• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
فہرست


عرض ناشر
ابتدائیہ
توحید اوراس کے متعلقات

٭ اللہ تعالی نے ہمیں کس لیے پیدا کیا ہے ؟
٭ توحید کو قبول کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
٭ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو دنیا میں کیوں بھیجا؟
٭ کیا مسلم بننے کے لیے لا الہ الا اللہ کے معنی جاننا ضروری ہیں؟
٭ کیا ایک مسلم کلمہ کے مفہوم میں شک کر سکتا ہے۔؟
٭ کلمہ میں اخلاص سے کیا مرادہے؟
٭ کلمہ کے ساتھ صدق و وفا سے کیامرادہے؟
٭ دل کی سچائی سے اس کلمہ پر ایمان لانے کے تقاضے کیا ہیں؟
٭ توحید ربوبیت سے کیا مراد ہے؟
٭ توحید الوہیت کسے کہتے ہیں؟
٭ توحید اسماء وصفات سے کیا مراد ہے؟
٭ دعوت اسلامی کا صحیح طریقہ کار کیا ہے؟
شرک اور اس کے متعلقات

٭ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟
٭ شرک کرنے کا نقصان کیا ہے؟
٭ کیا شرک کرنے والے کو اس کے نیک اعمال فائدہ دیں گے؟
٭ کیا شرک کرنے سے آدمی کا اسلام جاتا رہتا ہے
٭ کیا عامۃ الناس کو کافر سمجھا جائے گا
٭ ایک مسلم کو سب سے زیادہ خوف کس چیز کا ہونا چاہیے؟
٭ کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والا مشرک ہو سکتا ہے؟
٭ کیا قبر پرستی کو بت پرستی کہا جا سکتا ہے؟
٭ معاشرے میں شرک کیسے پھیلتا ہے؟
٭ کیا شیطان نے بزرگوں کی شان میں غلو کرنے کا داؤ امت محمدیہ کے ساتھ بھی کھیلا ؟
٭ شیطان کے اس وار سے بچنے کے لیے قرآن وسنت نے ہماری کیسے تربیت فرمائی
٭ کیا قیامت کے دن لوگوں کا یہ عذر قبول کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنے بزرگوں کی پیروی کی تھی؟
٭ مشرکین کی نمایاں خصوصیت کیا ہے؟
٭ کیا مشرکین مکہ بھی اللہ کو الہ مانتے تھے؟
٭ مشرکین مکہ غیر اللہ کی عبادت کیوں کرتے تھے ؟
٭ کیا مشرکین پتھروں کے بنے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے تھے ؟
شرک اکبر کی اقسام شرک فی الذات

٭ اللہ کی ذات میں شرک کا کیا مفہوم ہے ؟
٭ صوفیا کی توحید کی حقیقت کیا ہے؟
٭ فنائے کلی کی حقیقت کیا ہے؟
٭کیا یہ کہنا کہ یہ کائنات نہ تو اللہ کی عین ہے اور نہ ہی غیر صحیح ہے؟
٭ کیا اللہ نے اپنے نور سے نبی کا نور پیدا کیا؟
٭ کیا نبی نور ہیں ؟
٭ اللہ تعالیٰ کہا ں ہے؟
٭ اللہ کی معیت سے کیا مراد ہے؟
٭ شہ رگ سے زیادہ قریب ہونے کا کیا مطلب ہے ؟
٭ جدھر منہ کر ادھر اللہ کا چہرہ ہے سے کیا مراد ہے ؟
٭ ا ول آخر ظاہر باطن کی حقیقت کیا ہے؟
٭ اللہ کے مخفی خزانہ ہونے والی روایت کی حقیقت کیا ہے؟
٭ مومن کا دل رب کا گھر ہے کیا یہ حدیث ہے ؟
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
٭ جس نے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا کی حقیقت کیا ہے؟
٭ کیا اللہ تعالیٰ بندے کا ہاتھ بن جاتا ہے ؟
٭وما رمیت اذ رمیت آیت کا مفہوم کیا ہے؟
شرک فی الصفات

٭ کیا اللہ کے سوا کوئی مختار کل ہے؟
٭ کیا اللہ کے سوا کوئی اور مافوق الاسباب لوگوں کی تکالیف کا علم رکھتا ہے؟
٭ کیا اللہ کے سوا کوئی اور عالم الغیب ہے؟
٭ اگر آپ ﷺ عالم الغیب نہیں تھے تو آپ نے ماضی کے واقعات اور مستقبل کی پیشین گوئیاں کیسے کیں؟
٭ نجومیوں کی حقیقت کیا ہے؟
٭ کیا آپ ﷺ کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی؟
٭ انا اول المسلمین کی حقیقت کیا ہے؟
٭ کیا یہ حدیث ہے کہ لو لاک لما خلقت الأفلاک؟
٭ رحمت للعلمین ہونے کی حقیقت کیا ہے؟
٭ عالین کون ہیں ؟
٭ آپ کے شاھد ہونے کاکیا مطلب ہے؟
٭ الم تر آیت کا کیا مطلب ہے؟
صرف اللہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے

٭ حل مشکلات کے لیے دعا و پکار کا مستحق کون ہے؟
٭ انبیاء و اولیاء کس کو پکارتے رہے؟
٭ کیا پکارنا عبادت ہے؟
٭ کیا غیر اللہ کو پکارنا شرک ہے؟
٭ کیا غیر اللہ کو پکارنا کفر ہے؟
٭ غیر اللہ کو پکارنے کا کیا نقصان ہے؟
٭ کیا غیر اللہ کو پکارنا شیطان کی عبادت ہے؟
٭ کیا غیر اللہ کسی کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں؟
٭ تشھد میں السلام علیک أیھا النبی کہا جاتا ہے کیا یہ یا رسول للہ کہنے کی دلیل ہے ؟
٭ مردوں کو سلام کرنے کی حقیقت کیا ہے؟
٭ کیا قبر نبوی پر جا کر دعائے مغفرت کرنا ٹھیک ہے؟
٭ کیا زندہ لوگوں سے تعاون طلب کر سکتے ہیں؟
٭ کیا قبر سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے؟
٭ جہاں غیر اللہ کے لیے جانور ذبح ہو وہاں اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا جا سکتا ہے ؟
٭کیا قرآنی آیات کا تعویذلکھ کر لٹکانا اچھا عمل ہے؟
٭ امور کائنات میں مرضی کس کی چلتی ہے؟
٭ اولاد دینا کس کے اختیار میں ہے؟
٭ عزت و ذلت دینا کس کے اختیار میں ہے؟
٭ رزق میں فراخی اور تنگی کا اختیار کس کو ہے؟
٭ بیماری سے شفا دینے والا کون ہے؟
٭ کیا کسی کو خوش کرنے کے لیے اعمال کرنے چاہئیں؟
٭ ڈرناکس سے چاہیے
٭ سب سے بڑھ کر محبت کس سے ہونی چاہئے؟
٭ اللہ سے محبت کا تقاضا کیا ہے؟
٭ تعریفوں کا حقدار کون ہے ؟
٭ سب سے زیادہ خوف کس کا ہونا چاہیے؟
٭ بھروسہ کس پر کرنا چاہیے؟
٭ کیا ایک مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہو سکتا ہے؟
٭ معجزہ دکھانا کس کے اختیار میں ہے؟
٭ کیا معجزات یا کرامات میں غیب کی خبر ہو سکتی ہے؟
٭ کیا ام موسیٰ پر وحی نہیں آئی ؟
وفات النبی ﷺ

٭ ہمیشہ زندہ رہنے والی ذات کون سی ہے؟
٭ کیا رسول اللہ ﷺ بھی فوت ہو گئے ہیں ؟
٭ کیا شہید زندہ ہوتے ہیں؟
٭ شہید کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟
٭ کیا شہید دنیا میں آ سکتے ہیں؟
حقیقت ِوسیلہ

٭ اولیاء اللہ کی سفارش کی حقیقت کیا ہے؟
٭ قیامت کے دن کون لوگ سفارش کریں گے؟
٭ سفارش کن کے حق میں قبول کی جائے گی؟
٭ کیا دنیاوی امور میں زندوں سے سفارش کروانا جائز ہے؟
٭وابتغوا الیہ الوسیلہ سے کیا مراد ہے ؟
٭ دعا میں جائز وسیلہ کیا ہے؟
٭ کیا دعا میں فوت شدہ نبی یا ولی کا واسطہ دیا جاسکتا ہے؟
٭ کیا آدم نے محمد ﷺ کا وسیلہ دیا ؟
٭ مسلمانوں کو غلبہ کب نصیب ہو گا؟
طاغوت

٭ انبیاء نے قوم کو کیا دعوت دی ؟
٭ اللہ پر ایمان لانے کا طاغوت کے انکار سے کیا تعلق ہے؟
٭ طاغوت کسے کہتے ہیں؟
٭ سب سے بڑا طاغوت کون ہے؟
٭ کیا حکمران بھی طاغوت ہیں؟
٭ اللہ اور رسول کی بجائے کسی اور سے فیصلہ کروانا کتنا بڑا جرم ہے؟
٭ کیا علماء کی غیر مشروط اطاعت کی جا سکتی ہے؟
٭ طاغوت سے کفر کرنے کا کیا مطلب ہے؟
اسلام میں سنت کی اہمیت
٭ اللہ کے نزدیک دین کیا ہے ؟
٭ کیا اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر عمل جائز ہے ؟
٭ دین میں محمد ﷺ کا کیامقام ہے؟
٭ قرآن مجید کے لیے نبوی تشریح و تفسیر کی کیا حیثیت ہے؟
٭ کیا انبیاء علیہم السلام کو کتب سماوی کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
٭ کیا رسول اللہ پر بھی خواب میں وحی آئی ؟
٭ کیا قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے احکامات نازل ہوئے ؟
٭ کیا سنت کے بغیرقرآن کو سمجھا جاسکتاہے؟
٭ کیاسنت قرآن مجید کی آیت میں موجود شرط کو ختم کر سکتی ہے؟
٭ کیا سنت آیت کے کسی عام حکم کو مقید کر سکتی ہے؟
٭ کیا سنت آیت کے کسی حکم کو مستثنیٰ کر سکتی ہے؟
٭ کوئی سنت صحیحہ قرآن کے مخالف ہو سکتی ہے؟
٭ صحابۂ کرام کے منہج کی کیا حیثیت ہے؟
٭ کیا صحابہ سنتِ رسول کو بھی وحی سمجھتے تھے؟
٭ رسول اللہ نے سنت کی حفاظت کے لیے کیا اقدام کیے ؟
٭ کیا رسول اللہ ﷺ نے احادیث کی کتابت بھی کروائی؟
٭ کیا صحابہ کرام نے بھی احادیث لکھیں؟
٭ کیا ۲۵۰ سال تک احادیث تحریر میں نہیں آئیں؟
٭ کیا صحیح بخاری قرآن حکیم کی طرح لا ریب کتاب ہے؟
٭ مصنف کی دیگر کتب
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
عرض ناشر


موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی دینی حالات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عقائد واعمال میں کس قدر راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں،باطل کو حق سمجھ بیٹھے ہیں اور حق کوباطل، ایسی ناگفتہ بہ صورتحال میں ہر صاحب علم وبصیرت مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دین کی صحیح تعلیمات کو اس کے اصلی مصادر قرآن وسنت اور فہم سلف صالحین کی روشنی میں امت کے سامنے پیش کرے؛ تاکہ حق واضح ہوجائے اور باطل سرنگوں ہو۔اولین نصب العین صحیح اسلامی عقیدہ کی نشرواشاعت اورباطل عقائد و نظریات کی پردہ کشی اور اس کی تردید ہے ؛کیونکہ عقیدہ کی اصلاح ہر مسلمان کا اولین فریضہ اور نجات کا واحد راستہ ہے، زیرنظر کتاب اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہے،جسے ڈاکٹر سید شفیق الرحمن صاحب حفظہ اللہ نے ترتیب دیا ہے۔

انہوں نے اس کتاب میں توحید کی اہمیت اور اقسام کے بیان کے ساتھ ساتھ شرک کا رد کیا ہے۔ اہل شرک جو دلائل دیتے ہیں ان کا شافی جواب ہے۔ تحریر جامع، سلیس اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کی آیات اور احادیث رسول ﷺ کے حوالوں سے مزین ہے۔اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہم سب کے لیے فلاحِ دارین کا سبب بنائے، آمین۔
آپ کا بھائی
ابو البراء سیدعبدالسلام انبالوی​


ابتدائیہ


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِِِ
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ، أَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہ: {یَا أَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖ وَلَا مَوْلُوْدٌ ھُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَیْئًا إِنَّ وَعْدَ اللّٰہ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ}۔
’’ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جب نہ تو باپ اپنے بیٹے کے اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کا م آسکے گا، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا(شیطان)تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے‘‘[لقمان :33]۔
شیطان انسان کا ازلی اور اصلی دشمن ہے، شیطان کا وجوداور اس کے وسوسے انسان کے لیے چیلنج ہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے‘‘ (بخاری: 2035، مسلم: 2175)
اس لیے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو دشمن سمجھنے کاحکم دیا اور فرمایا:
( إِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا، إِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہُ لِیَِکُوْنُوْا مِنْ أَصْحٰبِِ السَّعِیْرِِ} ۔
’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو، وہ اپنی جماعت کو بلاتاہے تاکہ وہ دوزخ والوں میں سے ہو جائیں‘‘[فاطر: 6]۔

شیطان کے وار سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہو، اسے علم ہو کہ اللہ کی ذات اسے ہر وقت دیکھ رہی ہے، اس کی ہر بات سن رہی ہے، وہ اللہ اپنی نافرمانی پر سزا دیتا ہے اور اپنی فرمانبرداری پر خوش ہوتا
ہے، اس حقیقت کو اللہ نے یوں بیان فرمایا:
إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ
’’اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں‘‘[فاطر: 28]۔

جس قدر زیادہ اللہ کی معرفت اور جتنا پختہ اللہ پر یقین ہوگا، اسی قدر ایمان مضبوط ہوگا، چونکہ نبی رحمت ﷺسب سے زیادہ علم ومعرفت رکھتے تھے، اس لیے فرمایا:
’’مجھ پر جنت او رجہنم پیش کیے گئے تو میں نے خیرو شر کے سلسلے میں آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا، اور جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم لوگ جان جاؤ تو تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ‘‘(مسلم: 2359، بخاری: 4621)
معلوم ہوا کہ گناہوں کے ارتکاب کا سب سے بڑا سبب اللہ کے حضور پیش آنے والے حالات سے غفلت، بے علمی اورایمان کی کمزوری ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بار بار جنت اور جہنم کے احوال بیان فرمائے ہیں۔
جنت اور جہنم کی ان تفصیلات کو من وعن تسلیم کرلینا ہی ایمان بالغیب ہے جو ہدایت کے لیے شرط اول ہے:
}ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo أَلَّذِیْنَ یُؤمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ{ [البقرہ: 2,3]۔
’’اس میں اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے وہ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘‘

جتنا ایمان بالغیب مضبوط ہوگا، جنت اور جہنم پر یقین بھی اتنا ہی مضبوط ہوگا، اور جس کا ایمان بالغیب کمزور ہوگا اس کا جنت و جہنم پر یقین بھی اتنا ہی کمزور ہوگا، جو شخص اپنے اندر جنت کے حصول کی طلب نہیں پاتا اور جہنم سے بچنے کی فکرنہیں رکھتا اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے، اہل ایمان تو اللہ کی آیات سن کر یوں پکار اٹھتے ہیں:
} رَبَّنَآ إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیاً یُّنَادِیْ لِلإِیْمَانِ أَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا} ۔
’’اے ہمارے رب ! ہم نے ایمان کی طرف دعوت دینے والے کی پکار سنی کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ سو ہم ایمان لے آئے‘‘ (آل عمران: 193)
اہل ایمان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جہنم کا ایک لمحہ تو دور کی بات ہے اس کی صرف ایک جھلک ہی انسان کو دنیا کی ساری نعمتیں آسائشیں اور عیش و عشرت بھلا دینے کے لیے کافی ہے اس لیے مسلمان کو اپنے ایمان کی آبیاری قرآن و سنت اور سیرت صحابہ سے کرتے رہنا چاہیے ، تاکہ ایمان خالص سے وجود پذیر شجرۃ طیبہ کی بلندیاں آسمان کو چھوتی رہیں، اور اس کے خوشبودار اور لذیذ پھل ہر دم اترتے رہیں ، اور وہ حقیقی مسلم بننے کی کوشش کرتا رہے،حقیقی مسلمان وہ ہے جو ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرتا ہے۔
سیدنا جبریل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ سے پوچھتے ہیں کہ ایمان کیا ہے ؟آپ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر،آخرت میں اس کی ملاقات پر، اس کے رسولوں پر ،مرنے کے بعد اٹھنے پر اور تقدیرپر ایمان لائے ۔(بخاری: ۵۰،مسلم:۱۰)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تک بندہ چار باتوں پر ایمان نہ لائے ایماندار نہیں ہو سکتا۔اس بات کی گواہی دے کہ(۱) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور(۲) میں اللہ کا رسول ہوں اور اس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے (۳) موت پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر(۴) اور تقدیر پرایمان رکھتا ہو۔(ترمذی ۲۱۴۵،ابن ماجہ ۸۱)
لا الہٰ الا اللہ درحقیقت ایمانیات کا عنوان ہے ۔اس کے تحت موت کےبعد کی زندگی ،جنت،جہنم،کتابوں،رسولوں اور فرشتوں پر ایمان شامل ہے۔جب ایک مسلمان ان باتوں پر ایمان لائے گا تو وہ جہنم کے عذاب سے بچ سکے گا۔

حقیقی مسلمان بننے کے لیے شرط اول یہ ہے کہ اسے لَا إِلہَ إِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے معنی اور مفہوم کا علم ہو، اسے معلوم ہو کہ کلمہ پڑھنے کے بعد کن عقائد کو تسلیم کرنا پڑے گا اور کن عقائد کی اسے تردید کرنی پڑے گی، کس طرز عمل کو اختیار کرنا اور کس طرز عمل سے بچنا پڑے گا، کیونکہ بعض اقوال و افعال اور اعتقادات ایسے ہیں جن کی بنا پر لَا إِلہَ إِلَّا اللّٰہُ کہنا فائدہ مند نہیں رہتا، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف جہاد کیا حالانکہ وہ لَا إِلہَ إِلَّا اللّٰہُ کہتے تھے، اس لیے ہمیں پوری بصیرت کے ساتھ لَا إِلہَ إِلَّا اللّٰہُ کہنا چاہیے اور اللہ کی شریعت سے متضاد قول و فعل اور اعتقاد کو پہچان کر ان سے بچنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم شرک و کفر میں مبتلا ہو کر ایمان حقیقی سے محروم ہو جائیں، کیونکہ بہت سے لوگ اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ انہوں نے اس کلمہ کا مطلب نہیں سمجھا، اس لیے وہ لَا إِلہَ إِلَّا اللّٰہُ کہتے ہیں اور اللہ کے ساتھ اوروں کو بھی پکارتے ہیں، معاشرہ سے اہل باطل کا تسلط ختم کرنا بھی اسی وقت ممکن ہے جب اہل ایمان حق و باطل میں تمیزکرسکتے ہوں، یعنی توحید و سنت کو جاننے کے ساتھ ساتھ ان کو شرک و بدعت کی معرفت بھی حاصل ہو تاکہ ہرمشکل سے مشکل وقت میں حق کا ساتھ دے سکیں اور شرک و بدعت سے بچ سکیں۔

میں نے اپنے معاشرے کے حوالے سے مختلف علماء اہلِ سنت کی کتب سے استفادہ کرتے ہوئے توحید اور شرک میں فرق بیان کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توحید و سنت پر عمل کرنے اور شرک و بدعت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے[آمین]۔

خادم کتاب وسنت
سید شفیق الرحمن​
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
توحید اور اس کے متعلقات

س: اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس لیے پیدا کیا ہے؟
ج:توحید جن و انس کی تخلیق کی اصل حکمت ہے ۔رسولوں اور آسمانی کتابوں کے نزول اور مخلوق کو وجود بخشنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرے اور صرف اسی کی عبادت کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ)) [الذاریات: 56]۔
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘

اور یہ بھی فرمایا:
{وَقَضٰی رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوْٓا إِلاَّ إِیَّاہُ}۔
’’اور تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘‘ [بنی إسرائیل: 23]۔

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن نبی اکرم ﷺکے ساتھ گدھے پر سوار تھا، آپ نے مجھ سے فرمایا: معاذ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے، میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ کریں اور اللہ پر بندوں کا حقیہ ہے کہ جو کوئی شرک نہ کرے اسے عذاب نہ دے، میں نے عرض کیا کہ کیا میں لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دے دوں، آپ نے فرمایا، نہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر لیں‘‘[بخاری: 2856، مسلم: 30]۔
س : اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہ السلام کو دنیا میں کیوں بھیجا؟
ج : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

((وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا نُوْحِیْٓ إِلَیْہِ أَنَّہُ لأَ إِلٰہَ اِلاَّ أَنَا فَاعْبُدُوْنِ))۔
اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں، پس میری ہی عبادت کرو‘‘ [الأنبیاء: 25]۔
انبیاء کرام علیہما السلام کو مبعوث کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو توحید کی دعوت دی جائے اور لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں۔گویا توحید تمام رسولوں کی دعوت کا موضوع رہا ہے:

(( وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ١ۚ ))(النحل:۳۶)
’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ (لوگو! )صرف اللہ کی عبادت کرو اورطاغوت سے بچو ۔‘‘

ہر نبی نے اپنی قوم کو یہی دعوت دی :
(( يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ))(الاعراف :۵۹)
’’اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں ہے ۔‘‘

سیدنا محمد ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی:
(( قُلْ اِنِّيْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ))(الزمر :۱۱)
’’آپ کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کروں کہ اسی کے لیے دین کو خالص کر لوں ‘‘

گویا رسولوں کی دعوت کا مقصود توحید الوہیت ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
کلمہ کی شروط:

س :کلمہ کے شروط کا کیا مطلب ہے؟
ج:
جس طرح وضو کرنا اور قبلہ رخ ہونا نماز کی شروط ہیں جو انہیں جان بوجھ کر پورا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی۔اسی طرح اسلام کے ہر عمل کی قبولیت کے لیئے چند شروط ہوتی ہیں جن کو پورا کئے بغیر وہ عمل شریعت کی نظر میں معتبر نہیں ہوتا ۔کلمہ کی شروط سے مراد وہ باتیں ہیں جو کلمہ کے الفاظ کی ادائیگی کے وقت مطلوب ہوں ۔اگر ان شروط کو پورا کئے بغیر کلمہ پڑا تو اس کلمہ کا اعتبار نہیں۔شروط کے بغیر کلمہ پڑھنے سے نہ نماز، روزہ،حج اور زکوٰۃ جیسے اعمال قبول ہوں گے۔نہ ہی جہنم کے عذاب سے نجات پا کر جنت میں داخلہ ہو گا۔ان شروط کے ساتھ کلمہ کا اقرار کرنے والا دین اسلام میں داخل ہو تا ہے اور اس پر لازم ہے کہ موت تک اس توحید کی گواہی پر قائم رہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوا وہ جنت میں داخل ہو گا (ابو داؤد۳۱۱۶)
جو لوگ لا الہ الا اللہ رسما ً،عادۃًیاتقلیداً پڑھتے ہیں اور ان کے اعمال پر تقلید اور آباء و اجداد کی پیروی کا رنگ غالب ہوتا ہے وہ اخلاص و یقین سے نا آشنا ہوتے ہیں ۔ان کے لیے لا الہ الا اللہ پڑھناکیسے مفیدہوسکتاہے؟ ۔

س:کلمہ کی شروط کتنی ہیں؟
ج:
کلمہ کی آٹھ شروط ہیں
1:
کلمہ پڑھنے والے کو کلمہ کے معنی کا علم ہو۔ اسے معلوم ہو کہ اس کلمہ کی شہادت کے بعد اسے کن کن باتوں کی نفی کرنا ہوگی اورکن باتوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔
2:
کلمہ کے معنی پر پورا یقین ہو ایسا یقین کہ شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔
3:
دل اور زبان سے اس کلمہ کو اور کلمہ کے تقاضوں کو قبول کرنا۔
4:
کلمہ کے حقوق یعنی فرائض و واجبات ادا کرنے پر کاربند ہونا۔
5:
صدق دل سے کلمہ کی ادائیگی کرنا یہاں تک کہ کلمہ کے بارے میں جھوٹ اور منافقت ختم ہو جائے۔
6:
اخلاص یعنی کلمہ کے اقرار کے وقت اچھی نیت یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس میں شرک کا شائبہ
تک نہ رہے۔
7:
محبت: یعنی کلمہ طیبہ سے اور جس چیز پر کلمہ دلالت کرے اور کلمہ کے تقاضوں سے محبت ہو ایسے ہی اس کلمہ پر عمل کرنے والوں سے محبت ہو اورجو چیزیں اس کلمہ کے منافی ہیں ان سے بغض و نفرت ہو۔
8:
تمام طواغیت کا انکار کرے انہیں باطل سمجھے اور پھر اللہ پر ایمان لائے کہ وہی ہمارا رب اور معبود برحق ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
س:
کیا مسلم بننے کے لیے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کے معنی جاننا ضروری ہیں؟
ج :
مسلم بننے کے لیے شرط اول یہ ہے کہ اسے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کے معنی معلوم ہوں، اسے پتہ ہو کہ کلمہ پڑھنے سے اسے کن کن باتوں کو ماننا پڑے گا اور کن کن باتوں کا انکار کرنا پڑے گا، اللہ تعالیٰ اپنے آخری نبی محمد مصطفی ﷺکو فرماتا ہے:
((فَاعْلَمْ أَنَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ))۔
’’پس جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہ [معبودبرحق] نہیں‘‘ [محمد: 19]۔

معلوم ہوا کہ کفر سے نکل آنے اور ایمان میں داخل ہو کر اپنے درجات بلند کرنے کے لیے علم اور اللہ کی معرفت شرط اول ہے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ:
’’جو اس حال میں مر جائے کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، جنت میں داخل ہو گا‘‘ (مسلم: 26)
اشہد ان لا الہٰ الا اللہ عربی کے الفاظ ہیں، اس کو ادا کرنے والے کو پتہ ہونا چاہیے کہ ۔
1:
کلمہ کی گواہی سے کیا مراد ہے۔ اسے اپنے قول اور عمل سے اپنے معاشرہ میں اس کلمہ کی گواہی دینی ہے۔گواہی سے مراد یہ ہے کہ اس کلمہ کو زبان سے ادا کرے ،اس کے معنی کو اچھی طرح جان لے اور سمجھ لے اور اس کے تقاضوں پر ظاہر ا ًاور باطناً عمل پیرا ہو جائے ۔یعنی شھادت کا مفہوم نطق ،فہم ،معرفت اور عمل کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔
2:
لا الہٰ ٰ اس بات کا واضح انداز میں انکار ہے کہ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر عبادت کے لائق نہیں۔کلمہ کی شہادت دینے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ عبادت کسے کہتے ہیں اور معاشرہ میں لوگ عبادت کی کون کون سی قسمیں غیر اللہ کے لیئے بجا لا رہے ہیں۔
3:
پھر الا اللہ کا اقرار ہے ۔یعنی یہ ا قرار ہے کہ عبادت کی ہر قسم صرف اللہ تعالیٰ اکیلے ہی کے لیئے خاص ہے۔
گویا لا الہٰ الا اللہ میں پہلے باطل کو مسترد کرنا اور پھر حق کو تسلیم کرنا ہے ۔


س:
کیاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس بات کے محتاج تھے کہ وہ الہٰ کے معنی سمجھیں؟
ج:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس بات کے محتاج تھے کہ وہ الہٰ کے معنی سمجھیں حالانکہ اہل عرب تھے ۔آپ ﷺ نے جب صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر آواز دی :۔ اے قریشیو! آپ کی آواز پر لوگ جمع ہو گئے ۔آپ نے ان سے سوال کیا کہ ’’اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کی پشت سے ایک لشکر جرار آرہا ہے ‘ تو کیا تم کو یقین آئے گا؟سب نے ایک زبان ہو کر جواب دیا ’’ ہم نے تم کو ہمیشہ سچ ہی بولتے پایا ہے ۔‘‘ فرمایا میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر سخت عذاب نازل ہو۔گا۔(بخاری :۲۰۸)
آپ کی اس دعوت کو سن کر مشرکین عرب نے جان لیا کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کیا ہے ۔وہ ہمیں کس بات کی طرف بلا رہا ہے۔

لیکن الہٰ کے بعض پہلو ایسے بھی تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بتانے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو علم ہوا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو معلوم نہ تھا کہ اپنی طرف سے برکت کے حصول کے لیے جگہ منتخب کرنا شرک ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدناابوواقد لیثی بیان کرتے ہیں کہ ہم جنگ حنین کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے ،ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا راستے میں ایک جگہ بیری کا درخت آیا جس کو ذات انواط کہا جاتا تھا، مشرکین اس درخت کے پاس بیٹھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور اپنے ہتھیار بھی برکت کے لیے اس درخت پر لٹکایا کرتے تھے، جب ہم اس درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے آپ سے عرض کیا کہ جیسے ان مشرکوں کے لیے ذات انواط ہے، آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئے آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم نے وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی:
{یَا مُوسَی اجْعَل لَّنَا إِلَـہاً کَمَا لَہُمْ آلِہَۃٌ}
’’ کہ اے موسیٰ ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں ۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم لوگ بڑے جاہل ہو، پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایاتم بھی اگلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے۔(ترمذی ۲۱۸۰)

ایسے ہی عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جو اہل کتاب کے عالم تھے انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ علماء کرام کو حلال اور حرام کا اختیار دینا انہیں رب بنانا ہے اوران کی عبادت کرنا ہے انہوں نے جب رسول اللہ ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا:
{اِتَّخَذُواْ أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّٰہِ }(التوبہ: ۳۱)
’’ ان لوگون نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے ۔‘‘تو انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے (رکوع ،سجود اور نذر و نیاز کی صورت میں)ان کی عبادت نہیں کی۔لیکن یہ بات تو ہے نا،کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا،اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کر دیا ،اس کو حرام سمجھا ،یہی ان کی عبادت کرنا ہے ‘‘(ترمذی:۳۰۹۵،تفسیر ابن کثیر)
ان دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ ہم اس بات کے بہت ضرورت مند ہیں کہ ہم پہلے یہ معلوم کریں کہ لا الہٰ الا اللہ کے معنی کیا ہیں اس کلمہ سے کون سی بات ثابت ہوتی ہے اور کن باتون کا بطلان ہوتا ہے ۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
س:
یقین کے ساتھ شہادت سے کیا مراد ہے؟
کیا ایک مسلم کلمہ کے مفہوم میں شک کر سکتا ہے؟
ج:
یقین ایمان کی جان ہے۔دل کی گہرائی میں لا الہٰ الا اللہ کی حقیقت کو اتارنا اور اس کلمہ کے معنی کو پورے یقین اور دل کے اطمینان کے ساتھ قبول کرنا کہ شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے کلمہ کی دوسری شرط ہے ۔وہی شخص اللہ تعالیٰ کی بندگی کر سکتا ہے جس کے دل میں اللہ کی محبت ،خشیت ،کبریائی،خوف اور توکل ہو ۔پھر عملی زندگی میں وہی اس کے آگے سجدہ ریز ہو گا ۔ہر مصیبت میں اسے پکارے گا۔اس کی ہر بات اس کے لیئے حرف آخر اور قانون ہو گا۔دل میں یہ یقین اسی وقت پیدا ہو گا جب وہ رسولوں کی دعوت پر غور کرے گا ،قرآن کی آیات کی تلاوت کرے گا اور صالحین کی صحبت اختیار کرے گا۔
اگر ایک مسلمان اس دین کو حق اور جنت میں جانے کا واحد راستہ تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ شاید ہو سکتا ہے کہ عیسائیت ،یہودیت یا کوئی اور مذہب بھی حق ہو اور اس پر چلنے والے بھی جنت میں پہنچ جائیں یا وہ اکیلے اسلام کو دنیا میں لوگوں کے مابین فیصلہ کرنے اور نافذکرنے کے لائق نہیں سمجھتا اور یہ سمجھتاہے کہ اسلام کے سوا کسی اور دین اور قانون سے بھی فیصلے کیے جاسکتے ہیں اور اس میں بھی لوگوں کے لیے بھلائی اور خیر پائی جاتی ہے جیسا کہ آج وضعی قوانین نافذ کرنے والوں کا حال ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے باوجود اسے یقین نہیں ہے کہ صرف محمد ﷺ پر نازل ہونے والا دین برحق ہے اور اس کے سوا ہر راستہ ،قانون اور نظام باطل ہے ۔اسی طرح اگر وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اکیلے اللہ کی پکار لگانے والے،اسے مشکلات و حاجات میں پکارنے والے بھی حق پر ہیں اورغیراللہ کو مشکل کشا ،حاجت روا ،دستگیر اور قانون ساز ماننے والے بھی حق پر ہیں یا وہ مشرکوں کے باطل پر ہونے میں اور موحدین کے حق پر ہونے میں شک کرتا ہے تب بھی اس کا لا الہ الا اللہ کہنا اسے فائدہ نہ دے گا تا آنکہ وہ کفر وشرک اور باطل معبودوں کی بندگی کے باطل ہونے کا یقین نہ رکھے اور توحید و ایمان کے حق اور سچ ہونے کا عقیدہ نہ رکھے ۔

((إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰھَدُوْا بِأَمْوَالِھِمْ وَأَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ،اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ))
’’حقیقت میں مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے لوگ ہیں‘‘ [الحجرات: 15]۔
معلوم ہوا مسلم شک و شبہ کا شکار نہیں ہوتا اور جو کوئی کلمہ کی حقیقت پر شک رکھے وہ منافق ہو گا۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
س:
دل اور زبان سے لا الہٰ الا اللہ کو قبول کرنے سے کیا مراد ہے؟
ج:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں۔جب لوگ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کر لیں تو انہوں نے اپنی جان اور مال مجھ سے محفوظ کر لیا۔البتہ کلمہ کے حقوق ان پر نافذ ہوں گے اور ان کے دل کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘(بخاری مسلم)
اس کلمہ کا زبان سے اقرار ضروری ہے ۔قیصر شاہ روم نے نبی اکرم ﷺ اور آپ کی نبوت کی سچائی کو پوری طرح پہچان لیا اور کہا کہ میں جانتا تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے لیکن میرا یہ گمان نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو اس سےملاقات کرتا ۔اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے دونوں پائوں دھوتا۔ پھر اس نے حمص میں ایک بڑے ہال میں روم کے سرداروں کو جمع کیا اور دروازے بند کر دیئے ۔پھر کہا اے روم کے سردارو! کیا تم لوگ کامیابی چاہتے ہو؟ اور یہ چاہتے ہو کہ تمہاری بادشاہت برقرار رہے؟ تو اس نبی کی پیروی کر لو ۔اس پر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح بدک کر دروازوں کی طرف بھاگے مگر دروازوں کو بند پایا۔قیصر نے جب ان کی یہ نفرت دیکھی تو کہا کہ میں نے یہ بات تمہارے دین میں تمہاری پختگی آزمانے کے لیئے کہی تھی۔اس پر ان سرداروں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے۔(بخاری :۷)

دل سے اسلام اور نبی اکرم ﷺ کی صداقت کو پہچاننے کے باوجود لا الہٰ الا اللہ کا زبان سے اقرار نہ کرنے کی وجہ سے قیصر کفر کی موت مرا۔اپنے گناہ کے ساتھ اپنی رعایا کا گناہ بھی اٹھایا۔اس لیے کلمہ کا زبان سے ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔
اگر زبان سے اقرار ہو لیکن دل اس یقین سے خالی ہو تو زبان سے اقرار صرف اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کو دھوکہ دینے کے لیئے ہے۔لہٰذا یہ کلمہ بھی قیامت کے دن ان کے کام نہیں آئے گا۔
جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے اور اسلام کو مدینہ میں غلبہ حاصل ہوا تو عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے زبان سے کلمہ کا اقرار کر لیا لیکن دل میں اسلام اور رسول اکرمﷺ سے بغض رکھتے تھے۔انہوں نے صرف اپنی جان بچانے اور اپنا مال محفوظ رکھنے کے لیئے زبان سے کلمہ کا اقرار کیا۔ اس لیئے اللہ تعالیٰ نے گواہی دی کہ یہ اپنے اس اقرار میں جھوٹے ہیں :

{إِذَا جَاء کَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوْا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللَّہِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُوْلُہُ وَاللَّہُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَ}(المنافقون ۱)
’’آپ کے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات پر گواہ ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ‘اور اللہ جانتا ہے کہ بیشک آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق(اپنے ایمان کے دعوے میں) قطعاً جھوٹے ہیں ۔‘‘
زبان سے کلمہ کا اقرار کرنے کی وجہ سے دنیا میں انہیں مسلمانوں والے حقوق حاصل ہونگے کیونکہ یہ اپنے کفر کو چھپاتے تھے ،کبھی ظاہر ہو جاتا تو قسمیں اٹھا اٹھا کر انکار کر دیتے لیکن آخرت میں یہ مستقل جہنم میں رہیں گے ۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
س:
کلمہ جس پر دلالت کرتا ہے اس پر سر تسلیم خم کرنے اور اسے بجا لانے کے ساتھ شہادت دینے سے کیا مراد ہے؟
ج:
اس کلمہ کو دل وجان سے تسلیم کرنے سے مراد یہ ہے کہ ظاہری اور باطنی طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات ماننے پر آمادہ ہو اور اس کی کوئی بات رد کرنے کا تصور تک نہ کرے اور اس کلمہ کے حقوق یعنی فرائض و واجبات ادا کرنے کا پاپند ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
((وَ اَنِيْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ))
’’اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے مطیع ہو جائو قبل اس کے کہ تمہارے پاس عذاب آجائے پھر تم مدد نہ کئے جائو گے۔‘‘(الزمر :54)
یعنی دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اپنے جوارح سے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا لا الہٰ الا اللہ کی شرط ہے یعنی آدمی ظاہراً اور باطناً اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر امادہ ہو۔

{فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا}(النساء :۶۵)
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ ایماندار نہیں ہو سکتے ‘جب تک آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ‘پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ۔‘‘
اسلام میں داخل ہونے کی شرط یہ ہے کہ آدمی زندگی کے ہر معاملے میں فیصلے کا اختیار صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کو دینے پر آمادہ ہو جائے اور اپنے یا کسی اور کے اختیار کی مکمل نفی کر دے اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو باطل سمجھے۔ اگر کوئی شخص معیشت ،معاشرت ،سیاست یا کاروبار وغیرہ میں سے کسی ایک شعبہ میں بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کا محتاج نہ سمجھے یا انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے ان معاملات کا فیصلہ کرنا جائز سمجھے اس نے لا الہٰ الا اللہ کی شرط کو قبول نہیں کیا لہٰذا اس کا کلمہ اس کے کام نہیں آئے گا ۔باپ دادا کے طریقوں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو قابل التفات نہ جاننا کفار ہی کا شیوہ ہے:

اعمال دو طرح کے ہیں کچھ لا الہٰ الا اللہ کی شرط ہیں اور کچھ اس کا تقاضا ۔ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جو اعمال شرط ہیں ان کو ترک کرنے سے کلمہ کا کوئی اعتبار نہیں رہتا ، جبکہ دیگر اعمال کے ترک سے اسلام تو باقی رہتا ہے البتہ بندے کا ایمان ناقص ہوتا ہے۔لیکن یاد رکھیے ! اللہ کے احکامات کو قبول کرنے پر آمادگی شرط ہے ۔ ایک شخص کو مسلمان رہنے کے لیے دل و جان سے اسلام کے ہر شعبہ میں نازل شدہ احکامات کی اطاعت کرنے پر آمادہ ہونا پڑتا ہے ۔

مسلم وہی ہے جو ہر قانون ،ہر دستور اور ہر آئین کا قلادہ اتار کر اللہ کی شریعت پر چلنے پر آمادہ ہو اوردین کی کسی بات کو نہ جھٹلاتا ہو اور نہ ہی غلط کہتاہو ۔رہا وہ کہ جس کو اپنا دستور ،اپنا آئین اور اپنے بڑوں کے طریقے عزیز ہوں اور اللہ کے نازل کردہ دین کے آگے وہ سر تسلیم خم نہ کرتا ہو تو اس نے لا الہٰ الا اللہ کہنے کی شرط ہی پورا نہیں کی ۔
 
Top