ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 583
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
تدلیس کی قسمیں
(✿) تدلیس کی مرکزی دو قسمیں ہیں:
(❶) پہلی قسم: تدلیس الاسناد:
اس کی دو تعریفیں ہیں:
(①) راوی کا اپنے استاد سے ایسی احادیث بیان کرنا، جو اس نے اس استاد کے علاوہ کسی اور سے سنی ہیں۔
(②) راوی کا اپنے ایسے معاصر سے روایت کرنا، جس سے اس کی ملاقات ثابت نہیں ہوتی اور ایسے صیغوں سے بیان کرنا، جس سے یہ شبہ پیدا ہو کہ راوی نے مروی عنہ سے اس حدیث کی سماعت کی ہے۔
پہلی صورت کی تفصیل یہ ہے کہ راوی نے اپنے کسی شیخ سے چند احادیث بالمشافہ سماعت کی ہوتی ہیں، مگر اس کے ہاں کچھ ایسی بھی احادیث ہوتی ہیں، جنھیں اس شیخ سے بالمشافہ سماعت نہیں کی ہوتیں، بلکہ اس راوی سے سنی ہوتی ہیں، جس نے مدلس کے شیخ سے سنی ہوتی ہیں، وہ اس واسطہ کو گرا کر اپنے شیخ سے براہِ راست ایسے صیغوں سے بیان کرتا ہے، جو صراحتاً اتصال پر دلالت کرتے ہیں اور نہ صراحتاً عدم اتصال پر، مگر عرفِ عام میں وہ سماع پر محمول کیے جاتے ہیں۔
اس صورت کے تدلیس ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔
دوسری کی توضیح یہ ہے کہ راوی اپنے ایسے معاصر، جس سے اس نے کچھ سنا نہیں ہوتا اور بعض اوقات اس کی مروی عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں ہوتی، سے ایسے ہی صیغوں سے بیان کرتا ہے، جن میں سماع اور عدمِ سماع دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔
اگر یہ مدلسین کوئی ایسا صیغہ استعمال کریں، جو تحدیث یا سماع پر دلالت کرے اور اس میں تأویل کی بھی کوئی گنجائش نہ ہو تو وہ صیغہ جھوٹ ہوگا۔ جس کا مرتکب متروک درجے کا راوی ہوگا۔
(✪) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور ان کے ما بعد محدثین نے تدلیس الاسناد کی اس دوسری صورت کو ارسالِ خفی قرار دیتے ہوئے تدلیس سے خارج قرار دیا ہے۔
[ النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر، ج:٢، ص:٦١٤، ٦٢٢–٦٢٤ ]
مگر معلوم ہوتا ہے کہ ارسالِ خفی بھی تدلیس کی ذیلی قسم ہے۔ مستقل قسم نہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرما رہے ہیں۔
(❀) ارسال خفی کا تدلیس میں دخول:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے قبل حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ [ معرفۃ أنواع علم الحدیث:٦٦، المطبوع باسم: مقدمۃ ابن الصلاح ] ، امام نووی رحمہ اللہ [ إرشاد طلاب الحقائق، ج:١، ص:٢٠٥–٢٠٦ ]، حافظ عراقی رحمہ اللہ [ التبصرۃ والتذکرۃ، ج:١، ص:١٨٠ ] ، امام ابو الحسن علی بن عبد اللہ الاردبیلی التبریزی رحمہ اللہ ۷٤٦ھ [ الکافی في علوم الحدیث، ص:٣٨٤ ] ، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ [ اختصار علوم الحدیث، ص:۵۳، مع شرحہ: الباعث الحثیث] وغیرہ نے اس دوسری صورت کو بھی تدلیس قرار دیا ہے۔
یہی موقف امام احمد، امام یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام ابو داود، امام عباس بن عبدالعظیم العنبری البغدادی ۲٤۰ھ، امام خلف بن سالم، امام ابو زرعہ الرازی، امام ابو حاتم الرازی، امام العجلی، امام یعقوب بن سفیان الفسوی، امام احمد بن اسماعیل النحاس ۳۳۸ھ، امام ابن حبان، امام ابن عدی، امام الخلیلی اور قاضی اسماعیل رحمهم الله کے اقوال سے مترشح ہوتا ہے، محدث الشریف حاتم بن عارف العونی حفظه الله نے ان جہابذہ ائمۂ کرام کی اصطلاحات اور اقوال ذکر کرنے کے بعد ان کے مدلولات کی بھی نشان دہی کی ہے۔
[ المرسل الخفی و علاقتہ بالتدلیس، ج:١، ص:٤٣–٧٤ ]
بلکہ جو ان دونوں (تدلیس اور ارسالِ خفی) کے مابین تفریق کے قائل ہیں یا ان کے کلام سے اس شبہ کو تقویت حاصل ہوتی ہے، انتہائی عمدگی سے ان دلائل کا تجزیہ پیش فرمایا ہے۔
[ المرسل الخفی، ج:١، ٧٥–٢١٦ ]
اس طویل علمی بحث کا خلاصہ آخر میں یوں ذکر کیا کہ ارسالِ خفی کا اطلاق ہر مخفی انقطاع پر ہوتا ہے، اہلِ اصطلاح کے ہاں ارسالِ خفی مستقل مصطلح الحدیث نہیں، بلکہ تدلیس ہی میں داخل ہے، لہٰذا اسے تدلیس سے خارج قرار دینا درست نہیں۔
تدلیس الاسناد کی اس مختصر گفتگو کے بعد اب ہم اس کی ذیلی اقسام کی طرف چلتے ہیں، جس میں تدلیس التسویۃ، تدلیس السکوت، تدلیس القطع، تدلیس العطف اور تدلیس الصیغ شامل ہیں۔
(①) تدلیس التسویۃ:
مدلس راوی اپنے کسی ایسے ثقہ استاد سے حدیث سنتا ہے، جس نے وہ حدیث ضعیف راوی سے سنی ہوتی ہے، اور وہ ضعیف راوی ثقہ یا صدوق راوی سے اس حدیث کو بیان کرتا ہے۔
مدلس ان دونوں ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی گرا کر ثقہ کو ثقہ سے ملا دیتا ہے اور سند کو بظاہر عمدہ بنا دیتا ہے، کیونکہ پہلے ثقہ راوی کا دوسرے ثقہ راوی سے سماع ثابت ہوتا ہے، یا کم از کم وہ دونوں ہم عصر ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: الکفایۃ للخطیب البغدادی (ج:٢، ص:٣٩٠)
یہ صورت ہوگی: مدلس راوی ثقہ راوی ضعیف راوی ثقہ راوی۔
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ، حافظ ابو زرعہ الدمشقی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ ایسا فعل صفوان بن صالح ابوعبدالملک الدمشقی اور محمد بن مصفی قرشی حمصی ابو عبداللہ سے منقول ہے۔
[ مقدمة المجرو حین لابن حبان، ج:١، ص:٩٤ ]
صفوان بن صالح مؤذنِ مسجد دمشق کو امام ابوحاتم رحمہ اللہ [ الجرح والتعدیل، ج:٤، ص:٤٢٥ ] نے صدوق اور امام ابوداود رحمہ اللہ [ سؤالات أبي عبید الآجری، ج:٢، ص:١٩٢، فقرة:١٥٦٩ ] نے حجت قرار دیا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ثقة وكان يدلس تدليس التسوية قاله أبوزرعة الدمشقي‘‘
[ التقريب:٣٢٤٨ ]
محمد بن مصفی کو امام ابو حاتم رحمه الله [ الجرح والتعديل، ج:٨، ص:١٠٤ ] نے ’’صدوق‘‘، امام ذہبی رحمه الله [ ميزان الاعتدال، ج:٤، ص:٤٣ ] نے ’’ثقة صاحب سنة من علماء الحديث‘‘ اور حافظ ابن حجر رحمه الله [التقريب:٧٠٩٥ ] نے ’’صدوق له أوهام وكان يدلس‘‘ قرار دیا ہے۔
تدلیس التسویتہ تدلیس کی بد ترین قسم ہے۔ محدثین نے تدلیس کی جو شدید مزمت کی ہے، ان اسباب میں سے ایک سبب تدلیس التسویتہ کی صورت بھی ہے۔
(②) تدلیس السکوت:
مدلس راوی ’’حدثنا‘‘ وغیرہ کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے اور دل ہی میں اپنے شیخ کا نام لیتا ہے، پھر روایت آگے بیان کرنا شروع کر دیتا ہے، جس سے سامعین کو شبہ ہوتا ہے کہ ’’حدثنا‘‘ کا قائل وہی ہے جو مدلس نے بآوازِ بلند ذکر کیا ہے۔ ایسا فعل عمر بن عبید الطنافسی سے مروی ہے۔
[ النکت لابن حجر، ج:٢، ص:٦١٧ ]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مذکورہ کتاب میں اسے تدلیس القطع قرار دیا ہے۔
(③) تدلیس القطع:
اس میں مدلس راوی صیغۂ ادا حذف کر دیتا ہے اور بطور مثال الزھری عن أنس پر اکتفا کرتا ہے۔
[ تعریف أہل التقدیس لابن حجر، ص:١٦ ]
اس تدلیس کو تدلیس الحذف بھی کہا جاتا ہے۔
(④) تدلیس العطف:
جس میں مدلس اپنے دو اساتذہ، جن سے اس کا سماع ثابت ہوتا ہے، سے روایت بیان کرتا ہے، مگر وہ روایت اس نے صرف پہلے استاد سے سنی ہوتی ہے، اس لیے اس سے سماع کی تصریح کر دیتا ہے اور دوسرے استاد کو پہلے استاد پر عطف کر دیتا ہے۔ اور باور کراتا ہے کہ میں نے یہ روایت ان دونوں اساتذہ سے سماعت کی ہے۔ جیسے ہُشیم بن بشیر نے کہا: ’’حدثنا حصین و مغیرۃ‘‘ حالانکہ ہُشیم نے اس مجلس میں بیان کردہ ایک حرف بھی مغیرہ سے نہیں سنا۔
[ معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص: ۱۰۵ و جزء في علوم الحدیث لأبي عمرو الدانی، ص:٣٨٢–٣٨٣، رقم:٩٤ ۔ بھجۃ المنتفع ]
(⑤) تدلیس الصیغ:
مدلس راوی اپنے شیخ سے روایت کرنے میں ایسے صیغِ ادا استعمال کرتا ہے، جس کے لیے وہ اصطلاحات وضع نہیں کی گئیں۔ مثلًا غیر مسموع روایت پر ’’حدثنا‘‘ کا اطلاق کرنا، جیسے فطر بن خلیفہ کا طرزِ عمل تھا۔
[ الضعفاء الکبیر للعقیلي:ج:٣، ص:٤٦٥ و فتح المغیث للسخاوي، ج:١، ص:٢١١–٢١٢ ]
اسی طرح اجازۃ بدونِ سماع والی روایت کو ’’أخبرنا‘‘ سے بیان کرنا، جیسے امام ابو نعیم رحمہ اللہ اور دیگر اندلسیوں کا طریقۂ کار تھا۔
[ سیر أعلام النبلاء للذھبي، ج:١٧، ص:٤٦٠ ]
اسی طرح وجادۃ پر ’’حدثنا‘‘ کا اطلاق کرنا، جیسے اسحاق بن راشد کا رویہ تھا۔
[ معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص:١١٠ ]
یہ بات بھی فائدہ سے خالی نہیں کہ علامہ الشریف حاتم نے المرسل الخفی (ج:١، ص:٥٣٠–٥٣١) میں ایسے آٹھ مدلسین ذکر کیے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ صیغوں میں تاویل کرتے ہیں، یہ رواۃ ان کے علاوہ ہیں جو اجازۃً یا وجادۃً پر حدثنا یا أخبرنا کا اطلاق کرتے ہیں۔ اور شرح الموقظۃ للذہبی میں نویں مدلس: المسیب بن رافع کا بھی اضافہ کیا ہے۔
[ شرح موقظۃ الذھبي للعونی، ص:١٥٤ ]
(❷) دوسری قسم: تدلیس الشیوخ:
مدلس راوی نے جس استاذ سے حدیث سنی ہوتی ہے، اس کا ایسا وصف بیان کرتا ہے، جس سے اس کی شخصیت مجہول ہوجاتی ہے یا پھر سامعین کی توجہ اسی نام کے کسی دوسرے شیخ کی طرف مائل ہوجاتی ہے، مثلًا وہ اس کا غیر معروف نام، کنیت، قبیلے یا پیشے کی طرف نسبت کر دیتا ہے۔
تدلیس کی اس نوع میں صیغِ ادا میں تدلیس نہیں ہوتی اور نہ سند سے کسی راوی کا اسقاط ہوتا ہے۔ محض شیخ کا نام وغیرہ تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ بنا بریں ایسی تدلیس میں مدلس کا عنعنہ اور صراحت سماع دونوں یکساں ہیں۔
[ معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح، ص:٦٦ و إرشاد طلاب الحقائق للنووی، ج:١، ص:٢٠٧–٢٠٨ ]
تدلیس الشیوخ کی ذیلی قسم تدلیس البلدان ہے۔
(✪) تدلیس البلدان:
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ اس کی توضیح میں فرماتے ہیں:
’’بغداد میں ایک طالبِ حدیث داخل ہوا، وہ شیخ کو لے جا کر رقہ میں بٹھاتا ہے، یعنی اس باغ میں جو دریائے دجلہ کے دونوں کنارے چلا گیا ہے، اور شیخ کو حدیث سناتا ہے، پھر اپنے حدیث کے مجموعے میں یوں لکھتا ہے کہ مجھ سے رقہ میں فلاں فلاں شیخ نے حدیث بیان فرمائی۔ اس سے وہ لوگوں کو وہم میں ڈالتا ہے کہ رقہ سے وہ شہر مراد ہے، جو ملک شام کی طرف ہے، تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ اس محدث نے طلب حدیث میں دور دراز کے سفر کیے ہیں۔‘‘
[ تلبیس إبلیس لابن الجوزي، ص:١١٣ ]
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی رقمطراز ہیں:
’’کوئی مصری شخص کہے: مجھے فلاں آدمی نے اندلس میں حدیث بیان کی اور وہ اندلس سے مقامِ قرافہ مراد لے۔‘‘
[ النکت لابن حجر، ج:٢، ص:٦٥١ ]
تحریر : محمد خبیب احمد