عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
از: ( مفتی ) عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
تبلیغ دین اور اس کے اصول
ایک انسان جب دنیا میں آتا ہےتواس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے،اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ایک گمراہی کا راستہ اور دوسرا حق اور نجات کا راستہ ، گمراہی کے راستے کی دعوت دینے والا شیطان ہوتا ہے ،حق کے راستے کی دعوت والے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کے اصحاب ؓاور صالحین امت وعلماء کرام ہوتے ہیں، جن کا کام ہدایت والے راستہ کی رہنمائی کرنا اور گمراہیوں والےراستے سے روکنا ہوتاہے، جس کو تبلیغ اور دعوت کہتے ہیں۔
تبلیغ کے معنی ہیں پیغام پهنچانااور’’ اسلام میں تبلیغ ‘‘اللہ تعالیٰ کےپیغام کو بندوں تک پهنچانے کو کہتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اللہ تعالیٰ نے سب سے آخیر میں اپنا آخری پیغام جس کو کلام اللہ یا قرآن پاک کہا جاتا ہے نبی آخرالزماںﷺ کے ذریعہ قیامت تک آنی والی انسانی نسلوں کے لیےرشدو ہدایت کا ذریعہ بنا کر بھیجا ، اسی قرآنی پیغام کو تبلیغ کہتے ہیںاب چونکہ قیامت تک کوئی نبی اور رسول آنے والا نہیں ہے، اس لیے اب اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانےذمہ داری اس امت کے سپرد ہے،اور ان کی رہنمائی کے لیے اسلامی دستور قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے ، جس کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو ہر انسان تک پہنچنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ چنانچہ اسلامی کے تبلیغ کے تین طریقہ ہیں۔زبان کے ذریعہ ، تحریرکے ذریعہ اور عمل کے ذریعہ۔پھر ان تینوں کی بھی مختلف قسمیں ہیں ۔ تبلیغ کے زبانی طریقه کار میں’’ امربالمعروف و نهی عن المنکر‘‘ وغیره شامل هیں جو تبلیغ اور دعوت کا ایک اہم رکن ہےباقی۔ تحریری تبلیغ ،اور عملی تبلیغ ان کا تذکرہ بھی ضمنا اسی میں آجائے گا۔
تبلیغ کا مقصد یہ ہےکہ’’امربالمعروف‘‘ اور’’ نہی عن المنکر‘‘کے ذریعہ ،انسان کی پوری زندگی کتاب وسنت کے مطابق ہوجائے ’’رب چاہی ہو ‘‘ ’’من چاہی نہ ہو‘‘ ا سلام میں مکمل طور سے داخل ہوجائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۲۰۸ [٢:٢٠٨]
مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صریح دشمن ہے
اس آیت شریفہ میں انسان کے لیے کھلا پیغام ہےکہ وہ اسلام میں پورے طریقہ سے داخل ہوجائے،اور اس کی تمام نقل وحرکت ،اس کا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا کھانا پینا ،عبادات، معاملات، اخلاقیات،غرض کے اس کی پوری کی پوری زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوجائےاور اس کواللہ اور اس کے رسولﷺ کی مرضیات پرچلنےکی عادت بن جائے، اس کی پوری زندگی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین والی کیفیت پیدا ہوجائے اور ان کا نمونہ بن جائے، اوراللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو حاکم حقیقی نہ سمجھےاور نہ ہی اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے،اللہ کی کی الوہیت وربوبیت کا دل اور زبان سے قبول کرنا اور عملا اس کا ثبوت پیش کرنے کی ترغیب دینا۔ دعوت کے اس پہلو کو’’ امر بالمعروف‘‘ کہتے ہیں۔ اور جو باتیں اس کی ضد ہوں یعنی کسی کو اللہ کا شریک ماننےاور دین کے معاملے میں اپنی من مانی کرنے قرآنی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے سے روکنا اوران باتوں سے روکنا جس کو اللہ اور اس کےرسول حضرت محمدﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس کو ’’نہی عن المنکر‘‘ کہاجاتا ہے۔ دعوت کے ان دونوں پہلوؤں یا اصطلاح کو’’ نہی عن منکر اور امر بالمعروف ‘‘سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ ﷺ کو تمام امم سابقہ کے مقابلہ میں شرف فضیلت بخشی اور اس کوبہترین جماعت کے خطاب سے سرفراز فرمایا،اس لیے کہ یہ اللہ کے بندوں کو راہ مستقیم اور ہدایت والے راستہ کی رہنمائی کرتے ہیں اور برے راستہ سےروکتے ہیں ۔اور خود بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی حکمت و دانائی سے عمل کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔