- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
1859ء میں چارلس ڈارون نامی ایک شخص نے ایک انتہائی خطرناک نظریہ پیش کیا جسے 'نظریہ ارتقاء' کہا جاتا ہے۔ اگراس کے نظریہ ارتقاء کو ایک جملے میں لکھا جائے تو ہم کہیں گے:
'ماحول کے مطابق حیاتی اجسام میں مسلسل تبدیلی اپنی بقاءکے لیے"
ڈارون نے اپنے نظریے میں انسان کی بات نہیں کی تھی مگر بہرحال اُس کا نظریہ ہر جاندار شئے پہ لاگو ہوتا ہے بشمول بنی نوع انسان کے۔
ڈارون کے نزدیک تمام جاندار اپنی ہیت کو تبدیل کرتے رہتے ہیں اپنے اطراف کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے۔
مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ بعض پانی کے جانور کروڑوں سال پہلے چرندے تھے مگر کسی وجہ سے اُن کو اپنی زندگی طویل عرصہ تک پانی میں گزارنی پڑی تو ان کے پاؤں غائب ہو گئے اور وہ مچھلی کی طرح کی شکل اختیار کر گئے۔
اسی طرح مچھلیوں کو جب زمین پر زندگی گزارنی پڑی تو ان کے پاؤں نکل آئے اور ان کی شکل پہلے مگرمچھ اور پھر بعد میں دیگر جانداروں کی سی ہو گئی۔ یعنی اپنی بقاء کے لیے قدرت ﴿اللہ تعالٰی نے نہیں) نے انکی جون تبدیل کر دی۔
اسی طرح انسان کے بارے میں نظریہ ارتقاء کے حامی کہتے ہیں کہ انسان بن مانس کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔
چمپینزی جیسے چو پائے سے دو پیروں پر انسان اس لیے کھڑاہو گیا کہ وہ اُس زمانے میں اور اُس وقت کے ماحول کے مطابق اُس کی بقاء کے لیے ضروری تھا۔
سننے میں تو یہ نظریہ بڑا دلچسپ ہے اور اسی لیے اس پر سینکڑوں کہانیاں اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور متعدد فلمیں بن چکی ہیں۔
مگر حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بالکل اسی حلیےمیں بنایا ہے جس میں وہ آج موجود ہے۔
دہریوں کے نظریے اور ایمان کے بیچ سائنس حائل ہے جو اپنے نت نئے انکشافات سے ایمان کی تائید کرتی ہے۔ نظریہ ارتقاء کے حامی ابھی بھی اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کہ حیات کی ابتداء کیسے ہوئی؟ جب بگ بینگ سے کائنات وجود میں آئی تو اُس میں جاندار مادّہ تو کوئی تھا نہیں۔ تو پھر زندگی کی ابتداء کیونکر ہوئی؟ کچھ کہتے ہیں کہ کسی کیمیائی عمل سے ایسا ہوا۔ تو اگر کیمیا گری سے زندگی وجود میں آ سکتی تو سائنس اتنی ترقی کرنے کے بعد علم کیمیا سے کو ئی معمولی نوعیت کا جاندار یا کیڑا پیدا کر کے کیوں نہیں دکھا دیتی؟