- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
تحقیق حدیث کا طریقہ
کسی بھی حدیث یا اس کے راوی کے بارے میں بحث وتحقیق کا طریقہ یہی ہوا کرتا کہ جس سے روایت سنی ہے اس کے حالات معلوم کئے جائیں کہ کون ہے؟ کہاں پلا بڑھا ہے؟ کون اس کے مشایخ تھے؟ اس کی اپنی دینی حالت کیسی ہے؟ مثلاً: راوی کے حالات پر گہری نظر رکھنا کہ کیا وہ بندگی پر قائم اور معاصی سے مجتنب ہے۔یہ سب طریقہ ہائے تحقیق تھے جو حدیث کی روایت اور سند کے ایک ایک راوی پر استعمال کئے گئے۔ واقف ِحال لوگوں سے اس کے بارے میں سوالات بھی کرڈالتے۔ حسن بن صالح کہتے ہیں:
کُنَّا إِذَا أَرَدْنَاأَنْ نَکْتُبَ عَنِ الرَّجُلِ سَأَلْنَا عَنْہُ حَتّٰی یُقَالَ: أَتُرِیْدُونَ أَنْ تُزَوِّجُوْہُ۔( الکفایہ: ۳۹)۔
جب ہم چاہتے کہ کسی راوی کی احادیث لکھیں تو اس کے بارے میں واقف حال لوگوں سے کچھ سوالات کرتے۔ یہاں تک کہ ہمیں لوگ یہ کہہ دیتے: کیا تم نے اسے رشتہ دینا ہے؟
ـ٭… تحقیق کایہ بھی ایک انداز تھا کہ راوی نے اگر چندایسے مشایخ سے احادیث روایت کیں جو فوت ہو گئے۔ ان احادیث کو انہی مشائخ کے دیگر ثقہ راویوں کی روایات سے مقابلہ کرکے دیکھا جاتا ۔یوں محفوظ اور شاذ کی اصطلاح متعارف کرائی۔ پھر یہ دیکھا گیاکہ کیا یہ راوی کسی بھی شے میں منفرد ہے؟ اگر منفرد ہوکر وہ ثقہ کی مخالفت کرتا ہے تو منکر کی اصطلاح وضع ہوئی۔اگر حدیث کے متن یا سندمیں راوی کچھ اضافہ کرتا ہے تواسے مدرَج کا نام دیا۔غرضیکہ اصطلاحات کا کام خالصتاً تحقیقی بنیادوں پرترقی پذیر تھا۔
ـ٭… اسی طرح راوی احادیث سنتا، لکھتا اور یاد بھی کرتا۔ کچھ عرصہ بعد اس سے انہی احادیث کے بارے میں پوچھا جاتا۔اور بار بار اس سے سوال کیا جاتا تاکہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا وہ حدیث میں تبدیلی کرتا ہے؟ بھولتاتو نہیں یا متن حدیث میں کچھ بڑھاتایا گھٹاتا ہے ؟ یاد رہے یہ اصول راویوں کے ہاں پسندیدہ تھے اور ان کا سامنا کرنے کو وہ ہر وقت تیار بھی رہتے۔ مثلاً: شعبہ ؒبن الحجاج پہلے فرد ہیں جنہوں نے صحیح وضعیف میں تمیز پیدا کی جس میں کوئی نرمی نہیں دکھائی۔ فرماتے ہیں: میں نے طلحہ بن مصرف سے ایک حدیث سنی۔جب بھی ان کے پاس سے گذرتا تو ان سے وہ حدیث سنانے کی درخواست کرتا۔شعبہؒ سے کہا گیا ابو بسطام !آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ جواب میں کہا:
أَرَدْتُّ أَنْ أَنْظُرَ إِلٰی حَفْظِہِ فَإِنْ غَیَّرَ فِیہِ شَیئًا تَرَکْتُہُ۔
میں چاہتا ہوں کہ ان کے حفظ کا امتحان لے لوں اگر وہ اپنی روایت میں ذرا سی تبدیلی کرتے ہیں تو میں انہیں چھوڑ دوں گا۔
کہا کرتے: میں نے اگر کسی سے تیس احادیث سنی ہیں تو تیس مرتبہ اس کے پاس جاکر ہر دفعہ اس سے یہی احادیث سنیں پھرکہیں جاکر میں نے انہیں روایت کیا۔
٭…امام احمدؒ بن حنبل کا مضبوط موقف کہ :
لے آؤ کوئی آیت یا حدیث ِرسول جسے میں مان سکوں کہ قرآن ایک مخلوق ہے،مگر معتزلہ اور خلفاء کی وقتی دھمکیاں نیز ہاتھ اور پاؤں میں زنجیروں کے بوجھل ہار انہیں متزلزل نہ کر سکے۔ نقد ِحدیث اور اس کی راہ میں اٹھائی ہوئی تکالیف کے یہ نرالے اصول محدثین کا خاصہ ہیں جو روایت اور درایت دونوں پر مبنی تھے ۔