• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحاکم الی الطاغوت ہی طاغوت پر ایمان ہے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
تحاکم الی الطاغوت ہی طاغوت پر ایمان ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم


تاریخ سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جب تاتاری یاسق کے مطابق حکومت کر رہے تھے اس وقت بھی امت مسلمہ اللہ عزوجل کی شریعت کے مطابق حکومت کر رہی تھی اس دور کے مسلمانوں نے ہمارے لئے توحید پر ثابت قدم رہنے کی عمدہ مثالیں چھوڑی ہیں وہ اس طرح کہ علماء اسلام نے تاتاریوں کی بنائی ہوئی شریعت کو ان مختلف طریقوں سے بے اثر بنا کر چھوڑا ۔

(۱) اس شریعت کے بنانے اور نافذ کرنے والوں کو کافر قرار دیدیا ۔
(۲) اس شریعت کے پاس اپنے فیصلے لیکر نہیں گئے ۔
(۳) ان کی شریعت کو نہ پڑھا نہ اس پر عمل کیا اپنے فیصلوں اور دیگر معاملات میں جیسا کہ فتاوی ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن کثیر رحمہ اللہ کی البدایہ والنہایہ اور تفسیر ابن کثیر میں اسکا ذکر موجود ہے اس طرح ان علماء نے اس خود ساختہ شریعت کے اثرات کو زائل کیا اور اسے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا (ان حق پرست علماء نے اس پر خطر دور میں بھی ان ظالموں کی شریعت کو نہیں اپنایا بلکہ اسلامی شریعت پر کار بند رہے)

مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ موجودہ دور میں (اسلامی ممالک میں بھی) طاغوتی خود ساختہ قوانین کی حکمرانی ہے اگرچہ کچھ دینی جماعتیں اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہی ہیں مگر انہی جماعتوں کے کچھ افراد ان طاغوتی قوانین کو پڑھتے ہیں لاء کالجز میں داخلے لیتے ہیں وہاں کی ڈگریاں حاصل کرکے انہی طاغوتی عدالتوں میں وکیل اور جج بن کر خدمات انجام دے رہے ہیں

یہ واضح تضاد ہے مسلمانوں کے کردار میں کہ ایک طرف غیر اسلامی قوانین کے خاتمے کے مطالبے کرتے ہیں اور دوسری طرف انہی قوانین کو اپنا رہے ہیں ان کی ترویج و اشاعت کا سبب بن رہے ہیں یہ تو وکلاء اور ججوں کی بات ہے جہاں تک مسلمان عوام کی بات ہے وہ بھی اس طاغوتی نظام سے اپنے فیصلے کرانے اس کے پاس اپنے مقدمات لیجانے میں پیش پیش ہیں

مسلمانوں کا یہ طرز عمل عقیدۂ لا الٰہ الا اللہ کے لئے بہت ہی نقصان دہ ہے جب کچھ مسلمانوں کا یہ نظریہ ہے کہ جب انسان کا عقیدہ ہوکہ حکم صرف اللہ کا ہی ہے مگر فیصلے شریعت کے علاوہ کسی اور قانون کے مطابق کرے یا کروائے تو ایسا انسان مسلمان تو ہے مگر نافرمان شمار ہوگا یہ بات کہہ کر گویا یہ لوگ توحید ربوبیت کا تو اقرار کر رہے ہیں یعنی اللہ کو اس کے افعال میں اکیلا مان رہے ہیں کہ اس کو ہی حاکم تسلیم کر رہے ہیں مگر توحید الوہیت کو مسلمان ہونے کے لئے شرط نہیں مان رہے (حالانکہ توحید ربوبیت کے ساتھ توحید الوہیت بھی مسلمان ہونے کے لئے شرط ہے)

توحید الوہیت یہ ہے کہ بندہ اپنے عبادت کے امور صرف ایک اللہ کے لئے خاص کرے ان میں سے کوئی بھی عمل غیر اللہ کے لئے نہ ہو ان عبادتی امور میں تحاکم بھی شامل ہے۔ یعنی قانون کا نفاذ اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا کرانا یہ بھی اللہ کے حکم کے بغیر نہیں ہونا چاہیئے ورنہ شرک فی الالوہیت شمار ہوگا۔

طاغوت سے فیصلے کرانا یعنی غیر اللہ کے احکام کو تسلیم کرنا طاغوت پر ایمان ہے شرک ہے اور اللہ کا انکار ہے جس طرح مردوں سے دعائیں مانگنا، غیر اللہ کے لئے ذبح کرنا، نذر و نیاز کرنا یہ سب برابر ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہے

جو لوگ طاغوتی احکام کو مانتے ہیں ان کے مطابق فیصلے کرتے کراتے ہیں وہ لوگ دراصل انبیاء کرام کے منہج اور طریقے کی مخالفت کر رہے ہیں اس لئے کہ یہ لوگ انبیاء کی لائی ہوئی توحید ربوبیت کو تو مانتے ہیں مگر انہی کی لائی ہوئی توحید الوہیت کو عملاً ترک کر چکے ہیں جبکہ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ توحید ربوبیت و الوہیت دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں اب جو شخص اللہ تعالی کو ربوبیت میں اکیلا تسلیم کرتا ہو مگر الوہیت میں نہ کرے تو یہ شخص مسلمان نہیں ہے بہت سی آیات ہماری اس بات پر دلالت کرتی ہیں (جو ہم عنقریب پیش کریں گے انشاء اللہ)

طاغوتی احکام ماننا ہی طاغوت کو مانتا ہے

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْا اِلیَ الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُْوْا بِہٖوَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُظِلَّہُمْ ضَلَالًا بَعِیْدًا [النساء: ۶۰]

ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے و مقدمات طاغوت کے پاس لے جائیں جبکہ انہیں حکم یہ دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں اور شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بہت بڑی گمراہی میں مبتلا کر دے۔

آیت سے استدلال نمبر ۱ -
جب بندوں کی عبادت کا بیان ہو اور اس کے بعد صنم یا طاغوت کا ذکر ہو پھر اس سے اجتناب اور اس سے انکار کا حکم ہو تو اس حکم کا ماننا بھی عبادت ہے اور ایسی عبادت کہ جو صرف ایک اللہ کے لئے کرنی ہے یہ کام غیر اللہ کے لئے کرنے والا شرک اکبر کا مرتکب شمار ہوگا۔

شیخ سلیمان بن عبداللہ آل الشیخ فرماتے ہیں اس آیت میں دلیل ہے کہ طاغوت یعنی کتاب و سنت کے علاوہ کسی حکم کو ترک کرنا فرائض میں سے ہے اگر کوئی ایسے احکام کو تسلیم کرتا ہے تو وہ مؤمن بلکہ مسلمان بھی نہیں ہے ۔

۲- جس نے طاغوت کا حکم تسلیم کیا یا اپنا مطالبہ فیصلہ و مقدمہ طاغوت کے پاس لے گیا تو گویا اس نے طاغوت کا انکار نہ کیا اور جس نے طاغوت کا انکار نہیں کیا تو وہ اس پر ایمان لانے والا شمار ہوگا جیسا کہ علامہ محمد جمال الدین قاسمی ﴿یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْا اِلیَ الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُْوْا بِہٖکی تفسیر میں فرماتے ہیں :

طاغوت کے پاس اپنا فیصلہ لیجانا طاغوت کا حکم تسلیم کرنا اس پر ایمان لانا ہے اور طاغوت پر ایمان لانے والے کے کفر میں کوئی شک نہیں جس طرح کہ طاغوت کا انکار کرنے والا اللہ پر ایمان لانے والا شمار ہوتا ہے۔

شیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ رحمۃ اللہ علیہ فمن یکفر بالطاغوت........ اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ طاغوت کا حکم ماننا یا اس کے پاس مقدمات لیجانا اس پر ایمان لانا ہے۔ [فتح المجید، ص: ۳۴۵]

۳-
یُرِیْدُ الشَّیْطَانَ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلَالاً بَعِیْدًا والی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ شرک اکبر بہت بڑی گمراہی اور ہدایت سے محرومی ہے اس لئے کہ اللہ تعالی کا ارشاد یہ بھی ہے :

وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیْدًا [النساء: ۱۱۶]
جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ بڑی گمراہی میں جا پڑا۔


نیز فرمایا :

یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَالَا یَضُرُّہٗ وَمَا لَا یَنْفَعُہٗ ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ
اللہ کے علاوہ ان کو پکارتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ یہ بہت بڑی گمراہی ہے۔ [الحج: ۱۲]


جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارا تو وہ گمراہ ہے اس لئے کہ غیر اللہ کو پکارنا شرک اکبر ہے۔ جس نے اللہ کی شریعت کے بجائے کسی اور قانون کو فیصلہ کرنے کا مجاز سمجھا وہ بھی بڑی گمراہی میں ہے اس لئے کہ غیر اللہ کے حکم کو تسلیم کرنا بھی شرک اکبر ہے۔

دوسری دلیل : اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا ِﷲِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہٗ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ

حکم صرف اللہ کا ہے اس نے حکم دیا ہے کہ صرف اسی کو پکارو یہی صحیح دین ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ [یوسف: ۴۰]

آیت سے استدلال :
اللہ نے پہلے ایک بات ذکر کر دی کہ ﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ ِﷲِ حکم صرف اللہ کا ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ احکام اور قوانین دینا صرف اللہ کاحق ہے یہ ربوبیت سے تعلق رکھتا ہے اس لئے کہ قانون سازی اور حکم صادر کرنا اللہ کے ان افعال میں سے جن کا تعلق ربوبیت سے ہے

لہٰذا ربوبیت پر ایمان لانا فرض ہے اسی طرح توحید الوہیت پر بھی ایمان لازم ہے اللہ کے افعال میں سے یہ بھی ہے کہ وہ رزق دیتا ہے نفع نقصان کا اختیار رکھتا ہے اب عبادت یہ ہے کہ رزق فریاد دعا اسی ایک اللہ سے کی جائے اس لئے کہ وہی نفع و نقصان کا مالک ہے

جب بندہ اس بات پر یقین کر لیتا ہے کہ وہی اللہ رازق اور فریاد قبول کرنے والا ہے اور پھر یہ بندہ پیروں مزاروں سے دعائیں اور فریادیں کرے تو اس کو اللہ کی ربوبیت کا اقرار اور اللہ کی صفات کا اقرار کوئی فائدہ نہیں دے گا اس لئے کہ اللہ کی ربوبیت کو اس نے تسلیم کر لیا مگر الوہیت میں شرک کیا کہ اس نے عبادت کی ایک قسم دعا اور فریاد غیر اللہ کے لئے کر لی۔

اس طرح اگر کوئی شخص تسلیم کرتا ہے کہ اکیلا اللہ ہی حکم کرنے کا اختیار رکھتا ہے وہی احکام صادر کرنے کا مجاز ہے تو اس بندہ پر لازم ہے کہ وہ اللہ کی ربوبیت کو تسلیم کرے اور اگر مقدمات اور فیصلے غیر اللہ (یعنی کتاب و سنت کے علاوہ کسی اور قانون) کی طرف لے گیا تو یہ شرک فی الالوہیت کا مرتکب ہوا لہٰذا اب اس کو اللہ کے حاکم ہونے کا اقرار و یقین کوئی فائدہ نہیں دے گا اسلئے کہ کچھ افعال اللہ کے ہیں کچھ بندے کے ہیں اللہ کا کام حکم صادر کرنا اور قانون بنانا ہے اور بندے کا کام ہے ان احکام کی طرف فیصلے لیجانا۔

جس طرح اللہ کا کام ہے رزق دینا اور بندے کا کام ہے دعا کے ذریعے اس سے رزق طلب کرنا۔ اللہ رازق ہے لہٰذا اس سے دعا کرنا عبادت ہے اور جب یہ عبادت غیر اللہ کے لئے کی جائے تو یہ شرک اکبر ہوگا اور اللہ حاکم ہے لہٰذا اس کے حکم کے مطابق فیصلے کرنا کرانا عبادت ہے جب یہ عبادت غیر اللہ کے لئے کی جائے تو شرک اکبر ہوگا اس میں کوئی مسلمان فرق نہیں کرتا۔

اللہ کے فرمان ﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ ِﷲِمیں یہی بات واضح کی گئی ہے اس آیت میں اللہ تعالی نے ربوبیت کا ذکر کیا اور اس کے فورا بعد الوہیت کا۔ فرمایا :

وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَا لَا یَمْلِکُ لَہُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَیْئًا وَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ [النحل: ۷۳]

یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر اسکی عبادت کرتے ہیں جو زمین و آسمان میں رزق کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ ان کے پاس طاقت ہے۔


نیز فرمایا :

وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَالَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعَہُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ ھٰؤُلَاءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اﷲِ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اﷲَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ [یونس: ۱۸]

اللہ کو چھوڑ کر اسکی عبادت کرتے ہیں جو انکو نقصان دے سکتا ہے نہ فائدہ (اے محمد ﷺ) ان سے کہہ دو کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دے رہے ہو (گویا وہ) نہیں جانتا آسمانوں اور نہ زمینوں میں وہ پاک ہے ان کے شرک سے۔


اللہ کے افعال میں سے یہ ہے کہ وہ رزق دیتا ہے لہٰذا عبادت یہ ہے کہ اس سے طلب رزق کی دعا کی جائے۔

اللہ کے افعال میں سے یہ بھی ہے کہ وہ حکم کرتا ہے اور عبادت یہ ہے کہ حکم اسی کا مانا جائے صرف اس کی شریعت تسلیم کی جائے مگر موجودہ دور میں یہ بات لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل کام ہے

جیسا کہ شیخ عبدالرحمن السعدی آیت الم تر الی الذین یزعمون........ کے ضمن میں فرماتے ہیں جس نے غیر اللہ کے حکم کو تسلیم کیا اور اپنا مقدمہ و فیصلہ اللہ کے بغیر کسی اور قانون کے پاس لے گیا تو اس شخص نے اسی کو رب بنایا اور طاغوت کے پاس فیصلہ لے جانے والا شمار ہوگا۔

تیسری دلیل : نبی کریم ﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ آپ ﷺ جب رات کو بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔ ترجمہ: اے اللہ تیری ہی تعریفیں ہیں تو زمین آسمانوں کا اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نور ہے تیری تعریف ہے تو ہی آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کو تھامنے والا ہے تیری تعریف ہے تو حق ہے تیرا وعدہ حق ہے تیری ملاقات حق ہے جنت حق ہے جہنم حق ہے نبی سارے حق ہیں قیامت حق ہے محمد ﷺ حق ہے اے اللہ میں تیرے سامنے سر جھکاتا ہوں تجھ پر ایمان لاتا ہوں تجھ پر بھروسہ کرتا ہوں تیری طرف رجوع کرتا ہوں تیرے سہارے پر جنگ لڑتا ہوں تیری طرف اپنا فیصلہ لاتا ہوں تو بخش دے میرے اگلے پچھلے چھپے ظاہر سارے گناہ تو ہی میرا معبود ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ [رواہ بخاری و مسلم]

اس دعا پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن قیم جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی ﷺ نے اللہ کی حمد و ثناٗ اور عبودیت کے توسل سے دعا اور مغفرت طلب کی ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس دعا میں تین امور کا تذکرہ کیا ہے اللہ کی حمد و ثناٗ کا وسیلہ اللہ کی عبودیت کا اقرار اور عبودیت توکل انا بۃ اور تحاکم کو قرار دیا ہے۔ پھر مغفرت طلب کی ہے یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ توکل اور انابۃ کی طرح تحاکم یعنی اللہ کے احکام کو نافذ کرنا، ماننا اس کے مطابق حکومت اور فیصلے کرنا بھی عبادت ہے۔ [المدارج ۱/۳۲]
 
Top