• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجویز

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک تجویز پر آپکی آراء درکار ہیں :
اکثر ہمارے مابین اختلافات پر سخت کلامی ہوجاتی ہے ، بعض اوقات نوبت تلخ کلامی تک جا پہنچتی ہے ۔ معاملات کوئی نئے نہیں ہوتے اور اکثر یہاں وہاں سے حاصل شدہ معلومات کو بنیاد بنا لیا جاتا هے ۔ خلیج مزید گہری ہوتی جاتی ہے ، الزامات اور جوابی الزامات کے سلسلے بہی دراز ہوتے جاتے ہیں۔ میری تجویز ہیکہ مناسب ابواب بنا کر انمیں قرآن ، احادیث اور اقوال سلف کو جمع کردیا جائے ، مثلا نماز کے باب میں جتنے معلوم مسائل ہیں انکو جمع کردیا جائے ، ہر عنوان کے تحت مثلا قرأة الفاتحة ، رفع اليدين وغیرہ اور ہر کلک پر عناوین کہلتے جائیں ۔
معمولی سے مسئلہ میں مناظرہ کی ضرورت کیا ہے ۔ اس طرح فردی بحث کا اختتام ممکن ہو سکتا ہے اور فضول کلامی سے بچا جاسکتا ہے ۔
اہل علم کسی اہم اور غیر موجود معاملہ پر اپنی معلومات ضرور دیں ۔ اکثر انداز مذاق اڑانے والا ہوجاتا ہے خصوصا اہل علم حضرات کو نشانہ بنایا جانے لگتا ہے جو میری طرح اکثر کو ناگوار گذرتا ہوگا ۔
والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کسی بھی محفل یا مجلس کی سنجیدگی کا انحصار اس میں شرکت کرنے والے لوگوں کے علم و عقل پر ہوتا ہے ۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں ہونے والے بحث مباحثے میں چونکہ ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں ، اس لیے سنجیدگی کے معیار کو برقرار رکھنا تاحال کافی مشکل کام ہے ۔
جن موضوعات کے متعلق آپ نے تجویز فرمائی ہے ،ان پر بحث جہاں اہل علم کے درمیان ہوئی ہے ، وہاں مناسب ماحول ہی ملے گا ، لیکن جہاں ان مسائل میں کچھ دوسرے قسم کے لوگ شامل ہوجاتے ہیں ، لاشعوری طور پر انداز گفتگو تبدیل ہوجاتا ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

مجھ سمیت جو بھی شخص طالب علم ہے اس کو چاھیے کہ وہ علمی مبحاثہ میں علماء ہی کو بات کرنے دے - ہاں اگر کچھ اشکال پیش آئے کسی مبحاثہ میں تو سوال کے انداز میں بات کریں - تا کہ اپنی اصلاح کر سکے -

ایک درس سنا ہے شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ کا جس میں اسی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی علماء سے کسی مجلس میں سوال کرتا ہے تو ساتھ بیٹھے ہوئے شخص عالم سے پہلے ہی اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں - جو کہ اچھی بات نہیں - لہذا اللہ سے دعا ہے کہ وہ ھمارے اندر صبر عطا فرمائے اور علماء کے ہوتے ہوئے ھمیں خاموش رھنے کی توفیق عطا فرمائے -

اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میرے جیسے طالب علم کی اصلاح فرما دے - آمین یا رب العالمین
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
جناب طارق صاحب آپکیتجویز بہتر ہے اور بہتر طریقہ یہی ہے کہ آپ جو بھی مسئلہ لکھیں اسے صرف قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھیں اور فقہی آراء کو ترک کردیں دلیل میں صرف قرآن وسنت پیش کریں کیونکہ اسلام صرف قرآن و سنت کا نام ہے اقوال علماء نہیں ،بلکہ اقوال علماء ہی اختلاف اور افتراق و انتشار کا سبب ہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بلکہ اقوال علماء ہی اختلاف اور افتراق و انتشار کا سبب ہیں ۔
غیر متفق ۔
علماء کرام دین کے خادم ہیں ، ان کی جہود اور کوششیں کبھی بھی افتراق و انتشار کا سبب نہیں ہوسکتیں ، یہ ہماری نا اہلی ہے کہ ہم اپنے علمی ورثہ سے استفادہ نہیں کرسکتے ۔
اب اگر کوئی کسی عالم دین کی بات کو قرآن وسنت کے مقابلے میں لے آئیں تو اس میں اس عالم دین کا کیا قصور ہے ؟
رفع الملام عن الائمۃ الاعلام جیسی سوچ و فکر کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
محترم شیخ!
آپ نے بالکل بجا فرمایا
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
محترم کون عالم دین کا خادم ہے اور کون دین کا مخالف اسکی تمیز ضروری ہے پھر۔۔ اقوال علماء سے استفادہ الگ چیز ہے اور اقوال علماءکو حجت بنانا الگ چیز ہے آج امت مسلمہ کی اکثریت قرآن و سنت کے واضح نصوص کو چھوڑکراور اقوال علماء کو حجت بنانے کے نتیجے میں مختلف گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئی اور کل حزب بما لدیھم فرحون ۔اور ھر عالم دین کا خادم نہیں ہے بلکہ اکثریت علماءسوء کی ہے موجودہ وقت اسکی واضح مثال ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
محترم کون عالم دین کا خادم ہے اور کون دین کا مخالف اسکی تمیز ضروری ہے
محترم! آپ کی اس بات سے سو فی صد متفق۔

اقوال علماء سے استفادہ الگ چیز ہے اور اقوال علماءکو حجت بنانا الگ چیز ہے
محترم! اس فقرہ کو سمجھنے سے قاصر ہوں وضاحت فرمادیں کہ ”استفادہ“ سے کیا مراد ہے اگر ”حجت“ نہیں۔

آج امت مسلمہ کی اکثریت قرآن و سنت کے واضح نصوص کو چھوڑکراور اقوال علماء کو حجت بنانے کے نتیجے میں مختلف گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئی اور کل حزب بما لدیھم فرحون ۔
محترم! ہر کسی کے بس میں نہیں کہ وہ قرآن و حدیث سے براہِ راست استفادہ کرسکے۔ ہر گروہ کا ”عالم“ قرآن اور حدیث ہی پیش کر رہا ہوتا ہے اپنی سوچ کے معنیٰ پہنا کر۔ اس کی تحقیق ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
سب سے مضر چیز جو آج کل پائی جارہی ہے وہ ہے عصبیت اور شخصیت پرستی۔ کسی عالم کا احترام اس لئے نہیں کہ اس کی شخصیت کوئی اعلیٰ چیز ہے بلکہ اس لئے کہ جس ہستی کی وہ بات ہمیں بتا رہا ہے وہ یقینا اعلیٰ ہستی ہے۔

ھر عالم دین کا خادم نہیں ہے بلکہ اکثریت علماءسوء کی ہے موجودہ وقت اسکی واضح مثال ہے ۔
محترم! میں آپ کی اس بات سے سو فی صد اتفاق کرتا ہوں کہ آج کل کے اکثر ”علماء“ ایسے ہی ہیں۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
محترم بھٹی صاحب ! استفادہ سے مراد یہ ہے کہ مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب ۔ یہ نص ہے اور اپنے معنی و مفہوم میں بالکل واضح ہے یہ قولی حدیث ہے اور دوسری روایت فعلی ہے جس میں ہے کہ آپ نماز فجر پڑھارھے تھے مقتدی بھی پیچھے کچھ پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد فرمایاکہ ۔ لا تفعلوا الا بام القرآن ،فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرابھا ، اب قولی و فعلی دونوں صحیح روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی نماز بغیر سورہ فاتحہ کے نہیں ہوتی ۔اب ایک شخص کہتا ہے کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنا چاہئے دوسرا کہتا ہے کہ جہری نماز میں امام کے پیچھے نہیں پڑھنا چاہئے جبکہ مذکورہ دونوں روایتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں اور دونوں صحیح ہیں اب ان روایتوں کے پیش نظر اقوال علماء کی کوئی حیثیت نہیں ۔اور جس کا قول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے موافق ہوجاے وہ مقبول ہے یعنی آپ اقوال علماء کا مطالعہ کریں لیکن عمل اور حجت کتاب و سنت کے نصوص ہوں ۔کیونکہ اکثر علماء اپنے نظریہ و خیال کو حجت بنا کر قرآن و سنت کے ظاہری نصوص کی بیجا تاویلات کر ڈالتے ہیں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جوش صاحب کی وضاحت غور طلب ہے ، انکی گذشتہ پوسٹ سے پیوستہ بہی ہے ۔ علماء سوء کی وضاحت سابقہ مراسلے میں یوں تو ضروری نہیں تہی ، اس مراسلہ پر تبصرہ اور ایک نیا رنگ دینے کی خواہش کے سدباب کی خاطر انکی یہ پوسٹ کارگر هے ۔ اللہ انکو جزائے خیر سے نوازے اور انکے علم میں وسعت دے ۔ والسلام
 
Top