• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحقیق حدیث کا طریقہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تحقیق حدیث کا طریقہ

کسی بھی حدیث یا اس کے راوی کے بارے میں بحث وتحقیق کا طریقہ یہی ہوا کرتا کہ جس سے روایت سنی ہے اس کے حالات معلوم کئے جائیں کہ کون ہے؟ کہاں پلا بڑھا ہے؟ کون اس کے مشایخ تھے؟ اس کی اپنی دینی حالت کیسی ہے؟ مثلاً: راوی کے حالات پر گہری نظر رکھنا کہ کیا وہ بندگی پر قائم اور معاصی سے مجتنب ہے۔یہ سب طریقہ ہائے تحقیق تھے جو حدیث کی روایت اور سند کے ایک ایک راوی پر استعمال کئے گئے۔ واقف ِحال لوگوں سے اس کے بارے میں سوالات بھی کرڈالتے۔ حسن بن صالح کہتے ہیں:
کُنَّا إِذَا أَرَدْنَاأَنْ نَکْتُبَ عَنِ الرَّجُلِ سَأَلْنَا عَنْہُ حَتّٰی یُقَالَ: أَتُرِیْدُونَ أَنْ تُزَوِّجُوْہُ۔( الکفایہ: ۳۹)۔
جب ہم چاہتے کہ کسی راوی کی احادیث لکھیں تو اس کے بارے میں واقف حال لوگوں سے کچھ سوالات کرتے۔ یہاں تک کہ ہمیں لوگ یہ کہہ دیتے: کیا تم نے اسے رشتہ دینا ہے؟

ـ٭… تحقیق کایہ بھی ایک انداز تھا کہ راوی نے اگر چندایسے مشایخ سے احادیث روایت کیں جو فوت ہو گئے۔ ان احادیث کو انہی مشائخ کے دیگر ثقہ راویوں کی روایات سے مقابلہ کرکے دیکھا جاتا ۔یوں محفوظ اور شاذ کی اصطلاح متعارف کرائی۔ پھر یہ دیکھا گیاکہ کیا یہ راوی کسی بھی شے میں منفرد ہے؟ اگر منفرد ہوکر وہ ثقہ کی مخالفت کرتا ہے تو منکر کی اصطلاح وضع ہوئی۔اگر حدیث کے متن یا سندمیں راوی کچھ اضافہ کرتا ہے تواسے مدرَج کا نام دیا۔غرضیکہ اصطلاحات کا کام خالصتاً تحقیقی بنیادوں پرترقی پذیر تھا۔

ـ٭… اسی طرح راوی احادیث سنتا، لکھتا اور یاد بھی کرتا۔ کچھ عرصہ بعد اس سے انہی احادیث کے بارے میں پوچھا جاتا۔اور بار بار اس سے سوال کیا جاتا تاکہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا وہ حدیث میں تبدیلی کرتا ہے؟ بھولتاتو نہیں یا متن حدیث میں کچھ بڑھاتایا گھٹاتا ہے ؟ یاد رہے یہ اصول راویوں کے ہاں پسندیدہ تھے اور ان کا سامنا کرنے کو وہ ہر وقت تیار بھی رہتے۔ مثلاً: شعبہ ؒبن الحجاج پہلے فرد ہیں جنہوں نے صحیح وضعیف میں تمیز پیدا کی جس میں کوئی نرمی نہیں دکھائی۔ فرماتے ہیں: میں نے طلحہ بن مصرف سے ایک حدیث سنی۔جب بھی ان کے پاس سے گذرتا تو ان سے وہ حدیث سنانے کی درخواست کرتا۔شعبہؒ سے کہا گیا ابو بسطام !آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ جواب میں کہا:
أَرَدْتُّ أَنْ أَنْظُرَ إِلٰی حَفْظِہِ فَإِنْ غَیَّرَ فِیہِ شَیئًا تَرَکْتُہُ۔
میں چاہتا ہوں کہ ان کے حفظ کا امتحان لے لوں اگر وہ اپنی روایت میں ذرا سی تبدیلی کرتے ہیں تو میں انہیں چھوڑ دوں گا۔

کہا کرتے: میں نے اگر کسی سے تیس احادیث سنی ہیں تو تیس مرتبہ اس کے پاس جاکر ہر دفعہ اس سے یہی احادیث سنیں پھرکہیں جاکر میں نے انہیں روایت کیا۔

٭…امام احمدؒ بن حنبل کا مضبوط موقف کہ :
لے آؤ کوئی آیت یا حدیث ِرسول جسے میں مان سکوں کہ قرآن ایک مخلوق ہے،مگر معتزلہ اور خلفاء کی وقتی دھمکیاں نیز ہاتھ اور پاؤں میں زنجیروں کے بوجھل ہار انہیں متزلزل نہ کر سکے۔ نقد ِحدیث اور اس کی راہ میں اٹھائی ہوئی تکالیف کے یہ نرالے اصول محدثین کا خاصہ ہیں جو روایت اور درایت دونوں پر مبنی تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چند شاندارتاریخی مثالیں:
٭… کسی گورنر نے سیدناابوہریرہ ؓ کو بلا بھیجا اور کہا : وہ مجھے یا اہل دربار کواحادیث سنائیں۔پس پردہ اس نے کاتب کو اس طرح بٹھایا کہ اس کا علم سیدنا ابوہریرہ ؓکو نہ ہوسکا۔سیدنا ابوہریرہؓ نے احادیث سنادیں۔ کاتب نے انہیں لکھ لیا اور گورنر نے انہیں محفوظ کرلیا۔ سال بعد دوبارہ سیدنا ابو ہریرہؓ کو بلوا بھیجااور کہا: مجھے پچھلے سال والی احادیث دوبارہ سنائیں ۔ اس مرتبہ بھی اس نے کاتب کو یہ کہہ کر چھپا یا کہ اگر ہماری لکھی احادیث میں جونہی یہ غلطی کریں تو خبردار کرے۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ نے دوبارہ بغیر کسی غلطی یا کمی و بیشی کے وہی احادیث سنا دیں۔(مستدرک: ۳؍ ۵۱۰) ۔گورنر کی چال ناکام رہی۔

٭… بعینہ یہی واقعہ امام زہری ؒ (۵۸۔۱۲۴ھ)کے ساتھ پیش آیا۔آپ بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح مدینہ منورہ کے ایک ایک انصاری کے گھرجا کر مردوں حتی کہ پردہ نشین خواتین سے جناب رسالت مآب ﷺ کے اقوال وحالات پوچھتے۔ کسی خلیفہ نے ان سے درخواست کی : میرے بچے کو چند احادیث املاء کرادیں۔ خلیفہ نے کاتب کو بلوایا۔ امام محترم نے چار سو احادیث املاء کرا دیں۔عرصہ بعد خلیفہ نے امام زہریؒ سے کہا: وہ تحریر کہیں کھو گئی ہے آپ ذرا دوبارہ وہی احادیث لکھوادیں ۔ امام زہریؒ نے ان احادیث کو پھر املاء کرادیا۔ ان کے جانے کے بعد خلیفہ نے پہلی تحریر کو دوسری تحریر کے ساتھ ملا کر دیکھا تو حیرت میں ڈوب گیا کہ امام محترم نے ایک حرف میں بھی غلطی نہیں کی تھی۔( ترجمہ زہری تہذیب التہذیب)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… امویوں کا دور شیعیت سے نفرت اور عباسیوں کا دور شیعیت کی حمایت کی تاریخ ہے۔ معروف امام و فقیہ امام محمد بن شہاب زہریؒ،جن کی شجاعت اور حق گوئی پر محدثین نازاں تھے انہوں نے احادیث رسول کو چھانا، پرکھا اورتدوین حدیث کا تاریخی کام سرانجام دے کر امت پر احسان عظیم کیا۔ عجیب بات ہے کہ یہودی اور عیسائی مستشرقین کی طرح اپنے بھی ان سے خار کھائے بیٹھے ہیں۔ہمیں یہ بھی علم ہے کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ کی طرح انہیں طعن وتشنیع کا کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے اس لئے کہ اہم احادیث کی روایت کے تمام ڈانڈے انہی سے جاملتے ہیں۔ عیار ذہن یہ چاہتا ہے کہ ان کی ذات مشکوک بنادی جائے تاکہ ٔاحادیث کا بیشتر حصہ خود بخود ردّ ہوجائے۔کیوں کہ وہ ہر اس روایت کے راوی ہیں جن سے ہمارے رجحانات پر زد پڑتی ہے۔مگر ان کی شفاف طبیعت نے جس طرح خلفاء کو دین پرمستقیم رکھا، ان سے دین کا کام بھی نکلوایا۔

٭…یہ سیدنا عمرؒ بن عبد العزیز نہیں تھے جنہوں نے انہیں شہرت دلوائی۔نہیںـ! بلکہ ان کی جرأت وبسالت تو پہلے سے ہی تسلیم شدہ تھی جس نے اہل دربار کو بھی وقت کے دھارے میں بہنے کی بجائے جینے کا سلیقہ سکھایا۔یہ وہ عالم تھے جو علم کے بلند وارفع مقام پر فائز تھے۔ ان کی ذات سے علمی جاہ وجلال اور شکوہ جھلکتا تھا۔ حق گوئی نے انہیں یہی شان وعظمت دلوائی۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکربھی ہر مقام پر برملا کرتے۔ان کی قربت ِبادشاہاں پر محدثین وفقہاء فخر محسوس کیا کرتے تھے کہ کوئی تو ہے جس کی نصیحت خلیفۂ وقت کے کام آتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… سلیمانؒ بن یسار ، ہشام بن عبد الملک کے دربار میں آئے۔ ہشام نے ان سے پوچھا : سلیمانؒ !یہ بتاؤ کہ {والذی تولی کبرہ منہم لہ عذاب عظیم}سے مراد کون ہے؟انہوں نے کہا: عبد اللہ بن ابی منافق ہے۔خلیفہ نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو۔ انہوں نے کہا: پھر امیرالمومنین جو سوچ کر کہہ رہے ہیں ۔۔۔اسے وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اتنے میں امام زہریؒ داخل ہوئے۔ خلیفہ نے انہیں کہا: ابن شہاب !{و الذی تولی کبرہ} کون ہے؟ انہوں نے کہا: عبد اللہ بن ابی۔ خلیفہ نے انہیں کہا: آپ جھوٹ بولتے ہیں بلکہ اس سے مراد فلاں ہے۔امام زہریؒ کو جلال آگیا اور خلیفہ سے کہا: کیا میں جھوٹ بولتا ہوں تیرا باپ نہ ہو۔اللہ کی قسم اگر آسمان سے بھی کوئی آوازیں دے کر پکار پکار کر کہے کہ اللہ نے جھوٹ کو حلال قرار دیا تب بھی میں جھوٹ بولنے کا نہیں۔ مجھے حدیث بیان کی عروہ ، سعید، عبید اللہ اور علقمہ نے انہوں نے ام المومنین عائشہ ؓ سے کہ {والذی تولی کبرہ }سے مراد عبد اللہ بن ابی ہی ہے۔امام شافعیؒ کہتے ہیں پھر چچانے سارا قصہ سنا دیا۔ جس میں یہ بھی ہے کہ ہشام ان سے بہت ہی معذرتیں کرتا رہا اور ان کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرتا رہا۔(فتح الباری، باب حدیث الإفک فی المغازی۔ تہذیب الکمال ترجمۃ ابن شہاب)

٭…سلیمانؒ نے جو جواب ہشام کو دیا اس میں بھی بڑا لطیفہ ہے۔ یہ نہیں کہا کہ امیر المومنین زیادہ جانتے ہیں بلکہ خاموش ہوکر پھر کہا کہ خلیفہ اپنے دل میں جو کچھ ہے اسے بخوبی جانتا ہے جس کی حقیقت حال میں نہیں جانتا۔مگراس موقع پر اس کے لئے یہی بات کافی نہیں تھی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے فوراً بعد امام زہریؒ کو ہشام پر مسلط کردیا اور انہیں حق کہنے کی توفیق عطاء کی۔ امام زہری ؒ کا خلیفہ کو یہ کہہ دینا لا أبالک تیرا باپ نہ ہو بہت بڑی جرأت وبہادری ہے۔اور قابلِ داد ہے وہ خلیفہ بھی جس نے اپنے اقتدار وسلطنت کو ایک امانت سمجھا اور طاقت کے نشے میں نہ آیا اور نہ ہی امام محترم کے مقام ومرتبے میں آئندہ کبھی تقصیر کی۔کیونکہ وہ بھی سمجھ گیا کہ حدیث کا یہ امین ومحافظ اگر میرے الزام کی وجہ سے بدنام ہوتا ہے تو نقصان دین کا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…امام مؤملؒ کہتے ہیں کہ ایک زاہد شیخ نے مجھے قرآن مجید کی سورتوں کے فضائل پر مبنی ایک حدیث سنائی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ حدیث آپ کو کس نے روایت کی ہے۔ اس نے کہاایک ایسے شخص نے جو مدائن میں تھا اور وہ زندہ ہے۔ چنانچہ میں مدائن اس شخص کے پاس آیا اس سے دریافت کیا کہ یہ حدیث آپ نے کس سے سنی ہے؟ اس نے جواب دیا : واسط کے ایک بزرگ سے ۔ میں واسط آیا اور اس سے ملا ۔ عرض کی کہ آپ نے یہ حدیث روایت کی ہے کس سے سنی ہے؟ وہ کہنے لگے کہ بصرہ کے ایک شیخ سے یہ حدیث سنی تھی ۔ میں بصرہ آیا ان سے پوچھا تو کہنے لگے کہ عبادان کے ایک شیخ سے یہ حدیث سنی تھی۔ عبادان میں اس بزرگ سے جب میں نے دریافت کیا کہ یہ حدیث آپ کو کس نے سنائی؟ تو میرا ہاتھ پکڑ کر ایک گھر میں لے گئے جہاں متصوف حضرات کی ایک جماعت موجود تھی جن کے ساتھ ان کے شیخ بھی تھے۔ تو انہوں نے اس شیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ حدیث ان سے سنی تھی۔ میں نے اس شیخ سے عرض کی کہ آپ نے یہ حدیث کس سے سنی؟ تو کہنے لگے: مجھے کسی نے یہ حدیث نہیں سنائی بلکہ ہم نے محسوس کیا کہ لوگ قرآن مجید سے منہ موڑتے جارہے ہیں تو ہم نے ان کے لئے ایسی احادیث وضع کردیں تاکہ ان کے دلوں کو قرآن کی طرف مائل کرسکیں۔ (التقیید والإیضاح: ۱۱۲)

علمِ حدیث کی خدمت پر مبنی یہ تمام ترسرگرمیاں عظیم مقصد کے تحت تھیں اورجو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔اس تحقیقی عمل نے حدیث واصولِ حدیث کی تدوین کے مناہج بھی متعین کردیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟ اس سنجیدہ کوشش میں بھرپور اخلاص، انتھک محنت اورسخت جستجو کے بعد ہی صحیح وضعیف حدیث کی یافت ہوتی ہے۔یہ کام اس لئے بھی بابرکت اور دوام بخش رہا کہ محدثین کے نہ تو کوئی مخصوص مذہبی میلانات ورجحانات تھے اور نہ ہی ذاتی پسند وناپسند کا عمل دخل تھابلکہ ان کے لئے ذاتِ رسول اور حدیث ِرسول کا معاملہ ہی سب سے اہم تھا۔ امام علی بن المدینیؒ سے تلامذہ نے پوچھا کہ آپ کے والد محترم حدیث بیان کرتے ہیں کیا ان سے ہم روایت کریں؟ فرمانے لگے:
سلوا عن غیری۔
کسی اور سے پوچھو۔ طلبہ نے اصرار کیا تو گردن جھکا لی اور خود سے فرماتے ہیں: علی! یہ تو دین ہے جس کے متعلق تم سے سوال کیا جارہا ہے اور تم خاموش ہو؟ فورًا سر اٹھا کے فرمایا:
إنہ ضعیف۔
سنو! میرے والد روایت ِحدیث میں ضعیف ہیں ان سے مت روایت کرو۔

٭ … دوسری طرف ابو المحاسن نے امام ابو حنیفہؒ کی سیرت میں یہ واقعہ لکھا ہے جو فقہاء احناف کے ہاں کافی مقبول ہے مگر تاریخی اور علمی ذوق سے خالی۔ امام ابوحنیفہ ؒ کو حماد بن ابی سلیمان کے بعد کوفہ کی مسند درس پر بٹھایا گیا تو آپ نے بمشکل قبول فرمایا۔ انہی دنوں خواب میں دیکھا کہ وہ پیغمبر خداﷺ کی قبر مبارک کھود رہے ہیں۔ ڈر کر چونک پڑے اور سمجھے کہ میری نااہلی کی طرف اشارہ ہے۔ امام ابن ؒسیرین علم تعبیر کے استاذ مانے جاتے تھے۔ انہوں نے تعبیر بتائی کہ اس سے ایک مردہ علم کو زندہ کرنا مقصود ہے۔ امام صاحب کو تسکین ہوگئی اور اطمینان کے ساتھ درس میں مشغول ہوگئے۔ اس واقعہ میں :
۱۔ امام ابوحنیفہؒ کا بعد از انتقال حمادؒ بن ابی سلیمان ان کی مسند درس پر بیٹھنا۔
۲) خواب دیکھنا۔
۳) امام ابن ؒسیرین سے تعبیر پوچھنا وغیرہ۔
حماد ؒکا انتقال ۱۲۰ھ میں ہوا اور ان سے دس برس قبل امام ابن سیرین ؒ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے۔ اس لئے یہ خواب تاریخی اعتبار سے تبھی درست ہوسکتا ہے جب بلا تامل یہ تسلیم کرلیا جائے کہ امام ابوحنیفہؒ نے خواب دیکھنے سے دس برس پہلے تعبیر پوچھ لی ہو۔

٭…یہی حال اس مفروضہ واقعے کا ہے جو سیدنا عمرؓ کے بارے میں ایام محرم میں میڈیا پر بہ تکرار سنایا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر اور بچوں سمیت خلیفۂ وقت جناب عمرؓکے پاس فدک کی وراثت لینے گئیں۔ وہ اس وقت حاملہ بھی تھیں۔ سیدنا عمرؒ کو ویسے بھی خاندان نبوت سے کدتھی۔اس لئے وہ یہ مطالبہ سنتے ہی دختر رسول پر یہ ظلم ڈھاتے ہیں کہ اس مختصر سے کنبے کو اپنے گھر کے بڑے کواڑ کے پیچھے دھکیل کر زور سے دباتے ہیں جس سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی چیخیں نکل گئیں اور ان کا حمل ساقط ہوگیا۔ یہ واقعہ اس لئے موضوع ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد فوت ہوگئی تھیں لہٰذا ان کا جناب عمرؒ رضی اللہ عنہ کے پاس آنا ثابت ہی نہیں ہوسکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…محدثین کے نام، کنیت، نسبت اور لقب وغیرہ تک آپس میں بہت ملتے جلتے ہیں۔ ان کی عدالت وثقاہت اور ضعف وارسال وغیرہ میں فرق کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔اس فرق کو علماء حدیث نے بتایا اورکتب لکھیں۔ مثلاً چھ راوی ایسے ہیں جن کا نام زید بن اسلم بن محمد ہے مگران میں ہر ایک دوسرے سے کنیت، نسبت ، لقب یا شجرۂ نسب میں مختلف ہے۔ ایسی معلومات کا فائدہ یہ ہے کہ ثقہ و ضعیف راوی میں تمیز کرنا آسان ہوجاتا ہے۔اس پہچان کے بغیر ضعیف راوی کو ثقہ باور کرکے یا ثقہ راوی کو ضعیف سمجھ کر حدیثی روایات پر عمل یا رد عمل ہوسکتا ہے۔تصحیح ِحدیث کا میدان خالی رہ جاتا ہے۔ بہت سے علماء کی مطبوعہ کتب اس کی شاہد ہیں۔یہ اشتباہ کیسے ہوسکتا ہے اور فرق کیسے کیا جاسکتا ہے؟ بہت سی مثالیں کتب میں عام ملتی ہیں۔

٭… دوسری صدی ہجری شروع ہوتے ہی امام مالک وامام شافعی رحمہما اللہ کی کتب نے بتدریج اس فن کی اہمیت اہل علم کو باور کرادی تھی ۔مصنفات، موطآت اور مسانید جیسی کتب ِحدیث بھی منصہ شہود پر آچکی تھیں۔جن میں فقہی ابواب پر مبنی احادیث مرتب تھیں اور اسمائے صحابہ میں حروف تہجی کا لحاظ کرکے اسمائی قاموس یعنی مسانید مرتب کردی گئیں۔علماء مشرق ہوں یا مغرب (اندلس) ان سب نے اپنی ذہانت کے انبار لگا دئے۔مقبول ومردود احادیث ورواۃ کے موازین طے کرکے تخریجِ حدیث کو بھی بتدریج آسان بنادیاگیا۔تخریج کا ذوق جب آگے بڑھا تو صحیح وضعیف ، مرسل ومعلل اور موضوع احادیث پر الگ الگ مستقل کتب ظہور پذیر ہوئیں۔ ثقہ وعادل رواۃ ہوں یا ضعیف ومدلس اوروضاع ، ان کے احوال پر بھی علماء رجال نے عرق ریزی کی۔غرض حدیث کے ہر تانے بانے کو درست کرنے کے لئے حقیقت پسندی سے کام لیا گیا۔مقصد یہ تھاکہ رسول محترم کا فرمایا ہوا افرادِ امت کے پاس بغیر کسی تحریف وتصحیف کے پہنچ جائے اور امت تفریق کا شکار ہونے سے بچ جائے۔

٭… یہ ہے ابتدائی تین نسلوں کا تنقیدی تجزیہ اور نقدی نمونہ۔جس میں روایت حدیث خواہ صحیح تھی یا ضعیف، کچی تھی یا پکی، مقبول تھی یا مردود سبھی روایات کا انبار آج بھی موجود ہے اور انہی اصولوں کے مطابق ہر واقعہ وروایت کی تحقیق وتنقید کی جاسکتی ہے اور کھرے کھوٹے کو علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔

٭…معاشرے میں نقاد علماء کی قدرواہمیت کیا تھی؟ صرف اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام لوگ جب کسی کے ہاتھوں تنگ آتے تو ہاتھ اٹھا کر رب ذو الجلال کی بارگاہ میں یہ دعا کرتے:
اَللّٰہُمَّ سَلِّطْ عَلَیْہِ رَجُلاً مُحَدِّثًا۔
اے اللہ! اس پر کسی محدث کو مسلط فرمادے جو اس کے احوال کو منکشف کرے اور اپنی کتاب میں لکھ ڈالے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عملی نفاذ:
٭…تنقید حدیث اور اس کا نفاذ دورِ صحابہ میں شہادتِ ذو النورین سے ہی شروع ہو گیا تھا۔امام محمد بن سیرین (م:۱۱۰ھ) کا یہ قول صحیح مسلم کے مقدمہ میں مذکور ہے:
لَمْ یَکُونُوا یَسْألُونَ عَنِ الإسْنَادِ فَلَمَّا حَدَثَتِ الْفِتْنَۃُ قَالُوا: سَمُّوْا لَنَا رِجَالَکُمْ، فَیُنظَرْ إِلٰی أَہْلِ السُّنَّۃِ فَیُؤْخَذُ حَدِیثُہُمْ وَیُنْظَرُ إِلٰی أَہلِ الْبِدْعَۃِ لاَ یُؤْخَذُ حَدِیْثُہُمْ۔
اس کا طریقہ کیا تھا:
صحیح مسلم میں ہی ہے: بشیر عدوی سیدنا ابن عباسؓ کے پاس آیااور آتے ہی کہنے لگا: قال رسول اللہ ۔ سیدنا ابن عباس ؓکوئی توجہ نہ دی۔ کہنے لگا: ابن عباسؓ! خیریت ہے میں حدیث پڑھ رہا ہوں اور آپ بے اعتنائی برت رہے ہیں؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میاں! ایک وقت تھا جب ہم کسی سے یہ سنتے:
قَالَ رسُوْلُ اللّٰہِ: اِبْتَدَرَتْہُ أَبْصَارُنَاوَأَصْغَینَا إلَیہِ بِآذَانِنَا ، فَلَمَّا رَکِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ، لَمْ نَأْخُذْ مِنَ النَّاسِ إِلاَّ مَا نَعْرِفُ۔
اللہ کے رسول نے فرمایا ہے:تو ہماری آنکھیں فوراً اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہم گوش بر آواز ہوجاتے۔مگرجب لوگوں نے ہر ایری غیری چیز اپنالی تو صرف ہم وہی احادیث لینے لگے جنہیں ہم جانتے ۔

٭…فقیہ مدینہ ابو الزناد کہتے ہیں:
أَدْرَکْتُ بِالْمَدِیْنَۃِ مِائَۃً کُلُّہُمْ مَأمُونٌ، مَا یُؤخَذُ عَنہُمُ الحَدیثُ، یُقَالُ لَیْسَ مِنْ أَہْلِہِ۔
مدینہ میں سو لوگ تھے تمام امین بھی۔ مگر ان سے حدیث نہیں لی جاتی تھی ۔ وجہ یہی بتائی جاتی کہ اس کے اہل ہی نہیں۔

ابو اسحق طالقانی کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے عرض کی: ابوعبد الرحمن!یہ حدیث : نیکی کے بعد ایک نیکی یہ بھی ہے کہ تم اپنے والدین کے لئے نماز پڑھو اپنی نماز کے ساتھ اور ان کے اپنے روزوں کے ساتھ روزے بھی رکھو۔ عبداللہ نے فرمایا: ابواسحق: یہ حدیث کس سے روایت کی جاتی ہے؟ میں نے عرض کی: شہاب بن خراش سے۔فرمانے لگے: یہ ثقہ ہیں۔ وہ کس سے؟ میں نے عرض کی حجاج بن دینار سے۔ فرمانے لگے: یہ بھی ثقہ ہیں۔ یہ کس سے روایت کرتے ہیں؟ میں نے کہا: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ۔ فرمانے لگے: ابواسحق! حجاج بن دینار اور رسول اللہ کے درمیان تو بنجر راستہ ہے جن میں اونٹوں کی گردنیں کٹ گئی ہیں۔مگر صدقہ میں اختلاف نہیں۔(مقدمہ صحیح مسلم)

یہ تنقیدی تجزیہ حدیث رسول اور سند حدیث دونوں کا ہے۔نقدِ حدیث کے یہ رویے بہت بعد کے نہیں بلکہ دور صحابہ سے ہی ہیں جس میں آخر تک سینکڑوں نقادانِ فن ِحدیث نرم وگرم نظر آتے ہیں۔سیدنا ابن عباس ؓ کی سرد مہری اور ان کے اس رویے پر خود ان کا جواب ہی نقد ہے کہ لا تعلق لوگ ہمارے نزدیک بے وزن اورغیر اہم ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… علماء حدیث نے اصول تنقید اور درایت یعنی عقلی حیثیت سے روایات کو پرکھنے کے اصول وقواعد الگ ترتیب دئے جن میں روایات کی تصحیح وتضعیف یا تغلیط کا ڈھنگ بتایا ہے۔ مگر اس چھان بین اور تحقیق میں بے لوث اور انتہائی دیانتدار ثابت ہوئے۔ بڑے بڑے خلفاء وامراء نے اگر روایت حدیث میں ذرہ برابر غلطی کی تو ان کو بھی نہ چھوڑا۔ اور انہیں وہی درجہ دیا جس کے وہ مستحق تھے۔
٭… زمانہ صحابہ وکبارتابعین میں ہی گو احادیث کے ساتھ اقوال وفتاوی جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ موضوع وضعیف اور صحیح احادیث کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز کرنے کی کوششیں بھی اسی عرصہ میں شروع ہوئیں۔ خبر واحد، متواتر، صحیح، ضعیف، موضوع، مرفوع، موقوف، مقطوع وغیرہ کی اصطلاحات زبان زد عوام تھیں۔ناسخ ومنسوخ، مرسل ومنقطع سے بھی ہر طالب حدیث واقف تھا۔ اختلافِ حدیث اور رفع ِتعارض کے اصول بھی وضع ہوگئے۔ رواۃ پر نقد اور تبصرہ کی ریت بھی پڑچکی تھی۔درجات حدیث وکتب بھی مقرر ہوئے۔

٭…یہ فن حفاظت ِحدیث کی خاطر شروع ہوا اور بتدریج بحث وتحقیق کے انتہائی اعلیٰ وارفع مقام کو چھوگیا جس میں بجا طور پراور بجا مقام پر سخت رویے بھی تھے اور معتدل وبے لاگ تبصرے بھی۔ طبقات ابن سعد، تذکرۃ الحفاظ از امام ذہبی اور طبقات الحفاظ از امام سیوطی یا وہ کتب جن میں صحابہ کرام کے حالات لکھے گئے ہیں جیسے: اسد الغابہ از ابن الاثیر، الاستیعاب از ابن عبد البر یا معرفۃ الصحابہ از ابونعیم یا الاصابۃ از امام حجر عسقلانی وغیرہ جیسی کتب میں ان اہل علم کی حدیثی درایت وروایت کا نہ صرف تذکرہ ملتا ہے بلکہ درجات کا بھی علم ہوتا ہے۔

ایک قابلِ مذمت پہلو:
تیسری صدی کے اواخر تک حدیث کے تصفیہ اور تزکیہ کا کام ہوتا رہا۔ مگر محدثین کی ان کوششوں کو تاریخ کہہ دیا گیا۔ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تاریخ ومورخین کے علم کی بنیاد کیا ہے؟ کیا کتب ِحدیث میں محض خبر برائے خبر ہے یا ان افواہ سازوں کے نام اس میں گم ہیں؟ یا اس علم میں قرائن وقیاسات ہیں؟یا یہ کوئی قدیم دیمک خوردہ دستاویزہے یا پتھر یا دھات پر دفن شدہ ملی ہوئی تحریر ہے؟ مورخ جب تاریخ لکھتا ہے تو اس کے پیش نظر اصول کیا ہوتے ہیں؟ ابن خلدون کے تاریخ لکھنے کے اصول تو مستشرقین کو بھی بہت پسند ہیں۔ اس الزام تراشی سے قبل اگر ان اصولوں کو ہی پڑھ لیا ہوتا تو شاید ایسی بات لکھنے میں شرافت مانع ہوتی۔بہر حال جس نے اپنے قلم کو بغیر کسی اصول وراہنمائی کے چلانا ہو تو اس سے ایسی زَلتوں کا ہونا ممکن ہے۔علم حدیث ایک مسلمہ علم ہے جس کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہے۔اسے تنقیدی اور علمی دیانت سے پڑھئے آپ کو یقین ہوجائے گا کہ اثاثۂ رسول کو محفوط رکھنے کے لئے کس خوبی ومحنت سے محدثین نے یہ فرض نبھایاہے۔

اس کے مفید نتائج:
احادیث کی جانچ پڑتال کے اس نظام میں صحیح احادیث کو ضعیف وموضوع احادیث سے نکھارا گیا اور روایت کی اسانید اور متون دونوں پر نقد کی گئی۔ اصول وقواعد پر مبنی یہ نظام اس قدر غیر جانبدارانہ تھا کہ بعد میں محدث کی طرح ہر فقیہ ، مفسراورمتکلم کو بھی انہی اصول وقواعد کی روشنی میں جانچا اور پرکھاگیا۔صرف وضع حدیث کی پہچان کے لئے گیارہ اصول بنائے گئے۔حلقۂ حدیث میں جب کبھی رواۃ پر بحث ہوتی تو محض راوی کے زہد ، وعظ یا اس کی فقاہت کو نہیں بلکہ اس کی ثقاہت اور درایت سمیت رجحانات اور قول وعمل کو بھی زیر بحث لایا جاتا ۔صرف صحابہ ہی مستثنی تھے کہ جن کا حفظ وضبط مسلمہ، عدالت غیر مشکوک اور علم وفہم، درایت وفقاہت سبھی معتمد علیہ تھے اور جن کی حیثیت افتاء کی تھی ۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Last edited:
Top