سے مستفید ہوتے ہیں اس کا معنی و مفہوم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مراد کے مطابق سمجھتے ہیں، یہ کلام الہی پر عمل اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالی سے ثواب کی امید ہوتی ہے نیز اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتے ہوئے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ (17) الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ}

اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور اللہ تعالی کی طرف متوجہ رہے وہ خوشخبری کے مستحق ہیں، میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔ [17] جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت دی اور یہی عقلمند بھی ہیں [الزمر: 17، 18]

عبرت حاصل کرنا اور سبق آموزی روشن ذہنوں کا خاصہ ہے، عبرت حاصل کرنا؛ تجربہ کاری اور بصیرت کی علامت ہوتی ہے، دوسروں سے سبق حاصل کرنے کا عمل انسان کو کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے اور تباہی سے نجات دلاتا ہے، اس کی وجہ سے عبرت پکڑنے والا شخص مثبت اقدامات کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ نیز اس سے انسان کو نیک اور با صلاحیت لوگوں کے راستے پر چلنے کی رہنمائی ملتی ہے، اور اس کے لیے نتائج مثبت برآمد ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کو سبق حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا تو اس کو سمجھانا بھی سود مند ثابت نہیں ہوتا، آخر کار وہ تباہی سے دوچار ہو جاتا ہے اور ہوس پرست بن جاتا ہے، ایسا شخص منفی سوچ کے حاملین کے پیچھے چلتا ہے اور اپنے آپ کو پشیمان ہونے والوں میں شامل کر لیتا ہے۔

عبرت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ:

٭ حالیہ یا ماضی کی اندوہناک صورتحال کو دیکھ کر ، اِن کے اسباب سے بچتے ہوئے بہتری کی جانب بڑھنا، یا پھر:

٭ صالحین کی سیرت اور اللہ تعالی کی طرف سے انہیں ملنے والے انعامات دیکھ کر ان کے طور طریقے کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دینے کا نام عبرت حاصل کرنا ہے۔ یا پھر:

٭مخلوقات کی ماہیت، پر اسرار رازوں اور صفات کو معلوم کر کے انہیں ایک خالق کی بندگی پر کار بند کرنے کی حکمت معلوم کرنا اور اسی کی اطاعت اور بندگی پر کار بند رہنے کا نام عبرت حاصل کرنا ہے۔


اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا کیا اور پوری کائنات کیلیے قوانین وضع فرمائے، چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی اطاعت کو دنیا و آخرت میں ہمہ قسم کی کامیابی کا سبب قرار دیا ہے، اور اسی طرح اپنی نافرمانی کو دنیا اور آخرت میں ناکامی قرار دیا، تو کیا اب کوئی اللہ کی نافرمانی کر کے کامیاب ہو سکتا ہے؟!

اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ نے انبیائے کرام، رسولوں اور اہل ایمان کے قصے بیان کیے ہیں ان میں ہمارے لیے بہت زیادہ اسباق اور بعد میں آنے والوں کیلیے عملی نمونے ہیں، ان کے باعث عذاب سے نجات مل سکتی ہے اور کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں، انجام بھی اچھا ہو سکتا ہے اور درجات بھی بلند ہو سکتے ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

{لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ}

ان کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے، یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ یہ سابقہ کتابوں کی تصدیق ہے ، یہ ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے ۔[يوسف: 111]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

{ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ }

پھر ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو بچا لیتے تھے، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو نجات دیا کریں۔ [يونس: 103]

جبکہ جھٹلانے والوں کے متعلق فرمانِ باری تعالی ہے:

{فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ (51) فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (52) وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ}

دیکھ! ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟ کہ ہم نے انہیں ان کی قوم سمیت سب کو غارت کر دیا [51] یہ ہیں ان کے مکانات جو ان کے ظلم کی وجہ سے اجڑے پڑے ہیں، جو لوگ جانتے ہیں ان کے لیے اس میں بڑی نشانی ہے۔ [52] اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے اور متقی تھے۔ [النمل: 51 - 53]

اسی طرح اللہ تعالی نے سورۃ الشعراء میں متعدد انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے واقعات ذکر کئے، ان میں اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی کامیابی کا ذکر کرنے کے بعد اختتام ان الفاظ پر فرمایا:

{إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (190) وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ}

بیشک اس میں نشانی ہے، لیکن ان میں سے اکثر مانتے ہی نہیں تھے [190] اور آپ کا پروردگار یقیناً سب پر غالب اور رحم کرنے والا ہے۔ [الشعراء: 190، 191]

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فرمانِ باری تعالی : {إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً} کا مطلب یہ ہے کہ: "اس واقعے میں اللہ تعالی کی حیرت انگیز مدد و نصرت کا ذکر ہے نیز یہ انتہا درجے کی حکمت بھی واضح کرتا ہے۔ اور { وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ} کا مطلب یہ ہے کہ: ہر چیز پر اسی کا تسلط ، قابو اور قہر ہے۔ {الرَّحِيمُ} یعنی اپنی مخلوق پر نہایت رحم کرنے والا ، لہذا نافرمانوں کو فوری سزا نہیں دیتا، بلکہ انہیں مہلت دیتا ہے اور اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے، [اگر نہ سدھرے تو] غالب اور طاقتور کی طرح پکڑ لیتا ہے۔ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: {الرَّحِيمُ} یعنی جو اللہ تعالی سے توبہ مانگے اور رجوع کرے تو اس پر نہایت رحم کرنے والا ہے"

اسی طرح لوط علیہ السلام کے قصے کے آخر میں فرمایا:

{إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ}بلاشبہ نصیحت لینے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ [الحجر: 75]

کے متعلق قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یعنی: عبرت پکڑنے والوں کیلیے" تفسیر بغوی

اس لیے تاریخی واقعات اور حالات سے وہی لوگ عبرت اور سبق حاصل کرتے ہیں جو نیک لوگوں کی راہ پر گامزن ہوں اور بہتری چاہتے ہوں، نیز برائی اور برے لوگوں سے دور ہوں۔

جبکہ ایسے لوگ جو عبرت حاصل نہ کریں، نصیحت نہ پکڑیں، محاسبہِ نفس نہ کریں، اپنی آخرت سنوارنے کیلیے کوئی اقدامات نہ کریں، ان کی عقل یا ان کا دین قبیح کاموں اور گناہوں سے نہ روکے تو وہ جانوروں جیسے ہیں، اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا:

{أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا}

کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وہ تو بالکل چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔ [الفرقان: 44]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

{وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ}

اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے وہ اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔[يوسف: 105]

اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (مؤمن بیمار ہو اور پھر بیماری بڑھتی جائے یہاں تک کہ وہ فوت ہو جائے، تو یہ بیماری اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے، اور اگر اللہ تعالی اسے شفا دے دے تو بیماری ماضی کے گناہوں کا کفارہ اور مستقبل کیلیے نصیحت بن جاتی ہے۔ لیکن منافق بیمار ہو اور اسے شفا مل جائے تو وہ اس اونٹ کی طرح ہوتا ہے جسے مالکان پہلے باندھ کر رکھتے تھے اب اسے کھلا چھوڑ دیتے ہیں، اور اونٹ کو یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ اسے باندھ کر کیوں رکھا جاتا تھا اور اب اسے چھوڑا کیوں گیا ہے) نسائی

اللہ تعالی نے انبیائے کرام اور رسولوں سمیت خاتم الانبیاء ﷺ کے حالات اسی لیے ذکر کئے ہیں کہ ہم ان کی تاریخ سے سیکھیں، ان کے طریقے پر چلیں اور ان کا اخلاق اپنائیں، اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو بھی انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے کا حکم دیا اور فرمایا:

{أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ}

یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت کی تھی۔ آپ انہی کے راستے پر چلیں [الأنعام: 90]

اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:

{فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ}

آپ بھی اسی طرح ڈٹ جائیں جیسے اولو العزم پیغمبر ڈٹ گئے تھے۔[الأحقاف: 35]

اسی طرح اللہ تعالی نے سورہ یاسین میں مذکور مومن کی بات ذکر فرمائی:

{يَاقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ (20) اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ}

میری قوم! رسولوں کی اتباع کرو [20] ان کی اتباع کرو جو تم سے اجرت نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔[يس: 20، 21]

ہمارے نبی خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ جن کے ذریعے اللہ تعالی نے سابقہ تمام شریعتوں کو منسوخ فرمایا، آپ کو کامل ترین شریعت اور دائمی دین کے ساتھ مبعوث فرمایا، بلکہ آپ کی شریعت پر کار بند رہنے والے کیلیے دنیا و آخرت میں خوشحال زندگی کی ضمانت بھی دی کہ اللہ تعالی اسے خیر الخلق کے ساتھ جنتوں میں داخل فرمائیں گے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا}

اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ اور ان کی رفاقت کے کیا ہی کہنے![النساء: 69]

اس سے بڑی اور کیا عزت افزائی ہو سکتی ہے؟ اتنے بڑے مقام کے مقابلے میں کوئی اور مقام ہو سکتا ہے؟

اور جس طرح اللہ تعالی نے ہمیں انبیائے کرام اور اہل ایمان کے واقعات بتلائے کہ ہم ان کے راستے پر چلیں اور نجات کا راستہ اپنائیں، ان کی سیرت سے سیکھیں اور ان کے حالات و واقعات کو اپنی نظروں کے سامنے رکھیں، تو اسی طرح اللہ تعالی نے حق جھٹلانے والوں ، ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم لوگوں کے حالات بھی بیان کئے ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی، ہوس پرستی میں مگن رہے؛ ان کا تذکرہ اس لیے کیا کہ ہم ان کو ملنے والی سزاؤں سے عبرت حاصل کریں، انہیں دنیا اور آخرت میں جو عذاب جھیلنے پڑیں گے ان سے سبق حاصل کریں، ان پر پڑنے والی پھٹکار سے بچنے کی کوشش کریں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ(38)وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ (39) فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ}

اور ہم نے عاد اور ثمود کو بھی [غارت کیا] جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں انکی خوبصورت بنا کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ راست سے روک دیا تھا حالانکہ وہ صاحب بصیرت تھے [38] قارون، فرعون اور ہامان کو بھی[غارت کیا]ان کے پاس موسی واضح معجزے لے کر آئے انہوں نے پھر بھی زمین میں تکبر کیا لیکن وہ ہم سے بچنے والے نہ تھے [39] پھر ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا ، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا ، بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا ، بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا ، اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا اللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے [العنكبوت: 38- 40]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

{كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ}

تمام نے رسولوں کو جھٹلایا تو میری طرف سے وعید نازل ہو گئی۔ [ق: 14]

بنو نضیر کے قصے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

{فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ}

اے بصیرت والو! عبرت پکڑو۔[الحشر: 2]

منکرینِ رسالت اور مجرموں کی انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے ساتھ کارستانیاں لوگوں میں مشہور و معروف ہیں، یہ یہ کارستانیاں لوگ نسل در نسل ایک دوسرے کو بتلاتے آئے ہیں ، چنانچہ تمام واقعات اللہ تعالی کی احقاقِ حق اور اہل حق کی تائید کیلیے بڑی دلیلیں ہیں، ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی پہچان اور دعوتِ توحید کیلیے ، اسی طرح موحدین اور ان کے بہترین انجام کیلیے اللہ تعالی نے کس کس طرح سے مدد نازل فرمائی؛ کہ باطل اور شرکیہ امور کی بیخ کنی ہو سکے اور لوگوں کا ان سے بچنا ممکن ہو۔

مخلوقات کی فطرت سے سبق حاصل کرنا، ان کی صفات اور رنگ ڈھنگ سے نصیحت لینا، ان کی بے مثال تخلیق پر غور و فکر کرنا، ان تمام امور کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار مزید پختہ ہو، عبادت اور اطاعت صرف اللہ تعالی کی ہو؛ کیونکہ جو پیدا کرتے وقت اکیلا تھا وہی تنہا معبودِ برحق بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِينَ}

تمہارے لیے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں ان کے پیٹ میں موجود گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کیلیے سہتا پچتا ہے [النحل: 66]

اسی طرح فرمایا:

{يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ}

اللہ تعالی ہی دن اور رات کو رد و بدل کرتا رہتا ہے آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔ [النور: 44]

اسی طرح فرمایا:

{قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ}

آپ کہیں: تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں۔ [يونس: 101]

مسلمان کی جانب سے مخلوقات کے بارے غور و فکر عبادت کا درجہ رکھتا ہے، اور ان مخلوقات سے عبرت حاصل کرنے پر مسلمان کو ایمان و یقین کی دولت حاصل ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِلْمُؤْمِنِينَ}

بیشک آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کیلیے نشانیاں ہیں۔[الجاثية: 3]

غور و فکر اور عبرت حاصل کرنے سے متردد دل بھی ثابت قدم ہو جاتا ہے اور دل کو جِلا ملتی ہے، بصر و بصیرت منور ہو جاتی ہیں، نیز رہن سہن صحیح ہو جاتا ہے۔

جبکہ غور و فکر اور عبرت حاصل کرنے سے رو گردانی پر دل سخت ہوتے ہیں، غفلت پیدا ہوتی ہے، انسان پشیمانی کی جانب گھسٹتا چلا جاتا ہے اور گناہ سر زد ہوتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غفلت شیطانی راہ ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اسرا اور معراج کے واقعہ کے متعلق فرمایا:

(جب میں آسمان دنیا تک نیچے آ گیا تو میں نے اپنے سے نیچے دیکھا: مجھے تیز ہوا ، دھواں اور چیخ و پکار سنائی دی: تو میں نے کہا: جبریل یہ کیا ہے ؟ تو فرمایا : یہ شیاطین ہیں جو ایسے بنی نوعِ آدم کی آنکھیں داغ رہے ہیں جو آسمان و زمین پر غور و فکر نہیں کرتے تھے، اگر ایسا نہ کرتے تو انہیں حیرت انگیز معلومات ملتیں) احمد

فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (201) وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ}

بلاشبہ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں انہیں جب کوئی شیطانی وسوسہ چھو بھی جاتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور فوراً صحیح صورت حال دیکھنے لگتے ہیں[201] اور ان (شیطانوں) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے [الأعراف: 201، 202]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں اسی نے اپنے ولیوں کے دل قرآن سے منور فرمائے، ان کی بصیرت کو ایمان سے جِلا بخشی، اور ان کی نیکیوں میں "احسان" پیدا فرمایا، میں اپنے رب کی عظیم نعمتوں پر اسی کی حمد خوانی کرتا ہوں، ان نعمتوں کو اس کے علاوہ کوئی شمار ہی نہیں کر سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، تعریفیں بھی اسی کی ہیں وہی نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سربراہ اور نبی جناب محمد اسکے چنیدہ بندے اور رسول ہیں آپ کو خصوصی جوامع الکلم اور قوتِ گویائی عطا کی گئی، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل ، صحابہ کرام اور ان کی اقتدا کرنے والوں پر اپنی رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو تو اللہ تعالی تمہارے لیے زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی بھلائیاں جمع فرما دے گا۔

اللہ کے بندو!

اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کیا جائے خود ہی اپنا محاسبہ کر لو، ہر ایک اپنے انجام کار اور موت کو مد نظر رکھے۔ جس قدر دوسروں سے سیکھو گے تمہاری غلطیاں اتنی ہی کم ہو جائیں گی۔ گناہوں اور نافرمانیوں سے بچ کر رہنے والا سلامتی والی زندگی گزارے گا، اس کا خاتمہ بالخیر ہو گا۔

دوسروں کو دیکھ کر نصیحت پکڑنے والا سعادت مند اور جس کی حالت سے لوگ عبرت پکڑیں وہ دھوکا زدہ ہے، اللہ تعالی نے حالات و واقعات سے نصیحت نہ پکڑنے والے ہوس پرست لوگوں کی مذمت فرمائی اور کہا:

{وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ وَكُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ (3) وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ}

انہوں نے اسے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات ہی کی پیروی کی حالانکہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے[3] ان لوگوں کو [پہلی قوموں کی] خبریں مل چکی ہیں جن میں کافی وافی تنبیہ ہے۔ [القمر: 3، 4]

البتہ کسی کو سزا یا جزا دینے کیلیے اللہ تعالی کے کچھ قوانین ہیں، چنانچہ جس کے خلاف قانونِ الہی ہو جائے تو وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے، وہ انحطاط اور ذلت کا شکار بن جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا}

گزشتہ لوگوں میں اللہ کا یہی طریقہ جاری رہا ہے اور آپ اللہ کے اس طریقہ میں کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ [الأحزاب: 62]

اور ایک حدیث میں ہے: (لذتوں کو پاش پاش کردینے والی [موت] کو کثرت سے یاد کیا کرو) اس لیے موت کو یاد کرنے والے کی مثبت کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ موت کو بھول جانے والے سے منفی امور سر زد ہوتے ہیں۔

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے) اس لیے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو: اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً۔

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا۔

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہمارے اگلے ، پچھلے گناہ معاف فرما دے، یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہمارے اگلے ، پچھلے ، خفیہ، اعلانیہ، اور جنہیں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے ؛ تمام گناہ معاف فرما دے، تو ہی ترقی اور تنزلی دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

یا اللہ! تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! تمام مسلمانوں کی قبریں منور فرما، یا اللہ! ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما، ان کے گناہوں سے در گزر فرما۔

یا اللہ! ہم تجھ سے برے تقدیری فیصلوں، دشمنوں کی پھبتی، بد بختی میں پھنسنے اور سخت آزمائشوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہم غموں، پریشانیوں، بزدلی، بخیلی، ناتوانی اور سستی سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم قرضوں کے بوجھ اور لوگوں کے رعب اور دبدبے سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے قول و فعل کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم تیری رحمت کے صدقے جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و فعل سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو ابلیس، شیطان ،شیطانی چَیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں کو شیطان مردود، شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہمارے دلوں کو نفاق سے پاک فرما، ہمارے اعمال کو ریاکاری سے پاک بنا دے، ہماری آنکھوں کو خیانت سے پاک کر دے، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! تیرے ذکر، شکر اور تیری بہترین انداز میں عبادت کرنے پر ہماری مدد فرما، یا اللہ! تیرے ذکر، شکر اور تیری بہترین انداز میں عبادت کرنے پر ہماری مدد فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں ایک لمحہ کیلیے بھی ہمارے اپنے سپرد مت کرنا، یا اللہ! ہمارے تمام معاملات سنوار دے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں کو شام میں تکالیف پہنچ رہی ہیں یا اللہ! ان کی مشکلات رفع فرما دے، یا اللہ! ان کی مشکل کشائی فرما، ابتلا اور آزمائشوں کا خاتمہ فرما، یا اللہ! کمزوروں پر رحم فرما، یا اللہ! کمزوروں پر رحم فرما، ان کے نقصانات کا تدارک فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ان پر ظلم ڈھانے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھانے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھانے کیلیے معاونت پیش کرنے والوں پر بھی اپنی پکڑ نازل فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! مسلمانوں سے تنگیوں کے بادل چھٹ دے، یا اللہ! ہمارے کمزور مومن بھائیوں کی مدد فرما، یا اللہ! ہمارے کمزور بھائیوں پر رحم فرما، یا اللہ! عراق میں کمزور مسلمانوں پر رحم فرما، یا اللہ! ان کے دلوں میں باہمی الفت ڈال دے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ یمن سے فتنوں کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! یمن کے حالات سنوار دے۔

یا اللہ! ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی صحیح سمت میں رہنمائی فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے دین، کتاب اور سنت نبوی کا بول بالا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم سوال کرتے ہیں کہ اپنی رحمت کے صدقے دین کو غالب فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کر دے ، شرک اور مشرکوں کو بھی ذلیل و رسوا فرما دے، یا اللہ! روزِ قیامت تک کیلیے بدعات کو ذلیل و رسوا فرما دے، یا رب العالمین! یا اللہ! تیرے دین اور تیرے نبی ﷺ کی سنت سے متصادم بدعات کو ذلیل و رسوا فرما دے، یا اللہ! روزِ قیامت تک کیلیے بدعات کو ذلیل و رسوا فرما دے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔

یا اللہ! خادم حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کی تیری مرضی کے مطابق رہنمائی فرما، اور ان کے تمام اعمال تیری رضا کیلیے قبول فرما، یا اللہ! ہر اچھے نیکی کے کام کی انہیں توفیق دے، یا اللہ! ان کے فیصلوں کو درست سمت عطا فرما، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے انہیں اور ان کے مشیروں کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الرحمین!، یا اللہ! انہیں صحت و عافیت سے نواز، یا اللہ! ان کے دونوں نائبوں کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین! اور ایسے کام کرنے کی توفیق دے جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی اور خیر ہو، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہمارے ملک کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے ملک کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہماری سرحدوں کی تمام منفی سرگرمیوں سے حفاظت فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مکاریاں کرنے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما۔

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [النحل: 90]

اللہ تعالی کی نعمتوں پر اسی کا ذکر کرو تو وہ تمہیں زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے سب کاموں سے با خبر ہے۔

پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پرنٹ کیلیے کلک کریں
عربی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ کیلیے کلک کریں
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 28، 2018
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
36
صبر اور حلم ان دونوں اصطلاحات کو واضح کرنے والا مواد دیجئے. حلم کی تعریف، اہمیت، فوائد، واقعات علامات.
( عمرو بن العاص رض کے بارے میں سنا کہ انھوں نے کہا رومی ترقی کرینگے کیوں کے ان میں چار چیزیں ہیں ان میں ایک حلم ہے) اس کی سچائی کے بارے میں بھی کچھ تحقیق شدہ مواد ارسال کریں نوازش ہوگی
 
Top