• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تخلیق انسان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

1859ء میں چارلس ڈارون نامی ایک شخص نے ایک انتہائی خطرناک نظریہ پیش کیا جسے 'نظریہ ارتقاء' کہا جاتا ہے۔ اگراس کے نظریہ ارتقاء کو ایک جملے میں لکھا جائے تو ہم کہیں گے:

'ماحول کے مطابق حیاتی اجسام میں مسلسل تبدیلی اپنی بقاءکے لیے"

ڈارون نے اپنے نظریے میں انسان کی بات نہیں کی تھی مگر بہرحال اُس کا نظریہ ہر جاندار شئے پہ لاگو ہوتا ہے بشمول بنی نوع انسان کے۔
ڈارون کے نزدیک تمام جاندار اپنی ہیت کو تبدیل کرتے رہتے ہیں اپنے اطراف کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے۔
مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ بعض پانی کے جانور کروڑوں سال پہلے چرندے تھے مگر کسی وجہ سے اُن کو اپنی زندگی طویل عرصہ تک پانی میں گزارنی پڑی تو ان کے پاؤں غائب ہو گئے اور وہ مچھلی کی طرح کی شکل اختیار کر گئے۔
اسی طرح مچھلیوں کو جب زمین پر زندگی گزارنی پڑی تو ان کے پاؤں نکل آئے اور ان کی شکل پہلے مگرمچھ اور پھر بعد میں دیگر جانداروں کی سی ہو گئی۔ یعنی اپنی بقاء کے لیے قدرت ﴿اللہ تعالٰی نے نہیں) نے انکی جون تبدیل کر دی۔
اسی طرح انسان کے بارے میں نظریہ ارتقاء کے حامی کہتے ہیں کہ انسان بن مانس کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔
چمپینزی جیسے چو پائے سے دو پیروں پر انسان اس لیے کھڑاہو گیا کہ وہ اُس زمانے میں اور اُس وقت کے ماحول کے مطابق اُس کی بقاء کے لیے ضروری تھا۔
سننے میں تو یہ نظریہ بڑا دلچسپ ہے اور اسی لیے اس پر سینکڑوں کہانیاں اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور متعدد فلمیں بن چکی ہیں۔
مگر حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بالکل اسی حلیےمیں بنایا ہے جس میں وہ آج موجود ہے۔
دہریوں کے نظریے اور ایمان کے بیچ سائنس حائل ہے جو اپنے نت نئے انکشافات سے ایمان کی تائید کرتی ہے۔ نظریہ ارتقاء کے حامی ابھی بھی اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کہ حیات کی ابتداء کیسے ہوئی؟ جب بگ بینگ سے کائنات وجود میں آئی تو اُس میں جاندار مادّہ تو کوئی تھا نہیں۔ تو پھر زندگی کی ابتداء کیونکر ہوئی؟ کچھ کہتے ہیں کہ کسی کیمیائی عمل سے ایسا ہوا۔ تو اگر کیمیا گری سے زندگی وجود میں آ سکتی تو سائنس اتنی ترقی کرنے کے بعد علم کیمیا سے کو ئی معمولی نوعیت کا جاندار یا کیڑا پیدا کر کے کیوں نہیں دکھا دیتی؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بہرحال بات ڈارون کے مشہور زمانہ اور ساتھ ہی انتہائی متنازع نظریہ ارتقاء کی ہو رہی ہے۔ جو صرف وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں زندگی پہلے سے ہی موجود تھی۔
تفصیلی بحث میں جائے بغیر ہم انسانوں کے ارتقاء کی طرف آتے ہیں۔ یعنی بن مانس سے مانس بننے کا سفر۔موجودہ دور کے انسان کو سائنس ہوموسیپینز (Homo Sapeins) کہتی ہے۔ اس سے پہلے کی نسل کو ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) کہتے ہیں۔
علم الانسان یا بشریات کے ماہر یعنی اینتھروپولوجسٹ (Anthropologists) اپنی تما م تر کوشش کے بعد بھی ہوموسیپینزاور ہومو ایریکٹس کے درمیان کوئی جوڑ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
آج تک دنیا بھر میں زمین کی کھدائی سے کوئی ایک بھی ہڈی ایسی نہیں ملی جو ہوموسیپینزاور ہومو ایرکٹس کے درمیان کے دور کو ثابت کرتی ہو۔ اس بات کو ہم مسِنگ لنکِ (Missing Link) کا نام دیتے ہیں۔ اِرتقاءکے مطابق ایک نوع کو دوسری نوع میں تبدیل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا لمحہ آجائے جس میں اُن کی باہمی نسل آگے نہ بڑھ سکے۔
اگر بندر سے انسان کو الگ ہونا تھا توتاریخ میں کوئی ایسا وقت ضرور آیا ہوگا جب انسان نے اپنے جد امجد کو الوداع کہا ہوگا۔ وہ وقت کب آیا؟ کتنی خاموشی سے آیا؟ کسی کو آج تک خبر بھی نہ ہوئی؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
گمان ہے کہ بن مانس سے انسان کے الگ ہونے کا وقت آج سے 50 یا 70 لاکھ سال پہلے آیاہوگا۔ اس دور سے لے کر 15 لاکھ سال پہلے تک کئی قسم کے ادوار انسانی ارتقاء کی کہانی سناتے ہیں اور پھر ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) کا دور آیا جو 2 سے 3 لاکھ سال پہلے بڑے پرُاسرار انداز میں غائب ہوگیا۔ اور پھراچانک ہی 1.5 لاکھ سال پہلے کہیں سے ہوموسیپینز(Homo Sapeins) کا وجود آگیا۔ ہومو ایریکٹس کے بارے میں قیاس ہے کے وہ تقریباً انسان تھے ہومو ایریکٹس اور ہوموسیپینز کے درمیان صرف 50 ہزار سال کا وقفہ ہے لیکن دونو ں کا خاص اَختلاف یہ ہے کہ دونوں کے دماغ کے حجم میں بہت بڑا فرق ہے (تقریباً ڈیڑھ گنا) ۔
اس کے علاوہ دونوں بلکے جتنے بھی اعلیٰ حیوان (Primates) موجود ہیں ان کے تولیدی عمل میں بھی بہت ہی خاص اور نما یاں فرق پایا جاتاہے جو کہ صرف اور صر ف انسانو ں کا خاصہ ہے۔ پھر ہوموسیپینز یا انسان کے جسم کے بالوں کو کیا ہوا؟ کہاں گئے؟ کیسے جھڑگئے؟ صرف دو وجہ ہو سکتی ہیں جسم کے بال گر جانے کی ۔ انسان کی ارتقاءکافی زمانے تک پانی میں ہوئی یا پھر وہ عرصہ دراز تک کسی بہت ہی گرم جگہ رہتا رہا۔ لمبے عرصے تک پانی میں رہنے کی تو وجہ کچھ کچھ سمجھ آتی ہے کیونکہ انسان کا بچہ پیدائشی طور پر پانی میں سانس روک لینے اور کسی حد تک تیرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن یہ شکم مادر میں پروان چڑھنے کانتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔
مگر اس کے علاوہ: انسانی کھال کے نیچے چربی کی تہہ کا ہونا۔ بال کا نہ ہونا۔ نرخرے اور زبان کی بناوٹ۔ نمکین پسینے کے غدود جلد کا نرم ہونا اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ انسان کا پانی سے کوئی رشتہ کبھی ضرور رہا ہے۔ لیکن کب اور کہاں یہ دور گزرا اس کے بارے میں مکمل سکوت ہے۔ کیا اسی لئے ہومو ایریکٹس اور ہوموسیپینز کے درمیان کا جوڑ غائب ہے کیونکہ وہ کہیں پانی میں دبا ہوا ہے۔ (واللہ اعلم) بہت سے جانور زمانہ قدیم سے اوزار استعمال کرتے چلے آرہے ہیں جیسا کہ مصری گدھ کا پتھر پھینک کہ شترمرغ کے انڈے توڑنا۔ بحر اوقےانوس کا اوُد بلاؤ بھی ایسا ہی کر تاہے۔ بعض ہدہد کانٹوں سے درختوں میں موجود کیڑوں کو کرید کرید کر کھاتے ہیں۔ کنگاروُ کا اتنا ہنر مند ہونا بھی سب کے علم میں ہے مگر وہ پھر بھی اوزاراستعمال نہیں کرتا۔ ایسی دیگر کئی مثالیں موجود ہیں بہت سے جانورں کے متعلق مگر انہوں نے اوزار کے استعمال سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ لاکھوں سال سے ایک ہی طرح اپنے اپنے اوزار استعمال کر رہے ہیں اور بس۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ارتقاء پسند خود یہ کہتے ہیں کے ارتقاء کا عمل انتہائی سست رفتار ہوتا ہے کیونکہ قدرت جو جاندار کے لیے بہتر ہوتا ہے وہ بڑے آہستہ انداز میں پسند کرتی ہے اور پھر اُس تبدیلی کو نسل در نسل آگے بڑھاتی ہے۔ ایک لاکھ سال میں کچھ نیا بن جانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شےء اچانک ہی ہو گئی ہو۔ تو پھر ہومو سیپینزاور ہومو ایریکٹس کے درمیان کے ایک لاکھ سے بھی کم عرصے میں انسان کا دماغ بن جانا، بال گر جانا، تولید کا عمل بدل جانا، انسان کا بولنا شروع کردینا (جبکہ وہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے کھاتے وقت) اورکھانا چبا کے کھانا شروع کر دینا کیسے ہو گیا؟ اس کے علاوہ ارتقاء پسند یہ بھی مانتے ہیں کہ قدرت وہی کچھ دیتی ہے جسکی اُس ماحول میں ضرورت ہو تو پھر ہم کو قدرت نے (اللہ نے نہیں) اِتنا اعلیٰ دماغ کیوں دیا جو آج اتنی ترقی کے بعد بھی ہمارے استعمال سے کہیں زیادہ کارکردگی کا حامل ہے۔ اتنا زبردست دماغ بغیر کسی ضرورت کے دے دیا؟ دنیا کی ہر شےءمیں ایک تناسب ہے۔ ہرن اور چیتے کی مثال لے لیں۔ چیتے کو خاص طور پر ہرن کے شکار کے لئے بنایا گیا ہے اور ساتھ ہی ہرن کو چیتے سے بچنے کی بھرپور صلاحیت دی گئی ہے۔ موت وزیست کا کھیل یہ دونوں ازل سے کھیلتے چلے آرہے ہیں مگرپھربھی دونوں کی نسلیں پروان چڑھتی رہی۔ ہرن کو اگرچہ مرنا ہوتا ہے مگر اس کی پیدائش کا تناسب چیتے سے کہیں زیادہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سب سے بڑااور اہم سوال دہریوں کے لیے
انسان کے بچے کی پیدائش کے وقت اس کا دماغ ایک بالغ دماغ کا چوتھائی ہوتا ہے۔ لیکن بڑے دماغ کی جگہ کے لئے بچے کی کھو پڑی، تنا سب کے لحاظ سے اُس کے حجم سے کہیں زیادہ بڑی ہوتی ہے۔ اور یہ تناسب انسان میں سب پرائیمیٹس سے زیادہ ہے۔ تو جب قدرت نے (اللہ نےنہیں) ماحول کے مطابق یہ کھوُپڑی اتنی بڑی بنائی تو بقایا انسانی اعضاء اسی تناسب سے کیوں نہیں بنائے؟ اور بقایا جسمانی حصوں کا تناسب اگر کم رکھا تو دماغ کے حجم کو اتنا بڑا کیوں بنایا۔ آخر اس کی ضرورت کیا تھی؟ اس کھوپڑی کے حجم ہی کی وجہ سے کتنی مائیں لاکھوں سالوں سے اپنی جانوں پر کھیلتی چلی آ رہی ہیں۔ تو کیا واقعی قدرتی انتخاب نے نظریہ ضرورت کے تحت دس لاکھ سال پہلے انسان کو کروڑوں سال آگے کی چیز دے دی؟ قدرتی انتخاب سے اتنی بڑی اور خوبصورت غلطی کیسے ہو سکتی ہے؟ جواب بڑاسادہ سا ہے:
اللہ تعالیٰ نے انسان کا دماغ بہت ہی اعلیٰ معیار کا بنایا ہے اور اُس نے جس طرح چاہا ویساہی بنایا ہے۔ اور اسکی ہر تخلیق کے پیچھے حکمت ہے۔ اُس کی دانائی ہماری ادنیٰ عقل سے ما ورا ہے۔
إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ‌ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَ‌اتٍ بِأَمْرِ‌هِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ‌ ۗ تَبَارَ‌كَ اللَّـهُ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ ﴿٥٤
"تمہارا آقا اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو 6 دنوں میں بنایا پھر عرش پر مستوی ہوا، وہ دن کو رات سے ڈھانپتا ہے جو اس کے پیچھے لپکی چلی آتی ہے، اور سورج اور چاند اور ستارے اس کے حکم میں بندھے ہیں۔ سنو! بنانا اور حکم دینا اُسی کا کام ہے۔ کیا برکت والا ہے اللہ سارے جہاں کا آقا!" (اعراف: 45)
 
Top