• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تراویح پر ۱۰ احادیث

شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
تراویح پر ۱۰ صحیح احادیث

۱۔ (۲۰۰۹) ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ‏‏‏‏‏‏غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ بخاری
ف: تراویح رمضان سے خاص ایک زائد نماز ہے۔

۲۔ (۲۰۱۰) ‏‏‏ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، ‏‏‏‏‏‏يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏
میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔بخاری
ف: عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے تراویح مشروع ہو چکی تھی آپ نے صرف ایک امام کے پیچھے سب کو جمع فرمایا

۳۔(۲۰۱۱) ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏""أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز ( تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔بخاری
ف: تہجد اور تراویح دو علیحدہ نمازیں ہیں۔ کئونکہ تہجد آپ ‫ﷺ‬ نے مبھی ایک بار نہیں پڑھی۔

۴ (۲۰۱۲) ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏""أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ وَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، ‏‏‏‏‏‏فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّى فَصَلَّوْا مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، ‏‏‏‏‏‏فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، ‏‏‏‏‏‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے ( اس رات بھی ) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ بخاری
ف: تہجد اور تراویح دو مختلف نمازیں ہیں۔ کیونکہ تہجد کی آپ نے کبھی جماعت نہیں کرائی

۵ (۲۰۱۳) أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:‏‏‏‏ ""كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏يُصَلِّي أَرْبَعًا، ‏‏‏‏‏‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ بخاری
ف: اس حدیث میں آپ ‫ﷺ‬ کی رمضان و غیر رمضان کی تہجد کی نماز کا ذکر ہے۔ اس کا قیاس تراویح پر نہیں کرنا چاہئے کہ تہجد تیسرے پہر انفرادی اور گھر میں، سارا سال پڑھی جانے والی نماز ہے۔ اور اس روایت میں چار چار رکعت کا ذکر ہے۔ اور یہ روایت باعتبار متن مضطرب بھی ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت مئں تئیرہ رکعت کا بھی ذکر ہے اور بعض روایات میں پانچ، سات اور نو کا بھی۔ اور دیگر روایات میں چار چار کی بھائے دو دو کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ رکعت تراویح میں اسے دلیل بنانے والوں کی بنیاد ایک غیر صریح اور مضطرب روایت پر ہے۔
جبکہ عمل عمر رضی اللہ عنہ و صحابہ اور تعامل امت کے تحت جو نماز تراویح کے نام سے پڑھی جاتی ہے وہ اول پہر، باجماعت، مسجد میں، دو دو رکعت اور صرف رمضان میں پڑھی جانے والی نماز ہے۔ اس کا اوپر والی حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔
۶۔ (۷۲۹۰) ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا لَيَالِيَ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے۔ بخاری
ف: قیام اللیل کے دو جزو ہیں۔
انفردی اور اجتماعی
انفرادی کا نام تہجد ہے اور یہ تیسرے پہر گھر میں سارا سال ہے اور اجتماعی کا نام تراویح ہے جو اول پہر مسجد میں صرف رمضان میں ہے۔
۷۔ (۸۰۶) صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ بِنَا.
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صیام رمضان رکھے تو آپ نے ہمیں نماز ( تراویح ) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا ترمذی
ف: تہجد اور تراویح ایک نہیں۔ تہجد روزانہ پورا سال تیسرے پہر انفرادی اور گھر میں۔ اور تراویح اول پہر باجماعت مسجد میں اور صرف رمضان میں ہے۔

۸۔ (۱۵۷۶) مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“۔ نسائی
ف: قیام اللیل کے دو جزو ہیں انفرادی اور اجتماعی۔ انفرادی کا نام تہجد اور اجتماعی کا نام تراویح ہے۔ علما نے اسے تہجد سے ممتاز کرنے کے لئے ہی تراویح کا نام دیا۔

۹۔ (۲۲۰۱) ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى بِالنَّاسِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَفِيهِ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَكَانَ يُرَغِّبُهُمْ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيمَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ‏‏‏‏‏‏غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کو نکلے، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں یہ بھی تھا کہ انہوں نے کہا: ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بغیر کوئی تاکیدی حکم دیئے رمضان ( کی راتوں میں ) قیام یعنی صلاۃ تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے، اور فرماتے: ”جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب چاہنے کے لیے قیام کیا، یعنی صلاۃ تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے، اور معاملہ اسی پر قائم رہا۔ نسائی۲۲۰۱
ف: آج جو تراویح ہم پڑھتے ہیں یہ ارتقائی عمل سے ہم تک پہنچی ہے اس میں نبی پاک ﷺ ، صحابہ، عمر رضی اللہ عنہ اور تعامل امت شامل ہے جو سب امت کے لئے حجت ہیں۔
نبی پاک ﷺ نے اپنے عمل سے اسے مسجد میں چند دن باجماعت پڑھ کے ایک اضافی رمضانی نماز قرار دیا،
صحابہ نے اسے چھوٹی جماعتوں میں ہورا رمضان تک بڑھایا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک امام کے تحت سب کو جمع کیا اور تعامل امت سے اس میں ختم قرآن بھی شامل ہو گیا۔

۱۰۔ تعداد رکعات تراویح
امام ترمذی کہتے ہیں:- رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا،
اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے،
احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی،
اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں،
ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کیا ہے،
شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسند کیا ہے جب وہ قاری ہو۔(شرح ترمذی ۸۰۶)
ف: اس سے معلوم ہوا کہ الف میں اس کی رکعات کی تعداد میں اختلاف بیس یا چالیس کا تھا۔ اور دور جدید کے بعض مکاتب فکر نےجس حدیث سے آٹھ کا استدلال لیا ہے وہ غیر صریح اور غیر متعلق ہے۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
قیام اللیل کے دو جزو ہیں۔
انفرادی: سارا سال، بالعموم سو کر اٹھنے کے بعد، گھر میں دو دو رکعت یا چار چار رکعت کبھی تیرہ کبھی گیارہ کبھی نو کبھی سات کبھی پانچ اس کی بنیاد محض بعض احادیث۔

اجتماعی: مسجد میں باجماعت صرف رمضان میں ہمیشہ دو دو اور قرآن ختم کرنا۔ اس کی بنیاد بعض احادیث، عمر رضی اللہ عنہ کا امر اور امت کا تعامل
اور تعداد رکعات کے لئے امام ترمذی کی شرح حدیث ۸۰۶ پڑھ لیں۔
‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ رُوِيَ فِي هَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ يُقْضَ فِيهِ بِشَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏
امام ترمذی کہتے ہیں: رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا،
اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔
اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے،
احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں ۱؎ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی،
اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں،۔ شرح حدیث ۸۰۶
(یعنی کسی ایک کا قول بھی آٹھ کا نہیں)
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ازراہ کرم اردو تفسیر احادیث میں جہاں جہاں ف: کے آگے کلام هے وہ کسکا یا کنکا هے اسی طرح بتائیں جس طرح احادیث کی بابت بتایا هے اور جہاں جہاں ائمہ کے نام اور اقوال پیش کیئے ہیں انکے حوالے بهی پیش کریں ۔ اس طرح مجهے سمجهے گا کہ آیا یہ احادیث کے بیان کے بعد حتمی فہم کس کی یا کن کی هے ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ادارہ سے گذارش هیکہ عنوان میں لفظ تراویح کی اصلاح کر دی جائے تاکہ اس عنوان کے تعلق سے فورم پر جتنا علم موجود هے وہ بهی قارئین تک باآسانی پہونچ جائے ۔ هوسکتا هے ان احادیث پر علمی ابحاث اول سے ہی موجود ہوں ۔ نئے شامل هونے والے لکهنے کی زحمت اور تکرار سے بهی بچ رہینگے ان شاء اللہ۔
ولکم جزیل الشکر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
مولوی انور شاہ تقلیدی فرماتے ہیں :
"ولا مناص من تسليم أن تراويحه كانت ثمانية ركعات ولم يثبت في رواية من الروايات أنه صلى التراويح والتهجد على حدة في رمضان ۔۔۔۔ الخ
ترجمہ :
اور یہ بات تسلیم کیئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ آپ ﷺ کی تراویح آٹھ رکعات تھیں اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھی ہوں۔(العرف الشذی ۲/۲۰۸)

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي(المتوفى: 1231هـ):

ذكر في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضی أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلی الله عليه وسلم منهاثم تركه خشية أن يكتب علينا والباقي مستحبا وقد ثبت أن ذلك كان إحدی عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من عائشة فاذا يكون المسنون علی أصول مشايخنا ثمانی منها والمستحب اثنتی عشرة انتهي بحر.وروي ابن أبي شيبة من حديث ابن عباس كان صلی الله عليه وسلم يصلی في رمضان عشرين ركعة والوتر وسناده ضعيف

طحطاوی بحر الرائق سے ابن نجیم کا بیان کردہ خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی مروجہ بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے،جو (بسند صحیح ) ثابت ہے کہ وتر سمیت گیارہ رکعت پڑھتے تھے ،
یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، ۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
اور جو بیس رکعات تراویح کی روایت ابن ابی شیبہ نے سیدنا ابن عباس سے نقل کی ہے وہ انتہائی ضعیف ہے ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
8 رکعت تراویح کے سنّت ہونے پر احناف کے گھر کی 15 گواہیاں ٭


1- علامہ ابن الھمام الحنفی لکھتے ہیں:
فَتَحْصُلُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ سُنَّةٌ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَةٍ
ساری بحث کا حاصل یہ کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنّت ہے۔
(فتح القدیر شرح الہدایہ ج1ص 486،485)

2- امام الطحطاوی الحنفی لکھتے ہیں:
لأنّ النبي عليه الصلٰوة والسلام لم يصلها عشرين،بل ثماني
کیونکہ نبی ﷺ نے بیس رکعت نہیں پڑی بلکہ آٹھ (8) رکعت پڑھی ہے۔
(حاشیہ الطحطاوي علی در المختار ج1ص 295)

3- علامہ ابن نجیم المصری الحنفی نے ابن الھمام حنفی سے بطور اقرار نقل کیا:
فَإِذَنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ
کہ ہمارے مشائخ کے اصول پر اس طرح ہے کہ آٹھ (8) رکعت مسنون اور بارہ (12) رکعت مستحب ہو جاتی ہیں۔
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج2ص 72)

4- ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:
فتحصل من هذا كله ان قيام رمضان سنة اِحدي عشرة بالوتر في جماعة فعله عليه الصلاة والسلام
کہ ان سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ (11) رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنّت ہے، یہ آپﷺ کا عمل ہے۔
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج3ص 345)
https://archive.org/stream/mmsmmmmsmme/mmsmm03#page/n344/mode/2up

5۔ محمد احسن نانوتوی حنفی لکھتے ہیں:
لأن النبي صلى الله عليه وسلم لم يصلها عشرين بل ثمانياً
کیونکہ نبی ﷺ نے بیس (20) رکعت نہیں پڑھی بلکہ آٹھ (8) رکعت پڑھی ہیں۔
(حاشیہ کنز الدقائق ص 36 حاشیہ:4)

6۔ عبدالشکور لکھنوی حنفی لکھتے ہیں:
اگرچہ نبی ﷺ سے 8 رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے 20 رکعت بھی مگر۔۔
(علم الفقہ ص 195، حاشیہ)

7۔ عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں:
کہ نبیﷺ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے 1) 20 رکعتیں باجماعت لیکن اس کی سند ضعیف ہے، 2) 8 رکعتیں اور 3 وتر با جماعت۔۔(
(فتاویٰ عبدالحئی ج1ص 332،331)

8- خلیل احمد سہارنپوری حنفی لکھتے ہیں:
البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام نے آٹھ (8) کو سنّت اور زائد کو مستحب لکھا ہے سو یہ قول قابلِ طعن کے نہیں۔
ایک اور جگہ سہانپوری صاحب لکھتے ہیں:
اور سنتِ مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے اگر خلاف (اختلاف) ہے تو بارہ( 12) میں ہے۔
(البراہین القاطعہ ص9،195)

9۔ محمد یوسف بنوری حنفی لکھتے ہیں:
فلا بد من تسليم أنه صلى الله عليه وسلم صلّى التراويح ايضاً ثماني ركعات
اس بات کو تسلیم کیئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی ﷺ نے 8 رکعت تراویح بھی پڑھی ہے۔
(معارف السنن ج5ص 543)
10۔ مولانا یوسف لدھیانوی حنفی جابر رضی اللہ عنہ کی 11 رکعت والی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اس طرح آپﷺ کی رضامندی کی بنا پر یہ (11 رکعت ) سنّت ہوئی۔
(حیاۃ الصحابہ ج2 ص 165)

11- زکریا کاندھلوی دیوبندی حنفی لکھتے ہیں:
“لاشك في أنّ تحديد التراويح في عشرين ركعة لم يثبت مرفوعا عن النبيّ صلى الله عليه وسلم بطريق صحيح على أصول المحدثين وماورد فيه من رواية ابن عباس رضي الله عنهمامتكلّم فيها على أصولهم
یقیناً محدثین کے اصولوں کے مطابق 20 رکعت نمازِ تراویح نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً ثابت نہیں بلکہ ابن عباس والی روایت محدثین کے اصولوں کے مطابق مجروح ہے۔
(أجز المسالک الی موطا امام مالک ج2ص 534)

12- شاہ ولی محدث دہلوی حنفی لکھتے ہیں:
از فعل آنحضرت صلعم یازدہ رکعت ثابت شدہ و در قیام رمضان
رسول اللہ ﷺ کے عمل سے اا رکعات ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔
(مصفیٰ شرح مؤطا ص 175)

13- احمد علی سہارنپوری حنفی لکھتے ہیں:
فتحصل من هذا كله ان قيام رمضان سنة احدي عشة ركعة بالوتر فى جماعة
ان سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان 11 رکعت سنٗت ہے وتر کے ساتھ باجماعت۔
(حاشیہ بخاری شریف ج1ص 154)

14- حسن بن عمار الشرنبلالی حنفی لکھتے ہیں:
وصلاتها بالجماعة سنة كفاية” لما ثبت أنه صلى الله عليه وسلم صلى بالجماعة إحدى عشر ركعة بالوتر
اور اس کی باجماعت نماز سنّت کفایہ ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے جماعت کے ساتھ 11 رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں۔
(مراقی الفلاح شرح نور الیضاح ص 159)

15- مولانا انور شاہ کشمیری حنفی لکھتے ہیں:
ولا مناص من تسليم أن تراويحه كانت ثمانية ركعات ولم يثبت في رواية من الروايات أنه صلى التراويح والتهجد على حدة في رمضان
اس بات کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ ﷺ کی تراویح 8 رکعت تھی اور روایات میں سے کسی ایک روایت سے بھی یہ ثابت نہیں آپﷺ نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھی ہوں۔
آگے چل کر لکھتے ہیں:
وأما النبي – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فصح عنه ثمان ركعات، وأما عشرون ركعة فهو عنه بسند ضعيف وعلى ضعفه اتفاق
رہے نبی ﷺ تو ان سے 8 رکعت ثابت ہے اور رہی 20 رکعت تو وہ آپ ﷺ سے ضعیف سند کے ساتھ ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
(العرف الشذی ج2 ص 208)
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
آٹھ رکعات تراویح اور غیر اہلِ حدیث علماء

تحریر: حافظ زبیر علی زئی
رمضان میں عشاء کی نماز کے بعد جو نماز بطور قیام پڑھی جاتی ہے، اسے عرف عام میں تراویح کہتے ہیں۔ راقم الحروف نے ”نور المصابیح فی مسئلۃ التراویح“ میں ثابت کر دیا ہے کہ گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) سنت ہے۔
❀نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نمازسے فارغ ہونے کے بعد فجر (کی اذان) تک (عام طور پر) گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ آپ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور (آخر میں) ایک وتر پڑھتے تھے۔ دیکھئے صحیح مسلم [ 254/1 ح 736]

❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں (صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت سے) آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ دیکھئے [صحیح ابن خزیمہ 138/2 ح 1070 و صحیح ابن حبان الاحسان 62/4 ح 2401، 64/4 ح 2406]
↰ اس روایت کی سند حسن ہے۔

❀ سیدنا امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (نماز پڑھانے والوں) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں نماز عشاء کے بعد) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ دیکھئے [موطأ امام مالک 114/1 ح 249 و السنن الکبریٰ للنسائی 113/3 ح 4687]
↰ اس روایت کی سند صحیح ہے اور محمد بن علی النیموی (تقلیدی) نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ دیکھئے [آثار السنن ح 775، دوسرانسخہ : 776]
↰ صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کا اس پر عمل رہا ہے۔

اب اس مضمون میں حنفی و تقلیدی علماء کے حوالے پیش خدمت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک بھی آٹھ رکعات تراویح سنت ہے۔
➊ ابن ہمام حنفی (متوفی 861؁ھ) لکھتے ہیں :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة احديٰ عشرة ركعة بالوتر فى جماعة
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے . [فتح القدير شرح الهدايه ج 1 ص 407 باب النوافل]

➋ سید احمد طحطاوی حنفی (متوفی 1233؁ھ) نے کہا :
لأن النبى عليه الصلوة و السلام لم يصلها عشرين، بل ثماني
کیونکہ بے شک نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھیں۔ [حاشيه الطحطاوي على الدر المختارج 1 ص 295]

➌ ابن نجیم مصری (متوفی 970؁ھ) نے ابن ہمام حنفی کو بطور اقرار نقل کیا کہ
فإذن يكون المسنون على أصول مشايخنا ثمانية منها والمستحب اثنا عشر
”پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے آٹھ (رکعتیں) مسنون اور بارہ (رکعتیں) مستحب ہوجاتی ہیں۔“ [البحرالرائق ج 2 ص 67]

تنبیہ : ابن ہمام وغیرہ کا آٹھ کے بعد بارہ [12] رکعتوں کو مستحب کہنا حنفیوں و تقلیدیوں کے اس قول کے سراسر خلاف ہے کہ ”بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے اور اس سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہے۔“
➍ ملا علی قاری حنفی (متوفی 1014؁ھ) نے کہا :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحديٰ عشرة بالوترفي جماعة فعله عليه الصلوة و السلام
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔“ [مرقاة المفاتيح 382/3 ح 1303]

➎ دیوبندیوں کے منظور نظر محمد احسن نانوتوی (متوفی 1312؁ھ) فرماتے ہیں :
لأن النبى صلى الله عليه وسلم لم يصلها عشرين بل ثمانيا
”کیونکہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس [20] نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ [8] پڑھیں۔“ [حاشيه كنز الدقائق ص 36 حاشيه : 4]
◈ نیز دیکھئے [شرح کنز الدقائق لابی السعود الحنفی ص 265]

➏ دیوبندیوں کے منظور خاطر عبدالشکور لکھنوی (متوفی 1381؁ھ) لکھتے ہیں کہ :
”اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔ مگر …..“ [علم الفقه ص 198، حاشيه]

➐ دیوبندیوں کے دل پسند عبدالحئی لکھنوی (متوفی 1304؁ھ) لکھتے ہیں :
”آپ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے۔
① بیس رکعتیں بے جماعت…… لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے ….
② آٹھ رکعتیں اور تین رکعت وتر باجماعت….“ [مجموعه فتاويٰ عبدالحئي ج 1 ص 331، 332]

➑ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (متوفی 1345؁ھ) لکھتے ہیں :
”البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھاہے سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔“ [براهين قاطعه ص 8]
◈ خلیل احمد سہارنپوری مزید لکھتے ہیں کہ ”اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔“ [براهين قاطعه ص 195]

➒ انور شاہ کشمیری دیوبندی (متوفی 1352؁ھ) فرماتے ہیں :
ولا مناص من تسليم أن تراويحه عليه السلام كانت ثمانية ركعات ولم يثبت فى رواية من الروايات أنه عليه السلام صلى التراويح و التجهد عليحدة فى رمضان…. وأما النبى صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات و أما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف و عليٰ ضعفه اتفاق….
”اور اس کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھے ہوں…… رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ سے آٹھ رکعتیں صحیح ثابت ہیں اور رہی بیس رکعتیں تو وہ آپ علیہ السلام سے ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“ [العرف الشذي ص 166 ج 1]

➓ نماز تراویح کے بارے میں حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی حنفی (متوفی 1069؁ھ) فرماتے ہیں :
(وصلوتها بالجماعة سنة كفاية) لما يثبت أنه صلى الله عليه وسلم صلى، بالجماعة احديٰ عشرة ركعة بالوتر..
”(اور اس کی باجماعت نماز سنت کفایہ ہے) کیونکہ یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں۔“ [مراقي الفلاح شرح نور الايضاح ص 98]

⓫ محمد یوسف بنوری دیوبندی (متوفی 1397؁ھ) نے کہا :
فلا بد من تسليم أنه صلى الله عليه وسلم صلى التراويح أيضا ثماني ركعات
”پس یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح بھی پڑھی ہے۔“ [معارف السنن ج 5 ص 543]

تنبیہ ① یہ تمام حوالے ان لوگوں پر بطور الزام و اتمام حجت پیش کیے گئے ہیں جو ان علماء کو اپنا اکابر مانتے ہیں اور ان کے اقوال کو عملاً حجت تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان بعض علماء نے بغیر کسی صحیح دلیل کے یہ غلط دعویٰ کر رکھا ہے کہ
”مگر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا اور جماعت قائم کر دی“
↰ اس قسم کے بے دلیل دعووں کے رد کے لئے یہی کافی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعات پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ [ديكهئے موطأ امام مالك 114/1 و سنده صحيح]

تنبیہ ② امام ابوحنیفہ، قاضی ابویوسف، محمد بن الحسن الشیبانی اور امام طحاوی کسی سے بھی بیس رکعات تراویح کا سنت ہونا باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔وما علينا الا البلاغ
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
‎قیام اللیل کے دو جزو ہیں۔
‎انفرادی: سارا سال، بالعموم سو کر اٹھنے کے بعد، گھر میں دو دو رکعت یا چار چار رکعت کبھی تیرہ کبھی گیارہ کبھی نو کبھی سات کبھی پانچ اس کی بنیاد محض بعض احادیث۔

‎اجتماعی: مسجد میں باجماعت صرف رمضان میں ہمیشہ دو دو اور قرآن ختم کرنا۔ اس کی بنیاد بعض احادیث، عمر رضی اللہ عنہ کا امر اور امت کا تعامل
‎اور تعداد رکعات کے لئے امام ترمذی کی شرح حدیث ۸۰۶ پڑھ لیں۔
‎ ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ رُوِيَ فِي هَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ يُقْضَ فِيهِ بِشَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏
‎امام ترمذی کہتے ہیں: رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا،
‎اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔
‎اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے،
‎ احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں ۱؎ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی،
‎ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں،۔ شرح حدیث ۸۰۶
‎(یعنی کسی ایک کا قول بھی آٹھ کا نہیں)
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
جہاں ف: کے آگے کلام هے وہ کسکا
ف کے آگے کلام میں حدیث کی وضاحت ہے۔ اگر کوئی غلطی ہے تو تصحیح لردیں اور بجائے کسی شخصیت کے زعم کے تحت پڑھنے کے دلائل اور صفت تدبر کے ساتھ اس کو پڑھیں۔
 
Top