• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تدریس ِ قرآن اور اس کے متعلقہ احکام و مسائل

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب [١]
قرآنیات​
تدریس ِ قرآن اور اس کے متعلقہ احکام و مسائل
زیرنظر مضمون درحقیقت ایک کتاب کا ترجمہ ہے جسے معروف قلم کار پروفیسرحافظ ڈاکٹر زبیر صاحب اردو قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ کتاب میں قرآن مجید کے متعلقہ احکام ومسائل کے حوالے بہت مفید بحثیں کی گئی ہیں۔جنہیں سلسلہ وار چند شمارہ رشد کے ذریعے ہدیہء قاریئن کیا جائے گا۔جبکہ آج کی نشست میں ہم اس حوالے سے تین اہم ترین مسائل یعنی قرآن مجید کی درس و تدریس کی فضیلت،قرآن مجید کی درس و تدریس پر اجرت لینے کا حکم اور حفظ قرآن پر انعامات دینے کا حکم زیر بحث لائیں گے۔
قرآن مجید کی درس وتدریس کی فضیلت
قرآن مجید کے سیکھنے اور سکھانے اور اس کی درس وتدریس کے لیے جمع ہونے کی فضیلت کے بیان میں کئی ایک احادیث مروی ہیں۔ حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہےکہ: ''جب بھی کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کی درس وتدریس کی کوشش کرتی ہے توان پر سکینت نازل ہوتی ہے، اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، اور فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں،اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر ان فرشتوں کی مجلس میں کرتے ہیں جو اللہ کے پاس ہوتے ہیں۔''
اس حدیث میں چار باتیں بیان کی گئیں ہیں:
  1. ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔
  2. رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے۔
  3. فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں۔
  4. اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں کی مجلس میں کرتے ہیں۔
ہم میں سے کون ایسا ہے جو ان مذکورہ بالا باتوں میں سے کسی ایک کی بھی خواہش نہ رکھتا ہو، کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ایک ہی عمل میں یہ تمام فضیلتیں ایک ساتھ جمع ہو جاتی ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے سیکھنے کو مستحب قرار دیا ہے اور حضرت عقبہ بن عامر کی روایت میں اس کی ترغیب موجو دہے۔ وہ فرماتے ہیں:
'' اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھر سے نکلے اور ہم صحابہ کی ایک جماعت صفہ کے چبوترے پر تھے۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے کون ایسا ہے جسے یہ پسند ہے کہ وہ بطحان یا عقیق کے بازار صبح کے وقت جائے اور دو موٹی تازی اونٹنیاں لے آئے۔ اور اس طرح لائے کہ نہ تو کسی گناہ میں ملوث ہو اور نہ ہی کسی قسم کی قطع رحمی کرے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمیں یہ پسند ہے۔ آپ نے فرمایا: تم سے کوئی ایک جب مسجد میں صبح کے وقت داخل ہو اور قرآن مجید کی دو آیات تلاوت کرے یا ان کا علم حاصل کرے تو یہ اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے ، اور تین آیات تین اونٹنیوں جبکہ چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔ ''
قرآن مجید کی درس وتدریس کے بارے میں جامع ترین حدیث حضرت عثمان کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں۔ '' ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: تم میں سے افضل ترین وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں۔''
یہ بات واضح رہے کہ یہ فضیلت یا شرف ان کے لیے نہیں ہے جو الفاظ وحروف کو ان کے معانی وحدود کے بغیر سیکھتے ہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔بلکہ اس میں الفاظ کاسیکھنا، انہیں یاد کرنا، اس کی تجوید، اس کے اعراب،اس کی تفسیر،اس کے احکام اوران کی حکمتوں کی معرفت حاصل کرنااور اس کے حلال وحرام کا سیکھنا بھی شامل ہے۔ ابو عبد الرحمن السلمی کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: '' ہمیں ان لوگوں نے بیان کیا ہے جو ہمیں قرآن مجید پڑھاتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید پڑھا کرتے تھے ۔ پس جب وہ دس آیات سیکھ لیتے تھے تو اس سے آگے اس وقت تک نہ بڑھتے تھے جب تک انہیں اپنے عمل میں نہ لے آتے تھے۔ پس انہوں نے قرآن مجید اور اس پر عمل دونوں کو ساتھ ساتھ سیکھا۔''
قرآن مجید کی درس وتدریس کا یہی صحیح منہج اور بہترین طریق کار ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ سیکھنے سے پہلے اس کے معانی کا جاننا ضروری ہے۔ ابن حجر کا قول ہے :''اگر یہ کہا جائے کہ اس روایت کے ان الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاری قرآن ، فقیہ سے افضل ہے ۔ تو ہم جواب میں یہ کہیں گے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے اول مخاطبین فقہاء بھی تھے کیونکہ وہ اہل زبان ہونے کی وجہ سے جس کلام کے الفاظ سیکھ رہے تھے ، اس کے معانی ان لوگوں سے بہتر طور جانتے تھے کہ جو ان کے بعد آنے والے تھے اور انہیں ان معانی کے جاننے کے لیے کافی محنت بھی کرنی پڑتی تھی۔ تفقہ ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ تو جو ان صحابہ جیسا ہو گا تو وہ اس روایت کے مفہوم میں شامل ہے، محض یہ وجہ اس فضیلت کو پانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ قاری یا مقری ہے اور اسے کچھ سمجھ نہیں کہ کیا پڑھ رہا ہے یا پڑھا رہا ہے۔''
جہاں اس قرآن مجید کی تدریس کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ افضل ترین اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے والے اعمال میں سے ہے۔ حضرت سفیان ثوری سے جہاد اور قرآن مجید پڑھانے کے بارے سوال ہوا تو انہوں نے قرآن مجید کی تعلیم دینے کو افضل قرار دیا اور دلیل میں حضرت عثمان کی حدیث بیان کی۔ یہ واضح رہے کہ یہ فضیلت صرف اسی کے لیے ہے جس نے قرآن مجید کا علم اور عمل ایک ساتھ حاصل کیا۔ اسی لیے ابن حجر نے کہاہے:'' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن مجید سیکھنا اور سکھانا اپنی ذات اور دوسروں کی ذات کو مکمل کرنے والا ہے اور اس میں ایسا فائدہ ہے جو لازم ومتعدی ہے اور اسی وجہ سے اسے افضل ترین عمل قرار دیا گیا ہے۔''
امام ابن کثیر نے کہا ہے:
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں اور یہ مومنین کی اور رسولوں کے متبعین کی صفت ہے جو اپنی ذات میں مکمل ہوتے ہیں اوردوسروں کو مکمل کرتے ہیں۔ اور اس عمل میں پایا جانے والا فائدہ لازم اور متعدی ہے۔ اس کے برعکس سرکش کفار کا معاملہ یہ ہے کہ نہ تو اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچاتے ہیں اور نہ ہی اپنی امکان بھرطاقت کے بل بوتے پر کسی کو فائدہ اٹھانے دیتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے رستے سے رک گئے یا روک دیاتوہم انہیں عذاب پر عذاب میں بڑھائیں گے۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے کہ وہ کفار اس قرآن مجید سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے رک جاتے ہیں ۔ مفسرین کے صحیح ترین قول کے مطابق اس آیت سے مراد قرآن مجید کی اتباع سےرک جانا اور منع کرنا ہے۔ پس ان کفار نے جھٹلانے کے علاوہ قرآن مجید پر عمل نہ کرنے کو بھی اپنے کفر میں شامل کر لیا جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا اور ان سے اعراض کیا۔ پس یہ شریر کفار کا معاملہ ہے جبکہ اللہ کے چنیدہ بندوں کا معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی تکمیل کے علاوہ دوسروں کو بھی مکمل کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین (مکمل ترین) وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں۔ اور جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اور اس سے بہترین بات کس کی ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ پس اللہ کی طرف دعوت دینا چاہے اذان کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں تو وہ اس میں شامل ہے مثلا قرآن مجید ، حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم جب اللہ کی رضا کے لیے دے گا تو یہ بھی دعوت الی اللہ کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ اس کے ساتھ اگروہ صالح اعمال بھی کرے یا بعض نے کہا کہ اس کی باتیں صالح ہوں تو کوئی بھی اس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔''
یہ بات بھی واضح ہے کہ تعلیم کے مراحل میں سے بہترین مرحلہ بچپن کی تعلیم کا ہے کیونکہ جو اس میں سیکھا ہوتا ہے اس کے مطابق پرورش ہوتی ہے۔ امام سیوطی نے کہاہے :
''بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا اصول اسلام میں سے ہے کیونکہ بچوں کی پرورش فطرت سلیمہ پر ہوتی ہے لہٰذا ان کے دل خواہشات کی آماجگاہ بننے اور معصیت وگمراہی کی سیاہی سے پہلے حکمت کے انوار سے پُر ہوتے ہیں ۔ پس چھوٹے بچوں اور بچیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انہیں قرآن مجید کی تعلیم پر ڈال دیا جائے تا کہ ان کا یہ پختہ عقیدہ قائم ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالی ان کا رب ہے اور قرآن مجید اس کا کلام ہے۔ ااور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے ان کے دلوں میں قرآن مجید کی محبت راسخ ہو گی اور ان کے اذہان، افکار، صلاحیتیں اور حواس اس کے نور سے روشن ہوں گے۔ اس طرح ہم بچپن میں ہی قرآنی عقائد سیکھ لیں گے اور ہماری پرورش قرآنی اخلاق کی روشنی میں ہو گی۔ ہم اس کے احکامات پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب کریں گے۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بچپن کا حفظ پختہ ہوتا ہے اور دیر تک یاد رہتا ہے اور دل میں گھس جاتا ہے اور نفس پر اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] لیکچرار کامسٹ یونیورسٹی لاہور
(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
قرآن مجید کی تدریس کے احکام اور آداب
جب قرآن مجید کی درس وتدریس کا یہ مقام ہو تو بلاشبہ اس بارے کچھ احکامات اور آداب ہوں گے کہ جن کا التزام بہت ضروری ہے۔ یہاں ہم قرآن مجید کی تدریس کے چند احکامات بیان کر رہے ہیں:
قرآن مجید کی تدریس پر اجرت لینا:
یہاں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی تدریس اور محض تلاوت پر اجرت حاصل کرنے میں فر ق کریں اور یہ جان لیں کہ دوسری صورت درست نہیں ہے جبکہ پہلی جائز ہے کیونکہ اس میں تعلیم وتدریس ہو رہی ہے۔ اہل علم کا اس بارے اختلاف ہے کہ تدریس قرآن پر اجرت حاصل کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اس بارے دو اقوال مروی ہیں:
پہلا قول :
حنفیہ اور حنابلہ کے راجح قول کے مطابق تعلیم قرآن کی اجرت حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ ابن عابدین نے اپنے 'حاشیہ' میں لکھا ہے کہ مذہب حنفی میں اصل رائے یہ ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم کی اجرت لینا درست نہیں ہے اور متقدمین حنفی علماء کا اس پر اتفاق ہے۔ لیکن بعد میں آنے والوں نے ضرورت کے تحت اسے جائز قرار دیا جیسا 'بلخ' کے حنفی مشائخ کا قول ہے۔اسی طرح 'مطالب أولی النھی' میں تعلیم قرآن مجید کی اجرت لینے کو حرام قرار دینے کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ یہی حنفی مذہب کا قول ہے اور جمہور حنفی علماء اسی کے قائل ہیں۔علاوہ ازیں 'ابن منجا' وغیرہ نے بھی اسے ہی صحیح ترین قول قرار دیا ہے اور 'وجیز' اور دوسری کتب میں بھی اسے ہی قطعی قول قرار دیا گیا ہے ۔
اس قول کے قائلیں کے دلائل درج ذیل ہیں:
  1. حضرت عبد الرحمن بن شبل کی روایت ہے کہ انہوں نے کہاکہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے :''قرآن پڑھو اور اس میں غلو نہ کرو۔ اس سے اعراض نہ کرو اور نہ اس سے کھاؤ اور نہ ہی اس کے ذریعے مال سمیٹو۔''
  2. حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو صحابہ کی ایک جماعت قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی تو آپ نے فرمایا: قرآن مجید پڑھو اور اس کے ذریعے اپنے رب کی رضا حاصل کرو اس سے پہلے کہ ایسی لوگ آ جائیں جو اسے تیر کی طرح سیدھا کریں گے اور وہ اس کا بدلہ دنیا میں چاہیں گے اور اسے آخر ت تک مؤخر نہیں کریں گے۔ '' ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:'' قرآن مجید پڑھو اس سے پہلے کہ ایسی قوم اسے پڑھے کہ جو اسے تیر کی طرح سیدھا کریں، اس کی اجرت دنیا میں ہی چاہیں گے اور اس کا بدلہ آخرت پر نہیں چھوڑیں گے۔''
  3. حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے اہل صفہ میں سے ایک شخص کو قرآن مجید اور اس کی کتابت کی تعلیم دی تو اس شخص نے مجھے ایک کمان ہدیہ کی۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ مال تو ہے نہیں اور میں اس کے ذریعے اللہ کے رستے میں تیر چلاؤں گا۔ پس میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: '' اگر تجھے یہ پسند ہے کہ تجھے آگ کا ایک طوق پہنایا جائے تو اس ہدیہ کو قبول کر لیے۔''
  4. أبی بن کعب رضی اللہ کی روایت کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو قرآن مجید کی تعلیم دی اور اس نے مجھے ایک کمان ہدیہ کی تو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:'' اگر تو نے اسے قبول کیا تو یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ تو نے آگ کی ایک کمان قبول کی۔ '' پس میں نے وہ کمان اس شخص کو لوٹا دی۔
  5. عمران بن حصین کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے:'' قرآن مجید پڑھو اور اللہ تعالی سے ا کے ذریعے سوال بھی کرو۔ تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن مجید پڑھیں گے اور اس کے ذریعے لوگوں سے سوال کریں گے۔''
جو لوگ اجرت لینے کے جواز کے قائل ہیں، انہوں نے ان دلائل کے یوں جواب دیے ہیں:
حضرت عبد الرحمن بن شبل کی روایت اس کے ساتھ خاص ہے جو قرآن مجید کو کھانے اور مال سمیٹنے کا ذریعہ ہی بنا لے۔ اگر سیکھنے والے اپنی خوشی سے مدرس کو کچھ دے دے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے جبکہ معلم زیادہ کا مطالبہ بھی نہ کرے۔
جہاں تک حدیث جابر کا معاملہ ہے تو اس میں اس بات کی نصیحت کی گئی ہے کہ مدرس کے لیے یہ لازم قرار دیا گیاہے کہ اس کا مقصود محض قرآن مجید کے حروف کو سیدھا کرنا ہی نہ بن جائے اور وہ اس پر عمل کو پس پشت ڈال دے اور آخرت کے بالمقابل صرف دنیاوی اجر پر ہی اکتفا کر لے۔ اس روایت میں تجوید یا اجرت حاصل کرنے کی ممانعت نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ اگر کوئی قرآن مجید پر عمل اور اس پر اجر وثواب کے بالمقابل محض حروف کے سیدھا کرنے اور اجرت وصول کرنے ہی کو مقصود بنا لے گا تو وہ حرام ہے۔ جیسا کہ امام ابن تیمیہ کا کہنا ہے:
''اگر کوئی شخص محض اجرت کے لیے قرآن پڑھے گا تو اسے اس کا کچھ اجر وثواب نہ ملے گا۔''
حضرت عبادۃاور أبی بن کعب کی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ انہوں نے یہ کام خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کیا تھا لہٰذا آپ نے ان حضرات کو ہدیہ لینے سے منع کر دیا۔جیسا کہ امام خطابی نے کہا ہے:
'' جو لوگ اجرت لینے کے جواز کے قائل ہیں، انہوں نے حضرت عبادۃ کی روایت کی تاویل یہ کی ہے کہ انہوں نے اپنے اس عمل سے نیکی اور اجر وثواب کی نیت کی تھی اور تعلیم کے وقت ان کامقصود کوئی معاوضہ یا نفع لینا نہ تھا۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے اجر کے ضائع ہونے سے ڈرایا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کسی دوسرے کی گمشدہ یاسمندر میں ڈوب جانے والی چیز نیکی اور اجر وثواب کی نیت سے ڈھونڈ نکالتا ہے تو اب اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کا کچھ معاوضہ لے۔ ہاں! اگر اس نے تلاش سے پہلے اس کی کوئی اجرت طے کی تھی تو وہ لینا اس کے لیے جائز ہو گا۔ اہل صفہ فقراء اور مساکین میں سے تھے جن کا گزر بسر صدقات پر ہوتا تھا۔ پس کسی شخص کا ان سے کچھ لینا مکروہ جبکہ دینا مستحب امر تھا۔ ''
حضرت عمران کی حدیث میں قرآن مجید کے ذریعے سوال کرنے کی ممانعت ہے جبکہ معاوضے کے طور اجرت لینا سوال میں داخل نہیں ہے۔
یہ جوابات اس صورت دیے گئے ہیں جب ان روایات کی صحت ثابت ہو جائے جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ ان روایات پر اس قدر اعتراضات موجود ہیں کہ یہ قابل حجت نہیں ہیں۔ یہاں تک امام نووی نے تو یہ کہہ دیا ہے:'' اس مسئلے میں کوئی ایسی حدیث منقول ہی نہیں ہے کہ جس پر عمل واجب ہو۔''
دوسرا قول:
مالکیہ، شافعیہ، امام احمد کی ایک روایت اور بلخ کے حنفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔ جواز کے قائلین نے درج ذیل دلائل کو بنیاد بنایا ہے:
  1. حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے:'' صحابہ کی ایک جماعت کا گزر کسی گھاٹ سے ہوا کہ جہاں ایک شخص کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔گھاٹ کے قریب رہنے والوں میں سے ایک شخص صحابہ کی جماعت کے پاس آیااور پوچھا کہ کیا آپ لوگوں میں جھاڑ پھونک کرنے والا ہے کہ پانی کے قریب ایک شخص کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ صحابہ میں سے ایک شخص اس کے ساتھ چلا گیا اور اس نے چند بکریوں کے عوض سورۃ فاتحہ کا دم کیا اور بکریاں لے کر واپس آ گیا۔ بقیہ صحابہ نے اس کے اس عمل کو ناپسند جانا اور کہا کہ تو نے کتاب اللہ کے عوض اجرت وصول کی ہے۔ یہاں تک جب صحابہ کی وہ جماعت مدینہ تشریف لائی تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس شخص نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان سب سے زیادہ حقدار اس اجرت کا ہے جو وہ کتاب اللہ کے بدلے میں لے۔''
  2. حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے:'' صحابہ کی ایک جماعت کا عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلے سے گزر ہواتو قبیلے والوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ ابھی صحابہ کی جماعت وہیں تھی کہ اس قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔ تو انہوں نے صحابہ سے کہا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس کے پاس سانپ کے کاٹے کی دوا یا جھاڑ پھونک ہو۔ صحابہ نے کہا کہ تم نے ہماری مہمان نوازی نہ کی لہٰذا ہم یہ کام اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک تم ہمیں اس کا معاوضہ نہ دو۔ تو انہوں نے بکریوں کا ایک ریوڑاجرت میں طے کر دیا۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرنا شروع کی اور وہ ساتھ ہی اپنی تھوک جمع کر تھوڑی سی پھینکتے جاتے تھے۔پس وہ سردار تندرست ہو گیا اور وہ قبیلے والے بکریاں لے آئے۔ پس صحابہ نے کہا کہ ہم اس وقت تک ان بکریوں کو استعمال نہ کریں گے جب تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم نہ کر لیں۔ پس جب انہوں نے آپ سے پوچھا تو آپ مسکرا دیے اور کہا:تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ جھاڑ پھونک ہے۔ یہ اجرت لے لو اور اس میں میرا حصہ بھی مقرر کرو۔''
  3. خارجہ بن صلت اپنے چچا سے سے روایت کرتے ہیں:'' وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ پھر جب واپس اپنی قوم کی طرف جانے لگے تو راستے میں ان کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جسے مرگی کا دورہ پڑتا تھا اور اسے لوہے کی زنجیروں سے باندھا گیا تھا۔ اس کے گھروالوں نے کہا کہ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ جس شخص کے پاس سے تم ہو کر آ رہے ہو ، وہ کچھ بھلائی لے کر آئیں ہیں۔ کیاان کے پاس کچھ ایسا ہے کہ ہمارے اس مریض کا علاج کر سکیں۔ انہوں نے کہاکہ میں نے اس شخص پر سورۃ فاتحہ دم کی ۔ وکیع نے کہا ہے کہ یہ دم تین دن تک صبح وشام تھا۔ پس وہ شخص تندرست ہو گیا تو اس کے گھر والوں نے مجھے ایک سو بکریاں دیں۔ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو خبر دی تو آپ نے کہا: میری عمر کی قسم! اسے لے لو، جس نے باطل جھاڑ پھونک سے کھایا تو و ہ درست نہیں ہے اور تو نے تو حق جھاڑ پھونک کی ہے۔ ''
  4. سہل بن سعد سے روایت ہے:'' ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے کہ ایک خاتون آپ کے پاس آئی اور اس نے اپنا نفس آپ پر نکاح کے لیے پیش کیا۔ آپ نے اسے ایک نظر دیکھا اور خاموش رہے۔ اس دوران صحابہ میں سے ایک شخص نے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ نے کہا: کیالوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ہے؟ اس نے کہا: نہیں !یہ بھی نہیں ہے۔البتہ میرے پاس یہ چادر ہے، میں اسے دو حصوں میں تقسیم کیے دیتا ہوں۔ آدھی خود رکھ لوں گا اور آدھی اسے دے دوں گا۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ قرآن ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! ۔آپ نے کہا: جا! میں نے تیرا نکاح اس کے ساتھ اس قرآن کے بدلے کر دیا جو تیرے پاس ہے۔''
اگر ہم ان دلائل پر غور کریں تو پہلے تین دلائل تو قرآن مجید کی جھاڑ پھونک کی اجرت وصول کرنے کے بارے میں ہیں نہ کہ تعلیم وتدریس کا معاوضہ حاصل کرنے کے بارے میں ۔ امام قرطبی نے کہا ہے : ''ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ جھاڑ پھونک کی اجرت لینے کے جواز سے تدریس قرآن کی اجرت لینے کا جواز بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ ''چوتھی روایت میں تعلیم قرآن کو معاوضہ بنایا گیا ہے اور اسے حق مہر کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس بارے بھی یہ کہاجا سکتا ہے چونکہ وہ شخص چونکہ فقیر تھا لہٰذا اس کے لیے یہ جواز موجود تھا جبکہ اس روایت سے عمومی جواز نکالنا درست نہیں ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
راجح قول:
درحقیقت تعلیم قرآن مجید کی اجرت لینے مختلف صورتوں اور متنوع حالات میں ایک جیسا حکم نہیں ۔ بعض اوقات مدرس غنی ہوتاہے اور بعض اوقات محتاج ۔ بعض حالات میں اس کے علاوہ بھی مدرسین کثرت سے ہوتے ہیں اور بعض میں کم اور بعض میں بالکل نہیں ہوتے۔ اجرت ادا کرنے والا بعض اوقات تو طالب علم ہوتا ہے اور بعض اوقات کچھ اصحاب خیر اجرت ادا کرتے ہیں ۔ اگر طالب علم ہو تو وہ بھی بعض اوقات غنی ہوتا ہے اور بعض اوقات محتاج۔ بعض اوقات یہ اجرت بیت المال یا سرکار کی طرف سے بھی ادا کی جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ تعلیم اجرت کے مشروط ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کے ساتھ کسی قسم کی شرط نہیں ہوتی۔ اور بعض اوقات مذکورہ بالا حالات کے علاوہ کوئی حالات ہوتے ہیں۔
اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہو گا کہ تعلیم قرآن مجید کی اجرت وصول نہ کرنا بہترین خیر اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ اجرت کی شرط لگائے بغیر تعلیم دے ۔ اگر کچھ دے دیا جائے تو اس کو قبول کر لے اور اگر کچھ نہ دیا جائے تو مطالبہ بھی نہ کرے۔ اگر ہم اپنے زمانے پر غور کریں کہ جس میں انسان کے فرائض، ذمہ داریاں اور مصروفیات بہت بڑھ گئی ہیں اور قرآن مجید کی فی سبیل اللہ یا اجر وثواب کی نیت سے تعلیم دینے والے نہ ہونے کے برابر ہیں تو:
  1. اگر کچھ لوگ اپنے آپ کو تعلیم قرآن کے لیے فارغ نہیں کریں گے اور انہیں اس کی اجرت نہ دی جائے گی تو ان کا اکثر وقت اپنے معاشی مسائل کو سلجھانے میں صرف ہو جائے گااور قرآن مجید کی فی سبیل اللہ تعلیم کے لیے ان کے پاس بہت کم وقت بچ جائے گا ۔ اور اس زائد وقت میں تعلیم قرآن مجید کی محنت کر کے بھی وہ اس کے مقام ومرتبے کے اعتبار سے اس کا حق ادا نہیں کر پائیں گے۔
  2. قرآن مجید کی تعلیم سے مراد جمیع مراحل کی تعلیم ہے جن میں نرسری، پرائمری، مڈل، کالج اور یونیورسٹی کے درجات کی تعلیم بھی شامل ہے۔حفظ قرآن کے متعین مدارس قائم کیے گئے ہیں بلکہ قرآن کالجز اور علوم قرآن کی تدریس کا تقاضا یہ ہے کہ مدرسین قرآن کی ایک بڑی تعداد اس کام کے لیے فارغ ہوں۔ اگر یہ مدرسین دیگر سرکاری ملازمین کی طرح اجرت نہیں لیں گے تو قرآن مجید کی نشر واشاعت اور تعلیم وتدریس میں کمی واقع ہو جائے گی۔کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں فی سبیل اللہ قرآن مجید کی تعلیم دینے والوں کا ملنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔
اس لیے ہماری رائے میں سرکاری یا عوامی مدارس میں تعلیم قرآن مجید کی متعین اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جہاں تک مساجد میں حفظ قرآن کی کلاسز پر اجرت وصول کرنے کا معاملہ ہے جو اصحاب خیر کے تعاون سے چلتی ہیں تو ان میں بہتر صورت یہی ہے کہ کسی متعین اجرت کی شرط نہ لگائے اور وہ اپنی مرضی سے جو دے دیں اسے قبول کر لے۔ اور اگر وہ کچھ بھی نہ دیں تو اس صورت میں بھی بہتر ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کہ تم سے بہترین وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں، کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ کو سوال کرنے سے بچائے۔ اس کارخیر کا بدلہ اور معاوضہ اللہ کے ہاں بہت زیادہ ہے اور وہ جنت ہے۔
مستقل کمیٹی برائے تحقیق وافتاء نے مدرسین قرآن کی اجرت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ:
'' جو مدرسین کتاب اللہ کی تعلیم پر اجرت لیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ آپ کے ارشاد کہ' بہترین چیز جس پر تم اجرت وصول کرو ، اللہ کی کتاب ہے'کے عموم سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ''
شاید ہم نے اس مسئلہ میں کافی لمبی بحث کر دی ہے کیونکہ یہ ایک اہم بلکہ اصولی مسئلہ تھاجو اس کتاب کی بنیاد ہے۔چونکہ اس کتاب کے ذریعے ہم اکثر مدرسین اور مدرسین کے کالجز کے طلباء کو مخاطب کر رہے ہیں لہٰذا یہ ضرور ی محسوس ہوتا ہے کہ اس مسئلے کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے۔
قرآن مجید کی تعلیم پر انعامات دینے کا حکم
اللہ تعالی نے اس امت اور ان کے حکمرانوں کو اس بات کی توفیق دی ہے کہ وہ قرآن مجید کی تعلیم وتعلیم کا اہتمام کریں۔ پس قرآن مجید کی تعلیم عام ہو گئی ہے، مدارس پھیل گئے ہیں اور حفظ قرآن کی کلاسز بہت زیادہ ہیں اور ہمارے ملک میں تو قرآن مجید کو تمام درجات کی تعلیم میں بطور نصاب شامل کیا گیا ہے۔ سعودی حکومت نے حفظ قرآن کے ابتدائی، متوسط اور اعلی درجہ کے مدارس قائم کرنے کا اہتمام کیا ہے اور ہماری اکثر مساجد میں بھی حفظ قرآن کی کلاسز قائم کی گئی ہے اور یہی صورت حال تقریباً دیگر ممالک اسلامیہ میں بھی ہے۔
اس صورت حال میں قرآن مجیدکی تلاوت و حفظ پر حوصلہ افزائی کے لیے کئی رستے اختیار کیے گئے جن میں نمایاں طلباء کے لیے جو مکمل قرآن مجید یا اس کا ایک متعین حصہ یادکریں، ماہنامہ وظائف اور مادی انعامات شامل ہیں۔بلکہ اب تو یہ طلباء کے علاوہ قیدیوں کے لیے بھی ہے۔ سعودی حکومت ان قیدیوں کی سزا میں تقریباً نصف سزا تک تخفیف کر دیتی ہے جو قرآن مجید کا ایک متعین حصہ حفظ کرتے ہیں۔
پس حوصلہ افزائی کی خاطر دیے جانے والے ان انعامات کو ہم یوں بیان کر سکتے ہیں:
پہلی قسم :
حفظ قرآن کے مدارس میں طلباء کے ماہنامہ وظائف۔
دوسری قسم:
قرآن مجید کے مکمل یا متعین جز کے یاد کرنے پر حوصلہ افزائی کے لیے دیے جانے والے انعامات۔
تیسری قسم:
حفظ اور تلاوت قرآن مجید کے مقامی اور عالمی مقابلہ جات میں بہترین پوزیشن حاصل کرنے والوں کے لیے انعامات۔
تیسری قسم کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
  1. مادی ومالی انعامات۔
  2. کتابوں، کیسٹس اور گھریلو سازوسامان کی صورت میں دیے گئے انعامات۔
  3. سزا میں تخفیف کی صورت میں انعام۔
مجھے علماء، مصنفین اور معاصرین کی کوئی ایسی بحث نہیں ملی کہ جس میں انہوں نے اس بارے تفصیلاً کلام کیا ہو، اگرچہ اجمالی طور وہ ان کے جواز کے قائل ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے اسلامی لشکر کے امراء کو لکھا کہ جو قرآن مجید کے حفاظ ہوں، ان کی فہرستیں مجھے بھیجو تا کہ ہم ان کی مالی خدمت کے ذریعے انہیں شرف عطا کریں اور انہیں مختلف بلاد میں لوگوں کوقرآن مجید کی تعلیم دینے کے لیے بھیجیں۔ اس کے جواب میں حضرت ابو موسی اشعری نے لکھا کے میرے پاس اس وقت تین سو سے زائد حفاظ موجو دہیں۔
خلیفہ ہارون الرشید نے لشکر کے امراء اور گورنروں کی طرف یہ لکھ بھیجا کہ جو تمہیں اذان کا التزام کرتا نظرآئے (یعنی موذن) تو اس کے لیے ایک ہزار دیناروظیفہ مقرر کر دو۔ جو قرآن مجید حفظ کرے اور علم کے حصول لیے کوشش کرے، مجالس علم وادب کو آباد کرے تو اس کے لیے دو ہزار دینار مقرر کرو۔ اور جو قرآن مجید کو حفظ کرے، حدیث کو نقل کرے اور علم میں پختگی اور گہرائی حاصل کرے تو اس کے لیے چار ہزار دینار مقرر کرو۔ لیکن یہ وظائف ان لوگوں کے لیے مقرر کرو جو پہلے سے اس میدان میں معروف علماء اور فضلاء میں سے ہیں اور ان کی چھان پھٹک بھی کرو۔ اور ان کی اطاعت بھی کرو کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اولو الأمر کی اور ان سے مراد اہل علم کی جماعت ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں :
'' میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد علماء، قراء، نیکی میں مسابقت کرنے والوں اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والوں کی اتنی کثیر تعداد کسی بھی زمانے میں نہ تھی جتنی ہارون الرشید کے زمانے میں تھی۔لڑکا آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیتا تھا اور گیارہ سال کی عمر میں حدیث روایت کرتا، ذخیرہ احادیث یاد کرتا، اساتذہ سے مکالمہ کرتا اور علم وتفقہ میں پختگی حاصل کر لیتا تھا۔''
اگر یہ کہا جائے کہ اس قسم کے انعامات کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ محض مادی عوض یا سزا میں تخفیف کے لیے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کریں گے۔ تو ہم اس کا جواب یہ دیں گے کہ کیا معلوم یہی ان کی ہدایت کا سبب بھی بن جائے۔ امام نووی نے کہا ہے:'' اہل علم کا کہنا ہے کہ کسی کو صرف اس وجہ سے قرآن مجید کی تعلیم سے نہیں روکا جائے گا کہ اس کی نیت درست نہیں ہے۔ ''حضرت سفیان ثوری وغیر ہ نے کہا ہے:'' ان کا علم کے کوشش کرنا ہی ان کی نیت ہے۔اور بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم نے غیر اللہ کی نیت سے علم حاصل کرنا شروع کیا اور بعد میں اس علم کی برکت سے وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے مختص ہو گیا۔''حضرت عمر نے اپنے بعض گورنروں کو لکھ بھیجا :
'' وہ لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم پر وظائف جاری کریں۔ تو کسی نے جواب میں لکھاآپ نے ہمیں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے پر وظائف دینے کا حکم دیا تھا اور اب تو ایسے لوگ بھی قرآن مجید کی تعلیم حاصل کر لیں جنہیں سوائے وظیفے کے اور کسی چیز سے غرض نہیں ہے۔ اس کے جواب میں حضرت عمر نے لکھا کہ تم انہیں قرآن مجید سے محبت اور اس کی صحبت کے بدلے دو۔ ''
اس کے برعکس ابو عبید اور دوسرے علماء نے اسیر بن عمرو سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :'' حضرت عمر بن خطاب کو یہ معلوم ہوا کہ سعد نے قرآن مجید پڑھنے والوں کا دو ہزار وظیفہ مقرر کیاہے تو اس پر حضرت عمر نے کہا : اف! کیا وہ اللہ کی کتاب پر مال دے گا!''
مستقل کمیٹی سے جب حفظ قرآن کے مقابلہ جات میں انعامات کے وصول کرنے کے بارے سوال ہوا تو انہوں نے جواب دیا :
'' اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یہ جائز ہے۔ اسی طرح ان سے یہ بھی سوال ہو اکہ عورتوں کے قرآن مجید ترتیل سے پڑھنے کے مقابلہ جات اگر مردوں کی موجودگی میں منعقد کیے جائیں تو اس پر کمیٹی نے جواب دیامردوں کی موجودگی میں لڑکیوں کا قرآن مجید ترتیل سے پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ان کے لیے فتنے کے امکانات ہیں اور شریعت اسلامیہ ایسے تمام وسائل پر قدغن لگاتی ہے جو حرام کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنتے ہوں۔''
میرا خیال یہ ہے کہ تلاوت میں حسن صوت مطلوب ہے لیکن اگرکوئی عورت مردوں کی موجودگی میں اپنی آواز کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرے گی تو ممنوع کا ارتکاب کرے گی۔
 
Top