واعظ
مبتدی
- شمولیت
- جنوری 18، 2014
- پیغامات
- 17
- ری ایکشن اسکور
- 18
- پوائنٹ
- 15
تربیت اولاد
قرآنی آیات:
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا (بنی اسرائیل:32)
اور اپنی اولاد کو کنگال ہونے کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ہم ہی ہیں جو انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ان کو قتل کرنا یقیناً بہت بڑی خطا ہے۔
ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر تم اولاد کی عمدہ تربیت اور اعلیٰ تعلیم کا خیال نہیں رکھو گے تو تم انھیں قتل کرنے والے ٹھہرو گے۔اور اگر کوئی قوم دیر تک زندہ رہنا چاہتی ہے تو وہ آئندہ نسل کی اچھی تربیت کے نتیجہ میں ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہے۔
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ (ابراہیم:40)
اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی۔اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم: 6)
احادیث نبویٔ:
آنحضرت ﷺ نے تربیت اولاد پر بہت زور دیا ہے اور آپ نے بچوں کی پیدائش سے بھی پہلےاس کی تربیت کے آسان اور مؤثر طریق بیان فرماتے ہوئے فرمایا :
كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته الإمام راع ومسؤول عن رعيته والرجل راع في أهله وهو مسؤول عن رعيته۔۔۔الخ
اس حدیث میں یہ فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک بادشا ہ ہے اور اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے اور ہر شخص اپنے دائرہ کے اندر ایک حاکم کی حیثیت رکھتا ہے۔تم میں سے ہر ایک کو اپنے ماتحتوں کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔ہر ایکاپنی رعیت کے متعلق خدا تعالٰی کے روبرو جوابدہ ہو گا۔
اس ارشاد سے آپﷺ نے ہر ماں،ہر باپ،ہربھائی،ہر چچا ،ہر دادا اور خاندان کے ہر بزرگ اور ہر استاد کے ذمہ لگا دیا کہ تم بچوں کے اخلاق،عادات اور تعلیم کے خدا کے روبرو ذمہ دار ہو۔تم سے سوال کیا جائے گا کہ کیوں ان میں فلاں نیکی موجود نہیں۔کیوں ترقی کی اہلیت کے باوجود انھوں نے ترقی نہیں کی۔
مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلاَّ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ وَيُمَجِّسَانِهِ (مسلم کتاب القدر)
بچہ سب سے پہلے والدیں سےہی سیکھتا ہے۔والدین جو عملی نمونہ دیں گے وہی بچہ نقل کرتا ہے اور سیکھتا ہے۔والدین اگر اچھی تربیت کریں گے تو صالح اولاد بنے گی۔
ادِّبُوا اولادَکُم علی ثَلَاث خِصالِ حبّ نبیکم و حب اھل بیتہ و قراءة القرآن (الجامع الصغیر ابن سیوطی)
اولاد کی تربیت اس طرح کرنی چاہیے کہ یہ تین خوابیاں اس میں راسخ ہو جائیں۔1۔نبی کریمﷺ سے محبت 2۔اہل بیت سے محبت 3۔ قرآن کی تلاوت کرنا
احسِنوا اولادکم علی البِرّ (الجامع الصغیر ابن سیوطی)
یعنی نیکی کے کاموں میں اپنی اولاد کی مدد کیا کرو۔
دعاء الوالدِ لولدِہِ کَدُعاءِ النَّبِیِّ لِاُمَّتِہِ (الجامع الصغیر ابن سیوطی)
یعنی باپ کی دعا اپنے بچے کے حق میں ایسی ہی قبولیت کا درجہ رکھتی ہے جیسے نبی کی دعا اپنی امت کے لئے۔
آپ ﷺ نے والدین کو یہ تاکید فرمائی کہ اپنے بچوں کو دعاؤں میں ضرور یاد رکھا کریں۔ان کی بہتری کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔کیونکہ ان کی دعائیں بے حد قبولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔
أكرموا أولادكم وأحسنوا أدبهم (سنن ابن ماجہ)
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ محبت و شفقت و نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔اور درگزر کیا جائے۔صرف تربیت و اصلاح کے لیے ہی سزا دی جائے۔بات بات پر جھڑک کر احساس کمتری پیدا نہ کی جائے۔
قرآنی آیات:
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا (بنی اسرائیل:32)
اور اپنی اولاد کو کنگال ہونے کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ہم ہی ہیں جو انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ان کو قتل کرنا یقیناً بہت بڑی خطا ہے۔
ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر تم اولاد کی عمدہ تربیت اور اعلیٰ تعلیم کا خیال نہیں رکھو گے تو تم انھیں قتل کرنے والے ٹھہرو گے۔اور اگر کوئی قوم دیر تک زندہ رہنا چاہتی ہے تو وہ آئندہ نسل کی اچھی تربیت کے نتیجہ میں ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہے۔
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ (ابراہیم:40)
اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی۔اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم: 6)
احادیث نبویٔ:
آنحضرت ﷺ نے تربیت اولاد پر بہت زور دیا ہے اور آپ نے بچوں کی پیدائش سے بھی پہلےاس کی تربیت کے آسان اور مؤثر طریق بیان فرماتے ہوئے فرمایا :
كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته الإمام راع ومسؤول عن رعيته والرجل راع في أهله وهو مسؤول عن رعيته۔۔۔الخ
اس حدیث میں یہ فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک بادشا ہ ہے اور اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے اور ہر شخص اپنے دائرہ کے اندر ایک حاکم کی حیثیت رکھتا ہے۔تم میں سے ہر ایک کو اپنے ماتحتوں کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔ہر ایکاپنی رعیت کے متعلق خدا تعالٰی کے روبرو جوابدہ ہو گا۔
اس ارشاد سے آپﷺ نے ہر ماں،ہر باپ،ہربھائی،ہر چچا ،ہر دادا اور خاندان کے ہر بزرگ اور ہر استاد کے ذمہ لگا دیا کہ تم بچوں کے اخلاق،عادات اور تعلیم کے خدا کے روبرو ذمہ دار ہو۔تم سے سوال کیا جائے گا کہ کیوں ان میں فلاں نیکی موجود نہیں۔کیوں ترقی کی اہلیت کے باوجود انھوں نے ترقی نہیں کی۔
مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلاَّ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ وَيُمَجِّسَانِهِ (مسلم کتاب القدر)
بچہ سب سے پہلے والدیں سےہی سیکھتا ہے۔والدین جو عملی نمونہ دیں گے وہی بچہ نقل کرتا ہے اور سیکھتا ہے۔والدین اگر اچھی تربیت کریں گے تو صالح اولاد بنے گی۔
ادِّبُوا اولادَکُم علی ثَلَاث خِصالِ حبّ نبیکم و حب اھل بیتہ و قراءة القرآن (الجامع الصغیر ابن سیوطی)
اولاد کی تربیت اس طرح کرنی چاہیے کہ یہ تین خوابیاں اس میں راسخ ہو جائیں۔1۔نبی کریمﷺ سے محبت 2۔اہل بیت سے محبت 3۔ قرآن کی تلاوت کرنا
احسِنوا اولادکم علی البِرّ (الجامع الصغیر ابن سیوطی)
یعنی نیکی کے کاموں میں اپنی اولاد کی مدد کیا کرو۔
دعاء الوالدِ لولدِہِ کَدُعاءِ النَّبِیِّ لِاُمَّتِہِ (الجامع الصغیر ابن سیوطی)
یعنی باپ کی دعا اپنے بچے کے حق میں ایسی ہی قبولیت کا درجہ رکھتی ہے جیسے نبی کی دعا اپنی امت کے لئے۔
آپ ﷺ نے والدین کو یہ تاکید فرمائی کہ اپنے بچوں کو دعاؤں میں ضرور یاد رکھا کریں۔ان کی بہتری کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔کیونکہ ان کی دعائیں بے حد قبولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔
أكرموا أولادكم وأحسنوا أدبهم (سنن ابن ماجہ)
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ محبت و شفقت و نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔اور درگزر کیا جائے۔صرف تربیت و اصلاح کے لیے ہی سزا دی جائے۔بات بات پر جھڑک کر احساس کمتری پیدا نہ کی جائے۔