• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغ دین کیوں اور کیسے؟

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تبلیغ دین کیوں اور کیسے؟


فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ​

تبلیغ کے طریقے

اللہ کی جو شریعت رسول اللہ ﷺ لائے ہیں ان کی تبلیغ انہی تین یا چار طریقوں کو اپنا کر کرنا جن کا قرآن میں ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

﴿ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ (النحل: 125)​
(آپ اپنے رب کی راہ کی دعوت حکمت اور بھلی نصیحت کے ذریعہ دیجئے اور ان کے ساتھ اس طریقہ سے بحث کیجئے جو پسندیدہ ہے)
یہ تین طریقے ہوئے، اور چوتھے کے بارے ارشاد ربانی ہے:
﴿وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ﴾ (العنکبوت: 46)
(تم لوگ اہل کتاب سے بحث اچھے طریقے سے ہی کرو، مگر ان لوگوں سے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا(ان سے دوسرے طریقے سے نمٹنا ہوگا جیسے جہاد وغیرہ))
تبلیغ کی شرائط:
اس تبلیغ کے لئے اللہ عزوجل کی شریعت کی جانکاری بھی ضروری ہے ،تاکہ تبلیغ علم بصیرت کے ساتھ ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ (یوسف: 108)
(کہہ دیجئے یہ میری راہ ہے، میں اور جنہوں نے میری اتباع کی ہے اللہ کی طرف بصیرت وعلم کے ساتھ دعوت دے رہے ہیں، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں)
اسی تبلیغ میں بصیرت آ سکتی ہے جب کہ مبلغ جانتا ہو کہ حکم شرعی کیا ہے؟ تبلیغ کیسے کی جائے؟ اور مخاطبین کس مزاج کے حامل ہیں؟

تبلیغ کے میدان ومواقع:

تبلیغ کے بہت سے میدان ہیں، جیسے دعوت الی اللہ کے لئے خطبوں اور تقریروں کی مجلس قائم کی جائے، مقالے اور مضامین لکھے جائیں ،علمی حلقےبنائے جائیں ،کتابیں تصنیف کی جائیں، دین کی نشرواشاعت ہو، خاص محفلوں میں دعوت کا کام کیا جائے، انسان جب کسی دعوتی مجلس میں بیٹھا ہو تو یہ بھی دعوت کا موقع ہے ۔لیکن اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ ایسا طریقہ اپنایا جائے کہ بیزاری اور اکتاہٹ نہ ہونے پائے۔ اس کی شکل یہ ہو سکتی ہے کہ مبلغ اہل مجلس کے سامنے کوئی علمی مسئلہ رکھ دے اور بحث و مباحثہ ہو۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بحث و مباحثہ اور سوال و جواب کا دینی مسائل کے سمجھنے سمجھانے میں ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات یہ بحث و مباحثہ اور سوال و جواب سادہ تقریروں اور خطبوں سے کہیں زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔

تبلیغ کے فضائل:

دعوت الی اللہ انبیاء و پیغمبران علیہم السلام اور ان کے سچے پیروکاروں کا وظیفہ اور طریقہ رہا ہے۔ انسان جب اللہ کی توفیق و احسان سے اپنے معبود ،اپنے نبی اور اپنے دین کی معرفت حاصل کرلیتا ہے تو ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کو خوش خبری دے ۔نبی ﷺ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے خیبر کے روز فرمایا تھا: اطمینان سے کوچ کرو، یہاں تک کہ دشمنوں کی زمین میں اتر جاؤ، پھر انہیں اسلام کی دعوت دینا اور انہیں اللہ کے ان حقوق سے آگاہ کرنا جو ان پر عائد ہوتے ہیں۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھوں کسی ایک آدمی کو بھی راہ ہدایت دکھادی تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے کہیں بہتر ہے۔(بخاری و مسلم)
مسلم کی ایک اور روایت ہے جس میں نبی ﷺ فرماتے ہیں: کسی نے اگر ہدایت کی طرف دعوت دی تو جتنے لوگ اس کی اتباع کرتے ہیں اتنا ہی اس کو اجر ملتا ہے، اور اتباع کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی، اور کسی نے اگر گمراہی کی دعوت دی تو جتنے لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں اتنا ہی گناہ اس کو ملتا ہے اور پیروکاروں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔
مسلم ہی کی ایک روایت ہے جس میں فرمایا: جس نے بھلائی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا اس بھلائی پر عمل کرنے والے کو ملتا ہے۔ (ماخوذ از شرح الاصول الثلاثہ)
 
Top